فقیرانہ آئے صدا کر چلے
:::::::::::::::::::::::::::::
مادیت پرستی کے اس جہان میں۔۔ جہاں ہر طرف بےطمانیت کا بازار گرم ہے۔۔ سرِعام عزتیں لوٹنا معمول ہو چکا ہے۔۔ اخلاق باختگی کے اس فرسودہ منظرمیں۔۔ جہاں انسان انسانیت کے نام پر دھبہ بن چکے ہیں۔۔ جس سمت نگاہ اٹھے، عریانی اپنی حدیں پار کرتی نظر آئے۔۔الغرض۔۔۔
کیا کوئى جائے پناہ میسر آ سکتی ہے ؟؟
کہیں سکونِ قلب کا ذرہ نصیب ہو سکتا ہے ؟؟
کیا اس روحِ ویراں کے لیے آسودگی کا کوئى چشمہ موجود ہے جو دل کو اطمینان بخشے ؟؟
کیا کہیں کوئى ایسا رہبر موجود ہے جو واقعی رہبری کا حق ادا کر دے ؟؟
اس گئے گزرے دورِظلمات میں کوئى نور کی کرن نظر کو خیرہ کر سکتی ہے ؟؟
کہیں کوئى ایسا بندہ جو مجھے میرے رب سے واصل کر دے ؟؟
کیا کوئى ایسی ہستی ہے جو مجھے درِمصطفیٰ ﷺ کا نہ صرف خادم بنا دے، بلکہ آج ساڑھے چودہ سو سال بعد بھی حقیقتاً آقا ﷺ کے مبارک قدموں میں بٹھا دے ؟؟
بظاہر ان تمام سوالوں کا جواب نفی میں لگتا ہے۔۔
لیکن کیا میرے رب نے مجھے بے یارومددگار رہنے کے لیے پیدا فرمایا ہے ؟؟
اگر نہیں ۔۔ تو پھر میں دعوے سے کہتا ہوں کہ ان تمام سوالوں کا جواب یقیناً ایک بہت بڑی ھاں ہے ۔۔
توپھرکون ہے جو میرے اندر مثبت انقلاب برپا کر دے ؟؟
کیا روئے زمین اللہ کریم کے دوستوں سے خالی ہو چکی ؟؟
اگر قرآن مجید میں صالحین کی صحبت اختیار کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے تو ضرور ایسے بندے بھی موجود ہونے چاہئیں۔۔
تو جنابِ من، آئیے ، چلئے ، بیٹھئے ، محسوس کیجئے اور دیکھئے کہ میرے رب نے اس دور میں میرے شیخ مُفسرقرآن حضرت مولانا محمد اکرم اعوان مدظلہ العالی کو مينارۂ نور بنایا ہے۔۔۔
ٹھیک ہے میری عقیدت اپنی جگہ،،مگر آپ بھی ضرور دیکھیں کہ حضرت مدظلہ العالی کی صحبت میں قراروسکون ملتا ہے۔ معرفت الہیٰ،، محبتِ رسول ﷺ، ،دردِ دل،، احساسِ خودی،، فکرِذات و امّت ،،اور جذبۂ اصلاح جیسے گراں قدر موتی حضرت کی نگاہِ بصیرت اور علمِ لدُنی سے بتوفیقِ الہٰی دامن بھر عطا ہوتے ہیں اور بیمار قلوب کو شفا ملتی ہے۔۔!
تحدیثِ نعمت اور شکرانے کے طور پر اللہ کے اس ولی کا فرمانا ہے:
"میں یہ ڈنکے کی چوٹ پر کہتا ہوں کہ میں ایک نگاہ میں ایک شخص کے وجود کے ایک ایک ذرے کو اللہ کا ذکر سکھا سکتا ہوں۔ یہ مجھ پر اللہ کا احسان ہے۔ جس کام کیلئے برسوں لگتے ہیں، جس کیلئے بڑے بڑے صوفی برسوں وقت طلب کرتے ہیں، مجھے اللہ نے یہ قوت بخشی ہے کہ وہ بات میں ایک لمحے میں کر سکتا ہوں۔ یہ اللہ کی عطا ہے۔ اگر آپ اسکے طالب ہیں تو یہ اس راستے کی ایک منزل ہے۔ ماحول میں پھیلی دلدل میں آپکو ایک مضبوط چٹان مِل سکتی ہے جس پر آپ پاؤں رکھ کر ان شاءاللہ ، اللہ کی بارگاہ تک تو پہنچ سکتے ہیں، لیکن اس سے بت نہیں تراش سکتے۔ مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ کوئی شخص مجھے غیر ضروری اہمیت دے۔ مجھے یہ بھی پسند نہیں ہے کہ کوئی شخص میرے ہاتھ کو بوسہ دے۔"
ہاں ایسا ممکن ہے کہ آپ کے بدن کا بھی ذرہ ذرہ یادِ الہٰی سے معمور ہو جائے۔۔ نرا دعوٰی نہیں،، بلکہ سچ میں عشقِ رسول ﷺ کی نایاب دولت ہاتھ آ جائے۔۔ بےقرار دلوں کو صحت و اطمینان نصیب ہو جائے۔۔!
یہ محض افسانہ نہیں بلکہ الحمدللہ آج اس کرۂ ارض پر لاکھوں افراد ان سوالوں کا مجسم مثبت جواب ہیں۔۔
چھوڑو یار نقل کو،،، آؤ سچ مُچ کی روشنیاں سمیٹیں۔۔ آؤ اُس مطلع انوارﷺ کی جانب چلیں جہاں سورج کا اک جہاں طلوع ہوتا ہے۔۔
آپ اگر اس درد کے طالب ہیں تو کسی بھی روز'دارالعرفان منارہ- خوشاب روڈ، ضلع چکوال' تشريف لے جا کر حقیقت سے آشکار ہو سکتے ہیں۔۔ ہرانگریزی مہینہ کے پہلے ہفتہ-اتوار دارُالعرفان میں ماہانہ اجتماع ہوتا ہے۔۔!
صلائےعام ہے یارانِ نكتہ داں کے لئے۔۔۔۔!!