تصوف – 11
:::::::::::::::
سیدھی سی بات ہے کہ اللہ ایک ہے، واحد ہے۔۔وہ وقت یاد کرو جب کچھ نہ تھا، صرف اللہ تھا۔۔وہ وقت دیکھو جب کچھ نہیں ہو گا، صرف اللہ ہو گا۔۔'لمن الملک الیوم'۔۔کس کی بادشاہت ہے آج؟ ہے کو ئی جواب دینے والا؟بولو ناں۔۔ کوئی نہیں ہے، تو پھر سُنو،اللہ خود ہی جواب دیتا ہے۔۔'للہ الواحد القہار'۔۔اللہ ہی کی بادشاہت ہے، وہ واحد ہے، قہار ہے۔۔وہی اوّل ہے وہی آخر ہے۔۔وہ نظر آکر بھی دکھائی نہیں دیتا۔۔ وہ نظر نہ آکر بھی سامنے ہے۔۔اگر کچھ بھی نہیں ہے،تو بھی اللہ ہے۔۔اس اکیلے نے یہ کائنات تب سجائی تھی، جب یہ کائنات بھی نہ تھی۔۔ایک بزرگ نے کہا کہ میں ہمیشہ خوش رہتا ہوں، اسلئے کہ دنیا کے سارے کام میری مرضی کے مطابق ہو رہے ہیں۔۔ پوچھا گیا ،وہ کیسے؟ جواب آیا، کیونکہ میں نے اپنی مرضی کو اسکی مرضی میں فنا کردیا ہے، یعنی جو اُس کی مرضی وہی میری مرضی۔۔جیسے وہ راضی، ویسے ہی اسکی رضا پر میں راضی۔۔اسی کو کہتے ہیں فنا فی اللہ۔۔ اسی کی تہہ میں بقا کا راز مضمر ہے۔۔یہ ایک کیفیت ہے جو راہِ سلوک میں مقامِ فنا پر حاصل ہوتی ہے۔۔یہاں پر بندے کو اپنا وجود بھی ختم ہوتا دکھائی دیتا ہے۔۔فرش عرش، چرند پرند، شجر حجر، بحر بر، سب فنا ، سب ختم۔۔ صرف ایک ہستی باقی ہے۔۔ وہ اللہ ہے۔۔اسکے بعد ہے' بقا باللہ'۔۔ یعنی جو کچھ بھی باقی ہے، وہ اللہ کی وجہ سے باقی ہے۔۔نہیں سمجھ آئی؟۔۔ چلو مزید آسانی سے بتاتا ہوں، لیکن مجبوری یہ ہے کہ صرف بتا سکتا ہوں، دکھا نہیں سکتا۔۔ ہمت ہے تو آؤ اور خود ہی دیکھ لو،، خود دیکھو گے تو سمجھ آئے گی کہ یہ جو دیوار کھڑی ہے، یہ اپنی قوت کی وجہ سے اپنے پیروں پر نہیں کھڑی، کوئی ہے جس نے اسے تھام رکھا ہے۔۔یہ جوسامنے درخت نظر آرہا ہے، یہ اپنی جڑوں کے زور پرنہیں کھڑا، کوئی ہے جس نے اسے سہارا دے رکھا ہے۔۔کون ہے وہ؟۔۔'احد'۔۔'واحد'۔۔
آگے سنو۔۔لطائف کے منور ہونے کے بعد ،، روح میں قوتِ سفر آنے کے بعد،، جب روح قربِ الہٰی کی منزلوں میں محوِ سفر ہوتی ہے تو اس وقت اسے کسی مضبوط شیخ کی ضرورت ہوتی ہے جو روح کو عالمِ امر کے سفر میں De-track نہ ہونے دے۔۔پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ 1۔ شیخ کی توجہ مضبوط نہ ہو، 2۔ یا شیخ بلند منازل کا حامل نہ ہو، 3۔ یا بندہ خود سے ذکرِ قلبی شروع کرکے روحانی سفر شروع کر دے اور روح کی رفتار کو کنٹرول کرنے والا ڈرائیور (شیخ) میسر نہ ہو،، تو روح مقاماتِ قرب میں ادھر اُدھر بھٹک جاتی ہے۔۔پھر تجلیاتِ الہی کو برداشت اور جذب نہیں کر سکتی۔۔ اس جذب نہ کرنے والی کیفیت کو مجذوبیت اور بندے کو مجذوب کہتے ہیں۔۔یہ تصوف میں ایک نقص سمجھا جاتا ہے۔۔ کمال ہوتا توضرور کوئی نبی یا صحابی بھی مجذوب ہوتا۔۔ایک حدیث مبارکہ سنا دوں آپکو: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا :' میں نے رسول اللہ ﷺ سے دو ظرف علم کے محفوظ رکھے ہیں ،،ان میں سے ایک کو تو میں نے تم میں پھیلا دیا، دوسرے کو اگر پھیلاؤں تو میرا حلق کاٹ دیا جائے'۔۔(صحیح البخاری : کتاب العلم)۔۔ یہی کمزوری منصورحلاج کو لاحق ہوئی،وہ برداشت نہ کر سکا ،، زبان کھول بیٹھا،، کہہ بیٹھا کہ 'انا الحق'۔۔ مجھے تو کچھ بھی سجھائی نہیں دیتا۔۔اپنا آپ بھی نظروں سے پوشیدہ ہے۔۔ جو نظر آتا ہے وہی حق ہے۔۔آپ نے سمجھا کہ یہ مجنوں کہتا ہے ،میں خدا ہوں، میرے اندر خدا ہے، میں حق ہوں۔۔ ارے نہیں نہیں۔۔ اسکی قربت کی کیفیت اتنی شدید تھی کہ وہ خود کو ہی مٹا چکا تھا۔۔آپ نے سمجھا کہ یہ مجذوب کہتا ہے کہ خدا میرے اندر حلول کر گیا۔۔ نہیں، غلط سمجھے آپ۔۔ تبھی تو آپ نے اسے سولی پر چڑھا دیا۔۔تختہء دار پر بھی اسکی یہی صدا تھی۔۔ 'انا الحق'۔۔کیسے جھٹلا سکتا تھا اسکو، جس کو وہ اپنے اندر تک محسوس کر رہا تھا۔۔اچھا ذرا بلال رضی اللہ عنہ کو تو دیکھو۔۔ صحرا کی تپتی ریت پربھاری پتھر کے بوجھ تلے دبے پکار رہے ہیں۔۔ 'احد احد'۔۔بدن کی چربی تو پگھل سکتی ہے، مگر جو اندر کی آنکھ دیکھ رہی ہے، اسکو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔۔ صدا جاری ہے۔۔'احد احد'۔۔میرے دوست، جب آپ نے چکھی ہی نہیں ہے تو کیسے جان سکتے ہو۔۔!
اب آخری بات سمجھ لو، پھرچھٹی کرو۔۔ باطن کی یا قلب کی آنکھ سے صوفی کو جب حقائق نظر آتے ہیں تو وہ کہتا کہ یہ سارے وجود وہم ہیں،، دھوکہ ہیں۔۔اصل ذات وہی باری تعالیٰ کی ہے، باقی یہ سارے نقش برآں ہیں، انکی کوئی حیثیت نہیں ہے۔۔ اسی کو صوفیاء نے 'وحدت الوجود' کہہ دیا۔۔ یعنی حقیقی وجود صرف ایک ہے، باقی جتنے وجود ہیں انکا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔۔ لیکن عام آدمی اسے سمجھنے سے قاصر رہا اور لوگوں نے درختوں، پتھروں، جانوروں، وغیرہ کو خدا سمجھنا شروع کردیا۔۔ وحدت الوجود کا تو مطلب یہ تھا کہ ان چیزوں کی کوئی حیثیت نہیں، انکے لئے زندگی ضائع نہ کرو، یہ مقصد نہیں ہیں، اصل مقصد رضائے الہٰی کا حصول ہے۔۔حضرت مجدد الف ثانی ؒ نے لوگوں کی اہلیت دیکھتے ہوئے اس ٹرم کو تبدیل کیا کہ یہ لوگ وحدت الوجود کو تو سمجھ نہیں رہے اور گمراہ ہو رہے ہیں،، اس لئے اسے 'وحدۃ الشہود' کہا جائے۔۔یعنی کہ ہر چیز اسکے وجود کی گواہ ہے،اسکی خلقت اور قدرتِ کاملہ کی شہادت دے رہی ہے۔۔ لہذا اب اسے 'وحدۃ الوجود' کی بجائے 'وحدۃ الشہود' کہا جائے۔۔ کچھ لوگوں نے مانا اور کچھ نے نہ مانا، تو یوں دو مکتبہ فکر بن گئے، دحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود۔۔یہ ایک کیفیت/نظریہ ہے، جس کے دو نام ہیں۔۔!!
پہلی بار وحدت الوجود اور شہود کا مفہوم ذہن میں اترا۔شکریہ
؟وحدت الشہود کا مطلب کیا ہے