تصوف - 18
:::::::::::::::
ہاں جی کس نے کرنا ہے آج کا پہلا سوال؟۔۔
''سر، میں کر لیتی ہوں۔۔ آپ نے بتایا تھا کہ روح کے پارٹس کو لطائف کہتے ہیں اور اللہ کے ذکر سے یہ روشن ہو جاتے ہیں۔۔ آپ نے یہ بھی کہا تھا کہ تصوف میں کشف کا ہونا کوئی لازم نہیں۔۔ اب سوال یہ ہے کہ جب لطائف روشن ہوں گے، اور ہمیں کشف بھی نہیں ہوگا، تو پھر ہمیں کیسے پتہ چلے گا کہ ہمارے لطائف منور ہیں یا نہیں؟''
ویری گڈ، بڑا دلچسپ سوال ڈھونڈ لائیں ہیں آپ۔۔ باقی طلباء کو بھی میں کہوں گا کہ اپنی دماغ میں پڑی ایسی گرہیں سامنے رکھیں۔۔ ان شاء اللہ انہیں بسہولت کھولا جائے گا۔۔ یہاں ایک اہم بات بھی سمجھ لیں۔۔ میں عالمِ دین نہیں ہوں، جو کچھ پڑھا سیکھا ہے، وہ آپکے سامنے پیش کرنے میں خوشی محسوس ہوتی ہے۔۔ بالفرض میں آپکو کسی بات پر مطمئن نہ کرسکوں تو میری وجہ سے تصوف کو غلط نہ سمجھا جائے۔۔ میں کوئی اتھارٹی نہیں ہوں اس فیلڈ میں کہ اگر میری بات ناقص ہوئی تو تصوف پر حرف آجائے گا۔۔برائے کرم میری علمی و عملی خامی کو تصوف میں خامی پر محمول نہ کیا جائے۔۔
اب آپکے سوال پر واپس آتے ہیں۔۔ لطائف کے روشن ہو جانے کی دلیل کشف نہیں ہے۔۔ کشف اللہ کی عطا ہے کہ کسی اعلیٰ منازل کے صوفی کو بھی عطا نہ کرے اور کسی Beginner کو نصیب فرما دے، یہ اُسکی مرضی ہے۔۔ ویسے تو یہ غیرمسلم لوگ جو ہیپناٹزم اور مسمرزم کی ریاضت کرتے ہیں، کم بولنا، کم سونا، اور کم کھانا اپنی روٹین میں شامل کرتے ہیں، دنیا سے کٹ جاتے ہیں، اُن پر بھی بعید دنیا کی مادی اشیاء منکشف ہو جاتی ہیں۔۔تو کیا انکو بھی کامل سمجھا جائیگا؟۔۔ نہیں، بلکہ یہ کچھ عجائبات ہیں جو وہ مادی مفاد کیلئے مجاہدے سے حاصل کرتے ہیں۔۔ تصوف کا مقصد مادیت کا حصول نہیں بلکہ روحانیت اور قربِ الہٰی کا حصول ہے۔۔لطائف پر اللہ کے ذکر کی محنت کے یہ اثرات ہوتے ہیں کہ کچھ نظر آئے یا نہ آئے، بندے کا کردار بدلنا شروع ہوجاتا ہے۔۔ مثبت اور اسلامی تبدیلی آتی ہے افکار میں۔۔لطائف کے منور ہونے کی یہ نشانی ہے کہ آپکا دل اب خرافات کو Accept نہیں کرے گا، reject کر دے گا۔۔ نیکی کی طلب بیدار ہو گی اور گناہوں سے نفرت اور وحشت ہونے لگے گی۔۔نیک کام کرکے روح کو مسرت و اطمینان کا احساس ہوگا۔۔ دل اللہ کی یاد سے قرار پائے گا۔۔ اگر کچھ روشنیاں نظر آنے کے باوجود کسی کے دل میں یہ کیفیات پیدا نہیں ہورہیں تو اس نے خود کو دھوکے میں رکھا ہوا ہے۔۔اور اگر کسی کا کردار سنتِ نبوی ﷺ کے ڈھانچے میں ڈھلنا شروع ہو گیا ہے، تو چاہے کچھ نظر نہ آئے، اسکے لطائف منور ہونے کی یہی پہچان ہے۔۔ اب اگر مشاہدہ بھی نصیب ہو جائے تو انوارات کی کمی بیشی نظر آجاتی ہے۔۔ صوفی کو عالم کی نسبت یہ ایک ایکسٹرا خوبی بھی نصیب ہو جاتی ہے کہ گناہ کی ظلمت کا فوراً ادارک ہو جاتا ہے اور وہ خود کورب کی نافرمانی کے قریب بھی نہیں پھٹکنے دیتا۔۔غلط عقائد کی تاریکی نظر آتی ہے تو اپنے عقائد کی درستی کا احساس دامن گیر ہوجاتا ہے۔۔ اسلئے بدعقیدگی اور تصوف ساتھ ساتھ نہیں رہ سکتے۔۔!
'' سر، میں ایک سوال پوچھنا چاہوں گا، میں بہت کنفیوز ہوں، میں نے ایک جگہ بیعت کی ہوئی ہے مگر مجھے لگتا ہے کہ میں غلط جگہ پھنس گیا ہوں، اب کیا میں بیعت کو توڑ دوں؟ کیونکہ بیعت تو ایک معاہدہ ہے، اور معاہدہ توڑنے کا گناہ ہوگا، مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ کیا کروں؟''
دیکھیں دوست آپ ٹینشن نہ لیں، میں آپکو ایک واقعہ سناتا ہوں، اسکو سمجھ لیں تو آپکی پریشانی فوراً ختم ہو جائیگی۔۔باقی سٹوڈنٹس بھی تھوڑی دیر کیلئے بیدار ہو جائیں، زندگی پڑی ہے سونے اور اونگھنے کیلئے، کلاس میں تو اٹینشن سے بیٹھا کریں کم از کم۔۔ چلیں سنیں،، ایک دفعہ مولانا عطااللہ شاہ بخاری ؒ چکوال کے قریب قلعہ بھون میں تقریر فرما رہے تھے، ابھی پاکستان نہیں بنا تھا، ہندو مسلم اکٹھے رہتے تھے۔۔ ایک ہندو نے سوال لکھ بھیجا کہ حضرت، اسلام میں جو نکاح ہوتا ہے،اسمیں لفظوں کے ذریعے ایجاب و قبول کیا جاتا ہے اور الفاظ میں ہی منکوحین کی علیحدگی ہو جاتی ہے۔۔ کتنا ناقص دین ہے آپکا۔۔ ہمارے ہاں تو جو شادی ہوتی ہے وہ اتنی قوی ہوتی ہے کہ موت پر بھی ختم نہیں ہوتی، ہم تو عورت کو مرد کے ساتھ ہی جلا کر اَمر کر دیتے ہیں۔۔ شاہ جیؒ بڑے مزے کے آدمی تھے، کہنے لگے کہ بھائیو ایک دھاگا لاؤ اور ایک چاقو لاؤ۔۔ ایک شخص کہیں سے دونوں چیزیں لے کر سٹیج پرجا پہنچا۔۔آپؒ نے اسے کہا کہ دھاگہ دونوں سِروں سے پکڑو۔۔ اس نے پکڑا تو شاہ جی نے درمیان میں چاقو پھیرا، دھاگہ کٹ گیا۔۔ آپ نے پوچھا، ٹوٹ گیا؟ کہنے لگا، جی ہاں ٹوٹ گیا۔۔ اب آپ نے دھاگہ پھینک دیا اور اسے کہا کہ اب دھاگہ نہیں ہے، مگر دھاگہ پکڑنے والا ایکشن کرو۔۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے یوں عمل کیا جیسے دھاگہ پکڑا ہو۔۔پھر آپ نے اسی طرح چاقو گھمایا اور پوچھا کہ کٹ گیا؟ کہنے لگا کہ ہے ہی نہیں تو کٹے گا کیسے؟۔۔ آپؒ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا، یہی تو ہم کہتے ہیں کہ جب تمہارا نکاح ہوا ہی نہیں تو ٹوٹے گا کیسے؟ طلاق کیلئے نکاح کا ہونا لازم ہے۔۔ تمہارے ہاں تو کوئی دین نہیں، بس رسومات ہیں، اللہ کے نام پر کوئی معاہدہ نہیں،، تم اپنے مفروضوں کی بنیاد پر آگ کے گرد پھیرے ڈالتے رہے اور پنڈت کوئی انجانا منتر پڑھتا رہا، تو تم نے سمجھا کہ شادی ہوگئی، حالانکہ کسی پیغمبر کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق نکاح ہوا ہی نہیں ہے تو ختم کیسے ہوگا۔۔
میرے دوست، یہ جو بغیر جانے بوجھے رسمی بیعت کی جاتی ہے، یہ ہوتی ہی نہیں ہے، ٹوٹے گی کہاں سے؟ بندہ خواہ مخواہ تصور کرلے کہ میں بندھا ہوا ہوں، تو اسے فائدہ تو نہیں، بلکہ الٹا نقصان ہوتا ہے کہ بلاوجہ ایک اندھی سی عقیدت پیدا ہو جاتی ہے۔۔ اب وہ پیر صحیح رہنمائی کرتا ہے یا غلط راستے پہ لے جاتا ہے، آپکو پتہ نہیں ہوتا اور آپ عقیدت کی وجہ سے اسکے پیچھے پیچھے چلتے رہتے ہیں۔۔ عقیدت، ادب اور اطاعت تصوف کی بنیادیں ہیں، لیکن صرف شیخِ کامل کیلئے انکو وقف کرنا چاہئے۔۔امید ہے تشفی ہو گئی ہوگی اب۔۔ چلیں جی چھٹی کریں۔۔ ملتے ہیں بریک کے بعد۔۔ اللہ نگہبان۔۔!!
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔