تصوف - 12
::::::::::::::
آپ نماز پڑھیں، قرآن پڑھیں، تسبیحات پڑھیں، اللہ کے دین کیلئے کوئی کام کریں، اپنے خاندان کیلئے حلال رزق کی جستجو کریں، کسی کو اچھی بات بتا دیں، آپکے دل میں اللہ کیلئے کوئی مثبت جذبہ یا سوچ پیدا ہو،، یہ سب اللہ کے ذکر کی مختلف حالتیں ہیں۔۔ان سب کو ہم تین کیٹگریز میں بانٹ لیتے ہیں۔۔ 1: ذکرِ لسانی۔۔ 2: ذکرِ قلبی۔۔ 3: ذکرِ عملی
قرآن مجید میں تینوں اقسام کے ذکر کا حکم ملتا ہے۔۔ آپ نے بچپن میں ایمان مفصل اور ایمان مجمل یاد کیا ہو گا۔۔ اس میں ہے کہ ؛ 'اقرار باللسان و تصدیق بالقلب'۔۔زباں سے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل۔۔دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں۔۔ اس تصدیقِ قلبی کیلئے صوفیاء ذکرِ قلبی سیکھنے سکھانے پر زور دیتے ہیں۔۔ اسے ذکرِ خفی بھی کہا جاتا ہے، جو کہ احادیث مبارکہ کے مطابق لسانی ذکر سے ستر گنا افضل ہے، اور اسے فرشتے بھی نہیں سُن سکتے۔۔زبان جوکچھ کہے، اس پر دل گواہی نہ دے تو اسے منافقت کہتے ہیں۔۔دل کے بارے میں آپ پچھلے لیکچرز میں تفصیل سے جان چکے ہیں کہ اس کی کیا حیثیت ہے اور اس میں کتنی پاور ہے۔۔یہ بدن اور روح دونوں کا بادشاہ ہے۔۔ جب دل اللہ کا ذکر کرتا ہےتو اکیلا نہیں کرتا، بلکہ باقی اعضاء کو بھی کراتا ہے۔۔ نتیجتاً ہاتھ سے ظلم صادر نہیں ہوتا،، پاؤں برائی کی طرف نہیں اُٹھتے،، زبان بکواسات نہیں بکتی،،دماغ فساد کی تعبیریں نہیں کرتا،، آنکھ بے حیائی کو دیکھ کر جھک جاتی ہے،، کانوں میں فضولیات پڑیں تو وحشت ہونے لگتی ہے وغیرہ۔۔ یہ کچھ مفید ثمرات ہیں ذکرِ قلبی کے۔
'لیکن سر ، بھلا دل کو اللہ کا ذکر کرنا کیسے سکھایا جا سکتا ہے؟'
نائس کؤسچن۔۔جواب دینے سے پہلے میں دُہرا دوں کہ آپکا قلب ایک باشعور شے ہے، یہ سنتا ہے، دیکھتا ہے، بول سکتا ہے، محسوس کرسکتا ہے، محسوس کرا سکتا ہے۔۔ اب ذرا اپنے ہاتھ کی انگلیوں کو دیکھئے۔۔ان میں صرف قوتِ لمس ہے،، اسکے باوجود آپ انہیں ایسا سدھارتے ہیں کہ یہ کی بورڈ کو دیکھے بغیر روانی سے ٹائپ کرلیتی ہیں۔۔ وجہ یہ ہے کہ آپ نے کچھ وقت اور توجہ انکو دی ہے ، اس ٹریننگ سے یہ ٹائپ کرنا اور لکھنا سیکھ گئی ہیں۔۔ اسی طرح کی ٹریننگ کسی ماہر استاد (شیخ) کی نگرانی میں اپنے قلب کو کرائیں تو پھر دیکھیں یہ کیسے اللہ اللہ کرتا ہے۔۔صحابہ کرام پر صحبتِ نبی کریم ﷺ کی برکت کے اثرکی گواہی قرآن پاک میں موجود ہے۔۔'ثم تلین جلودھم و قلوبھم الی ذکر اللہ'۔۔ انکی جِلدیں اور قلوب تک ذکراللہ کرنے لگے۔۔اب مزید سنیں۔۔ قرآن میں اللہ نے ایمان والوں کو کثرتِ ذکر کا حکم دیا ہے۔۔ 'یاایھاالذین آمنو اذکر اللہ ذکرا کثیرا'۔۔ اے مومنو! اللہ کا ذکر کثرت سے کرو۔۔ آپکو پتہ ہے کہ 'کثرت' کتنی تعداد کو کہتے ہیں؟
'سر، جو سب سے زیادہ ہو، کثیر ہو'
جی ہاں،، مثلاً آپ قرآن پڑھیں، تو سارا دن نہیں پڑھ سکتے۔۔ تسبیحات کریں تو ہرلمحہ نہیں کرسکتے، تلاوت سُنیں تو ہر وقت نہیں سُن سکتے، ،لیکن قرآن کہتا ہے کہ؛' وسبحوہ بکرۃ واصیلا'۔۔ صبح شام اسکی تسبیح کرو۔۔اسکا یہ مطلب نہیں کہ صبح کو ذکر کر لیا اور شام کو کر لیا، اور باقی دن نعرے لگانے میں گزر گیا۔۔ بلکہ صبح شام کا مطلب، صبح سے شام، اور شام سے صبح تک ہے، یعنی ہر لمحہ، Round the clock۔۔اور عقلمند لوگ پتہ ہے کون ہیں؟ 'الذین یذکرون اللہ قیاما ًو قعوداً و علی جنوبھم'۔۔ وہ جو کھڑے، بیٹھے، اور لیٹے (یعنی ہر حالت میں) اللہ کا ذکر کرتے ہیں۔۔ کثرت تب ہوگی جب دنیا کے ہرکام سے اللہ کا ذکر بڑھ جائے۔۔ یہ کثرت ذکرِ قلبی کے بغیر ممکن نہیں۔۔آپ سو بھی رہے ہوں گے تب بھی آپکا دل اللہ سے غافل نہیں ہوگا۔۔ غفلت تو برسوں کی بھی ہو سکتی ہے، مہینوں کی بھی، منٹوں کی بھی، حتیٰ کہ ایک سیکنڈ کی غفلت بھی غفلت ہی ہے۔۔ مگر اللہ نے غفلت کی کم ترین مقدار سے بھی منع فرمایا ہے۔۔ 'ولا تکن من الغافلین'۔۔ غافلوں میں سے نہ ہونا۔
'سر میرا ایک سوال ہے۔۔ قرآن مجید میں کہیں واضح حکم ہے ذکرِ خفی کا؟'
جی ہاں، آپ ذرا سورۃ الاعراف کی آیۃ نمبر 205 دیکھیں۔۔'واذکر ربک'۔۔ اپنے رب کا ذکر کرو۔۔'فی نفسک'۔۔ دل ہی دل میں۔۔' تضرعا'۔۔ عاجزی کے ساتھ۔۔'وخیفۃ'۔۔ اور خوف سے۔۔'ودُون الجھر من القول'۔۔اور آواز و الفاظ کے بغیر۔۔'بالغدوِّ والآصال'۔۔صبح اور شام۔۔ 'ولا تکن من الغافلین'۔۔اوراہلِ غفلت میں سے مت ہونا۔۔یہ ایک واضح حکم ہے اللہ کریم کا، اور اللہ کسی پر اسکی حیثیت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔۔ یعنی ہم سب کو یہ اہلیت پہلے سے ہی دے دی گئی ہے کہ ہم محنت مجاہدہ کرکے اپنے قلب کو ذاکر بنا سکتے ہیں۔۔ حصولِ ذکرِ قلبی کے بعد آپکی کیفیت یہ ہوگی کہ 'ہتھ کار وَل،دل یار وَل'۔۔ یعنی دنیا کے سارے جائز کام آپ کریں گے مگر دل اللہ کی یاد میں محو ہوگا۔۔ ہر کام میں یہ دھیان ہو گا کہ کہیں میں اللہ کی خلاف ورزی تو نہیں کررہا، کہیں میں سنتِ نبئ محترم ﷺ سے روگردانی تو نہیں کررہا۔۔ بس یہی تصوف ہے، اور اسی کو تزکیہ کہتے ہیں۔۔!!
'لیکن سر ، بھلا دل کو اللہ کا ذکر کرنا کیسے سکھایا جا سکتا ہے؟'
نائس کؤسچن۔۔جواب دینے سے پہلے میں دُہرا دوں کہ آپکا قلب ایک باشعور شے ہے، یہ سنتا ہے، دیکھتا ہے، بول سکتا ہے، محسوس کرسکتا ہے، محسوس کرا سکتا ہے۔۔ اب ذرا اپنے ہاتھ کی انگلیوں کو دیکھئے۔۔ان میں صرف قوتِ لمس ہے،، اسکے باوجود آپ انہیں ایسا سدھارتے ہیں کہ یہ کی بورڈ کو دیکھے بغیر روانی سے ٹائپ کرلیتی ہیں۔۔ وجہ یہ ہے کہ آپ نے کچھ وقت اور توجہ انکو دی ہے ، اس ٹریننگ سے یہ ٹائپ کرنا اور لکھنا سیکھ گئی ہیں۔۔ اسی طرح کی ٹریننگ کسی ماہر استاد (شیخ) کی نگرانی میں اپنے قلب کو کرائیں تو پھر دیکھیں یہ کیسے اللہ اللہ کرتا ہے۔۔صحابہ کرام پر صحبتِ نبی کریم ﷺ کی برکت کے اثرکی گواہی قرآن پاک میں موجود ہے۔۔'ثم تلین جلودھم و قلوبھم الی ذکر اللہ'۔۔ انکی جِلدیں اور قلوب تک ذکراللہ کرنے لگے۔۔اب مزید سنیں۔۔ قرآن میں اللہ نے ایمان والوں کو کثرتِ ذکر کا حکم دیا ہے۔۔ 'یاایھاالذین آمنو اذکر اللہ ذکرا کثیرا'۔۔ اے مومنو! اللہ کا ذکر کثرت سے کرو۔۔ آپکو پتہ ہے کہ 'کثرت' کتنی تعداد کو کہتے ہیں؟
'سر، جو سب سے زیادہ ہو، کثیر ہو'
جی ہاں،، مثلاً آپ قرآن پڑھیں، تو سارا دن نہیں پڑھ سکتے۔۔ تسبیحات کریں تو ہرلمحہ نہیں کرسکتے، تلاوت سُنیں تو ہر وقت نہیں سُن سکتے، ،لیکن قرآن کہتا ہے کہ؛' وسبحوہ بکرۃ واصیلا'۔۔ صبح شام اسکی تسبیح کرو۔۔اسکا یہ مطلب نہیں کہ صبح کو ذکر کر لیا اور شام کو کر لیا، اور باقی دن نعرے لگانے میں گزر گیا۔۔ بلکہ صبح شام کا مطلب، صبح سے شام، اور شام سے صبح تک ہے، یعنی ہر لمحہ، Round the clock۔۔اور عقلمند لوگ پتہ ہے کون ہیں؟ 'الذین یذکرون اللہ قیاما ًو قعوداً و علی جنوبھم'۔۔ وہ جو کھڑے، بیٹھے، اور لیٹے (یعنی ہر حالت میں) اللہ کا ذکر کرتے ہیں۔۔ کثرت تب ہوگی جب دنیا کے ہرکام سے اللہ کا ذکر بڑھ جائے۔۔ یہ کثرت ذکرِ قلبی کے بغیر ممکن نہیں۔۔آپ سو بھی رہے ہوں گے تب بھی آپکا دل اللہ سے غافل نہیں ہوگا۔۔ غفلت تو برسوں کی بھی ہو سکتی ہے، مہینوں کی بھی، منٹوں کی بھی، حتیٰ کہ ایک سیکنڈ کی غفلت بھی غفلت ہی ہے۔۔ مگر اللہ نے غفلت کی کم ترین مقدار سے بھی منع فرمایا ہے۔۔ 'ولا تکن من الغافلین'۔۔ غافلوں میں سے نہ ہونا۔
'سر میرا ایک سوال ہے۔۔ قرآن مجید میں کہیں واضح حکم ہے ذکرِ خفی کا؟'
جی ہاں، آپ ذرا سورۃ الاعراف کی آیۃ نمبر 205 دیکھیں۔۔'واذکر ربک'۔۔ اپنے رب کا ذکر کرو۔۔'فی نفسک'۔۔ دل ہی دل میں۔۔' تضرعا'۔۔ عاجزی کے ساتھ۔۔'وخیفۃ'۔۔ اور خوف سے۔۔'ودُون الجھر من القول'۔۔اور آواز و الفاظ کے بغیر۔۔'بالغدوِّ والآصال'۔۔صبح اور شام۔۔ 'ولا تکن من الغافلین'۔۔اوراہلِ غفلت میں سے مت ہونا۔۔یہ ایک واضح حکم ہے اللہ کریم کا، اور اللہ کسی پر اسکی حیثیت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔۔ یعنی ہم سب کو یہ اہلیت پہلے سے ہی دے دی گئی ہے کہ ہم محنت مجاہدہ کرکے اپنے قلب کو ذاکر بنا سکتے ہیں۔۔ حصولِ ذکرِ قلبی کے بعد آپکی کیفیت یہ ہوگی کہ 'ہتھ کار وَل،دل یار وَل'۔۔ یعنی دنیا کے سارے جائز کام آپ کریں گے مگر دل اللہ کی یاد میں محو ہوگا۔۔ ہر کام میں یہ دھیان ہو گا کہ کہیں میں اللہ کی خلاف ورزی تو نہیں کررہا، کہیں میں سنتِ نبئ محترم ﷺ سے روگردانی تو نہیں کررہا۔۔ بس یہی تصوف ہے، اور اسی کو تزکیہ کہتے ہیں۔۔!!
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔