تصوف - 3
:::::::::::::
سائلنس پلیز۔۔آج یہ شور کیسا ہے۔۔ ذرا سی دیر کیا ہو گئی، آپ نے کلاس کی چھت کو سر پہ اٹھا لیا۔۔ سمجھدار طلباء کو یہ زیب نہیں دیتا۔۔ اب آپ بچے تھوڑی ہیں کہ آپکو ادب پہ لیکچر دئیے جائیں۔۔ 'سوری سر، آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔'۔۔ ہوں۔۔ دیلڈن۔۔ آج بطور سرزنش میں خود سے سمجھانے کے بجائے آپ سے کچھ پوچھوں گا۔۔ کون جواب دے گا کہ صحابی بننے کیلئے کتنی تعلیم، ہنر ، محنت اور اہلیت کی ضرورت ہوتی ہے؟ اور ساتھ میں یہ بھی بتا دیں کہ صحابیت کیلئے عمر کتنی ہونی چاہئے، صلاحیت کیا ہو اور کس خاندان سے ہونا لازم ہے؟۔۔' سر، میں بتاؤں؟'۔۔ جی بتائیں۔۔ 'سر ویسے یہ کافی عجیب سوال ہے، کیونکہ ایسی تو کوئی شرط نہیں صحابی ہونے کیلئے۔۔ صحابی صحبت سے نکلا ہے، یعنی جو کوئی بحالتِ ایمان نبی کریم ﷺ کی صحبت (مجلس /محفل )میں آگیا، نبی کی نگاہ اس پر پڑی، یا اسکی نگاہ نبی پر پڑی، تو وہ صحابی ہو گیا'۔۔ٹھیک، ، اب یہ بھی بتا دیں کہ کوئی نماز، روزہ، جہاد وغیرہ لازم ہےمقامِ صحابیت پانے کیلئے؟ ۔۔ 'نہیں سر، بنیادی طور پر صحابیت کا منصب اسی لمحے نصیب ہو جاتا ہےجب یہ نگاہوں کا سودا ہوتا ہے،، یہ عبادات مزید انعام ہیں جوبہ خوشی و محبت ادا ہوتی چلی جاتی ہیں،، مثلاً کچھ صحابہ ایسے بھی ہیں جنکی وفات تب ہوئی جب نماز، حج، جہاد وغیرہ فرض ہی نہیں ہوئے تھے'۔۔بالکل درست کہا آپ نے، بیٹھ جائیں،، قبل اس کے کہ میں کچھ مزید وضاحت کئے دوں، یہ جان لیں کہ آج کا لیکچر بہت اہم ہے، اسکو نہایت توجہ سے اٹینڈ کریں، یہ ہماری اگلی نشستوں کیلئے بنیاد ہے۔۔ اب سنیں،، صحابیت ایسا منصب ہے کہ بالفرض دنیا جہان کے تمام چوٹی کے اولیاء، صلحاء، محدثین، اقطاب وغیرہ کے نیک اعمال اور انکے درجات کو مجسم کر دیا جائے، اور انکے رتبوں کا بہت اونچا مینار بنایا جائے۔۔ تو جہاں اس مینار کی چوٹی ہو گی، وہاں سے تبع تابعین کے مراتب شروع ہوں گے۔۔جہاں تبع تابعین کے منازل کی انتہا ہو گی، وہاں سے تابعین کا رتبہ شروع ہو گا۔۔اور جہاں دنیا جہاں کے تمام افراد کے مجموعی رتبے کی چوٹی کا آخری سرا ہو گا، وہاں سے صحابیت کا مقام شروع ہوتا ہے۔۔ سپوز، اگرساری دنیا کے لوگ آج ہی نیک ہو جائیں اور وہ ساری زندگی عبادت میں گزار دیں، تو کسی ایک صحابی کے رتبے تک بھی نہیں پہنچ سکتے۔۔یہاں تک کسی کو کوئی کنفیوژن؟۔'ایکسکیوز می سر ،ایسا کیا سرمایہ تھا ان کے پاس کہ وہ دنیا جہان سے افضل ہو گئے؟ مثلاً ایک صحابی اسلام کے ابتدائی دور میں وصال پا گئے، اب ظاہر ہے انہوں نے نہ ہی اتنی عبادت کی، نہ روزے رکھے، نہ حج کئے، ، آج کے مسلمان ممکنہ طور پر اس سے زیادہ نیکیاں سمیٹے ہوئے ہیں، آج کے مسلمانوں کے پاس علم کی لائبریریاں ہیں، صحابہ کے پاس تو یہ بھی نہ تھیں۔۔ تو پھر ایسا کیوں؟'۔۔ ویری گڈ کؤسچن۔۔اسکا جواب سمجھنے کیلئے آپکو پہلے یہ جاننا ہو گا کہ قرآن مجید کے مطابق نبی کریم ﷺ کی نبوت کے چار فرائض ہیں۔۔
1۔ 'یتلو علیہم آیٰتہ'، تعلیمات پہنچانا—2۔ 'ویزکیھم' ، اور تزکیہ کرنا – 3۔ 'ویعلمہم الکتاب '، اور کتاب کی تعلیم دینا – 4۔ 'والحکمۃ' اور حکمت/دانائی سکھانا— (آل عمران – 164)
ہر آنے والا شخص اسی ترتیب کے مطابق مستفید ہوتا تھا۔۔ 1۔ سب سے پہلے اس تک اللہ کا پیغام و دین کی تعلیمات پہنچائیں گئیں۔ 2۔ اگر اس نے قبول کر لیں تو اسکا تزکیہ(قلب و روح کو پاکیزہ ) کیا گیا۔ 3۔ پھر اسے قرآن کے احکامات بتائے گئے۔ 4۔ جسکے نتیجے میں اسے دانائی اور معرفت نصیب ہوئی۔۔یہاں سے نبوت کے دو پہلو سامنے آئے۔۔ 1۔ تعلیماتِ نبوت، 2۔ برکاتِ/ فیوضاتِ نبوت۔۔ یاد رکھیں، تصوف / تزکیہ/ سلوک / احسان کا شعبہ نبوت کے دوسرے پہلو سے متعلق ہے۔۔ توجہ ہے ناں سب کی؟ ۔۔ 'یس سر'۔۔ ویل، اب آگے سمجھیں۔۔نبی کریم ﷺ جب کچھ فرماتے ہیں تو وہ صرف الفاظ اور تھیوری نہیں ہوتی، بلکہ اسکے ساتھ کیفیات اور فیلنگز بھی ہوتی ہیں۔۔ نبی کریم ﷺ نے جب فرمایا کہ اللہ ایک ہے، تو جوشخص اس بات پر ایمان لاتا ہے ، اسے نظر تو نہیں آتا ، مگر وہ دیکھ رہا ہوتا ہے کہ اللہ واقعی ایک ہی ہے۔۔ اب چاہے اسے تپتی ریت پر لٹا کر اس پر گرم پتھر رکھ دئیے جائیں، یا اسے ابلتے ہوئے تیل میں ڈالا جائے۔۔ وہ اَحد اَحد ہی پکارتا ہے،، وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ اللہ ایک نہیں ہے۔۔اسی حالت کا حصول تصوف ہے۔۔ اس پر ایسی کیفیت وارد ہوتی ہے کہ ظاہری آنکھوں سے دیکھنے سےزیادہ اسے اپنی حیثیت کے مطابق قلبی یقین نصیب ہوتا ہے،، یہی تو احسان ہے۔۔ان فیلنگز کی اصل نوعیت میں آپکولفظوں میں محسوس تو نہیں کرا سکتا، البتہ آپ بطور مثال یوں سمجھیں کہ کوئی استاد آپکو ایک کام کرنے کا کہے، وہی کام آپکے والد کرنے کا کہیں، وہی کام آپکو میں کرنے کا کہوں، اور وہی کام کوئی محلے کا دوست کرنے کا کہے، تو اس کام کو سمجھنے اور ماننے کیلئے آپکے دل میں جواحساس اور جذبہ امڈتا ہے، وہ مختلف لوگوں کی شخصیات کے مطابق مختلف ہوتا ہے۔۔ اسی طرح نبی کریم ﷺ جب فرما دیں کہ دیانت داری یہ ہوتی ہے، تو مخاطب مومن کو دیانت داری ایسی سمجھ آتی ہے کہ وہ مجسمِ دیانت ہو جاتا ہے،، یہی تو تزکیہ ہے۔۔یہ کمال تھا محمد رسول اللہ ﷺ کے سینۂ اطہر میں، کہ جوکوئی بحالتِ ایمان اس نورِآفتاب کے سامنے آتا گیا، وہ رنگا گیا، اسکا تزکیہ ہو گیا، وہ قاری نظر آتا تھا، لیکن حقیقت میں قرآن تھا،، وہ چلتا پھرتا مسلمان لگتا تھا ،لیکن اصل میں اسلام تھا۔۔ اللہ کریم کیا فرماتے ہیں قرآن میں صحابہ کرام کی کیفیت سے متعلق۔۔'ثم تلین جلودھم و قلوبھم الی ذکر اللہ'۔۔پھر انکے جلود (کھال/جلد کی جمع) اور قلوب (دل/قلب) اللہ کا ذکر کرنے لگے۔۔ یعنی نہ صرف اسکا قلب منور ہو گیا، بلکہ باڈی سیلز بھی ذاکر ہو گئے۔۔اب اسے آپ قلبِ نبی ﷺ میں موجود انوارات کہہ لیں، برکات کہہ لیں یا فیوضات کہہ لیں ۔۔ ان غیر مرئی سگنلز کا سورس یا منبع نبی کریم ﷺ کا سینہ اطہر ہے، جو ڈائرکٹ ذاتِ باری تعالی سے ریسیو کرتا ہے اور لوگوں میں تقسیم کرتا ہے۔۔ ہر چھوٹا بڑا شخص بہ حالتِ ایمان انکا اہل ہے۔۔'معاف کیجئے گاسر، میرے مائنڈ میں ایک سوال آیا ہے کہ وہ تو صحابہ تھے، براہ راست نبی کریم ﷺ سے مستفید ہو گئے، ہم تک کتابوں کے ذریعے علمِ نبوت تو پہنچ گیا الحمد للہ، ہم بھلا کیسے وہ کیفیات و برکات حاصل کر سکتے ہیں، کیونکہ ہم میں اور آقا علیہ السلام کے زمانے میں تو چودہ صدیوں سےزیادہ فاصلہ حائل ہے، ہمارا کیا بنے گا؟'۔۔ نائس کوئسچن ۔۔ اسکا جواب اگلی نشت پر موقوف کرتے ہیں کیونکہ آپ میں سے تین سٹوڈنٹس کو نیند کا ایک جھٹکا لگ چکاہے۔۔ 'سر، ایک سوال اور بھی رہ گیا کہ صحابہ کرام کو صوفی کیوں نہیں کہا جاتا؟'۔۔بیٹا اب پیریڈ کا ٹائم ختم ہو چکا ہے۔۔زندگی باقی توان شاء اللہ کل ملیں گے۔۔رب دی امان۔۔!!
---------------------------
نوٹ: کچھ معزز طلباء کو بہت ایمرجنسی ہے ۔ وہ چاہتے ہیں کہ میں ساری باتیں ایک ہی پیریڈ میں کلیئر کروں۔ لیکن میرے لئے یہ ممکن نہیں، اور نہ ہی ابھی آپکو سمجھ آئےگی کہ لطائف، مراقبات، قلب، روح، سری، خفی، اخفاء، نفس، کشف، القاء، کرامت، وجدان، وجد، توجہ، مقام، منصب، منازل،بیعت،فنا، بقا، محبت، وحدت، پیری، اور مریدی وغیرہ کیا ہے اور ان کا اسلام سےتعلق ہےبھی یا نہیں۔۔ اسلئے پلیز مجھے آہستہ آہستہ چلنے دیں۔ شکریہ
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔