تصوف – 6
:::::::::::::
بہت ہی اہم ٹاپک ہے آج کا،، اس لیکچر میں آپکی توجہ ذرا سی بھی اِدھر اُدھر ہوئی تو ککھ سمجھ نہیں آنی۔۔ اسلئے سارے خیالات کو کچھ دیر کیلئے کلاس سے باہر رکھ دیں اور چھٹی کے بعد اٹھا لیجئے گا۔۔ پچھلے دنوں حاجی عبد الشکور صاحب بوجۂ ہارٹ اٹیک انتقال فرما گئے۔۔ مرنے سے چند لمحے پہلے دوست احباب ،خاندان والے انہیں حاجی صاحب ، بھائی صاحب کہہ رہے تھے۔۔ مرنے کے بعد کہنے لگے میت کو نہلا دو، میت کوکفن دو۔۔ کیا ہوا بھئی؟ ابھی تھوڑی دیر پہلے تو ابا، خالو، چاچا پکار رہے تھے، اور اب میت میت کہنے لگےہو۔۔جو کچھ ملکیت تھا، اب وراثت ہو گئی، نکاح ٹوٹ گیا، بچے یتیم ہو گئے۔۔ کیوں جی؟ پڑے تو اب بھی آپکے سامنے ہیں،کس چیز کی کمی ہو گئی کہ ابو سے میت بن گئے؟ ہاں جی، وہی اصل مٹیریل تھا جو چلا گیا، اب پیکٹ ہی باقی رہ گیا، جسے آپ مٹی میں دفنا دیں گے، بد بو کے خوف سے۔۔اب آگے سنیں،، انسانی جسم کے دو حصے ہیں، روح اور بدن۔۔روح کی مثال بدن میں ایسی ہے جیسے پھول کی پتی میں پانی ہو،، یعنی بدن کے ہر خلیہ میں روح کا نفوذ ہے۔۔روح ایک invisible اور untouchable شے ہے، یعنی ایک لطیف چیز ہے۔۔جبکہ بدن کو دیکھا اور چھوا جا سکتا ہے، یعنی یہ کثیف (Denser)شےہے۔۔ اللہ نے دو عالم (worlds) بنائے ہیں۔۔1۔ عالَمِ خلق،، اسکی پیدائش کا سبب مادہ یا matter ہے، اور اسمیں تمام اشیاء و مخلوقات فزیکل وجود رکھتی ہیں، ہمارا بدن بھی مادی ہے اور عالمِ خلق سے ہے۔۔ 2۔ عالَمِ اَمر،، اسکی پیدائش کا سبب اللہ کا اَمر ہے۔۔ روح کا تعلق عالَمِ اَمر سے ہے۔۔' قل الروح من اَمرِ ربی وما اوتیتم من العلم الا قلیلا' ۔۔اب کیوں ہے، کیسے ہے، اسکا ہمیں علم نہیں دیا گیا۔۔!
عالمِ خلق فانی ہے۔جبکہ عالمِ اَمر ابدی اور لافانی ہےاسلئے روح فنا نہیں ہوتی۔۔ اور جس چیز میں یہ روح پھونک دی جائے وہ بھی فنا نہیں ہوتی۔۔ روح اور بدن کا تعلق عارضی طور پر منقطع کیا جاتا ہے جسے آپ موت کہتے ہیں۔۔موت فنا کا نام نہیں ہے، بلکہ یہ ایک اور جہان میں داخل ہونے کا ویزہ ہے۔۔ آپکو پتہ ہو گا کہ بدن کی تخلیق چار چیزوں سے ہوئی ہے۔ ہوا، پانی، مٹی، آگ۔۔ ان چاروں کے ملنے سے انسانی نفس بنتا ہے۔۔یہ نفس چونکہ مادی اور فانی اشیاء سے مل کر بنا ہے،، اسلئے اسکی خواہشات اور ضروریات بھی مادی ہیں، یہ اُن دنیاوی آسائشوں کی طرف رغبت کرتا ہے جس سےمادی بدن کو تسکین ملے۔۔ بدن کو مادی غذا نہ ملے تو بیمار ہوجاتا ہے،علاج کیلئے فزیشن کی ضرورت ہوتی ہے، جو اسکا علاج بھی مادی دوا سے کرتا ہے۔۔ اسی طرح روح کو روحانی غذا (اللہ کا ذکر) نہ ملے تو بیمار ہو جاتی ہے، معالجے کیلئے شیخِ کامل کی ضرورت ہوتی ہے، جو اسکا علاج بھی روحانی دوا(قلبی توجہ اوراللہ کا ذکر) سے کرتا ہے۔۔ بدن کو مسلسل بھوکا رکھا جائے تو مر جاتا ہے، اسی طرح روح کو مسلسل پیاسا رکھا جائے تو یہ بھی مر جاتی ہے اور انسان ایک چلتی پھرتی لاش ہوتا ہے۔۔ ایک حدیث مبارکہ یاد آگئی مجھےجسکا مفہوم ہے:" اللہ کا ذکر کرنے والے کی مثال زندہ اور نہ کرنے والے کی مثال مردہ کی سی ہے"۔۔ یہاں روح کی حیات و موت کا ذکر ہے۔۔انسانی فکر کا نام ضمیر ہے۔۔ اسکا تعلق نفس اور روح دونوں سے ہے۔۔ نفسانی خواہشات بڑھ جائیں یا روح بیمار ہو جائے تو ایسے شخص کی فکر بھی مر جاتی ہے، اور اسے مردہ ضمیر والا کہا جاتا ہے۔۔ضمیر کو زندہ کرنے کیلئے نفس کو دبانا پڑتا ہے اور روح کو جگانا پڑتا ہے۔۔ روح کی نگہداشت کرنے اور اسے صحت مند رکھنے کے شعبے کو تصوف کہا جاتا ہے۔۔جس طرح روح کے بغیر بدن بیکار ہے، اسی طرح تزکیہ ، تصوف اور اخلاص کے بغیر عقائد اور عبادات بے معنی ہیں۔۔!!
مجھے آپکی نیند کا خیال نہ ہوتا تو میں آپکو بتاتا کہ اس میں کتنی زیادہ مزید تفصیل ہے اور اس سے عذاب و ثواب ِ قبر، حشر میں دوبارہ اٹھایا جانا، اور معراج النبی ﷺ جیسے واقعات کیسے آسانی سے سمجھ آتے ہیں۔۔ مگر ہمارا موضوع تصوف تک محدود ہے۔۔آپکو اگر یہ لیکچر اچھی طرح سمجھ آ جائے تو آئندہ نشست میں روح کے اجزاء، لطائف، اور نفس کی اقسام سمجھنے میں بہت سہولت ہو گی، لہذا میرا مشورہ ہے کہ ایک بار اسے دہرا لیں، جس نے نہیں دہرایا، وہ بیٹھا رہےاور باقی طلباء چھٹی کریں۔۔ مگر رکیں، باہر بنچ پر آپکے خیالات کی گٹھڑی رکھی ہے، اپنے ساتھ لے جانا مت بھولئے گا۔۔ اللہ دے حوالے۔۔!!
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔