تصوف - 7-1--(الجھن سے سلجھن تک)
::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
1۔ بنتِ انصاف پوچھتی ہیں : آپ نے کہا:" حتیٰ کہ آپ وہاں پہنچ جائیں جہاں آپکی روح سے پوچھا گیا تھا، 'الست بربکم' پوچھنے والی ذات اللہ کریم کی تھی کہ بتاؤ، کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ آپکی طرف سے جواب آیا: 'بلیٰ'۔۔ بالکل ہیں،، صرف یہی نہیں بلکہ، 'شھدنا'۔۔ ہم گواہی دیتے ہیں۔"۔۔۔ سر مجھے یہ بات بہت عجیب لگتی ہے۔۔مجھے یاد بھی تو نہیں ہے ناں۔۔ پھر اس پہ کیسے ایمان لے آؤں؟
جواب: دو طریقے ہیں ایمان لانے کے۔۔ 1. جو کچھ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور قرآن آپکو دیا ہے ان پر من و عن یقین رکھیں کہ ضرور ایسا ہی ہے، چاہے سمجھ آئے یا نہ آئے۔۔ 2. کسی اللہ والے کی صحبت میں اپنی روح و قلب کو شفاف آئینہ بنا لیں۔۔ پھر اللہ کریم سے دعا کریں کہ وہ آپکو ماضی کا وہ لمحہ دکھا دے۔۔ اسکی مرضی ہو گی تو دکھا دے گا۔۔یوم الست کو ایک سبق دیا گیا تھا انسان کو،، ضروری نہیں ہوتا کہ کمرہ امتحان میں ہمیں وہ سبق من و عن یاد بھی رہے۔۔ امتحان ختم ہو گا تو کتاب کھول کر تسلی کر لیجئے گا۔۔
دوبارہ سوال ہوا: کیا آپکو یاد ہے وہ لمحہ؟ اگر آپ نے دیکھ لیا ہے تو میں بھی کوشش کروں پھر؟
جواب: میں پہلے طریقے پر راضی ہوں اور مطمئن ہوں۔۔ اس مقصد کیلئے کوشش کرنا غیراللہ کی طرف کوشش کرنا ہے۔۔ تصوف صرف رضائے الہٰی کی راہ ہے ۔۔ وہ اس راہ میں کیا انعام دیتا ہے، کیا نہیں دیتا، یہ اسکی مرضی۔۔ مگر انعام کیلئے جدوجہد کرنا ذات کی طرف سفر کرنے سے بھٹکا دیتا ہے۔۔!
2۔ خواجہ طاہر محمود صاحب جاننا چاہتے ہیں کہ کیا روح کی بھی بلوغت ہوتی ہے؟ روح بچپن میں کیسی ہوتی ہے اور بڑھاپے میں کیسی؟ بدن چھوڑنے کے بعد روح کا ٹھکانہ کیا ہوتا ہے؟ کیا اہل اللہ کی روحیں متعلقین سے رابطے میں رہتی ہیں؟
جواب: روح پیدائشی طور پر بالغ ہے اور ہمیشہ کیلئے بالغ ہے۔۔ بدن کو یہ عارضی طور پر چھوڑتی ہے پھر لوٹائی جاتی ہے۔۔ بنیادی طور پر یہ سمجھ لیں کہ اسکے ٹھکانے کو یا تو علیین میں ڈھال دیا جاتا ہے یا سجیین میں۔۔ یہ اللہ کی مرضی ہے کہ کسی اہل اللہ کی روح کو وہ کسی سے رابطے کی اجازت دیتا ہے یا نہیں۔۔ بالفرض اگر دیتا بھی ہے تو اسکے متعلقین میں روحانی قوت ہونی چاہئے۔۔!
3۔ ناصر شاہ پوچھ رہے ہیں: اہلِ تصوف حضرات سے مدد مانگنا وہ بھی ان کی غیر موجودگی میں اور پھر مدد کا ملنا۔۔ ہو سکتا ہے؟
جواب:آپ اپنے بھائی کو کہیں کہ میرا فلاں کام فلاں دفتر میں اٹکا ہوا ہے، تم نکلوا دو۔۔ کیا اسے آپ غیر اللہ سے مدد مانگنا کہہ سکتے ہیں؟؟روحانی تربیت کے بعد کسی شخص کی روح میں منجانب اللہ یہ قوت آ جائے کہ آپ دور بیٹھے بندے سے کچھ ڈسکس کر لیں، تو یہ ممکن ہے۔۔ روح ایک باشعور جنس ہے اور یومِ الست کو اسی نے ہی خلافت کو قبول کرنے کا اقرار کیا تھا۔۔ یہ ایک اضافی اور ذیلی چیز ہے جو راہِ تصوف میں حاصل ہو بھی سکتی ہے اور نہیں بھی۔۔ لیکن یہ تصوف کا حاصل، نتیجہ یا مقصد نہیں ہے۔۔ مقصد خلوصِ نیت سے شریعتِ محمدی ﷺ کو اپنا کر اللہ پاک کی رضا حاصل کرنا ہے۔۔ اب یہ اللہ کی مرضی کہ وہ اپنے بندے کو دنیا میں کچھ دے دے یہ دکھا دے۔۔ ان کمالات پر بھروسہ کر کے بیٹھ رہنا یا انکی جستجو کرنا تصوف نہیں ہے۔۔!
4۔ اےبی اعوان کہتے ہیں: سر اسی دل کا ایک فنکشن ھے تجلیاتی لہریں پیدا کرنا جن میں خیالات بدلنے کی اور اپنی سوچ کو ھزاروں میل دور بیٹھے شخص کو بغیر بات چیت کے پہنچانا۔ فرض کریں ھمارا جسم لطیف کام کرنا چھوڑ چکا ھے اور جسد خاکی بھی کسی کام کا نہیں رھا لیکن باوجود اسکے پھر بھی تجلیاتی لہریں کام کر رھی ھیں ان لہروں کے ایفکٹس ایک ایسے شخص پر کام کر رھے ھیں جسے ھم جانتے تک نہیں. یہ کیسے ممکن ھے؟
جواب: خیالات بدلنا تصوف کا نہیں مسمرزم اور ہیپناٹزم کا فنکشن ہے۔۔ جسمِ لطیف کام نہیں چھوڑتا۔۔ اسکی موت سے مراد ظلمت اور سیاہی کا انتہا درجے میں پیدا ہونا ہے اور زندگی سے مراد نورانیت کی وافر مقدار کا ہونا ہے۔۔ نور ہو یا ظلمت، ماحول کو کسی حد تک متاثر ضرور کرتی ہے۔۔ کبوتر بازوں کے ساتھ بیٹھنا شروع کر دیں تو چند دن بعد آپکو بھی کبوتر بازی کی لت لگ جائیگی۔۔ اللہ والوں کی محفل میں بیٹھیں تو دل اللہ کی طرف مائل ہو گا۔۔!
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔