- پہلا:
جب ناقدین سے کہا جائے کہ "قرآن و سنت کو سمجھ کر احکامات اخذ (یعنی "خدا کی رضا" معلوم) کرنے کے لئے اگر یونانیوں کے وضع کردہ طرق استنباط سیکھنا سکھانا اور استعمال کرنا جائز ہے، جب کہ سنت نبوی میں انکی تعلیم کا کوئی بھی ذکر نہیں ملتا، تو صوفیاء حضورِ قلبی و نفس کی صفائی کے لئے اگر کچھ اشغال و ظروف وضع کرلیں تو اس میں مسئلہ کیا ہے"
تو اسکے جواب میں کہا جاتا ہے کہ اصول فقہ وغیرہ شرعاً اصلا مطلوب نہیں۔
تو بھائی یہ کیوں خود سے فرض کرلیا گیا ہے کہ صوفیاء کے اشغال "اصلاً شرعاً مطلوب" ہیں؟
- دوسرا:
پھر کہا جانے لگتا ہے کہ اگر یہ اصلاً شرعاً مطلوب نہیں، تو صوفیاء کے سلسلے ان پر اصرار کیوں کرتے ہیں؟ نیز اپنے مریدوں کو انہی کی تعلیم کیوں دیتے ہیں؟
تو بھائی ذرا یہ تو بتائیں کہ اگر اصول فقہ اصلاً مطلوب نہیں، تو اہل مدارس سالہا سال تک تمام شاگردوں کو انہیں سکھانے کا اہتمام کیوں کرتے ہیں؟ یہاں تک کہ جو اسکا امتحان پاس نہ کرے وہ فیل قرار دیا جاتا ہے؟ اگر اس معاملے میں اہل فقہ کا "اصلاً غیر مطلوب" شے پر اس شدت سے اصرار کرنا جائز ہے تو صوفیاء کے اصرار میں کیا خرابی ہے؟
- تیسرا:
کیا براہِ راست قرآن و سنت ان مقاصد کے حصول کے لئے کافی نہیں؟
تو بھائی کیا خود قرآن و سنت احکامات (خدا کا منشا کیا ہے) بتانے کے لئے کافی نہیں کہ اس کے لئے ایسے پیچیدہ عقلی قواعد سیکھنے پڑیں؟
اصل بات اتنی سی ہے کہ اہلِ فقہ کے خیال میں "ان عقلی اصولوں کے ذریعے" عقل کو جِلا بخشنے سے کتاب اللہ و سنت سے خدا کی رضا سمجھنے (یعنی "عرفان الہی") میں مدد ملتی ہے۔ جبکہ صوفیاء کا خیال یہ ہے کہ "حضورِ قلبی کو قائم رکھنے والے ان اصولوں کے ذریعے" قلب کو جِلا بخشنے سے خدا کی طرف لَو لگانے (یعنی "عرفان الہی") میں مدد ملتی ہے۔ آخر وہ کونسی منطق ہے جسکے ذریعے اول الذکر تو جائز مگر مؤخر الذکر ناجائز ٹھرتا ہے؟ ہر گروہ نے جس شے کو کارآمد پایا اسکی اپنے شاگردوں کو تعلیم دی اور اسی پر اصرار کیا۔
(زاہد مغل)
(زاہد مغل)
-------------------------------------------
کمنٹس
صفتین خان: اصل اعتراض کھا گئے ۔۔ فلسفہ تصوف پر اعتراض ھے ۔۔۔ اور عملیات پر بھی اسی لئے کہ وہ اس فلسفہ کو مقصد بنا کر کی جاتی ھیں۔
زاہد مغل: فلسفہ تصوف پر ایسا کوئی بامعنی اعتراض نھیں جو لائق توجہ ھو۔
درحقیقت ناقدین تصوف کسی ایک مقام پر کھڑے ھی نھیں ھوتے۔ پھلے کھیں گے کہ اسکے ظروف و اشغال بدعت ھیں، جب اسکا جواب دے دیا جائے تو کھیں گے اسکے ذریعے گمراھیاں پھیلیں، جب اسکا جواب دے دیا جائے تو کوئی نئی بات۔ الغرض مخالفت برائے مخالفت۔
صفتین خان: جناب میں ابتدا سے ایک ھی مقام پر کھڑا ھوں ۔۔۔ مضبوط ۔۔۔ آپ تسلی بخش جواب تو دیں مان جاؤں گا۔۔
زاہد مغل: آپ اپنا اعتراض بتائیں۔
صفتین خان: فلسفہ تصوف کے تحت جو زد اسلامی علم کلام پر پڑتی ھے بشمول عقائد کے اس کی کیا توجیہہ ہے؟
زاہد مغل: یہ واضح کریں کہ "فلسفہ تصوف" سے آپ کیا مراد لے رہے ھیں؟ کیونکہ عین ممکن ہے کہ جسے میں فرض کرکے جواب دوں وہ تصور آپ کے ذہن میں ہو ہی نہیں۔
صفتین خان: جی تفصیل کیا عرض کروں آپ سمجھ گئے ھوں گے ۔۔ توحید ، رسالت اور آخرت کا تصور سمجھا دیں تصوف کے فلسفہ کے تحت ۔۔۔ مہربانی ھو گی۔
زاہد مغل: گویا آپ یہ کہنا چاہ رہے ھیں کہ تصوف توحید، رسالت و آخرت کی نفی کا نام ہے؟
میں آپ کے سوال کو پہلے واضح طور پر سمجھنا چاہ رہا ہوں (گو کہ مجھے شک ہے کہ آپ غامدی صاحب کے مضمون کے تناظر میں گفتگو کررھے ھیں جو کہ میری نظر میں اغلاط کا مجموعہ ہے)
صفتین خان: جی ہاں ۔۔ جو صورت قرآن و سنت میں بیان ھوئی ھے، فلسفۂ تصوف اس پر اضافہ کرتا ھے ۔۔۔ اس میں تبدیلی کرتا ھے ۔۔۔ اس کو کمتر درجہ کا بیان کرتا ھے ۔
زاہد مغل: ایک بات بتائیں، اگر متکلمین کے گروہ میں سے کوئی عقیدہء جبر کے ذریعے خدا کے عدل کے تصور کا مذاق بنا دے تو کیا یہ علم الکلام کی غلطی تصور ھوگی یا اس مخصوص شخص کی جس نے یہ استدلال کیا؟
اسی طرح اگر کوئی شخص اصول فقہ کے ذریعے الٹے سیدھے اجتہاد کرتا پھرے تو یہ اصول فقہ کی غلطی ھوگی، اجتہاد کی یا اس شخص کی؟
صفتین خان: جی اگر صوفیا کے گروہ میں سے کوئی ایسی بات کرتا تو آپ کی دلیل مان لیتے مگر یہاں ہر بڑا صوفی وہی فلسفہ لے کے بیٹھا ھے ۔۔ اس صورت میں یہ فکر پورے گروہ کی نمائندگی کہلائے گا کسی ایک شخص کی نہیں۔۔۔
زاہد مغل: یہ تو نرا الزام ھے۔۔ بھائی میرے اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ تصوف سرے سے عقائد کا ماخذ ھے ھی نھیں۔ عقیدہ قرآن و سنت سے ثابت ھوتا ھے۔ اگر کوئی قرآن و سنت کے خلاف کوئی تصور رکھتا ھے تو چاھے صوفی ھو، متکلم یا اصولی، سب کی بات کو یکسر مسترد کردیا جاتا ھے
جس طرح علم الکلام کسی ایک اکائی کا نام نھیں بلکہ اسے استعمال میں لاکر عقیدے کی تشریح کرنے والے متعدد افراد و گروہ ھیں بعینہہ تصوف کا حال ھے۔ غامدی صاحب کے مضمون کو میں اسی لئے اغلاط کا مجموعہ سمجھتا ھوں کہ وہ اس قدر معمولی بات سمجھنے سے قاصر رھے۔
صفتین خان: جناب بات ایک شخص کی ھو ھی نہیں رھی بلکہ وہ کتابیں جو بڑے بڑے صوفیا نے تحریر کیں اور فلسفہ بیان کیا سب ایک کہانی سنا رھی ھیں ۔۔ یہ الزام نہیں حقیقت ھے ۔۔۔ اور اگر ایسا ھے تو پھر برات کا اعلان کریں ان کتابوں اور صوفیا سے ۔۔۔مجھے نہیں معلوم تھا کہ امام غزالی ، ابن عربی ، بایزید بسطامی ، شاہ ولی اللہ ، شاہ اسماعیل ، شیخ سرہندی اور ابو طالب مکی مستند صوفیا میں شامل نہیں ۔۔۔
تصوف کے اس فلسفہ کو اگر نہ دلیلیں فراہم کی جائیں تو تصوف پر کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا ۔۔۔ یہ عمل کی اصل روح تک پہنچنے کی کوشش ھے مگر اس کو حد میں رھنا چاھئے ۔۔۔
تصوف کی امہات کتب میں سے مثال کے طور پر ابو طالب مکی کی ’’قوت القلوب‘‘ ، ابو اسمٰعیل ہروی کی ’’منازل السائرین‘‘ اور غزالی کی ’’احیاء علوم الدین‘‘ کا ایک بڑا حصہ اِنھی مباحث کے لیے خاص ہے ۔
زاہد مغل: ابن عربی و غزالی کی باتوں میں ایسا کیا ھے جس پر آپ کو اعتراض ھے؟ آپ نے ایک مضمون پڑھ کر ذھن بنا لیا مگر کیا ان کتب کی طرف رجوع کرنے کی کوشش کی جو ان خیالات کا درست محل بتاتی ھیں؟
صفتین خان: جی میں نے مضمون پڑھ کر ذہن نہیں بنایا ان کی کتابوں کو پڑھ کر کہہ رھا ھوں ۔۔
زاہد مغل: میں تو سمجھا تو کوئی بہت بڑا توپ اعتراض پیش کرنے والے ھیں، اور شاید اچھوتا۔
صفتین خان: آپ اس اعتراض کا جواب دے دیں توپ کو چھوڑیں۔۔ توپ اعتراض تو آپ کے ہوتے ھیں۔
زاہد مغل: بھائی آپ کے "اصولی اعتراض" کے بارے میں جو اوپر چند سطریں لکھ دیں وھی کافی و اصولی جواب ہے۔ اس کے بعد تو صرف چند جزئیات پر بحث رہ جاتی ھے کہ انکے معنی و تاویل کیا ھے۔
صفتین خان: آپ کا جواب تضادات کا مجموعہ اور اس بات کا ثبوت ھے کہ آپ کو خود نہیں معلوم کہ دفاعی لائن کیا ہونی چاہئے۔۔۔ پہلے آپ نے اس کو کسی جاھل صوفی کی اختراع قرار دینا چاھا۔۔ پھر اسکا محل واضح کرنا چاھا ۔۔۔ بات نہیں بنی ۔
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔