میں آج عمران خان صاحب کانہایت مشکور ہوں،، آپ اسے بھی بروکن نیوز ہی سمجھ لیجئے۔۔ وجہ یہ ہے کہ اِن ڈائرکٹلی خان صب کے فقہ و تصوف پر بہت احسانات ہیں۔۔ اب آپ کہیں گے کہ خان صب تو لبرل مسلمان ہیں،، انہیں ان مشکلات سے کیا لینا دینا؟۔۔ مگر میرا موقف جُدا ہے۔۔میں اس پر بحث نہیں کرنا چاہتا کہ دھرنے کے ملک پر کیا اثرات تھے اور کس نے کیا کھویا ، کیا پایا۔۔ میں صرف یہ جانتا ہوں کہ اگر دھرنا نہ ہوتا تو آج مجھے سوشل میڈیا پر آپ جیسے پیارے دوست کیونکر میسر آتے؟ اسی دھرنے کی ' برکت' سے جہاں بہت سے انتہائی گرانقدر اہلِ علم و فضل سے سابقہ پڑا، وہاں کچھ ایسے چہرے بھی سامنے آئے جن کا کام مختلف حیلوں سے احکاماتِ شرعیہ میں ابہام پیدا کرنا تھا۔۔ ہم تک جن ذرائع سے دینِ اسلام پہنچا ہے، انکا نہ صرف صریح انکار بلکہ اتقیاء کی تذلیل کی روش جاری تھی۔۔تصوفِ اسلامی پر بے بنیاد اعتراضات کرکے اسے دانستہ طور پر ہندوازم سے جوڑنے اور اُمت کے صلحاء کو بے وقوف ثابت کرنے کا پروپیگنڈہ عروج پر تھا۔۔ آپ یہاں رُک کر ایک لمبا سانس لیں تو میں آپکو بتاؤں کہ ابھی ایک دوست نے مجھے میسج کیا ہے کہ: " قاری صاحب تصوف پر جو اعتراضات آج کررہے ہیں،، یہ پچھلے سال اِسی موسم میں پہلے ہی کرچکے ہیں۔۔تب چونکہ قاری صب اس میدان کے اکیلے' شہسوار' تھے، تو ان کے بےسروپا اسٹیٹس پڑھ کر میں تصوفِ اسلامی سے متنفر ہو چکا تھا۔۔ اور کئی لوگ انکی دیوارِ فتنہ پر بیٹھ کر صوفیاء اور تصوف کو اعلانیہ گالیاں دیا کرتے تھے"۔۔۔۔۔۔
مگر اب الحمدللہ ایسا نہیں ہے۔۔ دھرنے کے بعد سوشل میڈیا پر جہاں فقۂ اسلامی پر قاری صب کے 'جدید دلائل' کا احسن علمی رد موجود ہے ،وہاں بہت سی معتدل ہستیاں شعبۂ تصوف پر اعتراضات کا شافی جواب دے رہی ہیں، جن میں ڈاکٹر طفیل ہاشمی صب، جناب زاہد مغل صب، جناب فیصل شہزاد صب اور دیگر کئی احباب شامل ہیں،، اور مزے کی بات یہ کہ ان ساتھیوں سے بات کرتے ہوئے موصوف کتراتے ہیں کہ کہیں تائب نہ ہونا پڑے۔۔ ;)
قاری صب کی وال پر کمنٹ کرنے کا میرا صرف ایک مقصد ہوتاہےکہ جو لوگ لاعلمی میں ان کی باتوں کے قائل ہو جاتے ہیں،، انکو گمراہی سے بچایا جائے۔۔( پلیز مجھے بلاک نہ کیجئے گا قاری صب :( )۔۔ اب بھی دوستوں کی وال پر، میری وال پر اور قاری صب کی وال پرہمارے کئی سوالات افطاری کے انتظار میں سوکھ رہے ہیں،، مگر ان منطقی سوالات کا جواب دینا موصوف کے بس میں نہیں۔۔ الحمدللہ۔
آپکی ایک اور کج فہمی کا ازالہ بھی کردوں۔۔ واللہ فی الحقیقت میں قاری صب کو خود سے کہیں زیادہ بہتر، علمی و عملی مسلمان جانتا ہوں۔۔ بلکہ سچی بات ہے کہ میں علم و عمل کے میدان میں چٹا سیاہ بھگوڑا ہوں۔۔ ردِ الحاد، محبتِ الہٰی، عقیدتِ رسولؐ پر قاری صب کی تحاریر اکسیر کا درجہ رکھتی ہیں۔۔ اسی طرح دیگر کئی معاشرتی مسائل (خصوصاً خواتین کے فضائل ;) ) پر انکے فرمودات کی اہمیت کا انکار کرنا ممکن نہیں۔۔ نیز انکے حلم و اخلاق کا اقرار نہ کرنا بھی خیانت ہوگا۔۔ مگر فقہ اور تصوف کے باریک مسائل پر ان کا علم و 'اجتہاد' اُس قدر گہرا نہیں کہ ان پر اعتماد کیا جا سکے۔۔یہی وجہ ہے کہ جو سنجیدہ لوگ مستقلاً قاری صب کی پوسٹس پڑھتے ہیں وہ آہستہ آہستہ انکو چھوڑتے جا رہے ہیں۔۔!
نوٹ : کوئی بات رہ گئی ہو تو آپ کمنٹ میں بتا سکتے ہیں، بشرطیکہ دامنِ تہذیب کو کَس کے پکڑے رکھیں۔۔!!
(گستاخیاں از: محمد نعمان بخاری)
--------------------------------------------
کمنٹس
ــــــــــــ
فرنود عالم: میرا خیال ہے قاری صیب کی باتوں کو بے سروپا کہنا اور ان کی بات کو سننے والوں پہ گمراہی کا خدشہ ظاہر کرنا قطعا درست نہیں ہے.
کیونکہ صوفیا کا ڈسکورس ریکارڈ کا حصہ ہے جو خود آپ کیلئے بهی شاید قابل ہضم نہ ہو. ابن عربی کے چند اقتباسات تو نہایت جان لیوا ہیں. قریب قریب رسالت مآب کو چهوتے ہوئے دکهائی دیتے ہیں. شہاب زہری کے فرمودات کو ہضم کرنے کیلئے غیر معمولی ہاضمہ چاہیئے. پهر یہ ہے کہ امام غزالی کے تصور توحید کو تو امام ابن تیمیہ اور ابن قیم پوری شدت سے مسترد کر چکے ہیں. ہوسکتا ہے ابن جوزیہ کا کہا غلط ہو مگر انہیں گمراہ تو نہیں کہا جا سکتا. ابن قیم کی بات کو بے سرو پا تو نہین کہا جا سکتا نا.
اچها آپ سب چهوڑیں شاہ اسماعیلؒ کو ہی پڑه لیں. مجهے ان کا معاملہ اور غلام احمد قادیانی کا معاملہ قریب قریب نظر آتا ہے کچه معاملات میں....... منصور حلاج کو منصور حلاج کو منصور حلاج کس چیز نے بنایا.؟ جنید بغدادیؒ کے اس ایک خط نے جو غلطی سے منصور کے ہاته لگ گیا. ہمیں سوچنا ہوگا کہ ان مشقون مین ایسے کیا تها کے منصور حلاج کہیں سے کہیں کا ہوگیا. آخر جنید بغدادیؒ حاکم وقت کے پوچهنے پر اپنے مقدمہ تصوف سے انکاری کیوں ہوئے؟ کوئی تو وجہ تهی کہ انہوں نے اپنا لکها اپنی گدی کے نیچے چهپایا.
خیر یہ لمبی بحث ہے جس سے گریز لازمی سمجهتا ہوں. اس گریز کی وجہ بتاتا ہوں
1.خدا کا حصول انسان کے ذاتی تجربات کا ایک حصہ ہے. جب ایک معاملے میں آپ اور خدا تنہائی میں ہوں تو اس وقت بیتنے والے تجربات ایک حقیقت ہوتے ہیں. علامی اقبال وحدت الوجود کے شدید ناقد تهے مگر خود آخر میں وہ اسی طرف چلے گئے.تو یہ هقیقت تو ہےمگر اس حقیقت کو پبلک کرنا شریعت کے ادارے کے ساته نا انصافی ہے. یہ تجربات آپ کے بهی ہون گے میرے ساته بهی ہوتے ہیں، مگر یہ سب جو کل رات آپ کے ساته ہوا اسے آپ ہی سمجه سکتے ہیں. یہ کسی اور کو سمجهانے کی کوشش کریں گے تو آپ شریعت کے متوازی ایک اور ادارے کو وجود میں آنے سے کبهی بهی نہیں روک سکتے. صوفیا کے تجربات بہت قیمتی ہیں، مگر ستم یہ ہوا کہ وہ تجربات پبلک ہوگئے. اب تصوف کے ادارے کے ساته جو ہوا ہے وہ کوئی تعجب خیز امر نہیں ہے. میں ملنگوں کی بات نہین کر رہا خود سنجیدہ خانقاہوں کے اندرونی ریاضات خاصی تسویشناک ہوچکی . میں پهر کہوں گا اہل تصوف پہ کوئی سوال نہیں، مگر اس ریاض میں وہ طبقہ شامل ہوگیا جسے شریعت کی شناخت تو تهی ہی نہین، تصوف سے بهی ناواقف تهے.
جو موقف اپ کا ہے اس کی میں حوصلہ افزائی کرتا ہوں. وجہ.؟
وجہ یہ ہے کہ صوفیا کے متنازعہ اور شریعت سے متصادم اصولوں سے آپ کو کوئی سروکار نہیں اور نہ ہی اسکا بیان کرتے ہیں . صرف تزکیئے اور تطہیر نفس کی طرف متوجہ کرتے ہیں. اگر ایسا ہے، تو پهر تصوف کے ناقدین کو حوصلے سے کام لینا چاہیئے. اگر کوئی تصوف کے معاملے میں کسی جادہ اعتدال پہ کهڑا ہے تو اسے ڈسٹرب نہیں کرنا چاہیئے.
باقی میں تو اس بودهست کا بهی احترام کرتا ہوں جو یوگا میں خدا کو ڈهوند رہا ہے. پهر یہ کیسے ممکن ہے کہ اہل تصوف کا بلا وجہ تعاقب کیا جائے. کچه بهی ہے، تلاس تو ایک خدا کی ہے.
میں تصوف کے بیشتر اصولوں کو نہیں مانتا، مگر تصوف کی حقیقت کو محسوس کرسکتا ہوں.تصوف کی مثال خوشبو جیسی ہے. اسے محسوس کر سکتے ہیں. بیان نہیں کرسکتے. بیان میں نقصان ہے.
نعمان بخاری: فرنود بھائی، میں نے آپکی آدھی تحریر پڑھی تو جواب دینے کیلئے قمیص کے کف چڑھا لئے۔۔ اور آخر تک پڑھ کر دوبارہ بٹن بند کر لئے۔۔ :) تاہم چند گزارشات کرنا ضروری سمجھتا ہوں تاکہ باقی احباب کے ابہام کلئر ہو سکیں۔۔
1۔ اہلِ علم کی تحقیق کے مطابق اگر مذکورہ بزرگان کی کتب میں موجود کوئی تصور شریعت کے متصادم ہے تو وہ اسے بلا جھجک رد کر دیں۔
2۔ عقائد اخد کرنے کا ماخذ قرآن و سنت ہے، تصوف نہیں، اور نہ ہی فقہ۔۔ پھر بھی فقہ کی اہمیت مسلم ہے، اسی طرح تصوف کی بھی۔
3۔ جن اہلِ علم علماء نے ابنِ عربی، امام غزالی، شاہ اسمٰعیل وغیرھما کو تمام فتوؤں کے باوجود شیوخ میں شامل سمجھا، ان کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔
4۔ تصوف عین شریعت پر عمل پیرا ہونے کا ہی ایک ٹول ہے جیسا کہ فقہ۔
5۔ یہ بات درست کہ صوفیاء کو اپنے مکاشفات پبلک نہیں کرنے چاہئیں، یہی قصور منصور حلاج کا تھا۔۔ اسکی بات اسکے مطابق درست تھی مگر عوامی طور پر جائز نہ تھی، کیونکہ وہ کیفیت تھی،، عقیدہ نہ تھا۔
6۔ وحدۃ الوجود یہ ہے کہ قائم بالذات صرف واحد ہے، اسکے بغیر سب نابود۔ اسکو غلط رنگ دیا گیا۔ بالاصل یہ خالق و مخلوق کے مابین تعلق کی نوعیت بیان کرنے سے عبارت ہے۔۔
7۔ لوگ فقہ سے بھی گمراہ ہو رہے ہیں چہ جائیکہ تصوف۔
8۔ تصوف کا مقصد دائرہ شریعت میں رہتے ہوئے نسبت ِباطنی ،نسبتِ مع اللہ ،معرفت الہیٰ، درجۂ احسان پانا اور رضاءالہیٰ کا حصول ہے۔ اس کے لئے ہرشرعی طریقہ جائز ہے چاہے وہ کسی ہندو سے مستعار لیا گیا ہو۔ جیسا کہ بدنی صحت کیلئے غیر مسلم طبی ماہرین سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔۔ اگر ارتکازِ توجہ کیلئے کسی سے سبق سیکھ کر اپنا مقصد حاصل کیا جائے تو حرج نہیں جیسا کہ اصول فقہ میں یونانی طرزِ استدلال درست ہے۔
9۔ میرا ذاتی واسطہ اس سلسلے سے ہے جس میں نہ کوئی شے شریعت سے متصادم سکھائی جاتی ہے اور نہ کسی ایسے کشف کو مانا جاتا ہے جو شریعت کے منافی ہو۔
10۔ قاری صب کی اس موضوع پر باتیں بےسروپا ہیں کیونکہ وہ دانستہ طور پر ہندوؤں کے تپسیا و ریاضات کو تصوف کا نام دے کر عوام کو بہکا رہے ہیں۔۔
جیتے رہیں۔۔ :)
اللہ کا فقیر: توجہ اور ارتکاز بذات خود نماز کا خاصہ اور محاصل ہیں، اس کیلئے کہیں اور جھانکنے کی کیا ضرورت ہے؟
نعمان بخاری: پچانوے فیصد وہ لوگ ہیں جو برسہا برس سے نمازیں پڑھ رہے ہیں مگر توجہ حاصل نہیں،، وساوس میں گھرے رہتے ہیں۔۔ انکا شافی علاج تصوف کرتا ہے۔
--------------------------------------------
کمنٹس
ــــــــــــ
فرنود عالم: میرا خیال ہے قاری صیب کی باتوں کو بے سروپا کہنا اور ان کی بات کو سننے والوں پہ گمراہی کا خدشہ ظاہر کرنا قطعا درست نہیں ہے.
کیونکہ صوفیا کا ڈسکورس ریکارڈ کا حصہ ہے جو خود آپ کیلئے بهی شاید قابل ہضم نہ ہو. ابن عربی کے چند اقتباسات تو نہایت جان لیوا ہیں. قریب قریب رسالت مآب کو چهوتے ہوئے دکهائی دیتے ہیں. شہاب زہری کے فرمودات کو ہضم کرنے کیلئے غیر معمولی ہاضمہ چاہیئے. پهر یہ ہے کہ امام غزالی کے تصور توحید کو تو امام ابن تیمیہ اور ابن قیم پوری شدت سے مسترد کر چکے ہیں. ہوسکتا ہے ابن جوزیہ کا کہا غلط ہو مگر انہیں گمراہ تو نہیں کہا جا سکتا. ابن قیم کی بات کو بے سرو پا تو نہین کہا جا سکتا نا.
اچها آپ سب چهوڑیں شاہ اسماعیلؒ کو ہی پڑه لیں. مجهے ان کا معاملہ اور غلام احمد قادیانی کا معاملہ قریب قریب نظر آتا ہے کچه معاملات میں....... منصور حلاج کو منصور حلاج کو منصور حلاج کس چیز نے بنایا.؟ جنید بغدادیؒ کے اس ایک خط نے جو غلطی سے منصور کے ہاته لگ گیا. ہمیں سوچنا ہوگا کہ ان مشقون مین ایسے کیا تها کے منصور حلاج کہیں سے کہیں کا ہوگیا. آخر جنید بغدادیؒ حاکم وقت کے پوچهنے پر اپنے مقدمہ تصوف سے انکاری کیوں ہوئے؟ کوئی تو وجہ تهی کہ انہوں نے اپنا لکها اپنی گدی کے نیچے چهپایا.
خیر یہ لمبی بحث ہے جس سے گریز لازمی سمجهتا ہوں. اس گریز کی وجہ بتاتا ہوں
1.خدا کا حصول انسان کے ذاتی تجربات کا ایک حصہ ہے. جب ایک معاملے میں آپ اور خدا تنہائی میں ہوں تو اس وقت بیتنے والے تجربات ایک حقیقت ہوتے ہیں. علامی اقبال وحدت الوجود کے شدید ناقد تهے مگر خود آخر میں وہ اسی طرف چلے گئے.تو یہ هقیقت تو ہےمگر اس حقیقت کو پبلک کرنا شریعت کے ادارے کے ساته نا انصافی ہے. یہ تجربات آپ کے بهی ہون گے میرے ساته بهی ہوتے ہیں، مگر یہ سب جو کل رات آپ کے ساته ہوا اسے آپ ہی سمجه سکتے ہیں. یہ کسی اور کو سمجهانے کی کوشش کریں گے تو آپ شریعت کے متوازی ایک اور ادارے کو وجود میں آنے سے کبهی بهی نہیں روک سکتے. صوفیا کے تجربات بہت قیمتی ہیں، مگر ستم یہ ہوا کہ وہ تجربات پبلک ہوگئے. اب تصوف کے ادارے کے ساته جو ہوا ہے وہ کوئی تعجب خیز امر نہیں ہے. میں ملنگوں کی بات نہین کر رہا خود سنجیدہ خانقاہوں کے اندرونی ریاضات خاصی تسویشناک ہوچکی . میں پهر کہوں گا اہل تصوف پہ کوئی سوال نہیں، مگر اس ریاض میں وہ طبقہ شامل ہوگیا جسے شریعت کی شناخت تو تهی ہی نہین، تصوف سے بهی ناواقف تهے.
جو موقف اپ کا ہے اس کی میں حوصلہ افزائی کرتا ہوں. وجہ.؟
وجہ یہ ہے کہ صوفیا کے متنازعہ اور شریعت سے متصادم اصولوں سے آپ کو کوئی سروکار نہیں اور نہ ہی اسکا بیان کرتے ہیں . صرف تزکیئے اور تطہیر نفس کی طرف متوجہ کرتے ہیں. اگر ایسا ہے، تو پهر تصوف کے ناقدین کو حوصلے سے کام لینا چاہیئے. اگر کوئی تصوف کے معاملے میں کسی جادہ اعتدال پہ کهڑا ہے تو اسے ڈسٹرب نہیں کرنا چاہیئے.
باقی میں تو اس بودهست کا بهی احترام کرتا ہوں جو یوگا میں خدا کو ڈهوند رہا ہے. پهر یہ کیسے ممکن ہے کہ اہل تصوف کا بلا وجہ تعاقب کیا جائے. کچه بهی ہے، تلاس تو ایک خدا کی ہے.
میں تصوف کے بیشتر اصولوں کو نہیں مانتا، مگر تصوف کی حقیقت کو محسوس کرسکتا ہوں.تصوف کی مثال خوشبو جیسی ہے. اسے محسوس کر سکتے ہیں. بیان نہیں کرسکتے. بیان میں نقصان ہے.
نعمان بخاری: فرنود بھائی، میں نے آپکی آدھی تحریر پڑھی تو جواب دینے کیلئے قمیص کے کف چڑھا لئے۔۔ اور آخر تک پڑھ کر دوبارہ بٹن بند کر لئے۔۔ :) تاہم چند گزارشات کرنا ضروری سمجھتا ہوں تاکہ باقی احباب کے ابہام کلئر ہو سکیں۔۔
1۔ اہلِ علم کی تحقیق کے مطابق اگر مذکورہ بزرگان کی کتب میں موجود کوئی تصور شریعت کے متصادم ہے تو وہ اسے بلا جھجک رد کر دیں۔
2۔ عقائد اخد کرنے کا ماخذ قرآن و سنت ہے، تصوف نہیں، اور نہ ہی فقہ۔۔ پھر بھی فقہ کی اہمیت مسلم ہے، اسی طرح تصوف کی بھی۔
3۔ جن اہلِ علم علماء نے ابنِ عربی، امام غزالی، شاہ اسمٰعیل وغیرھما کو تمام فتوؤں کے باوجود شیوخ میں شامل سمجھا، ان کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔
4۔ تصوف عین شریعت پر عمل پیرا ہونے کا ہی ایک ٹول ہے جیسا کہ فقہ۔
5۔ یہ بات درست کہ صوفیاء کو اپنے مکاشفات پبلک نہیں کرنے چاہئیں، یہی قصور منصور حلاج کا تھا۔۔ اسکی بات اسکے مطابق درست تھی مگر عوامی طور پر جائز نہ تھی، کیونکہ وہ کیفیت تھی،، عقیدہ نہ تھا۔
6۔ وحدۃ الوجود یہ ہے کہ قائم بالذات صرف واحد ہے، اسکے بغیر سب نابود۔ اسکو غلط رنگ دیا گیا۔ بالاصل یہ خالق و مخلوق کے مابین تعلق کی نوعیت بیان کرنے سے عبارت ہے۔۔
7۔ لوگ فقہ سے بھی گمراہ ہو رہے ہیں چہ جائیکہ تصوف۔
8۔ تصوف کا مقصد دائرہ شریعت میں رہتے ہوئے نسبت ِباطنی ،نسبتِ مع اللہ ،معرفت الہیٰ، درجۂ احسان پانا اور رضاءالہیٰ کا حصول ہے۔ اس کے لئے ہرشرعی طریقہ جائز ہے چاہے وہ کسی ہندو سے مستعار لیا گیا ہو۔ جیسا کہ بدنی صحت کیلئے غیر مسلم طبی ماہرین سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔۔ اگر ارتکازِ توجہ کیلئے کسی سے سبق سیکھ کر اپنا مقصد حاصل کیا جائے تو حرج نہیں جیسا کہ اصول فقہ میں یونانی طرزِ استدلال درست ہے۔
9۔ میرا ذاتی واسطہ اس سلسلے سے ہے جس میں نہ کوئی شے شریعت سے متصادم سکھائی جاتی ہے اور نہ کسی ایسے کشف کو مانا جاتا ہے جو شریعت کے منافی ہو۔
10۔ قاری صب کی اس موضوع پر باتیں بےسروپا ہیں کیونکہ وہ دانستہ طور پر ہندوؤں کے تپسیا و ریاضات کو تصوف کا نام دے کر عوام کو بہکا رہے ہیں۔۔
جیتے رہیں۔۔ :)
اللہ کا فقیر: توجہ اور ارتکاز بذات خود نماز کا خاصہ اور محاصل ہیں، اس کیلئے کہیں اور جھانکنے کی کیا ضرورت ہے؟
نعمان بخاری: پچانوے فیصد وہ لوگ ہیں جو برسہا برس سے نمازیں پڑھ رہے ہیں مگر توجہ حاصل نہیں،، وساوس میں گھرے رہتے ہیں۔۔ انکا شافی علاج تصوف کرتا ہے۔
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔