ناقدینِ تصوف کا کہنا یہ بھی ہے کہ اس کی کوئی ایک جامع اور مانع تعریف نہیں۔
تو صاحب!
پھر علم تفسیر، حدیث، فقہ وغیرہ کسی کی بھی کوئی ایک جامع اور مانع تعریف ہے جس پر اُس علم کے کبار حاملین کا اتفاق ہو۔
یا
پھر زبانِ رسالت مآب ﷺ سے ان کی اصطلاحی تعریفات منقول ہوں۔۔
تو پھر اپنے اس اصول پر ان سب کو بھی چلتا کیجیے۔۔۔۔
صاحب! اگر لفظِ تصوف کو اِس کی اصطلاحی تعریف کے ساتھ عہد نبوت میں نہ پا کر انکار کرنا درست ہے، تو پھر علوم کے تدوینی دور میں ہوئی ساری علمی کاوش (تفسیر حدیث ۔۔۔) پر بھی پوری Intellectual Honesty کے ساتھ موٹے نب والا قلم پھیر ڈالیو۔
(اشتیاق احمد)ٰ
تصوف ایک ایسی اصطلاح ہے کہ جس کی بنیاد وحی الٰہی ہے۔وحی الٰہی کا بنیادی مقصد تزکیہ نفس و تصفیہ اخلاف ہے۔اسی تزکیہ نفس کے بارے میں وحی قرآن مجید میں ارشادربانی ہے:ربنا وابعث فیہم ۔۔۔۔۔ویزکیھم ویعلمھم الکتٰب۔۔۔۔۔