کچھ احباب آج کل تصوف کے خلاف لکھ رہے ھیں اور سطحی اعترضات کی بھرمار کیے ھوئے ھیں. ایک عام آدمی تو شاید ان کی مغالطہ انگیز تحریریں پڑھ کر مغالطے میں مبتلا ھو جائے، لیکن جو لوگ تصوف کے رمز شناس و محرم راز ھیں ان پر ان کے اعتراضات کی حقیقت واضح ھے.
معترضین کا سب سے بڑا اعتراض یہ ھے کہ تصوف کے مسائل قرآن و حدیث میں نھیں ھیں. حقیقت یہ ھے کہ یہ اعتراض بڑا سطحی اور اسلامی علوم سے اور ان کی تاریخ سے جہالت پر مبنی ھے. یہ اعتراض تو فقہاء کرام کے ان مسائل پر بھی ھو سکتا ھے جن پر اس وقت مسلم امہ کا عمل ھے. ان مسائل کی صراحت بھی تو قرآن و حدیث میں نھیں ھے. بات یہ ھے کہ مسائل کا قرآن و حدیث میں صراحت سے ہونا بلکل ضروری نہیں ھے، ہاں مسائل کی بنیاد قرآن و حدیث میں ھونی چاھییے. جس طرح فقہاء کے مسائل کی بنیاد قرآن و حدیث کی نصوص ھیں، اسی طرح صوفیاء کرام کے بیان کردہ مسائل تصوف کی بنیاد بھی قرآن و حدیث کی نصوص ھیں. تصوف کے مسائل انھیں نصوص کو بنیاد بنا کر کے اخذ کیے گے ھیں.
اصل میں بعض لوگ یہ سمجھتے ھین کہ اجتہاد صرف فقہی مسائل کے ساتھ خاص ھے جو کہ درست نھیں. انسان کی پانچ باطنی قوتیں ھیں. 1عاقلہ 2 محرکہ 3 متخیلہ 4 واہمہ 5 قلبیہ .
ان پانچوں قوتوں کی صحیح نشوونما شریعت میں مطلوب ھے اور ان پانچوں کے بارے میں نصوص بھی ھیں. قوت عاقلہ کے بارے میں جو نصوص تھیں انہیں متکلمین نے موضوع بنایا اور ان میں اجتہاد کرتے ھوئے ایک مستقل علم 'علم الکلام' کی بنیاد رکھی . قوت محرکہ کے بارے میں جو نصوص تھیں ان میں فقہاء نے اجتہاد کیا اور 'علم فقہ' کی بنیاد رکھی . اسی طرح قوت قلب کے بارے میں جو نصوص تھیں ان سے صوفیاء نے اپنایا اور ان میں اجتہاد کر کے ایک مستقل علم کی بنیاد رکھی جسے سلوک اور تصوف کے نام سے جانا جاتا ھے. یہ تمام علوم ، علوم شرعی ھیں اور اجتہاد ان سب میں ھوتا ھے. یہ بہت بڑی غلط فہمی ھے کہ اجتہاد کا تعلق صرف فقہ کے ساتھ ھے. اس چیز کو نہ سمجھنے کی وجہ سے لوگ تصوف پر بےجا اعتراضات کرتے ھیں. ھاں اگر کوئی مسئلہ ایسا ھے کہ اس کی بنیاد قرآن و حدیث میں نھیں ھے تو آپ اسے نہ مانیں لیکن یہ طریقہ ٹھیک نھیں کہ آپ اس مسئلے کو بنیاد بنا کر تصوف ھی کو غیر اسلام قرار دیں.
(از: حمزہ سید)
----------------------------------
زاہد مغل: جب تصوف کے خلاف کوئی دلیل نہ بن پائے تو کہہ دیا جاتا ہے: "تصوف کے ذریعے گمراہ کن عقیدے و طرز عمل وضع کئے گئے، پس یہ غلط ہے"۔ اگر یہی اصول ٹھرا تو پھر: - علم تفسیر اس لئے غلط ہے کہ اس میں تفسیر کے نام پر بے سروپا اسرائیلیات کو بھی فروغ دیا گیا - علم حدیث اس لئے غلط ہے کہ حدیثوں کے نام پر جعلی حدیثیں منتقل ہوئیں - علم کلام اس لئے غلط ہے کہ اس کے ذریعے بے شمار گمراہ کن عقیدے وضع کئے گئے - علم فقہ اس لئے غلط ہے کہ اس کے نام پر بے پناہ الٹے سیدھے "احکامات" اخذ کئے گئے ہاں بھائیو، ہے کوئی ایسا دینی علم جو "اس سنہرے اصول" کی کاٹ سے بچ سکے؟
صالح محمد: مفتی تقی عثمانی، پیر ذوالفقار نقشبندی، مولانا عبدالستار, عبداللہ فیروز میمن، مولانا محمد اکرم اعوان اور مفتی عبدالرؤف سکھروی جیسے چند حضرات کے پاس کچھ دن گزارنے کے بعد بھی کوئی اشکال بچے تو پھر کہنا…. معترض کا علم مولانا سید سلیمان ندویؒ جتنا تو ہو نہیں سکتا ..وہ بھی حضرت تھانویؒ کی خانقاہ آتے ہیں تو انہیں 3 دن تک خاموشی سے صرف مشاہدہ کرنے کا حکم ہوتا ہے.. شروع میں ہزار سوالات کلبلاتے ہیں.. اشکالات دماغ میں تابڑ توڑ حملے کرتے ہیں.. اعتراضات انگڑائیاں لیتے ہیں…. مگر تیسرے دن کیا منظر ہے کہ درِ آستاں پہ بیٹھے زار و قطار رو رہے ہیں…. ہچکیاں بندھ گئیں ہیں.. سب سوال ختم.. اشکال غائب.. گویا بن پوچھے ہی ہر اعتراض کا جواب مل گیا……
؎ یہاں تو سر سے پہلے دل کا سودا شرط ہے یارو
کوئی آسان ہے کیا سرمد و منصور ہو جانا
----------------------------------
زاہد مغل: جب تصوف کے خلاف کوئی دلیل نہ بن پائے تو کہہ دیا جاتا ہے: "تصوف کے ذریعے گمراہ کن عقیدے و طرز عمل وضع کئے گئے، پس یہ غلط ہے"۔ اگر یہی اصول ٹھرا تو پھر: - علم تفسیر اس لئے غلط ہے کہ اس میں تفسیر کے نام پر بے سروپا اسرائیلیات کو بھی فروغ دیا گیا - علم حدیث اس لئے غلط ہے کہ حدیثوں کے نام پر جعلی حدیثیں منتقل ہوئیں - علم کلام اس لئے غلط ہے کہ اس کے ذریعے بے شمار گمراہ کن عقیدے وضع کئے گئے - علم فقہ اس لئے غلط ہے کہ اس کے نام پر بے پناہ الٹے سیدھے "احکامات" اخذ کئے گئے ہاں بھائیو، ہے کوئی ایسا دینی علم جو "اس سنہرے اصول" کی کاٹ سے بچ سکے؟
صالح محمد: مفتی تقی عثمانی، پیر ذوالفقار نقشبندی، مولانا عبدالستار, عبداللہ فیروز میمن، مولانا محمد اکرم اعوان اور مفتی عبدالرؤف سکھروی جیسے چند حضرات کے پاس کچھ دن گزارنے کے بعد بھی کوئی اشکال بچے تو پھر کہنا…. معترض کا علم مولانا سید سلیمان ندویؒ جتنا تو ہو نہیں سکتا ..وہ بھی حضرت تھانویؒ کی خانقاہ آتے ہیں تو انہیں 3 دن تک خاموشی سے صرف مشاہدہ کرنے کا حکم ہوتا ہے.. شروع میں ہزار سوالات کلبلاتے ہیں.. اشکالات دماغ میں تابڑ توڑ حملے کرتے ہیں.. اعتراضات انگڑائیاں لیتے ہیں…. مگر تیسرے دن کیا منظر ہے کہ درِ آستاں پہ بیٹھے زار و قطار رو رہے ہیں…. ہچکیاں بندھ گئیں ہیں.. سب سوال ختم.. اشکال غائب.. گویا بن پوچھے ہی ہر اعتراض کا جواب مل گیا……
؎ یہاں تو سر سے پہلے دل کا سودا شرط ہے یارو
کوئی آسان ہے کیا سرمد و منصور ہو جانا
زاہد مغل: کائنات کی عظیم وسعتوں کا بذریعہ فزکس مطالعہ کرنے والا شخص اس علم کی بدولت خدا کی خدائی و کبریائی کا عارف بن کر جس طور ہیبت ذدہ ہوسکتا ہے وہ شاید فزکس سے انجان شخص کے لئے ممکن نہیں کہ اس نے اس وسعت کا مشاہدہ کیا ہی نہیں۔ حساب کے پیچیدہ اصولوں کی مدد سے کائنات پر غور و فکر کرنے والا "ھل تری من فطور" کا جو مشاہدہ کرسکتا ہے وہ حساب سے انجان شخص کے لئے ہرگز ممکن نہیں۔ اگر ان علوم کے ذریعے خدا کی معرفت کے ایسے دریچے کھلنا ممکن ہیں تو آخر ایک گروہ کے اس دعوے کو ماننے میں کونسا استحالہ لاحق ہے کہ وہ ایک ایسے علم سے واقف ہیں جو چند ایسی حقیقتوں سے پردے اٹھا سکتا ہے جو اس علم سے ناواقفوں پر مخفی رہتی ہیں؟ آخر کونسی شرعی و عقلی دلیل اس دعوے کا انکار کرنا لازم ٹھہراتی ہے؟
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔