Sunday, June 28, 2015

تصوف -19 (سوال و جواب)

0 comments
تصوف -19
::::::::::::::
سوال: ہم نے صرف ولی اللہ ، قطب، قلندر، پیر اور صوفی کے نام سنے ہیں کہ فلاں قطب ھے، فلاں قلندر ھے ،اور قلندروں کی مجموعی تعداد اڑھائی ھے ۔حضرت لعل شھبازؒ قلندر، حضرت بو علیؒ قلندر اور حضرت رابعہ بصریؒ۔ لیکن ہماری معلومات انتہائی ناقص ہیں۔ آپ کی تصوف پر گہری نظر ھے اور آپ کے حلقہ احباب میں بھی ایسے دوست موجود ہیں جو ان پر بہتر طریقے سے روشنی ڈال سکتے ہیں ۔بہت شکریہ۔ منور سہیل
جواب:پہلے تو یہ سمجھ لیں کہ ولایت کے مناصب کون کون سے ہیں، اور کیسے حاصل ہوتے ہیں۔۔
جب تمام سات لطائف پر ذکرِ قلبی مضبوط ہوجاتا ہے،، یعنی لطائف منور ہوجاتے ہیں،، تو روح میں ایک قوت پیدا ہوتی ہے جو اسے عالمِ اَمر اور قربِ الہٰی کی جانب سفر میں سپورٹ کرتی ہے۔۔کثرتِ ذکر اور شیخ کی توجہ کے باعث روح میں جیسے جیسے لطافت بڑھتی جاتی ہے، اسکا سفر تیز تر ہوتا جاتا ہے۔۔روح کے اس سفر میں مختلف اولیاء اللہ کواللہ پاک کی طرف سے مختلف مناصب (Designations) بطور گفٹ عطا کئے جاتے ہیں۔۔سب سے پہلا منصب ہے ابدال، اسکے بعد قطب،،قطب وحدت،، قطب ارشاد،، پھر قطب مدار،، غوث،،قیوم،، فرد اور صدیق کے مناصب ہیں۔۔ یہ ضروری نہیں کہ کسی صاحبِ منصب کو یہ علم بھی ہو کہ میں اب فلاں منصب پر فائز ہوں،، دنیا میں اللہ کی مرضی کہ کسی کو بتائے یا نہ بتائے،، ہاں مرنے کے بعداسے پتہ لگ جاتا ہے۔۔ تصوف و سلوک میں' قلندر' کوئی منصب نہیں ہے۔۔یہ ایک انجانی اصطلاح ہے جو نامعلوم کس بنا پر لعل شہبازؒ کے ساتھ منسوب کر دی گئی ہے۔۔ اسی طرح 'خواجۂ خواجگان' بھی کوئی منصب نہیں ہے۔۔عوام کا حال تو یہ ہے کہ علم ذرا نہیں اور دعویٰ ایسا کہ شرم بھی نہ آئے۔۔ کئی بزرگوں کے نام کیساتھ دو منصب لکھ دیتے ہیں، مثلاً پہلے کسی کو قطب لکھیں گے پھر اسےابدال بنا دیں گے، یعنی پہلے ترقی دی پھر تنزلی کرا دی۔۔ یا کبھی یوں ہوگا کہ اللہ کے کسی ولی کا منصب صدیق ہوگا تو اسے غوث لکھ دیں گے،، یہ تو ایسا ہے کہ جیسے کسی وزیر اعظم کو پٹواری لکھ دیا جائے۔۔دوسری بات عورت کے متعلق،، عورت میں انوارات برداشت کرنے کی صلاحیت مرد سے کم ہوتی ہے۔۔ اسلئے عورت کو نبوت نہیں دی گئی،، مگر ولایت مل سکتی ہے۔۔ عورت کے آدھے قلندر ہونے والی بات من گھڑت ہے۔۔!!
سوال:اگر یہ بھی وضاحت کر دیتے کہ ابدال، قطب ،غوث اور اسی طرح کے دوسرے القابات کے معنیٰ کیا ہیں اور یہ کن کن حضرات کو ملے ہیں۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کو غوث پاک کہا جاتا ھے۔ لیکن یہ نہیں جانتے کہ ان کو غوث پاک کیوں کہا جاتا ھے۔ کیا ان کو غوث کہ منصب پر فائز کیا گیا تھا؟ پاکستان ھندوستان وغیرہ میں کون کون سی ہستیاں ہیں جن کو یہ مناسب دیئے گئے۔ تمام کہ نام ضروری نہیں، چند ایک کہ نام اور منصب بتا دیں۔ 
جواب:کسی منصب کا کیا معنی ہے،، یہ ایسا ہے کہ آپ کسی سے پوچھیں کہ میجر، کرنل اور برگیڈئیر کا کیا معنی ہے۔۔یہ ولایت کےاسٹیٹس ہیں جو ہر امت میں انکے انبیاء علیھم السلام کے متبعین میں سے صالحین کو من جانب اللہ عطا ہوتے ہیں۔۔ مثلاً حضرت خضر ؒ قطب مدار تھے۔۔اسی طرح امت محمدیؐہ میں بے شمار ہستیاں ان مناصب کی حامل رہی ہیں۔۔ مثلا بہاؤالدین زکریاؒ 'غوث' تھے،، مولانا احمد علی لاہوریؒ 'قطب ارشاد' تھے،، اور مولانا اللہ یار خانؒ 'صدیق' تھے وغیرہ۔۔ جو شخص جس قدر بلند منصب ہو گا،اس میں عوام کی باطنی اصلاح کرنے اور برکاتِ نبوت ٹرانسفر کرنے کی صلاحیت اسی قدر قوّی ہو گی۔۔ یہاں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ لوگ دوسروں کو کیسے یقین دلائیں گے کہ ہم فلاں منصب پر فائز ہیں؟
یاد رکھیں،، صرف نبی/رسول کو دوسروں کو یقین دلانے کی ضرورت ہوتی ہے کہ میں پیغمبر ہوں ۔۔ولی کا کردار اور اسکے ساتھ اٹھنے بیٹھنے والوں کی تربیت، افکار، مجاہدات اور کریکٹر اس بات کے ظاہری گواہ ہوتے ہیں کہ یہ جھوٹا ہے یا سچا۔۔ کسی ولی کو اپنی زندگی میں اپنے منصب کا علم ہونا لازم نہیں،، ہو بھی سکتا ہے۔۔ یہ اللہ کریم کی مرضی ہے کہ بتائے یا نہ بتائے،،البتہ بعداز موت اسے علم ضرور ہو جاتا ہے۔۔ اگر اللہ پاک کسی کو باطنی/قلبی نگاہ نصیب فرمائیں تو کسی ولی کا منصب دیکھا بھی جا سکتا ہے۔۔!!
سوال: سر مجھے نفس کے متعلق جاننا ہے کہ یہ کیا شے ہے؟
جواب: انسانی جسم کے دو حصے ہیں۔ 1- بدن 2- روح -----روح کا تعلق عالمِ امر سے ہے اور جس دل/قلب کی ہم یہاں بات کر رہے ہیں اسکا تعلق بھی روح کے پارٹس سے ہے۔۔
بدن کی تخلیق چار چیزوں سے ہوئی ہے۔ ہوا، پانی، مٹی، آگ۔۔ ان چاروں کے ملنے سے انسانی نفس بنتا ہے۔۔ یہ نفس چونکہ مادی اور فانی اشیاء سے مل کر بنا ہے،، اسلئے اسکی خواہشات اور ضروریات بھی مادی ہیں، یہ اُن دنیاوی آسائشوں کی طرف رغبت کرتا ہے جس سےمادی بدن کو تسکین ملے۔۔ 
1۔ دل مردہ ہو جائے تو انسانی نفس مضبوط ہو جاتا ہے،، اور پہلوان بن جاتا ہے۔۔ اسے نفس امّارہ کہتے ہیں۔۔ سورہ یوسف میں اسکا ذکر ہے۔۔ (وما أبرئ نفسي إن النفس لأمارة بالسوء إلا ما رحم ربي)۔ یہ ہمیشہ بدی کی دعوت دیتا ہے۔
2۔ دل کی اصلاح شروع ہو جائے تو یہ نفس کمزور ہو کر امارہ سے لوّامہ ہو جاتا ہے۔۔ یہ نیکی پر ابھارتا ہے اور برائی پر ملامت کرتا ہے۔ سورۃ القیامہ میں اس کا ذکر ہے۔۔ (ولا اقسم بالنفس اللوامہ)
3۔ دل کو مزید غذا (ذکرِ الہٰی) وافر مقدار میں فراہم کی جاتی رہے تو نفس مزید کمزور ہو کر لوامہ سے نفس مطمئنہ بن جاتا ہے۔۔ اس مقام پر بندہ اللہ کی رضا سے ہمہ وقت راضی رہتا ہے اور نیکی کو چھوڑنا مشکل ہوجاتا ہے۔۔ گناہ سے نفرت ہو جاتی ہے۔۔ سورۃ الفجر میں اسکا ذکر ہے۔۔ (یا ایتھا النفس المطمئنۃ۔ ارجعی الی ربکِ راضیۃ مّرضیہ)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔