تصوف - 14
:::::::::::::::
'Sir، مجھے یہ پوچھنا ہے کہ آخر ہم کسی سے بیعت کیوں کریں؟ ضرورت کیا ہے اسکی؟'۔۔ویل، کیا آپکو یہ پتہ ہے کہ بیعت کا کیا مطلب ہے اور اسکی کتنی اقسام ہیں؟۔۔'یس سر، بیعت 'بیع' سے ماخوذ ہے جسکا مطلب ہے بیچنا، یعنی اپنی رائے کو کسی دوسرے انسان کی رائے پر بیچ دینا، اپنی سوچ ختم کردینا، دوسرے کی مان لینا، مگر مجھے بیعت کی ٹائپس کا علم نہیں'۔۔رائٹ، پہلے آپ بیعت کی اقسام مختصراًجان لیں، پھر آپکو معلوم ہو گا کہ بیعت کی کیا ضرورت اور فائدہ ہے۔۔ 1: بیعتِ جہاد (حالتِ جہاد میں وقت کے حاکم/امیر سے کیجاتی ہےکہ مر جائیں گے، پیچھے نہیں ہٹیں گے)۔۔2:بیعتِ اصلاح (کسی بھی متبعِ شریعت سے کیجاتی ہے جو روزمرہ کے شرعی مسائل میں راہنمائی کرسکے)۔۔ 3: بیعتِ خلافت (حاکمِ وقت سے اسکی اطاعت کیلئے،، موجودہ جمہوریت میں یہ ووٹ کی شکل میں ہوتی ہے)۔۔4: بیعتِ تصوف (قربِ الہٰی کی منازل طے کرنے کیلئے کسی ایسے شخص کے ہاتھ پر جو سالک کو کم از کم فنافی الرسول کرانے کی اہلیت رکھتا ہو)۔۔ہمارا موضوع بیعتِ تصوف ہے، وہی تصوف جس کے آپ اب تک تیرہ لیکچرز اٹینڈ کرچکے ہیں۔۔جس طرح کسی بھی شعبے کا علم سیکھنے کیلئے اسکے ادارے میں داخلہ لینا لازم ہے، اسی طرح علمِ تصوف کے ادارے کا نام خانقاہ ہے، یہ کوئی حجرہ یا غارنما شے نہیں بلکہ اچھی خاصی مسجد ہوتی ہے جہاں طالبینِ حق دور دراز سے سمندرِ محبت کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں۔۔ہر شعبےکے علم میں کمال حاصل کرنے کیلئے استاد کی ضرورت ہوتی ہے، تصوف کے استاد کو شیخ یا پیر کہا جاتا ہے۔۔یہ کوئی غیر انسانی مخلوق نہیں، بلکہ آپ ہی طرح کا بندہ ہوتا ہے جسے اللہ پاک نے محنت مجاہدہ اور اپنے شیخ کی جوتیوں میں بیٹھنے کے طفیل بطور انعام یہ قوت نصیب فرمائی ہوتی ہے کہ وہ اپنی قلبی توجہ اور ذکر اذکار کے ذریعے آنے والوں کا تزکیہ کرسکے۔۔ انکے دلوں کی زمین کونفسانی خواہشات سے پاک کرکے طلبِ الہٰی کی گوڈی کر سکے۔۔ارضِ قلب کی تمام بیماریوں کا علاج کرسکے، اس پر عقیدتِ اسلام کی کھاد ڈال سکے۔۔دل میں محبتِ رسول ﷺ اور اطاعتِ ربانی کےایسے بوٹے لگا سکے جن پر اخلاص، دیانت ، عاجزی اور اصلاحِ اعمال کے نایاب پھول اُگیں۔۔ انکی خوشبو سے باطن مہک اُٹھے ، ظاہر سرسبز ہوجائے۔۔اور بندہ اپنی مرضی اور خوشی سے احکاماتِ الہٰی پر فدا ہوتا چلا جائے۔۔جس طرح عالمِ اسباب میں اللہ کی جانب سے بادل کی ڈیوٹی ہوتی ہے کہ وہ برسے، لہذا وہ برستا ہے اور اسے یہ فرق کرنے کا اختیار نہیں ہوتا کہ وہ کھیتی پر برس رہا ہے یا کوڑے کے ڈھیر پر، وہ صحراؤں کی پیاس بجھا رہا ہے یا دریا کو جل تھل کررہا ہے۔۔ اسی طرح شیخ کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ آنے والے پر برکاتِ نبوت کی بارش برسا دے۔۔نتائج پیدا کرنا اللہ کی مرضی اور آنے والے کے خلوصِ طلب پر منحصر ہوتا ہے۔۔اگر زمین زرخیر ہوگی تو اسمیں ہل چلایا جائے گا۔۔کسی نے باغ لگایا ہوگا تو پھل پھول آجائیں گے۔۔کوئی کوڑے کا ڈھیر ہوگا تو مزید تعفن اور بدبو پیدا ہوگی۔۔انسانیت کا خیرخواہ اور محسن ﷺ تو اپنی مکمل روشنیاں ہرسو بکھیر رہا تھا،اور ہے۔۔ کسی کا دلی ارادہ اسے کتابِ تقدیر میں رضی اللہ عنہ بنا جاتا تھا تو کسی کو ملعون۔۔اپنے اپنے ظرف کی بات ہے اور اپنے اپنے نصیب ہیں۔۔'ایکسکیوز می سر، آپ تو ہمیں الفاظ کی بے ساختہ روانی میں بہائے لے جارہے ہیں، یہ بتائیں، ہمیں پتا کیسے چلے گا کہ کون سچا پیر ہے اور کون جعلی شیخ، اور بیعت ہونے کیلئے بھی کوئی اصول و ضوابط ہیں یا بس جسکو دیکھیں پیر بنا بیٹھا ہے، جاکر فوراً اسکی قدم بوسی شروع کردیں؟'۔۔بہت عمدہ بات کی طرف دھیان دلایا آپ نے،، شیخِ کامل کے اوصاف تو میں آپکو اگلے لیکچر میں بتاؤں گا، کیونکہ اب آپکے ساتھ والے دوست کو جمائیاں آنے لگی ہیں،، اسلئے مختصر سمجھ لیں کہ بیعت کرنے کیلئے چھان بین کرنا انتہائی ضروری ہے ورنہ آپ کسی ٹھگ کے ہتھے بھی چڑھ سکتے ہیں، جسکی نگاہ کا اثر آپکے دل پر پہنچنے سے پہلے آپکی جیب شریف پر اٹک جائے گا۔۔سب سے پہلے اسکے ساتھ رہنے والےلوگوں اور دیگر مریدین کو دیکھیں۔۔اگر انکی زندگی حدودِ شرعی میں آچکی ہے یا آرہی ہے۔۔ پہلے دن میں بیس گناہ کرتے تھے، بیعت کے بعد بتدریج دس پہ آگئے ہیں۔۔اللہ اور اسکے رسولﷺ کی محبت و اطاعت کا جذبہ پروان چڑھ رہا ہے۔۔تو سمجھیں کہ پیر ٹھیک ہے۔۔ اگر دونمبر ہوتا تو لوگ پیرصاحب سے صرف دنیاوی فائدہ حاصل کرنے تک مقید رہتے۔۔ ایسے پیروں کا کام کاروبار میں ترقی دلانے، پسند کی شادی کرانے اور بچے پیدا کرانے تک محدود ہوتا ہے۔۔بہرحال، سچا پیر مل جائے تو آپکے ذہن میں اسکی ذات اورافکارسے متعلق جتنے سوالات ہیں، سب کی تسلی کر لیں۔۔ یاد رکھیں بیعت کے بعد اعتراض کی گنجائش نہیں رہے گی کیونکہ آپ خود کو بیچ چکے ہونگے۔۔ بیعت کے بعد بندہ اعتراضات کی کھوج لگاتا پھرے تو گویا اس نے بیعت توڑ دی۔۔'سر، میرا ایک سوال ہے، جب قرآن و احادیث، سنتِ رسول ﷺ اور سنت صحابہ کرام ہمارے پاس موجودہیں تو پھر کیا ضرورت ہے کہ کسی اور کی پیروی کی جائے؟ ہم خود بھی تو عمل کر سکتے ہیں ناں'۔۔ گڈ کوئسچن۔۔ اسکا جواب انشاء اگلے لیکچر میں۔۔ تب تک آپ پچھلے ڈیسک پر بیٹھی محوِ خواب طالبہ کے خراٹے انجوائے کریں۔۔ سونہڑے رب دے حوالے۔۔!!
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔