علم شریعت ایک علم ہے جو دو مفہوم ادا کرتا ہے؛
ایک روایت اور دوسرا درایت
یہ دونوں ملکر علم شریعت ہے جو ظاہری و باطنی اعمال کی دعوت دیتا ہے۔
اعمال ظاہرہ ظاہری اعضاء کے اعمال کا نام ہے جن کا ظہور ظاہری جوارح سے ہوتا ہے۔ جیسے عبادات، بیع، قصاص وغیرہ۔
باطنی اعمال دل سے متعلق اعمال ہیں جنہیں مقامات و احوال کہا جاتا ہے، مثلا تصدیق، ایمان، اخلاص، معرفت، توکل، محبت، رضا، ذکر، شکر، خشیت، تقوی، مراقبہ، ذکر، خوف، رجا وغیرہ۔ پس جب ہم علم باطن کہتے ہیں تو اس مراد باطنی اعمال کا وہ علم ہے جو باطنی اعضاء سے وقوع پزیر ہوتے ہیں جو قلب ہے۔
اللہ تعالی نے فرمایا:
اسبغ علیکم نعمہ ظاھرۃ و باطنۃ (اللہ نے اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں تمہیں عطا کیں۔ لقمان: 20)
نیز
وذروا ظاھر الاثم و باطنۃ (اور ظاہری و باطنی گناہوں کو ترک کردو۔ انعام: 121)
آیت "لیتفقھوا فی الدین" میں لفظ دین ظاہری و باطنی احکام پر مشتمل ہے (ظاہر ہے اس باطنی علم پر غور و فکر اور اسکے بارے میں استنباط کلام و فقہ والوں نے نہیں بلکہ جماعت صوفیاء نے کیا)۔ ان باطنی مقامات و احوال پر غور و فکر کرنا احکامات طلاق، عتاق، قصاص وغیرہ سے کم فائدہ مند نہیں کہ یہ ظاہری اعمال تو ایسے ہیں کہ ہوسکتا ہے فرد کو عمر بھر کوئی ایسا واقعہ ہی پیش نہ آئے جس میں اس علم کی ضرورت پڑے اور اگر کوئی واقعہ پیش آبھی جائے تو مسئلہ پوچھ کر عمل کرنے والا عام آدمی تقلید ہی کرے گا۔ اس کے برعکس جن احوال، مقامات اور مجاہدات کے بارے میں صوفیاء غور کرتے ہیں انکی تمام مسلمانوں کو ضرورت ہے اور انکا جاننا سب پر لازم ہے اور انکا کوئی مخصوص وقت بھی نہیں کہ ایک وقت میں انکی ضرورت ہو مگر ایک میں نہیں جیسے صدق، اخلاص، ذکر وغفلت وغیرہ۔
(ماخوذ کتاب: اللمع فی التصوف -- از: ابو نصر سراج طوسیؒ )
(زاہد مغل)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کمنٹس
ـــــــــــ
شہباز اعظم: امام ابنِ جوزی رحمہ اللہ اپنی شہرہ آفاق کتاب "تلبیس ابلیس" میں راہ حق سے دور لے جانے والی صوفیا کی تالیفات کا ذکر کیا ہے،اس میں سب سے پہلے اسی کا ذکر کیا ہے!فرماتے ہیں:
ابونصر سراج نے ان کے لیے 'لمع الصوفیہ' کتاب تصنیف کی،جس میں انھوں نے قبیح اعتقادات اور کھوٹے گھٹیا مضامین کی بھرمار کردی ہے."
زکریا اشرف: ابن جوزی نےاللمع میں درج واقعات واعتقادات پر تنقید کی ہے علم شریعت وباطن کی ضرورت واہمیت کی نفی نہیں کی جبگہ پوسٹ میں ذکر کردہ تحریر علم تصوف کی تعریف وضرورت پر مبنی ہے واقعات ومضامین پر نہیں۔
زاہد مغل: میں ابن جوزی کا امتی نہیں ہوں کہ جو انہوں نے کہہ دیا اسے مان لوں۔ "ناموں سے ڈرانے کے بجائے" اگر اس کتاب کی کسی بات پر اعتراض ہے تو اسے ذکر کیا جانا چاہئے۔
محمد بن مالک: آپ نے ابو نصر سراج طوسی اور اس کی مذکورہ کتاب پر امام ابن جوزی کی تنقید پیش کیے جانے پر فرمایا ہے کہ میں کوئی ابنِ جوزی کا امتی نہیں ہوں جو میرے لیے ان کی بات ماننا ضروری ہو. تو کیا آپ ابو نصر سراج طوسی کے امتی ہیں جو باطنی علوم کی تائید میں اس کی کتاب کا حوالہ ایسے پیش کیا ہے جیسے وہ آسمان سے نازل شدہ ہے؟حالانکہ طوسی صاحب نے جن آیات سے باطنی علوم کو زبردستی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے وہ آیات پہلے بھی قرآن کا حصہ تھیں لیکن نہ کسی صحابی نے اس سے باطنی علوم کو ثابت کیا نہ کسی تابعی نے، نہ ان کے شاگردوں نے. غرض خیر القرون والے " علم کے مغز" سے کورے رہ گئے اور کہیں بعد میں ورود کرنے والے صوفیاء میدان مار گئے. اور دین میں ہر وہ چیز ثابت کر دکھائی جو پہلوں کو دکھائی نہ دے سکی تھی!!
أتنبئون الله بما لا يعلم فی السماوات ولا فی الأرض؟؟ سبحانه وتعالٰی عما يشركون.
زاہد مغل: یہ سرے سے کوئی دلیل نہیں ہے کہ پہلے والوں کو کیوں نہ سمجھ آئی۔ اسکا مطلب تو یہ ہوا کہ نئی تفسیر لکھنے کی سرے سے کوئی ضرورت ہی نہیں ہے۔ حدیث شریف کے مصداق قرآن کے عجائب قیامت تک جاری رہیں گے۔ میں نے انکی کتاب کا حوالہ خود کو انکا امتی سمجھ کر نہیں بلکہ انکی بات کو درست سمجھ کر لگایا ہے۔ اگر اس پر کوئی واقعی اعتراض ہے تو پیش کیا جانا چاہئے۔
محمد بن مالک: دلیل کیوں نہیں ہے؟ کیا باطنی علوم کی ضرورت اُس وقت (صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کے دور میں) نہیں تھی؟؟
زاہد مغل: جی بالکل تھی اور وہ لوگ اس میں کامل تھے۔ جس طرح حدیث و فقہ کی اصطلاحات وغیرہ بعد میں مدون ہوئیں ، یہی معاملہ تصوف کا ہے۔ اس پر یہ اعتراض کوئی اعتراض نہیں کہ یہ باتیں اس طرح پہلوں کے یہاں کیوں نہیں؟ دیگر علوم کی اصطلاحات بھی پہلی صدی میں موجود نہیں تھیں۔
محمد بن مالک: بات صرف اصطلاح کی نہیں مفہوم کی ہے. اصول فقہ مرتب کیے جانے کی ضرورت تو بعد میں اس لیے پیش آئی کہ اسلام میں بہت متنوع و مختلف قابلیتوں اور فہم کے حامل لوگ کثرت کے ساتھ داخل ہو گئے تھے اور نئی نئی چیزیں اسلام میں الحاق کی جانا شروع ہو گئیں تھیں. بکثرت فرقوں کا ظہور بھی ہونے لگا تھا. اس لیے ضروری جانا گیا کہ دین کو سمجھنے کے ایسے بنیادی اصول خود دین ہی کی روشنی میں مرتب کر لیے جائیں جن پر امت متفق و مجتمع رہ سکے اور فرقوں کا تدارک بھی ہو سکے. گویا اصولِ فقہ آگے جاکر پیش آنے والے ایک مسئلہ کے لیے وضع کردہ حل کی حثیت رکھتے ہیں نہ کہ یہ دین میں بذاتِ خود مطلوب ہیں. جبکہ صوفیاء کے ہاں باطنی علوم تو دین کا اصل مقصود ہیں جن کو اگر خارج کر دیا جائے تو صوفیت کی پوری عمارت دھڑام سے زمین بوس ہوجاتی ہے. اندریں صورت ان دونوں کو ایک دوسرے پر کیونکر قیاس کیا جا سکتا ہے. پھر ایک چیز دین کا مقصود ہو کر بھی خیر القرون میں برائے نام بھی سننے کو نہیں ملتی. کیا ایسی چیزیں دین کا مقصود ٹھہر سکتی ہیں؟؟
زاہد مغل: اگر اصول فقہ مطلوب نہیں تو پہلے مدرسے والوں کے نصاب سے اسے نکلوا کر دکھائیں، پھر اس موضوع پر آگے بات کریں گے۔
کیا قرآن میں باطن کے تزکیے نیز ان امور (جسکی لسٹ پوسٹ میں باطنی علوم میں گنوائی ہے) کے حصول کا تقاضا موجود نہیں؟
محمد بن مالک: مطلب آپکے خیال میں اصولِ فقہ دین میں بذاتِ خود مطلوب ہیں؟؟
زاہد مغل: جب میں قرآن کی یہ آیات پیش کرتا ہوں تو آپ کہنے لگتے ہیں کہ پہلے والوں نے ایسا کیوں نہ لکھا؟ جب اسکی وجہ بتاتا ہوں تو آپ کھتے ہیں کہ صوفیاٰ اسے مقصود کہتے ہیں۔ اسکے جواب میں میں یہی کہوں گا کہ اسکا مقصود ہونا قرآن میں مطلوب ہے۔ پھر آپ کہیں گے کہ پہلے والوں نے کیوں نہ کہا؟ بھائی یہ کیسا استدلال ہے جو کہیں ٹھہرتا ہی نہیں؟
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔