فاذا فرغت فانصب. والی ربک فارغب ۔۔۔۔۔ اے نبی پس جب آپ (کار نبوت سے فارغ ہوں تو عبادت کی) ریاضت میں گھٹ جائیں، اور اپنے رب کی طرف راغب ہوجائیں"
آخر یہ کس "فراغت" کے بعد کس چیز میں "نصب" ہوجانے اور کس کی طرف "راغب" ہونے کی بات ہورہی ہے؟ کیا نبی علیہ السلام جب کار نبوت سرانجام دیتے ہیں تو رب تعالی کی طرف راغب نہ ہوتے تھے؟
یہ "نصب" اور "رغبت" اسی تعلق باللہ میں اضافے و بالیدگی کے لئے تھا جو فرائض نبوت کو سرانجام دینے کے لئے ضروری ہوا کرتا ہے، جس capacity building کے لئے موسی علیہ السلام کو سب سے علیحدہ کرکے بطور خاص عبادت کے لئے بلوالیا گیا، جسکی تلقین رب تعالی نے اپنے محبوب کو "سب سے کٹ کر اپنے رب کو یاد کرنے" کے الفاظ میں کی واذکر اسم ربک وتبتل الیہ تبتیلا (مزمل 9)، جسکے کے لئے نبی علیہ السلام رات بھر اپنے رب کے حضور سجدے میں رہتے کہ اپنے رب کے الفاظ "تتجافی جنوبہم عن المضاجع یدعون ربہم خوفا و طمعا" کا پیکر بن جائیں۔ صوفیاء کے بقول مؤمن سے مطلوب اس دنیا میں رہنا بھی ہے اور اس میں گم نہ ہونا بھی ہے۔ یہ ریاضتیں دنیا ترک کروا کر رہبانیت کے لئے نہیں بلکہ سالک کو دنیا میں گم ہوجانے سے بچانے کے لئے ہوتی ہیں۔ الغرض اللہ کی طرف لو لگانے نیز اس لو کو اسکے ساتھ قائم و دائم رکھنے کے لئے صوفیاء کی تجویز کردہ محنتوں کو ماورائے نصوص و دین قرار دینا افسوس ناک امر ہے۔
(زاہد مغل)
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔