صوفیاء کی "ضربیں" تو تزکئے کے قرآنی مقصد کے تحت ہرگز ثابت نہیں ہوتیں، ہاں مگر اہل مدرسہ کی "ضرب یضرب ضربا" کی ضربیں عین تعلیم نبوی کا مظہر ہیں۔ کیا بھائی اللہ کے نبی نے صحابہ کو دین کی تعلیم اس اسلوب پر دی تھی؟
.
یہ سمجھنا کہ تقرب الی اللہ کے تمام ممکنہ طریقے صرف اور صرف منصوص ہیں، ایک محل نظر رائے ہے۔ درحقیقت نیکی کا ہر عمل، چاہے مقصود منصوص ہو، یا اجتہاداً منصوص سے اخذ کردہ۔ اور یا مقصود کو حاصل کرنے والا ذریعہ، الغرض ان میں سے ہر ایک اللہ کے قرب کا وسیلہ ہے۔
یہ کہنا کہ صوفیاء کے اشغال چونکہ تقرب کا ذریعہ سمجھے جاتے ہیں جبکہ اہل مدرسہ کی تعلیمی مشقیں تقرب کا ذریعہ نہیں ایک خلط مبحث ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو یہ مدرسے میں داخل ہوکر 'ضرب یضرب ضربا' کرنے والے مبتدی کو جو اس حدیث کا مصداق بنانا شروع کر دیا جاتا ھے کہ "جو کوئی علم دین کی راہ پر چلتا ہے تو اسکے پیروں کے نیچے فرشتے پر بچھانے لگتے ہیں"۔ تو کیا یہ بلند مرتبہ اسے تقرب کے بنا ہی مل جاتا ہے؟ اور اگر تقرب سے ملتا ہے تو کیا یہ تقرب اسے اس ظاہری ضرب یضرب ضربا کے سواء کسی اور چیز سے ملا؟
ڈاکٹر اسراراحمدؒ نے انقلابِ نبوی کے فلسفے و طریقے سے سلوکِ محمدی ﷺ کا اجتہاد کیا، جسکی آخری سٹیج پر جاکر اسکا بلند ترین اظہار "احتجاج" و "دھرنا" ہوگا۔ کیا ان دھرنا دینے والوں کو اس دھرنا دینے سے اللہ کا قرب ملے گا یا نہیں؟ اگر ہاں تو کیا حصول قرب کا "یہ مخصوص طریقہ" شارع علیہ السلام کی طرف سے مقرر شدہ ہے؟ کیا پوری سیرت نبویﷺ میں کوئی ایک مثال ملتی ہے کہ کوئی صحابی کہیں دھرنا دیتے پائے گئے ہوں؟ اگر نہیں تو پھر "مفروضہ اصول" (کہ "قرب الی اللہ کے ذرائع وہی ہیں جو خود اللہ کے دین نے متعین کر دیے ہیں نہ کہ وہ جنہیں انسان متعین کرے") کی بنا پر اس عمل کی حیثیت کیا ہو گی؟
(زاہد مغل)
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔