کیا خدا بندوں سے لاتعلق ہوچکا؟ کشف و الہام کی نفی کے پیچھے کارفرما مفروضے کا جائزہ
----------------------------------------------------------------------------
کشف و الہام (خدا کے ساتھ تعلق کی مخصوص روحانی کیفیات) کا انکار کرنے کے لئے یہ مفروضہ ماننا لازم ہے کہ "اب خدا اپنی مخلوق سے غیر متعلق ہوکر بیٹھ گیا، اب وہ کسی بھی درجے میں بندوں سے تعلق نہیں رکھتا"۔
یہ ایک ایسا دعویٰ ہے جو نہ صرف یہ کہ نصوص میں بیان کردہ واضح اشارات کے خلاف ہے بلکہ بے شمار انسانوں کے ایسے ذاتی تجربات کے بھی منافی ہے جہاں کسی کیفیت اور واقعے میں انسان بالکل واضح انداز میں یہ محسوس کرتا ہے گویا کسی غیبی ہاتھ نے اسے آلیا اور اسکی راہنمائی کی۔ یہاں اختصار کے ساتھ ان نصوص کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے جو خدا کے اپنے بندے کے ساتھ مسلسل تعلق کے امکان پر دال ہیں۔ اہل علم پر یہ بات تو قرآن سے واضح ہے کہ خدا غیر نبی سے خفیہ کلام (وحی کے ذریعے تعلق) کرتا ہے جسکی مثال حضرت موسی علیہ السلام کی والدہ ماجدہ سے گفتگو (کمیونیکییشن) کرنا ہے۔ اس کے علاوہ قرآن میں آیا:
1) "والذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا" یعنی 'جو لوگ ہماری (ذات کی معرفت میں) تگ و دو کرتے ہیں تو ہم یقینا انہیں راستے دکھاتے ہیں"
یہاں واضح طور پر اس بات کا بیان ہے کہ خدا اپنے بندوں کو راستہ سجھاتا ہے، وہ مخلوق سے بے نیاز ہوکر نہیں بیٹھ گیا کہ مخلوق اس کے ساتھ تعلق استوار کرنے سے بالکلیہ قاصر ہوجائے۔ اور خدا کا وعدہ ہے کہ بندہ جب خلوص کے ساتھ مجھ سے دعا مانگتا ہے تو میں اسکا جواب دیتا ہو۔
2) ان الذین قالوا ربنا اللہ ثم استقاموا تتنزل علیھم الملائکۃ الخ یعنی بے شک وہ لوگ جنہوں نے کہا کہ اللہ ھمارا رب ھے اور پھر اس پر ڈٹ گئے ان پر فرشتے نازل ھوتے ہیں (یہ کہتے ہوئے کہ) تم کوئی خوف اور حزن نہ رکھو
فرشتوں کے یوں نازل ہوجانے کا بیان حدیث نبوی کی روشنی میں سنئے (یہاں حدیث کے صرف مفھوم پر اکتفا کیا گیا ہے)۔ حضرت حنظلہ (رض) پریشانی کے عالم میں حضرت ابوبکر (رض) کو فرماتے ہیں کہ میں تو منافق ہوگیا ہوں کہ رسول اللہﷺ کی بارگاہ میں تو یہ کیفیت ہوتی ہے کہ اللہ، جنت جھنم سب سامنے ہے لیکن پھر بوجوہ مشاغل دنیا یہ کیفیت نہیں رہتی۔ حضرت ابوبکر (رض) فرماتے ہیں کہ اس کیٖفیت سے تو میں بھی دوچار ہوتا ہوں، آؤ بارگاہ رسالت میں چل کر پوچھیں کہ یہ منافقت ہے یا نھیں۔ بارگاہ نبوت میں پیش ہوکر اپنی کیفیت بیان کرتے ہیں تو آپﷺ نے فرمایا کہ اس کیفیت کا ھمیشہ باقی رہنا ممکن نہیں۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنْ لَوْ تَدُومُونَ عَلَى مَا تَكُونُونَ عِنْدِي وَفِي الذِّكْرِ لَصَافَحَتْكُمْ الْمَلَائِكَةُ عَلَى فُرُشِكُمْ وَفِي طُرُقِكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اس ذات کی قسم جسکے دست قدرت میں میری جان ہے اے حنظلہ اگر یہ کیفیت تم پر ہر وقت برقرار رہے تو فرشتے چلتے، پھرتے، لیٹتے تم سے مصافحہ کریں (رواہ مسلم)
اب یہی بات ایک اور انداز سے ملاحظہ فرمائیں۔ حضرت اسید بن حضیر (رض) ایک رات سورہ بقرہ کی تلاوت فرما رہے ہیں کہ گھوڑا اچھل کود کرنے لگا۔ جب آپ نے تلاوت بند کی تو گھوڑے کی اچھل کود بند ھوگئی۔ جونھی تلاوت شروع کرتے ہیں تو گھوڑا پھر پھڑکنے لگا۔ ایسا تین مرتبہ ہوا۔ آپ آسمان کی طرف دیکھتے ہیں تو خیمےکی طرح تنی ہوئی کوئی شے دکھائی دیتی ہے جس میں چراغاں ہورہا ہے۔ صبح کو یہ سب واقعہ نبی کریمﷺ کی خدمت میں بیان کیا تو آپ نے دو مرتبہ فرمایا کے اے ابن حضیر قرآن پڑھتے رہو، ابن حضیر نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ میں ڈرگیا کہ میرا گھوڑا میرے بچے یحیی کو روند نہ ڈالے، جب میں یحیی کے پاس گیا اور آسمان پر نظر کی تو روشن سائبان دیکھا، میں دیکھتا رہا اور وہ سائبان اٹھتے اٹھتے غائب ہوگیا۔ آنحضرتﷺ نے دریافت کیا اسید تم جانتے ہو یہ کیا چیز تھی؟ اسید نے کہا نہیں یا رسول اللہﷺ، آپ نے فرمایا کہ وہ فرشتے تھے تمہاری تلاوت کی آواز سن کر تم سے قریب ہوئے تھے تم نے تلاوت بند کردی تو وہ غائب ہوگئے، اگر تم صبح تک تلاوت کرتے رہتے تو لوگ صبح انہیں دیکھ لیتے (متفق علیہ)
پس یہ اپنے اپنے حال و مقام کی بات ہے۔ الغرض نصوص میں اس امر کے واضح اشارے موجود ہیں کہ خدا آج بھی بندے سے تعلق رکھے ہوئے ہے، جستجو کرنے والوں کی راہنمائی کرتا ہے۔ ہاں فرق یہ ہے کہ یہ تعلق اس نوع کا قطعی نہیں ہوتا جس طرح نبی کو اس کا ادراک و تجربہ ہوتا ہے اسی لئے ایسا تجربہ شرعا حجت و دلیل نہیں۔ نبی کا تعلق خدا سے چونکہ بالکل قطعی اور واضح ہوتا ہے جبکہ عام بندے کا ایسا دعوی ظن کے درجے کی چیز ہے، لہذا اگر دونوں میں تضآد ھو تو ظنی کو قطعی کے مقابلے میں رد کردیا جاتا ہے کہ ممکن ہے بندہ جسے رب کی طرف سے سمجھ رھا ھو وہ اسکی طرف سے نہ ھو جبکہ نبی کی بات کا رب کی طرف سے ھونا قطعی طور پر معلوم ہے۔ الغرض اصول یہ ہے کہ کشف، الہام، سچے خواب (استخارہ) وغیرہ قبیل کی ہر شے کو تصدیق کے لئے نبی کی وحی پر پیش کیا جائے گا، اگر اس پر پورا نہ اترے تو رد کردیا جائے گا۔
(زاہد مغل)
-------------------------------------
کمنٹس
ڈاکٹر طفیل ہاشمی: یہ کہنا کہ ختم نبوت کے اعلان کے بعد کشف القااور الہام کا وجود بھی نہیں رہا ۔ذرا ذیادہ جذباتی رویہ ھے ۔ اس کے لئے دلیل بھی تو کوئی نہیں ھے۔ کیونکہ یہ فرد کا ذاتی تجربہ ھے۔ البتہ ختم نبوت ﷺ کا یہ تقاضا ھے کہ کسی بھی فرد کے کشف القا اور الہام کا بطور حجہ شرعیہ جائزہ لینا یا اسے حجہ شرعیہ سمجھنا عقیدہ ختم نبوت کے منافی ہے ۔
-------------------------------------
کمنٹس
ڈاکٹر طفیل ہاشمی: یہ کہنا کہ ختم نبوت کے اعلان کے بعد کشف القااور الہام کا وجود بھی نہیں رہا ۔ذرا ذیادہ جذباتی رویہ ھے ۔ اس کے لئے دلیل بھی تو کوئی نہیں ھے۔ کیونکہ یہ فرد کا ذاتی تجربہ ھے۔ البتہ ختم نبوت ﷺ کا یہ تقاضا ھے کہ کسی بھی فرد کے کشف القا اور الہام کا بطور حجہ شرعیہ جائزہ لینا یا اسے حجہ شرعیہ سمجھنا عقیدہ ختم نبوت کے منافی ہے ۔
محمد نعمان بخاری: اسی استدلال کی بنا پر لیلۃ القدر کا دیکھا جانا بھی عین ممکن ہے.
زاہد مغل: لیلۃ القدر میں بھی فرشتوں کے نزول کا ذکر ہے، بعض روایات کے مطابق وہ بندوں سے مصافحہ بھی کرتے ہیں۔
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔