زندگی بھر کا تجربہ یہ ہے کہ کسی کے دئے ھوئے اقتباس کو جب تک Original Sources سے کنفرم نہ کر لیا جائے اس کے بارے میں توقف کیا جائے ۔کیونکہ اس میں وہم راوی اور فہم راوی قسم کے کئ مسائل ہوتے ھیں ۔
اگر ادراج وتلبیس سے احادیث کی مستند ترین کتب محفوظ نہیں رہ سکیں تو ۔ ۔ تا بدیگراں چہ رسد ۔
پریس سے پہلے کی کتب میں ادراج تلبیس انتحال وغیرہ اس کثرت سے ھیں کہ مجھے اپنی تحقیق کے دوران سینکڑوں ایسی اشیاء ملیں جو ثقہ راویوں نے غلط منسوب کر دیں ۔عام مورخین کا تو ذکر ہی کیا ابن شہاب زھری ایسے امام الثقاہ کا دفاع آسان نہیں رہتا ۔
تصوف میں اس کے امکانات اس لئے بھی زیادہ تھے کہ صوفیاء اصول روایت و درایت میں حسن ظن کو مرتبہ اولی پر رکھتے ھیں ۔شعرانی خود بتاتے ہیں کہ ان کی کتاب میں غلط افکار وخیالات شامل کر کے ان کے نام سے شائع کر دی گئ ۔سید علی ہجویری بھی انتحال کے شکوہ سنج ہیں ۔شبلی نے غزالی کے بارے میں جو تاثر دیاھے وہ کسی مستند ثقہ دیانت دار انسان کی شخصیت سے ھم آھنگ نہیں ھو سکتا ۔
صحیح بخاری کے اعلی استناد میں تو شبہ نہیں لیکن اس کی روایات کی تعداد اس کے سب سے بڑے شارح حافظ ابن حجر نےفتح الباری کے مقدمہ میں بدون تکرار 2460 بتائی ھیں۔ لیکن فتح الباری میں ان کی تعداد 2513 جب کہ نووی اور ابن صلاح نے 4000 کی تعداد بتائی ھے۔ حیرت کی بات یہ ھے کہ دارالسلام نے جو نسخہ بے پناہ تحقیق واہتمام سے 1999ء میں ریاض سے شائع کیا ھے اس میں 105 احادیث کے نمبر موجود ہیں لیکن ان کے ذیل میں کوئی حدیث نہیں ھے۔
ترمذی میں مسح علی الجوربین کے تحت قال ابوعیسی کا تبصرہ دارالسلام کے نسخے میں ھے لیکن بر صغیر کے بیشتر نسخوں میں نہیں ھے ۔۔
ان مثالوں سے یہ عرض کرنا مقصود ھے کہ تصوف کی امہات الکتب کے جدید اسلوب تحقیق کے مطابق منقح نسخے تیار کرنے کی ضرورت ھے شاید بہت سی باتیں محض الحاقی ہوں تاہم اس امر میں کوئ دوسری رائے نہیں ھے کہ معیار حق وصداقت اور دلائل قطعیہ صرف اور صرف کتاب وسنت ھیں اور کسی بڑی سے بڑی شخصیت کی رائے اگر واقعتا ان سے متصادم اور متعارض ہو تو وہ ہر گز قابل التفات نہیں۔
(ڈاکٹر طفیل ہاشمی)
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔