بیعت کی ضرورت کا تعلق کسی بھی علم کے حصول کے لئے استاد کی ضرورت کے آفاقی اصول پر مبنی ہے۔ اگر کوئی اتنا ایکسٹرا آرڈنری ہے کہ بغیر استاد خود تمام منزلیں طے کرسکتا ہے تو بھلے کرے، مگر وہ محض exception ہوگی اصول نہیں۔ اصول وہی رہے گا جو صوفیاء بیان کرتے ہیں کہ "تزکیے کے لئے بیعت (کسی کی شاگردی) لازم ہے"۔
دراصل جب بھی کسی کام کو گروہ و جماعت کے لیول پر کیا جاتا ہے تو اسے سرانجام دینے کے لئے تعلقات کی کوئی نہ کوئی صف بندی تو لازما وجود میں آتی ہے، جو چاہے بذات خود اصلاً مطلوب ہو یا نہ ہو مگر مقصود کو منتشر ہونے سے بچائے رکھنے کے لئے بہرحال مطلوب ہوتی ہے اور اس پر اصرار کرنا بالکل جائز ہوتا ہے۔ تزکیۂ نفس کے لئے جماعتوں و سلسلوں کی صورت میں کام کرنا یہ صوفیاء کا طریقہ رہا ہے۔ ظاہر ہے اس کام کو مرتب رکھنے کے لئے استاد اور کام کو بڑھانے کے لئے اسکی "اجازت" (گویا سند) کی ضرورت پر شدومد سے زور دیا گیا۔ یہ قریب قریب ویسا ہی تصور ہے جو محدثین کے یہاں "حدیث روایت کرنے کی اجازت" کے نام سے ملتا ہے، کیا امام ابوحنیفہؒ و امام مالکؒ اور ان سے پہلے کے حضرات نے حدیث بیان کرنے کے لئے "کسی سے اجازت" کا سرٹیفیکیٹ لے رکھا ہوتا تھا جسے دکھا دکھا کر وہ اپنے شاگردوں کو حدیث بیان کرتے تھے؟ دیگر مقاصد کے علاوہ کسی بھی ایریا میں "اجازت" اصل مال کا کوالٹی سمبل بھی ہوا کرتا ہے تاکہ لوگ کھوٹے و کھرے میں بآسانی تمیز کرسکیں۔ اسی کے تحت آج اہل مدارس کسی نوع مولود مجتہد کے استادوں کی کھوج لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔
(زاہد مغل)
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔