ابوبکر صدیقؓ سے سلسلے کا کوئی ثبوت ؟ حضرت علیؓ سے 3 سلاسل کا کوئی ثبوت ؟ باقی ساری کہانیاں انہی بے ثبوت باتوں پہ دھری ھوئی ھیں ، گویا پانی پہ محل بنایا ھوا ھے جس خدا نے عمر فاروقؓ کوجنت کی بشارت لسانِ نبوت سے دی ، 10 سال کی خلافتِ راشدہ اور 22 لاکھ مربع میل پر پھیلی ھوئی فتوحات عطا فرمائیں ، اس خدا نے ان کو صوفی نہیں بنایا تو انعام سے محروم رہ گئے ؟ عثمان غنیؓ کی جنت کی بشارت اور 12 سال کی خلافت اور فتوحات بھی محرومی میں تبدیل ھو گئے کیونکہ وہ بھی صوفی نہ بن سکے نہ صوفیت کے قابل سمجھے گئے ۔
تزکیہ و تصفیہ نبی ﷺ کا فرضِ منصبی تھا ،، صرف 2 صحابہ ھی یہ سند حاصل کر پائے اور آپ کے چوتھے درجے کے بزرگ سیکڑوں اور ھزاروں مرید اور سیکڑوں خلفائے مجاز لئے بیٹھے ھیں ،، گویا نتیجے کے لحاظ سے محمد مصطفی ﷺ ناکام ترین پیر ثابت ھوئے ( نعوذ اللہ ) جن کے صرف 2 خلیفہ مجاز بنے ،، جھوٹ کے پاؤں نہیں ھوتے ،، نہ آپ لوگ نبی ﷺ کے قول میں ان سلاسل کی کوئی دلیل پیش کر سکتے ھیں اور نہ ھی عمل میں اور نہ خود ان دو خلفائے راشدین سے ،، محمد نعمان بخاری صاحب بسم اللہ کیجئے اور ثبوت پیش کیجئے ،پیروں کے شجرہ طیبہ سے یہ سلسلے ثابت نہیں ھوتے اندھے بہرے مرید ھی ان پہ یقین رکھتے ھیں کتاب و سنت میں اس بارے میں کچھ نہیں ،، سات لطیفے ،، اور یہ تپسیا اور مصنوعی مجاھدے آخر خلفائے راشدین کے عمل سے کیسے ثابت کیئے جائیں گے ؟ وہ انسانوں میں رھتے تھے غاروں میں نہیں ،لفاظی آپ نے خوب کر لی ،، اور اس لفاظی کے کارپٹ میں اپنے دلائل کی کمزوری کو خوب لپیٹا ھے :)- پھر قطبوں اور غوثوں کے اختیارات کا پورا Administrative tree اللہ کی قسم ھندو دیوتاؤں کی شکتیوں کی کاپی کے سوا کچھ نہیں ،دینِ اسلام میں سب شکتیاں ایک ھی ذاتِ بے ھمتا کے ھاتھ میں ھیں ،، فسبحان الذی بیدہ ملکوت کل شئ ،، 12(مَا یَفْتَحِ اللّٰہُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَۃٍ فَلَا مُمْسِکَ لَہَا وَمَا یُمْسِکْ فَلَا مُرْسِلَ لَہُ مِنْ بَعْدِہِ وَہُوَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ)[فاطر:٢- اللھم لا مانع لما اعطیت ولا معطی لما منعت ولا ینفع ذا الجد منک الجد -- اللھم انی عبدک وابن عبدک وابن امتک فی قبضتک ناصیتی بیدک ماضٍ فی حکمک عدل فی قضاءک ،، یہ عاجزیاں دیکھی ھیں میرے نبی ﷺ کی ؟ یہ نفعے اور نقصان کے اختیارات ، یہ دفع بلیات کی شکتیاں ، یہ ارزاق کے بندوبست ،، یہ سب طلسم قرآن کے 180 ڈگری خلاف ھے ،، سورہ انبیاء پڑھ کے بتایئے نبیوں میں کتنے قطب اور غوث تھے ،، درخت کے نیچے کھڑے اس موسی علیہ السلام کی فقیری دیکھئے جس کی شریعت میں ھزاروں نبی مبعوث ھوئے ،اور دوسری جانب اپنے غوثوں اور قطبوں کے خدائی اختیارات دیکھئے ، یہانتک کہ جس بستی میں کوئی مسلمان نہ ھو وھاں غیر مسلم قطب ھوتا ھے ( شریعت اور طریقت) :) ھائے رے تصوف کے خدا تو کتنا مجبور ھے کہ بستی چلانے کے لئے تجھے ھندو کرائے پہ لینا پڑا ،،، (قاری حنیف ڈار)
----------------------------------------------
جواب: (از: محمد نعمان بخاری)
تصوف کا انکار مختلف بہانوں اور تاویلوں سے کیا جاتا ہے۔۔ سب سے بڑی وجۂ انکار وہ نظریات ہیں جو جہلاء کی وجہ سے اہلِ تصوف کیساتھ نتھی کر دئیے گئے ہیں حالانکہ کسی صوفی سے یہ باتیں ثابت نہیں جن کو قاری حنیف صب نے زبردستی اہلِ تصوف سے منسوب کر دیا ہے،، اور یہی قاری صب کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ ۔دیکھئے: "پھر قطبوں اور غوثوں کے اختیارات کا پورا Administrative tree اللہ کی قسم ھندو دیوتاؤں کی شکتیوں کی کاپی کے سوا کچھ نہیں ،دینِ اسلام میں سب شکتیاں ایک ھی ذاتِ بے ھمتا کے ھاتھ میں ھیں ،،،، الخ "،، " یہ نفعے اور نقصان کے اختیارات ، یہ دفع بلیات کی شکتیاں ، یہ ارزاق کے بندوبست ،،، ور دوسری جانب اپنے غوثوں اور قطبوں کے خدائی اختیارات دیکھئے ، یہانتک کہ جس بستی میں کوئی مسلمان نہ ھو وھاں غیر مسلم قطب ھوتا ھے ( شریعت اور طریقت ) "۔۔۔۔۔
یہ سب وہ باتیں یہ جن کا کسی صحیح صوفی سے کوئی ثبوت نہیں بلکہ منکرینِ تصوف کے جہلاء کی وجہ سے گھڑے گئے اعتراضات ہیں جن کا جواب وہی دے سکتے ہیں جو ان من گھڑت نظریات کے حامل ہیں۔۔بقول مولانا احمد علی لاھوریؒ:'' یہ منکرینِ تصوف چور، ڈاکو اور راہزن ہیں جو دین کا ایک اہم جزو دین سے خارج کرنا چاہتے ہیں''۔۔امام حسن بصریؒ سے لیکرجنید بغدادیؒ ، شہاب الدین سہروردیؒ، بایزید بسطامیؒ، مولانا رومیؒ تک اورحضرت عبیداللہ احرارؒ، مولانا عبدالرحمٰن جامیؒ، خواجہ نقشبندؒ، شیخ سعدیؒ سے لے کر امام غزالیؒ، شیخ عبدالقادر جیلانیؒ، سلطان باھوؒ، شیخ علی ہجویریؒ، بہاؤالدین زکریاؒ، فرید الدین عطارؒ، معین الدین چشتیؒ اور مجدد الف ثانیؒ تک اور دیگر ہزاروں اولیائے کرام کو بدعتی و جھوٹا کہنے کی بجائےیہ زیادہ مناسب ہے کہ منکرینِ تصوف کو انکو حال پہ چھوڑ دیا جائے کیونکہ انکی حیثیت نہ تو مجتہد کی ہے اور نہ ہی یہ منکرین لوگ علمائے حق اور صوفیہ محققین پر کسی طرح فوقیت رکھتے ہیں۔۔نیز اتنی بڑی جماعتِ صالحین کا کسی جھوٹ اور گمراہی پر متفق ہونا عقلاً محال ہے۔۔جو باتیں اہلِ تصوف نے کی ہی نہیں ہیں انکو زبردستی اور بِلا دلیل اہلِ تصوف کی طرف منسوب کرنا منکرین کا شیوہ ہے جسکی ہمیں قطعاً پرواہ نہیں۔۔ !
یہ سب وہ باتیں یہ جن کا کسی صحیح صوفی سے کوئی ثبوت نہیں بلکہ منکرینِ تصوف کے جہلاء کی وجہ سے گھڑے گئے اعتراضات ہیں جن کا جواب وہی دے سکتے ہیں جو ان من گھڑت نظریات کے حامل ہیں۔۔بقول مولانا احمد علی لاھوریؒ:'' یہ منکرینِ تصوف چور، ڈاکو اور راہزن ہیں جو دین کا ایک اہم جزو دین سے خارج کرنا چاہتے ہیں''۔۔امام حسن بصریؒ سے لیکرجنید بغدادیؒ ، شہاب الدین سہروردیؒ، بایزید بسطامیؒ، مولانا رومیؒ تک اورحضرت عبیداللہ احرارؒ، مولانا عبدالرحمٰن جامیؒ، خواجہ نقشبندؒ، شیخ سعدیؒ سے لے کر امام غزالیؒ، شیخ عبدالقادر جیلانیؒ، سلطان باھوؒ، شیخ علی ہجویریؒ، بہاؤالدین زکریاؒ، فرید الدین عطارؒ، معین الدین چشتیؒ اور مجدد الف ثانیؒ تک اور دیگر ہزاروں اولیائے کرام کو بدعتی و جھوٹا کہنے کی بجائےیہ زیادہ مناسب ہے کہ منکرینِ تصوف کو انکو حال پہ چھوڑ دیا جائے کیونکہ انکی حیثیت نہ تو مجتہد کی ہے اور نہ ہی یہ منکرین لوگ علمائے حق اور صوفیہ محققین پر کسی طرح فوقیت رکھتے ہیں۔۔نیز اتنی بڑی جماعتِ صالحین کا کسی جھوٹ اور گمراہی پر متفق ہونا عقلاً محال ہے۔۔جو باتیں اہلِ تصوف نے کی ہی نہیں ہیں انکو زبردستی اور بِلا دلیل اہلِ تصوف کی طرف منسوب کرنا منکرین کا شیوہ ہے جسکی ہمیں قطعاً پرواہ نہیں۔۔ !
اب آتے ہیں انکے اعتراضات کے جواب کی طرف:
1- ابوبکر صدیقؓ سے سلسلے کا کوئی ثبوت ؟ حضرت علیؓ سے 3 سلاسل کا کوئی ثبوت ؟
جواب: حصولِ فیض و کیفیات یا حصول برکاتِ نبویﷺ کیلئے صحبتِ نبوی ﷺ میں پہنچنا لازم تھاجو کہ دونوں شیوخ سے ثابت ہے۔۔ یہ حدیث مبارکہ تمام صحابہ کرام کے مستفید ہونے پر دلیل ہے۔۔ حضرت ابو ہریرہؓ نے فرمایا :' میں نے رسول اللہ ﷺ سے دو ظرف علم کے محفوظ رکھے ہیں ،،ان میں سے ایک کو تو میں نے تم میں پھیلا دیا، دوسرے کو اگر پھیلاؤں تو میرا حلق کاٹ دیا جائے'۔۔(صحیح البخاری : کتاب العلم)۔۔۔۔۔۔۔ صحابی ایک ایسا منصب ہے جو باقی تمام مناصب پر حاوی ہے۔۔ جس طرح کسی صحابی کو الگ سے مفسر، محدث ، مجاہد ، فقیہ اور مجتہد کہنا عجب ہے، اسطرح کسی صحابی کو صوفی کہہ دینا عجیب ہے۔۔ (قرآن و حدیث سے لفظ مفسر، محدث وغیرہ کی دلیل پیش کیجئے)۔۔ تزکیہ و تصفیہ نبی ﷺ کا فرضِ منصبی تھا اورہر صحابی کے پاس کیفیاتِ قلبی موجود تھیں، جس کا ثبوت یہ ہے کہ ہر صحابی کی صحبت میں پہنچنے والا بلا تخصیص علم و عمر منصبِ تابعی پہ فائز تھا۔۔یعنی ہر صحابی(بشمول حضرت عمر، حضرت عثمان رضی اللہ عنہم و غیرھما )میں برکاتِ نبوت ﷺ منتقل کرنے کی صلاحیت تھی اور لوگ مستفید ہوئے۔۔معروف صرف چار سلاسل ہی ہوئے۔۔اللہ شرحِ صدر دے تو دیکھا جا سکتا ہے کہ کونسا سلسلہ کہاں سے شروع ہوا۔۔ اب یہ خودساختہ اختراع کہ :'' گویا نتیجے کے لحاظ سے محمد مصطفی ﷺ ناکام ترین پیر ثابت ھوئے ( نعوذ اللہ ) جن کے صرف 2 خلیفہ مجاز بنے ''۔۔۔جناب،، لاعلمی کے پاؤں نہیں ہوتے ۔۔!
2- پیروں کے شجرہ طیبہ سے یہ سلسلے ثابت نہیں ھوتے اندھے بہرے مرید ھی ان پہ یقین رکھتے ھیں کتاب و سنت میں اس بارے میں کچھ نہیں ۔
جواب: کتاب و سنت کے احکامات سلاسلِ تصوف بننے سے پہلے کے ہیں۔۔ کیا کتاب و سنت سے دین کے دیگر شعبوں کے نام اور اصطلاحات ثابت کی جاسکتی ہیں؟ ہرچند کہ ان علوم کے اصول و کلیات موجود تھےمگر یہ شعبے بعد میں مدون ہوئے۔۔ صحابہ کی زندگی لفظ 'احسان' اور تزکیہ کا عملی نمونہ تھی، مگرکوئی صحابی صوفی اور علم الکلام کا ماہر وغیرہ مشہور نہ تھا۔۔جن لوگوں نے دین کے اس شعبۂ تزکیہ و تصوف کی خدمت کی اور اس کے حامل و مخصص قرار پائے، انکی زندگیاں زہد و تقویٰ، خلوص و سادگی کا عمدہ نمونہ تھیں اور انہی سے سلاسل کا احیاء ہوا۔۔جن کی آنکھیں تعصب اور لاعلمی کی وجہ سے بند ہیں، وہ اس پر یقین نہیں رکھتے۔۔!
3۔ سات لطیفے ،، اور یہ تپسیا اور مصنوعی مجاھدے آخر خلفائے راشدین کے عمل سے کیسے ثابت کیئے جائیں گے ؟ وہ انسانوں میں رھتے تھے غاروں میں نہیں۔
جواب: حدیثِ ابی محذرہؓ ملاحظہ ہو: 'پھر رسول اکرم ﷺ نے ابو محذرہ ؓکے ماتھے پر ہاتھ رکھا۔۔ پھر آپﷺ اپنے ہاتھ کو اس کے چہرے پر لے گئے۔۔ پھر سینے پر (اور ایک روایت میں ہے کہ) اور اس کے جگر پر لے گئے۔۔ پھر آپ ﷺ کا ہاتھ انکی ناف تک پہنچا۔ پھر آپ ﷺ نے دعا دی کہ اللہ تجھے برکت دے۔ (ابنِ ماجہ: باب ترجیع الاذان)۔۔۔۔۔۔۔۔اس سے ان مقامات کا متبرک ہونا ثابت ہو گیا۔۔فھو المقصود۔۔ جسم کے اعضائے رئیسہ(پھیپھڑے، گردے وغیرہ)پر کسی خلفائے راشد نے بحث نہیں کی مگر آپ انکو مانتے ہیں،، فقط سائنسی تحقیق کی وجہ سے۔۔ روح کے اعضائے رئیسہ (لطائف) کا بھی یہی حال ہے اور یہ اہلِ نظر کی تحقیق ہے جس کو ہم مانتے ہیں،، نہ صرف مانتے ہیں بلکہ اگر اللہ مشاہدہ نصیب کرے تو دیکھ بھی سکتے ہیں الحمدللہ،، جیسا کہ آپ مادی ذرائع (ایکسرے وغیرہ) سے جسمانی خفیہ اعضاء کا معائنہ کرتے ہیں۔۔!
جسمانی ضروریات کیلئے تپسیا اور مصنوعی مجاہدے مثلاً اوور ٹائم وغیرہ کے تو آپ قائل ہیں کیونکہ جسمانی آسائش مقصود ہے،، مگر روحانی آسائش کیلئے اور روح کو اسکی خوراک پہنچانے کی نجانے ضرورت کیوں محسوس نہیں کی جاتی۔۔ رہا یہ سوال کہ اس مناسب مجاہدے (یہ فقط نفلی ذکر اذکار ہیں جو دن میں آدھ گھنٹہ بھی کافی ہیں،، ان سے ہماری عملی زندگی ہرگز متاثر نہیں ہوتی) کو صحابہ کرام نے کیوں نہ اپنایا؟؟ کوئی شے ڈائرکٹ سورج کے سامنے رکھ دی جائے تو اسے کندن کرنے کیلئے مزید کسی مشقت کی ضرورت نہیں رہتی کہ ماچس اور لکڑیاں ڈھونڈی جائیں یا گیس کا انتظام کیا جائے ۔۔ بعینہ جو کوئی بحالتِ ایمان نبی کریم ﷺ کی مبارک نگاہ میں آگیا،، وہ ہمیشہ کیلئے کندن ہو گیا اور بعد والے جس قدر تپسیا بھی کرلیں، انکے مقام کو نہیں پا سکتے۔۔ یہی پاور صحابہ کرامؓ ، تابعینؒ، تبع تابعینؒ میں بھی تدریجاً موجود رہی جس سے تزکیہ ہو جاتا تھا، توایکسٹرا مجاہدے کی حاجت نہ تھی۔۔ہم میں وہ برکات ریسیو کرنے کی فریکونسی بُعدِ زمانہ اورظلمتِ حالات کی وجہ سے ناپید ہے۔۔ قلب سیاہ ہو چکے ہیں۔۔ روح کو اس فریکونسی پر ٹیون کرنے کیلئے اللہ کے ذکر اور توجۂ شیخ کے ضرورت ہے تاکہ یہ میل کچیل ختم ہو اور ہم بھی وہ برکاتِ نبوتﷺ حاصل کرنے کی کپیسٹی حاصل کرلیں۔۔آپکو آج مدارس کی اوردرسِ نظامی کی ضرورت ہے، حالانکہ سابقین میں اسکی حاجت نہ تھی۔۔ یہ میں کوئی غوری میزائل نہیں چھوڑ رہا، بلکہ الحمدللہ، اس عملِ تزکیہ کا عینی شاہد ہوں۔۔!
دیگر اعتراضات کا کمبائن جواب:
اولیاء اللہ کوئی عجیب مخلوق نہیں،، بلکہ قرآن مجید کے مطابق ہر مومن ولی اللہ ہے۔۔ یہ ولایتِ عامہ ہے جو ہر ایمان والے کو حاصل ہے۔۔جب ہم تصوف میں لفظ 'ولی اللہ' کی بات کرتے ہیں تو اسکا مطلب ہے کہ ہم اس خاص تعلق کی بات کرتے ہیں جو کسی کو کسباً اللہ سے نصیب ہوتا ہے۔۔ کوئی ولی پیدائشی ولی نہیں ہوتا (یہ انکے معتقدین نے بعد میں اپنی عقیدت کی بنا پر ان سے منسوب کر دیا ہے،، ویسے دیکھا جائے تو ہمیں ہمارے معاشرے میں کئی شریف النفس لوگ ملنا محال نہیں جو بچپن کے ماحولیاتی اثر کی وجہ سے صالح رہتے ہیں،، مگر ولایتِ خاصہ کیلئے کسب لازم ہے،، پھر اللہ کی عطا ہے)۔۔ نیز ہمارے پاس کسی کے ولی ہونے کی کوئی سند نہیں ہے،، بلکہ یہ فقط ہمارا حُسنِ ظن ہے،، کیونکہ بدگمانی حرام ہے۔۔ میں تو آپکو بھی ولی اللہ سمجھتا ہوں قاری صاب،، مگر یہ اللہ کو معلوم کہ آپ کس سٹیپ پر ہیں۔۔!
کسی شخص کو اپنے کشف پر کوئی اختیار حاصل نہیں ہے کہ کب کشف ہوگا اور کب نہیں ہوگا۔۔ مثلاً حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دیکھ لیجئے کہ ایک وقت میں انہیں آسمانوں و زمینوں کے راز دکھائے جارہے ہیں اور دوسرے لمحے انہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ چھری کے نیچے بیٹا ذبح ہوا ہے یا دُنبہ۔۔ کشف کسی گمشدہ شے کو تلاشنے، قبروں میں جھانکنے، اور گزشتہ یا آئندہ واقعات کی خبر دینے کیلئے نہیں ہوتا ،بلکہ اللہ کریم کے اِسراروں کو سمجھنے اور اپنی ذاتی اصلاح میں معاون ہوتا ہے۔۔ گناہ کی ظلمت نظر آتی تو بندہ اس گناہ سے بچ جاتا ہے،، کسی رزق میں حرام کی تاریکی نظر آتی ہے تو بندہ اسے کھانے سے اجتناب کرلیتا ہے۔۔ کسی شخص کا انسانی روپ سے کسی اور روپ میں منتقل ہوجانا تصوف نہیں ہے،، بلکہ یہ متعصب ذہنوں کا اہلِ تصوف پر بہتان ہے۔۔ اگر کوئی ایسی حرکتیں کرے تو ہمارا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔۔ تصوف کا حاصل قربِ الہٰی، عبادات میں حد درجہ خلوص اور پیروئ سنت خیر الانام ﷺ ہے۔۔ویسے کیاآپ ایسی حرکات کا وقوع کسی ایک بھی صوفی سے ہونا (جن کے نام میں نے اوپر مینشن کئے ہیں) ثابت کرسکتے ہیں؟ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ آپ مداریوں اور کرتب دکھانے والوں کو کسی 'خاص' وجہ سے حاملینِ تصوف سے ملانے کی ناکام کوشش میں ہیں،، مگر پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائیگا۔۔!
تاریخِ تصوف میں سےکسی ایک صوفی کا نام بتا دیجئے جس نے انسانی آبادی کو مستقل چھوڑ کر غاروں میں رہ کر تپسیا کیا ہو،، الاّ یہ کی کسی مولوی نے شہر میں اسے فسادی مشتہر کراکے سوئے جنگل مجبور کردیا ہو۔۔ ویسے بائی دا وے، نبی کریم ﷺ بھی غارِ حرا میں جایا کرتے تھے،، اور تب عبادات بھی فرض نہیں ہوئی تھیں۔۔ تحقیق کیجئے گا کہ آپﷺ وہاں بیٹھ کر کیا کرتے تھے؟
جناب، آپ حیلوں سے وہ کام متصوفین کے کھاتے میں ڈال رہے ہیں جن سے وہ بری الذمہ ہیں۔۔میری سابقہ پوسٹ میں کئی سوالات آپکی راہ تک رہے ہیں جن سے آپ چشم پوشی کئے بیٹھے ہیں۔۔ چلیں اورکچھ نہیں،، باتوں کو ادھر اُدھر گھمانے کی بجائے صرف یہی بتا دیں کہ شعبۂ تصوف کو اپنانے کے بعد کس صوفی میں کون سے شرعی نقائص پیدا ہوئے اور اس نےقرآن وسنت سے دوری اختیار کرلی؟ محترم، ہم تو طریقت کو شریعت کے بغیر گمراہی سمجھتے ہیں،، آپ کا خدا جانے کہ کن لوگوں سے واسطہ رہا ہے جنہوں نے آپکو نقشبندیہ کی خلافت سونپ دی تھی اور اُس سلسلے میں یہ ساری خرافات موجود تھیں۔۔!!
(تاحال جواب ندارد،، فقط الزامات)
قاری صاحب کے اعتراضات لا علمی پر مبنی ہیں،اور یا پھر علم تو ہے مگر وہ بوجہ نیچے نہیں اتر رہا -
جزاک اللہ اعظم اعوان بھائی :)