تصوف – 10
:::::::::::::::
آج کا ٹاپک کیا تھا بھلا؟
'فیض'
جی ہاں، کیا یہ وہی فیض ہے جو ٹرکوں اور ویگنوں کے ماتھے پر سجا ہوتا ہے؟۔۔ بابا فلاں کا فیض، داتا صاحب کا فیض، حق باہو کا فیض وغیرہ۔۔ یعنی لوگوں نے یہ سمجھ رکھا کہ ہم چونکہ ان بزرگوں کے نام پر نذر نیاز کرتے ہیں لہذا اب اس کی برکت سے ہماری روزی کُھل گئی ہے۔
'توسر، پھر یہ فیض کیا ہوتا ہے آخر؟'
یہی بتانے لگا ہوں۔۔ شرعی اعتبار سے جس چیز کو فیض کہا جاتا ہے، وہ ہیں برکاتِ محمد رسول اللہ ﷺ۔۔یوں تو اللہ کاکوئی بندہ ہمیں حضور ﷺ کا کوئی جملہ پہنچا دے، تو فیض ہی فیض ہے، نور علیٰ نور ہے۔۔ لیکن بعض صورتوں کیلئے بعض اصطلاحات مخصوص ہو جاتی ہیں، تو یہ لفظ 'فیض' اصطلاحِ تصوّف میں مختص ہو گیا ہے۔۔ اب غور سے سنیں۔۔ قلبی کیفیات کیلئے، باطنی برکات کیلئے، روحانی تجلیات کیلئے،، اس حالت کیلئے کہ جس سے دل میں مثبت تبدیلی آنی شروع ہو جائے اور کسی شخص کا سفر اندھیروں سے روشنی کی طرف، جہالت سے علم کی طرف، محرومی سے معرفت کی طرف اور بے عملی سے عملِ صالح کی طرف شروع ہو جائے، تو اسے 'فیض' کہا جاتا ہے۔۔ جہلاء کے نزدیک فیض مادی اور دنیاوی نعمتوں کا حصول ہے۔۔مثلاً فلاں قبر پر گئے تو اولاد مل گئی، فلاں بزرگ کی فاتحہ دلوائی تو صحت ہو گئی، فلاں پیر کے آستانے پر چڑھاوا دیا تو نوکری مل گئی وغیرہ۔ یہ سارے نظریات غیر اسلامی ، غیر شرعی اور ہندوانہ رسومات سے لئے گئے ہیں۔۔ تصوف کا ان سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔۔!
'فیض'
جی ہاں، کیا یہ وہی فیض ہے جو ٹرکوں اور ویگنوں کے ماتھے پر سجا ہوتا ہے؟۔۔ بابا فلاں کا فیض، داتا صاحب کا فیض، حق باہو کا فیض وغیرہ۔۔ یعنی لوگوں نے یہ سمجھ رکھا کہ ہم چونکہ ان بزرگوں کے نام پر نذر نیاز کرتے ہیں لہذا اب اس کی برکت سے ہماری روزی کُھل گئی ہے۔
'توسر، پھر یہ فیض کیا ہوتا ہے آخر؟'
یہی بتانے لگا ہوں۔۔ شرعی اعتبار سے جس چیز کو فیض کہا جاتا ہے، وہ ہیں برکاتِ محمد رسول اللہ ﷺ۔۔یوں تو اللہ کاکوئی بندہ ہمیں حضور ﷺ کا کوئی جملہ پہنچا دے، تو فیض ہی فیض ہے، نور علیٰ نور ہے۔۔ لیکن بعض صورتوں کیلئے بعض اصطلاحات مخصوص ہو جاتی ہیں، تو یہ لفظ 'فیض' اصطلاحِ تصوّف میں مختص ہو گیا ہے۔۔ اب غور سے سنیں۔۔ قلبی کیفیات کیلئے، باطنی برکات کیلئے، روحانی تجلیات کیلئے،، اس حالت کیلئے کہ جس سے دل میں مثبت تبدیلی آنی شروع ہو جائے اور کسی شخص کا سفر اندھیروں سے روشنی کی طرف، جہالت سے علم کی طرف، محرومی سے معرفت کی طرف اور بے عملی سے عملِ صالح کی طرف شروع ہو جائے، تو اسے 'فیض' کہا جاتا ہے۔۔ جہلاء کے نزدیک فیض مادی اور دنیاوی نعمتوں کا حصول ہے۔۔مثلاً فلاں قبر پر گئے تو اولاد مل گئی، فلاں بزرگ کی فاتحہ دلوائی تو صحت ہو گئی، فلاں پیر کے آستانے پر چڑھاوا دیا تو نوکری مل گئی وغیرہ۔ یہ سارے نظریات غیر اسلامی ، غیر شرعی اور ہندوانہ رسومات سے لئے گئے ہیں۔۔ تصوف کا ان سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔۔!
دُعا کرنا بندے کا حق ہےکہ صرف اللہ سے کرے۔۔ ہاں دعا کے مقام سے ضرورفرق پڑتا ہے،، جیسے آپ سڑک پر دعا کریں تو اسکی حیثیت اور ہے،، مسجد میں کریں تو اس میں اور برکات ہو جائیں گی،، کسی اللہ والے کی صحبت میں بیٹھ کر کریں تو اسکی کیفیت کچھ اور ہو گی،، مسجد الحرام یا مسجد نبوی شریف میں کریں تو حیثیت بدل جائے گی۔۔ لیکن دعا بندے کی ہوگی اور اللہ ہی سے ہو گی۔۔ وہ دے اُسکی چاہت، نہ دے اُسکی مرضی۔۔ اس میں کسی صاحبِ قبر کا کوئی عمل دخل نہیں ہوگا۔۔جہالت کی وجہ سے لوگوں نے فیض کا مطلب 'دنیاوی کاموں میں بہتری' سمجھا ہوا ہے۔۔ بڑی عجیب بات ہے کہ آپ اہل اللہ کی ساری زندگی پڑھ لیں تو آپ کو علم ہو گا کہ اُنکی تمام توجہ آخرت کی طرف ہوتی ہے، یہ اپنے بہترین اوقات اپنے شعبے میں اور اپنی عاقبت سنوارنے پر صَرف کر دیتے ہیں۔۔جب یہ اپنی زندگی مشکلات و مجاہدات کی نذر کرکے، دنیاسے جان چھڑا کر، برزخ (قبر)میں جاتے ہیں تو کیوں وہاں سے اُٹھ کر آپ کے دنیاوی کاموں میں سر گھسیڑیں گے؟
یہ سب اوہام ہیں اور برصغیر میں کچھ زیادہ ہیں،، کیونکہ یہاں کی تہذیب کے ساتھ مل کر اور خصوصاً اکبر اعظم کے عہد میں جو ہندوؤں اور مسلمانوں کی مشترکہ ایک تہذیب بنی تھی، اس نے ایسے اثرات مرتب کئے، کہ بہت سی ہندوؤں کی رسومات اور توہمات ہم میں دَر آئے۔۔ورنہ اسلام بڑا سیدھا سادہ سا مذہب ہے کہ بندے کو اللہ کے روبرو کر دیتا ہے، رب جانے اور اس کا بندہ جانے۔
'سر میرا ایک کوئسچن ہے، ہم یہ فیض کیسے حاصل کر سکتے ہیں، اور کہاں سے ملے گا؟'
ویری نائس۔۔ یہ بات میں پچھلے کسی لیکچر میں بتا چکا ہوں، چلیں پھر مختصر بیان کئے دیتا ہوں۔۔ یاد رکھیں،،نبی کریم ﷺ منبع ہیں تمام انوار و برکات، فیوضات اور تجلیاتِ الہٰی کا۔۔ تمام فیوضات آپ ﷺ کی ذات ستودہ صفات سے منقسم ہوئے۔۔آپ ﷺ کی صحبت میں پہنچنے والے،اور آپ ﷺ کے سینہء اطہر سے فیوضات حاصل کرنے والےلوگ صحابی کہلائے۔۔ اسی طرح صحابہ کرام کی صحبت پانے والا تابعی کہلایا اور تابعی کی صحبت میں آنے والا تبع تابعی کہلایا۔۔ یہ 3 بہترین زمانے (خیر القرون) تھے۔۔ یہاں تک صرف مسلمان ہونا اور صحبت پانا شرط تھی جس سے لوگوں کے قلوب منور ہوئے اور ہر آنے والے کو برکات و فیوضاتِ محمد ﷺ نصیب ہوئے۔۔ خیر القرون کے بعدوقت میں غبار بڑھا،، طلب وہ نہ رہی،، قبولیتِ فیض کی استعداد میں کمی آئی،، آپ ﷺ کے دور سے فاصلہ زیادہ ہوا،، تو اب محنت و مجاہدے کی ضرورت پڑی۔۔ جن خوش نصیبوں نے اپنے قلوب کو کسی اللہ والے کی صحبت میں رہ کر اللہ کے ذکر سے گرمایا، انہیں وہی کیفیات و فیوضات میسر آئے۔۔آپکو یہ بھی بتا چکا ہوں کہ جس طرح علومِ ظاہری (فقہ، حدیث، تفسیر وغیرہ) کیلئے شعبے وجود میں آئے، اسی طرح علومِ باطنی (فیض، برکت) کیلئے سلاسلِ تصوف (نقشبندی، چشتی وغیرہ)بنے۔۔یہ سلاسل آج بھی موجود ہیں اور طالبانِ حق کسی کامل ولی اللہ کی صحبت میں رہ کر ذکرِ الہٰی کے ذریعے فیوضاتِ محمد ﷺ حاصل کر سکتے ہیں اور بحمدللہ کر رہے ہیں۔۔آنے والی کلاس میں ہم وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود پر بات کریں گے ان شاء اللہ۔۔ رب راکھا۔۔!!
'سر میرا ایک کوئسچن ہے، ہم یہ فیض کیسے حاصل کر سکتے ہیں، اور کہاں سے ملے گا؟'
ویری نائس۔۔ یہ بات میں پچھلے کسی لیکچر میں بتا چکا ہوں، چلیں پھر مختصر بیان کئے دیتا ہوں۔۔ یاد رکھیں،،نبی کریم ﷺ منبع ہیں تمام انوار و برکات، فیوضات اور تجلیاتِ الہٰی کا۔۔ تمام فیوضات آپ ﷺ کی ذات ستودہ صفات سے منقسم ہوئے۔۔آپ ﷺ کی صحبت میں پہنچنے والے،اور آپ ﷺ کے سینہء اطہر سے فیوضات حاصل کرنے والےلوگ صحابی کہلائے۔۔ اسی طرح صحابہ کرام کی صحبت پانے والا تابعی کہلایا اور تابعی کی صحبت میں آنے والا تبع تابعی کہلایا۔۔ یہ 3 بہترین زمانے (خیر القرون) تھے۔۔ یہاں تک صرف مسلمان ہونا اور صحبت پانا شرط تھی جس سے لوگوں کے قلوب منور ہوئے اور ہر آنے والے کو برکات و فیوضاتِ محمد ﷺ نصیب ہوئے۔۔ خیر القرون کے بعدوقت میں غبار بڑھا،، طلب وہ نہ رہی،، قبولیتِ فیض کی استعداد میں کمی آئی،، آپ ﷺ کے دور سے فاصلہ زیادہ ہوا،، تو اب محنت و مجاہدے کی ضرورت پڑی۔۔ جن خوش نصیبوں نے اپنے قلوب کو کسی اللہ والے کی صحبت میں رہ کر اللہ کے ذکر سے گرمایا، انہیں وہی کیفیات و فیوضات میسر آئے۔۔آپکو یہ بھی بتا چکا ہوں کہ جس طرح علومِ ظاہری (فقہ، حدیث، تفسیر وغیرہ) کیلئے شعبے وجود میں آئے، اسی طرح علومِ باطنی (فیض، برکت) کیلئے سلاسلِ تصوف (نقشبندی، چشتی وغیرہ)بنے۔۔یہ سلاسل آج بھی موجود ہیں اور طالبانِ حق کسی کامل ولی اللہ کی صحبت میں رہ کر ذکرِ الہٰی کے ذریعے فیوضاتِ محمد ﷺ حاصل کر سکتے ہیں اور بحمدللہ کر رہے ہیں۔۔آنے والی کلاس میں ہم وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود پر بات کریں گے ان شاء اللہ۔۔ رب راکھا۔۔!!
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔