Sunday, June 28, 2015

تصوف - 8

0 comments
تصوف - 8
:::::::::::::
'سر روزانہ آپ ہم سے سوال کرتے ہیں، آج ہماری باری ہے'
جی کیوں نہیں، ضرور پوچھنا چاہئے۔
'سر ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ یہ جو ہم روزانہ قرآن حکیم، احادیث مبارکہ، علماء حق کے مواعظ سنتے اور پڑھتے رہتے ہیں، جب ان پر عمل کا وقت آتا ہے تو ہمیں سانپ کیوں سونگھ جاتا ہے؟ ہمارا کردار اسلام کے مطابق کیوں نہیں رہتا؟ ان ساری باتوں کو جاننے کے باوجود ہم برائی کرتے ہیں، جھوٹ بولتے ہیں، ایسا کیوں ہوتا ہے کہ یہ باتیں ہمارے سر سے گزر جاتی ہیں، دل میں کیوں نہیں اترتیں؟'
بہت اچھا کوئسچن ہے آپکا، اب تسلی سے جواب سمجھیں: ایسا اسلئے ہے کہ گناہ کر کر کے ہمارے دل سیاہ ہو چکے ہیں اور نصیحت قبول کرنے سے عاجز ہیں۔۔' کلا بل ران علی قلوبھم ما کانو یکسبون '(سورۃ المطففین) ۔۔ انکے قلب انکے اعمال کی وجہ سے زنگ خوردہ ہو گئے ہیں۔۔ قلب روح کا ایسا پارٹ (لطیفہ) ہے جسمیں سوچنے، سمجھنے، دیکھنے اور محسوس کرنے کی صلاحیت ہے۔۔ زنگ کی کثرت کی وجہ سے دل کی یہ صلاحیتیں ماند پڑ جاتی ہیں اور قرآن کے مطابق دل اندھے، بہرے، ناسمجھ وغیرہ ہو جاتے ہیں۔۔ یعنی بیمار پڑ جاتے ہیں۔۔اسکا علاج اللہ والوں کی صحبت اور کثرتِ ذکر ہے۔۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: 'لکل شیی صقالۃ و صقالۃ القلوب ذکر اللہ'۔۔ جس طرح ہر چیز کی صفائی کیلئے پالش ہوتی ہے ، اسی طرح دلوں کی پالش اللہ کا ذکر ہے۔۔ کسی ولی اللہ کی سرپرستی اور توجہ میں ذکرُ اللہ کرتے کرتےایک سٹیج ایسی آتی ہے کہ قلب و روح چمک جاتے ہیں، روشن ہو جاتے ہیں۔۔ تب دل اچھی بات کو قبول بھی کرتا ہے، اور آپ سے بخوشی عمل بھی کراتا ہے۔۔ یہاں تک آپکی بات کا جواب ہو گیا، اب میں اسی بات کو جاری رکھتے ہوتے آج کے ٹاپک سے جوڑ تا ہوں۔۔ قلب کو اللہ اللہ کراتے کراتے ایک وقت وہ بھی آتا ہے جب قلب و روح اتنے منوراور پاکیزہ ہوجاتے ہیں کہ بندے کو اس نور میں کئی ایسی چیزیں نظر آتی ہیں جو بدن کی آنکھ نہیں دیکھ سکتی۔۔ اس قلبی نگاہ کے کھلنے کو کشف کہتے ہیں۔۔ یعنی منکشف ہونا، Disclose ہونا۔۔ان میں دنیا کی اشیاء کی حقیقت بھی نظر آ سکتی ہے اور عالمِ بالا کی اشیاء کی بھی۔۔ لیکن اسکے لئے لازم ہے کہ روح کی اپروچ وہاں تک ہو۔۔روح ایک لافانی، عقلمند مخلوق ہے، سن سکتی ہے، سُنا سکتی ہے۔۔ روح میں قوت ہو تو یہ دوسرے کی روح سے گفتگو بھی کر سکتی ہے۔۔ اور بھی کئی محیر العقول (beyond the common sense of mind) کام ہیں جنکا یہاں اظہار کرنا غیرضروری ہے۔ البتہ عملی طور پر سکھایا جا سکتا ہے، پھر خود ہی سمجھ آ جاتی ہے کہ کیاصحیح ہے اور کیا غلط۔۔ بہرحال، ہم نے سابقہ کلاس میں تفصیلاً یہ جانا تھا کہ بدن کا تعلق عالمِ خلق سے ہے، اورروح کا تعلق عالمِ امر سے ہے۔۔ عالمِ اَمر روح کادوسرا گھر ہے۔۔ لاغر اور کمزور ارواح بدن میں ہی قید رہتی ہیں۔۔ جس روح کو اللہ کے ذکر کی خوراک اور شیخِ کامل کے قلب سے برکاتِ نبوت ملتی رہیں، تو روح کے ساتوں لطائف (پارٹس) روشن ہو جائیں، وہ تگڑی ہو جاتی ہے ، اس میں انرجی آجاتی ہے، اور یہ بدن سے تعلق رکھتے ہوئےاپنے گھر کی طرف جانے میں راحت محسوس کرتی ہے۔۔ اس سفر میں کچھ اسٹیشنز آتے ہیں جن پر یہ تجلیاتِ الہٰی کو جذب کرتی ہے۔۔ اسے پیٹرول یا فیول سمجھ لیں جسکے بعد یہ اگلے اسٹیشن کیلئے قوت حاصل کرتی ہے۔۔ ان اسٹیشنز کو تصوف کی زبان میں 'مقام' کہتے ہیں۔۔ سب سے پہلامقام 'مقامِ احدیت' ہے۔۔ یہ زمین سے پچاس ہزار نوری سال کے فاصلے پر ہے۔۔ کسی کو ہزار زندگیاں نصیب ہوں اور وہ خود سے سفر شروع کرے تو اس مقام تک نہیں پہنچ سکتا۔۔ شیخِ کامل اللہ کی مرضی اور اپنی قلبی توجہ سے یہ فاصلہ آنِ واحد میں طے کرا سکتا ہے، بشرطیکہ بندے میں استعداد اور خلوص سے طلب ہو۔۔ ہر مقام کی مخصوص کیفیات، تجلیات اور قرآنی تسبیحات ہیں۔۔ اگلے مقامات معیّت، اقربیّت، دوائرِمحبت وغیرہ سے ہوتے ہوئے فنا بقا اور عالمِ امر تک پہنچتے ہیں۔۔ یہاں سے آگے اللہ کے قرب کی اعلی منازل کی ابتداء ہوتی ہے۔۔ فنا بقا تصوف کی ابجد ہے اور عالمِ امر تک کوئی پہنچا تو سمجھو بمشکل اپنے گھر پہنچا۔۔ یہاں سے اب ترقی کرے گا۔۔ یہ جو باتیں میں آپکو بتا رہا ہوں انکا تعلق کتابی علم سے نہیں ہے،، یہ مشاہداتی علم ہے،، جس کی میں آپکو کوئی لفظی دلیل اور ثبوت نہیں دے سکتا۔۔ اسلئے اعتراض کرنے والوں سے معذرت۔۔ بس اتنا کہوں گا کہ آپ نے دنیا میں کئی کاموں کو آزمایا ہو گا،، یہ بھی آزما سکتے ہیں۔۔ وقت کا ضیاع سمجھیں تو چھوڑ دیجئے گا اور دوسروں کو بھی بتائیے گا کہ جناب یہ سب ڈرامہ ہے، حقیقت سے اسکا کوئی تعلق نہیں،، مگر آپ اس فیلڈ کو خود سے جانیں بھی نہ اور فتوے بھی جھاڑیں تو محترم یہ بڑی زیادتی کرتے ہیں آپ۔۔چلیں چھوڑیں، آگے سنیں۔۔ کشف یہ ہے کہ کسی کو کوئی چیز روحانی طور پر نظر آجائے، یا کوئی بات سمجھائی جائے۔۔ اسمیں شیطان گڑبڑ کر سکتا ہے اور اپنی طرف سے کچھ روشنیاں وغیرہ دکھا کر بات کو غلط interpret کرا سکتا ہے۔۔ اسلئے کشف غلط بھی ہو سکتا ہے اور صحیح بھی۔۔ کسوٹی یہ ہے کہ کشف میں کہی یا بتائی یا دکھائی جانے والی شے اگر شریعتِ نبویﷺ کے متصادم یا خلاف ہے، یا شرعی احکام کے علاوہ کوئی حکم ہے، تو کشف باطل ہے۔۔نبی کا کشف اور خواب دونوں حق ہوتے ہیں، اور امتیوں کیلئے ان پر عمل کرنا لازم ہوتا ہے۔۔ ولی کا کشف اسکی اپنی ذات کیلئے ہوتا ہے، دوسروں پر دھونس جمانے کیلئے نہیں ہوتا۔۔ کشف سے بھی مضبوط تر ایک چیز ہوتی ہے جسے 'وجدان' کہتے ہیں۔۔ اسکی کیفیت کچھ یوں ہوتی ہے کہ نظر تو کچھ نہیں آتا لیکن انتہائی قسم کا قلبی اطمینان نصیب ہوتا ہے، بات دل میں جما اور بٹھا دی جاتی ہے اللہ کریم کی طرف سے۔۔ اس میں شیطان مداخلت نہیں کر سکتا۔

تین باتیں سمجھیں۔۔ 1۔ شیخ کی توجہ مضبوط نہ ہو، 2۔ یا شیخ بلند منازل کا حامل نہ ہو، 3۔ یا بندہ خود سے ذکرِ قلبی شروع کرکے روحانی سفر شروع کر دے اور روح کی رفتار کو کنٹرول کرنے والا ڈرائیور (شیخ) میسر نہ ہو،، تو روح مقاماتِ قرب میں ادھر اُدھر بھٹک جاتی ہے۔۔ پھر تجلیاتِ الہی کو برداشت اور جذب نہیں کر سکتی۔۔ اس جذب نہ کرنے والی کیفیت کو مجذوبیت اور بندے کو مجذوب کہتے ہیں۔۔ ایسا بندہ ہمہ وقت دنیا سے بے نیاز اللہ کی ذات کو پانے کے چکر میں کھویا رہتا ہے۔۔ دنیا کے کسی کام کے قابل نہیں رہتا ،تو آپ اسے مجنوں یا مجذوب کہتے ہیں۔۔ آج کی معلوم دنیا میں شاید کوئی دس بارہ مجذوب ہی ہوں، باقی سب فراڈئیے ہیں جن کا کام بیوقوف عوام کو ٹھگنا ہے۔۔انواراتِ الہٰی کو جذب نہ کر سکنا، یا مجذوب ہو جانا ایک روحانی نقص ہے، کوئی کمال نہیں ہے۔۔ اگر یہ کمال ہوتا تو ضرور کوئی صحابی بھی مجذوب ہوتا۔۔ !

اس ٹاپک سے متعلق چند اہم باتیں سمجھنا بہت ضروری ہے۔۔ آپ کسی آفس میں کام کرتے ہیں اور کمپنی کا مالک تنخواہ کے علاوہ اپنی مرضی سے آپکو کبھی کوئی بونس دے دیتا ہے۔۔اب اگر آپ تنخواہ کو چھوڑ کر بونس کے چکر میں پڑ جائیں ، جو کہ مالک کی مرضی پر ہے کہ دے یا نہ دے، تو آپکو کوئی سمجھدار نہیں کہے گا۔۔ تصوف کا اصل مقصد رضائے الہٰی،ظاہری باطنی پاکیزگی (تزکیہ) اور انتہائی خلوص سے شریعت پر عمل کرنا ہے۔۔ اس سفر میں کشف یا وجدان بطور بونس ہے، جو مل بھی سکتا ہے اور نہیں بھی۔۔ جو لوگ صرف کشف یا ماوراءالعقل کاموں کیلئے اس گھاٹی کا رُخ کرتے ہیں وہ ہمیشہ خسارے میں رہتے ہیں کیونکہ انہوں نے غیراللہ کی طلب میں ساری محنت کی، جو کسی فائدے کی نہیں، بلکہ ایمان کا بھی خطرہ ہوتا ہے۔۔ تصوف میں اسے شرک کہا جاتا ہے کہ اللہ کو چھوڑ کر کسی اور شے کی جستجو میں لگ جانا۔۔کشف اسلئے نہیں ہوتا کہ فلاں کی گائے چوری ہوگئی، فلاں کا بیٹا لاپتہ ہو گیا، فلاں کا کاروبار چلے گا یا نہیں، فلاں کا بیٹا پیدا ہو گا یا بیٹی۔۔ یہ سب چیزیں پیشہ وروں اور نجومیوں کی دلچسپی کی ہیں، تصوف کا اس سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔۔ کشف یا وجدان گناہ اور حرام سے بچنے کیلئے اللہ کا ایک انعام ہے،، کہ اعمال کی ظلمت اور نورانیت نظر آجاتی ہے اور بندہ چوکنا ہو جاتا ہے۔۔جو لوگ باطنی طور پر کمزور ہوتے ہیں انہیں اللہ کریم یہ کھلونے بہلانے کیلئے دیتے ہیں، کہ چلو لگا رہے گااور میرا نام لینا نہیں چھوڑے گا ۔۔ جو لوگ روحانی یا باطنی طور پر Strong ہوتے ہیں ، اور ایمان میں انتہائی مضبوط ہوتے ہیں، انہیں یہ مشاہدات کم ہوتے ہیں۔۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام میں مکاشفات Rare تھے، کیونکہ وہ تعمیرِ فطرت اور عملی زندگی پر زیادہ زور دیتے تھے اور نگاہِ نبوتﷺ کی برکت تھی کہ انکے ایمانی و یقینی لیول کی بلندی کسی مشاہدے کی محتاج نہ تھی۔۔کافی باتیں لیکچر کی طوالت کے خوف سے رہ گئی ہیں جنکو آئندہ نشست میں بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔۔ تب تک کیلئے اجازت۔۔ اللہ دی امان۔۔!!

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔