Saturday, June 27, 2015

تصوف – 4 (تصوف کی ابتداء اور برکاتِ نبوت ﷺ)

0 comments
تصوف – 4
:::::::::::::
آج تو کلاس میں خاموشی چھائی ہے، کی گل اے، تھک تے نئیں گئے؟"نہیں سر، آج ہم ہمہ تن گوش ہیں"۔۔ چلیں یہ بتائیں کل مرد حضرات نے  جمعہ پڑھا تھا ، تو خطیب صاحب نے خطبے میں ایک حدیث مبارکہ بتائی تھی، خیر القرون والی، کس کو یاد ہے؟ ۔"سر مجھے"، ہاں بتاؤ شاباش اور ساتھ میں تشریح بھی کر دینا۔۔"جی سر، اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:  'خیر القرونِ قرنی'۔ سب سے بہترین قرن (زمانہ/دور) میرا قرن ہے۔۔اس زمانے میں نبی کریم ﷺ موجود تھے اور صحابہ کرام بھی۔۔ 'ثم الذین یلونھم'۔ پھر اس کے بعد والا زمانہ۔۔ یعنی صحابہ کے صحبت یافتہ (تابعین)۔۔ 'ثم الذین یلونھم'۔ پھر اسکے بعد والا زمانہ۔۔ یعنی تابعین کے صحبت یافتہ (تبع تابعین)۔"۔۔ ویری گڈ، بیٹھ جائیں۔۔  آپکو یاد ہو گا  کل ہم نے ڈسکس کیا تھا کہ صحابی ہونے کیلئے صرف نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں بحالتِ ایمان حاضری شرط ہے۔۔یعنی کوئی محنت مجاہدہ نہیں کرنا ہوتا تھا۔۔ صحابہ اس بات کے طالب رہتے تھے کہ کب کون سا حکم ملے، اور ہم فوراً بلا چوں چراں تکمیل کریں۔۔ شاعر نے صحابہ کی تعریف میں کیا خوب کہا ہے، 
ؔخود نہ تھے جو راہ پر، اوروں کے ہادی بن گئے
کیا نظر تھی ،جس نے مُردوں کو مسیحا کر دیا
اسی طرح تابعی ہونے کیلئے بالکل یہی شرط تھی کہ بحالتِ ایمان صحابہ کی نگاہ  نصیب ہو جائے۔۔ اور تابعی کی صحبت میں آنے والا مسلمان تبع تابعی ہوتا تھا۔۔یہ تین زمانے خیر القرون تھے۔۔ان میں نبوت کے باطنی علوم (برکات/ انوارات) کی فراوانی تھی۔۔ یہ برکات سینہ بہ سینہ ٹریول کرتی ہیں۔۔ نبی ﷺ کے سینے سے صحابہ کرام کے سینے میں، ان سے تابعین اور ان سے تبع تابعین کے قلوب تک  یہ بغیر مجاہدے و محنت کے فقط صحبت میں بیٹھنے سے حاصل ہو جاتی تھیں۔۔پھر ماحول میں کثافت بڑھنا شروع ہوئی، برائیاں پھیلنے لگیں۔۔ ہر شخص میں وہ صلاحیت نہ رہی کہ تبع تابعین کے قلب سے انواراتِ نبوت ریسیو کر سکے۔۔ہاں جی،  یہاں تک بات سمجھ آ گئی ہے تو آگے چلیں؟  "یس سر"۔۔اچھا، آپکو معلوم ہو گا کہ ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے: 'جب بندہ کوئی گناہ کرتا ہے تو اسکے دل پر ایک کالا نقطہ لگ جاتا ہے، جب وہ توبہ کرتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔۔ اگر توبہ نہ کرے اور گناہ کرتا رہے تو ایک وقت ایسا آتا ہے کہ قلب مکمل سیاہ ہو جاتا ہے'۔۔ آپ میں سےمیڈیکل کے طلباء جانتے ہیں کہ کافر کا دل بھی اسی کلر کا ہوتا جس رنگ کا مومن کا دل۔۔ پھر یہ کون سا دل ہے جو بلیک ہوتا ہے؟ اِدھر اُدھر نہ دیکھیں، میں بتائے دیتا ہوں۔۔  یہ وہی باطنی دل ہے جس کے متعلق اللہ کے نبی ﷺ کے فرمان کا مفہوم ہے: 'ہر شے کو چمکانے کیلئے ایک پالش ہوتی ہے، اور دلوں کی پالش اللہ کا ذکر ہے'۔۔"لکل شیئ صقالۃ و صقالۃ القلوب ذکر اللہ"۔۔معاشرے کے اثرات اور انسانی گناہوں کی وجہ سے دلوں پہ جو گرد جمی، اسکو ہٹانے کیلئے تبع تابعین نے اپنے پاس آنے والوں کی اللہ کے ذکر سے ظاہری و باطنی تربیت کا اہتمام فرمایا۔۔ جو اس محنت کو اپناتا گیا اس کا قلب روشن ہوا اور انوارات کے قبول کرنے کی استعداد پیدا ہوئی ۔۔ تزکیہ نصیب ہوا، اور وہ صوفی کہلایا۔۔ جس طرح نبوت کے ظاہری علوم کیلئے مدارس بنے، کتابیں لکھی گئیں، لوگ مفسر، محدث، مجتہد، فقیہ کہلائے اور فقہ کے چار مشہور مسالک (حنفی، حنبلی، مالکی، شافعی) وجود میں آئے۔۔ بالکل اسی طرح نبوت کے باطنی علوم کےحصول کیلئے خاقاہیں بنی، لوگوں نے لسانی اور قلبی ذکر سیکھا۔۔  یہ تصوف کا شعبہ تھا جس کے چار مشہور سلاسل ( نقشبندی، قادری، چشتی، سہروردی) وجود میں آئے۔۔صحابی ایک ہمہ جہت شخصیت اورمجموعۂ صفات ہستی کا نام ہے۔۔ کیا آپ صحابی کو مفسر یا محدث کہتے ہیں؟ صحابیت تو ان سے کہیں زیادہ بلند مقام ہے۔۔ اسی طرح صحابی کو صوفی کہہ دینا ایسا ہے جیسا آپ فوج کے کسی جرنیل کو کیپٹن یا میجر کہہ دیں۔۔"ایکسکیوز می سر، نبی کریم ﷺ کے زمانے کے بعد تو کوئی صحابی نہ بن سکا،تو کیا آپ ﷺ کے بعد یہ برکات ختم نہیں ہو جانی چاہئیں تھیں؟"۔۔ بیٹااب صحابی تو کوئی نہیں بن سکتا مگر انوارات آج بھی 'سینہ بہ سینہ' جاری و ساری ہیں ، اللہ کے ایسے اولیاء اس زمین کی آج بھی رونق ہیں جو یہ نعمت لُٹا رہے ہیں اور خوش نصیب بندے اپنے دامن کے مطابق سمیٹ رہے ہیں۔۔ ایسا ہونا ممکن نہیں ہے کہ برکات ختم ہو جائیں۔۔ اسلئے کہ حضور ﷺ کی رسالت کو تاقیامت باقی رہنا ہے، اور رسالت میں آپ ﷺ کی تعلیمات اور برکات دونوں شامل ہیں۔۔خیر القرون کے پاس بھی وہی تعلیمات (قرآن و حدیث) تھیں جو آج آپکے اور میرے پاس ہے، پھر ہمیں عمل کی توفیق کیوں نہیں ہے؟ جبکہ ان کی جان جا سکتی تھی، مگر عمل نہیں چھوٹتا تھا۔۔ہماری ذرا سی طبیعت خراب ہو تو سب سے پہلے نماز چھوڑتے ہیں۔۔آج ٹی وی انٹرنیٹ کے ذریعے جس قدر تعلیمات پھیلائی جا رہی ہیں کیا پہلے ایسا تھا؟ مگر عمل میں وہ ہم سے مضبوط تھے۔۔ جب تک تعلیمات کیساتھ برکات و کیفیات نہیں آئیں گی، بندہ کورا ہی رہے گا۔۔ فقہ پڑھ جائیگا، مفسر اور مفتی بن جائیگا، لیکن اسکا نہ تو کردار مفتیان کرام والا ہو گا اور نہ اسے عبادت کی لذت سے آشنائی ہو گی۔۔ یہ  بالکل ایسا ہے کہ آپ ساری زندگی انار کے جوس کی تھیوری پڑھتے رہیں کہ اس کا ذائقہ کیسا ہوتا ہے، مگر کبھی جوس پینے کا تکلف نہ کریں۔۔آپ ذرا ماضی قریب کے علماء ربانیین کی سوانح حیات دیکھیں تو وہاں یوں درج ہوتا ہے، 'حضرت نے درسِ نظامی سے فراغت کی سند لی، اور تحصیلِ طریقت (علمِ باطن)  کیلئے فلاں اللہ والے سے تعلقِ ارادت قائم کیا، اور خلیفہ مجاز ہوئے'۔۔ آج کے لوگ تو اس ضرورت کو محسوس ہی نہیں کرتے اور نرے کتابی علم پر قناعت کئے بیٹھے ہیں۔۔!"لیکن سر ،یہ صوفی لوگ تورہبانیت پسند ہوتے ہیں، جنگلوں میں پڑے رہتے ہیں، پھٹے پرانے لباس پہنتے ہیں، گردن میں تسبیح لٹکائے رکھتے ہیں وغیرہ، اسلام میں تو ایسا نہیں ہے ناں"۔۔ بیٹا آج پھر دو طلباء اونگھنے لگ گئے ہیں۔۔ اسلئے اسکا جواب ان شاء اللہ کل، ساتھ یہ بھی بتاؤں کا کہ تزکیہ کا اصل مفہوم کیا ہے۔۔ گڈ بائے۔۔!!

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔