صدر اول میں تعلیمی عمل کی نوعیت ایسی ہوا کرتی تھی کہ ایک ہی عالم قران بھی پڑھا رہا ہے وہی عالم حدیث ، فقہ اور احسان و سلوک کی تعلیم بھی دے رہا ہے یعنی اس وقت ان الگ الگ علوم کو انفرادی حیثیت حاصل نھیں تھی بلکہ یہ سارے علوم ایک ہی علم قران و حدیث کی تضمین و تشریح سمجھی جاتی تھی . وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ ان تمام علوم میں تنوع پیدا ہوتا رہا اور ان علوم نے انفرادی حیثیت اختیار کرلی جس کے نتیجے میں علم التفسیر ،علم الحدیث ، علم الفقہ و علم الاحسان و السلوک (جو بعد میں تصوف کے نام سے جانا پہچانا گیا ) جداگانہ علوم کے طور پر سامنے آئے علم الاحسان کو جدا حیثیت دینے والوں میں مشھور تابعی امام سعید ابن مسیب رح کا نام مشھور ہے .
اب اگر کوئی مطلق علم الاحسان و السلوک کو بدعت کہتا ہے تو یہ ایسا ہی جیسے کوئی علم الحدیث و اصول الحدیث اسی طرح علم فقہ و اصول الفقہ کو بدعت کہہ رہا ہو ..
(از: عمار خان)
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔