تب ساتویں آسمان سے جبریل وحی لے کر آقائے مدنیﷺ کے پاس آتے تھے تو نطقِ مبارک سے جیسے ہی الفاظ ادا ہوتے تھے تو وہ صحابہ کرام ؓ جن کے ’’سمعنا اور اطعنا‘‘ میں کسی نینو سیکنڈ کا بھی وقفہ نہیں ہوتا تھا ‘اور وہ جس سماج میں جی رہے تھے وہاں ہر فتنے کی کمر توڑ ڈالی گئی تھی‘ تو انھیں ’’ان تخشع قلوبھم لذکر اللہ‘‘ جیسا کوئی بھی اسلوب سن کر کسی اضافی ذریعے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی تھی۔۔۔۔ اور تب ہو بھی کیسے سکتی تھی۔۔۔۔
ہاں البتہ!
پھر ہمتیں پست ہوئیں!!! سماج کی پسند ناپسند بدلنے لگی!!! مادیت کی یلغار نے سماج سے ’’ابو ذر غفاریؓ‘‘ ، ’’سلمان فارسی ؓ‘‘ اور ’’بلال حبشی ؓ‘‘ جیسے زہدِ نبوت کے پرتو پوشید ہ کرنے شروع کر دیے !!! علوم کے سبھی شعبوں میں چیزوں کو مدون کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی!!!تو وہ رب ِقدیر جس نے فرمایا کہ ’’ہم ہی الذکر کونازل کرنے والے ہیں اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں‘‘ اُسی نے دوسرے علوم کے ساتھ اسے بھی مدون کروایا!!!
جی ہاں!
اب پھر سے ہوا کہ کسی کو زہد کا ایسا نمونہ بننے کی چاہت ہے تو وہ آئے اُن قدسی نفوس کے پاس کے جن کی مجلس میں آتے ہی وہ رب کی یاد سے غافل کر دینے والے دنیا داری کے جھنجٹوں کو پیچھے چھوڑ آئے!!! یہاں اب چراغ سے چراغ جلتے تھے!!! یہاں صحابہ کرامؓ کا زہد عملا برتا گیا کہ کوئی آیا اور سب ہاتھ جھاڑ کر بس اللہ کی یاد دل میں بسا کر لے گیا!!! اور پھر صدیوں بعد بھی لوگوں کے لیے ممکن رہا کہ اگر صحابہ کا زہد دیکھنا ہے تو وہ عملا کیسے ہوتا ہوگا!!!
آپ صوفیائے کرام کو غلط کہنا چاہتے ہیں!
کہہ لیجیے!!!
مگر ذرا رُکیے گا!!!
اہل حق صوفیاء کے علاوہ صحابہ کا زہد کسی طبقے میں دکھا تو دیجیے جنھوں نے ویسے ہی برتا ہو!!!
صاحب !
اگر’’اَن تخشع قلوبھم لذکر اللہ‘‘ جیسے اسالیب آج بھی کسی مجلس میں بغیر کسی اضافی محنت کروائے ویسا ہی اثر رکھتے ہیں کہ دل ویسے ہی ہو جائیں جیسے زبان رسالت مآب ﷺ سے سن کر ہوتے تھے تو بتلا دیجیے وہ طبقہ۔۔۔ ہم چھوڑے دیتے ہیں تصوف!!! ہمیں تصوف اپنی ذات میں عزیز نہیں ہمیں تو رب کی رضا چاہیے جہاں سے بھی رستہ ملے!!!
نبی پاکﷺ کے تمام کمالات کسی ایک صحابی میں جمع نہیں تھے!!! پھر بعد میں کسی میں کیسے ہوسکتے ہیں۔۔۔ یہ جوصحابہ کرام ؓ کی صفات آتی ہیں ناں کہ یہ حلال و حرام کو سب سے زیادہ جاننے والے ہیں، یہ صدق میں سب سے بڑھ کر ہیں وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔
تو !!!
آج ۔۔۔ یہ صفات بھی علیحدہ علیحدہ ہی ملیں گیں۔۔۔۔ کسی ایک طبقے میں اکٹھی ملنا عملا ً ممکن ہی نہیں۔۔۔ صوفیاء ہوں، علماء ہوں مجاہدین ہوں‘ دعاۃ ہوں وغیرہ۔۔۔ یہ سب میرے آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی صفات و کمالات کے محافظین ہیں۔۔۔ ان میں کوئی دوری نہیں۔۔۔
اور ہاں!
کھوٹ تو ہر جگہ ہوتا ہے۔۔۔۔ کسی طبقے کو کھوٹ سے پاک ماننا تو عقلا محال ہے۔۔۔ یہ ڈاکٹر، انجینر کتنے کتنے دو نمبر ہوتے ہیں ان میں۔۔۔ علم کے نام لیوا بھی کتنے ہیں جو صرف دنیا کمانا چاہتے ہیں۔۔۔
تو صاحب!
تصوف میں بھی ہر وہ بات جس کے غیر شرعی ہونے پر شرح صدر ہوجائے وہ کسی بھی دوسرے طبقے کی غیر شرعی توجیہ کی طرح ناقابل اعتبار۔۔۔ کہ اصل تو وہ رب ہے۔۔۔ بس یہی چاہت ہے کہ کل وہ حشر میں اعلان کردے کہ میں اپنے اس بندے سے راضی۔۔۔۔!
(تحریر: اشتیاق احمد)
(تحریر: اشتیاق احمد)
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔