سلوک و احسان کے چشمہ صافی پر گزشتہ ایک صدی میں جاہل اور غالی صوفیاء کے تصرف کی وجہ سے غلط فہمی اور بدگمانی کی ایسی دبیز اور گرد آلود تہہ بیٹھی ہے کہ چودہ سو برسوں سے دین حنیف کا تزکیہ نفس کا یہ مسلمہ شعبہ، اب بحث و تمحیص کا میدان کارزار بن گیا ہے... جس کا عکس آج کل فیس بک پر بھی دیکھا جا سکتا ہے... دراصل ہوا یہ کہ دین کے اور شعبوں کی طرح اس شعبے میں بھی دو انتہا ئیں پیدا ہو گئیں جن کی وجہ سےغلط فہمیاں پیدا ہوئیں... دونوں کی سوچ ایک مگر نتیجہ مختلف رہا... ایک خشک علماء کا گروہ جو کہنے لگے کہ تصوف کوئی چیز نہیں، یہ سب واہیات ہے... بس نماز، روزہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے، اسی کو کرنا چاہیے، گویا ان کے نزدیک قرآن و حدیث تصوف سے خالی ہیں... دوسری انتہا پر جاہل صوفیاء کا گروہ تھا جو کہتے تھے کہ قرآن و حدیث میں تو محض ظاہری احکام ہیں جو حجاب ہیں ... تصوف ایک باطنی علم ہے جو شریعت سے بالکل علیحدہ کوئی چیز ہے اور وہی اصل مراد ہے... سو نعوذ باللہ قرآن و حدیث ہی کی ضرورت نہیں... یوں دونوں انتہا پسند گروہوں نے قرآن و حدیث کو سلوک و احسان المعروف تصوف سے خالی سمجھا... پھر اپنی اپنی رائے کے مطابق ایک نے تو تصوف کو چھوڑ دیااور یوں کمال دین سے محروم ہو گیا... اور ایک بدبخت گروہ نے قرآن و حدیث کو ہی چھوڑ دیا اور کفر اختیار کیا!
ان دونوں انتہاؤں کےدرمیان محققین علماء کرام تھے، جو درحقیقت وارث انبیاء ہیں... انہوں نے نہ صرف شریعت کے اس اہم جز کو تھامے رکھا، ہر غلط ور زائد شے سے اس کی صفائی فرماتے رہے...بلکہ اپنی مساعی سے یہ ثابت بھی کیا کہ سلوک و احسان کچھ شریعت سے متصادم نہیں بلکہ عین شریعت ہے... اسی کی تفصیل ہم ذیل کی سطور میں پیش کر رہے ہیں۔
سب سے پہلا اعتراض منکرین تصوف کا یہ ہوتا ہے کہ... تصوف کا نام یا مخصوص ترتیب حضو راکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نہیں تھی...!
یہ نہایت سطحی اعتراضات ہیں... نام سے تو ہمیں کوئی مسئلہ نہیں... لفظ تصوف سے آپ کو مسئلہ ہے تو طریقت یا سلوک و احسان کہہ لیجیے... اگر اس میں بھی پریشانی ہے تو کوئی بات نہیں... آپ تزکیہ نفس کہہ لیجیے اور اس پر آپ کوئی اعتراض نہیں کرسکتے کیوں کہ قرآن و حدیث لفظ تزکیہ سے بھرے پڑے ہیں!
اور جہاں تک اس بات کا سوال ہے کہ تصوف بطور علم حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں نہیں تھا تو میرے بھائی... حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تو علم حدیث و اصول فقہ و علم کلام وغیرہ کچھ بھی جدا جدا نہ تھا... بلکہ تابعین اور تبع تابعین کے دور میں جب ہمتیں پہلی سی نہ رہیں... انفاس میں صحابہ کرام کی سی جامعیت نہ رہی... اسلام کی دور درازتک اشاعت ہونے کی وجہ سے نت نئے مسائل سامنے آنے لگے تو یہ ضرورت سمجھی گئی کہ شریعت جو تمام ظاہری و باطنی علوم و اعمال کا مجموعہ ہے، ان تمام پر جداگانہ محنت کی جائے...اس موقع پر یاد رہے کہ شروع میں لفظ "فقہ" شریعت کے ہم معنی استعمال ہوتا تھا... یعنی یہ صرف اعمال ظاہرہ سے متعلق نہیں تھا بلکہ اعمال ظاہرہ و باطنہ دونوں کو جامع تھا... خود امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے فقہ کی تعریف : معرفۃ النفس مالھا و ما علیھا (نفس کے نفع اور نقصان کی چیزوں کوپہچاننا) منقول ہے... بعد میں متاخرین کی اصطلاح میں لفظ "فقہ" کو انہوں نے شریعت کے اعمال ظاہرہ سے متعلق جزو کے لیے مخصوص کر دیا... جب کہ دوسرے جزو متعلق اعمال باطنہ کا نام "تصوف" ہو گیا...پس ثابت ہوا کہ یہ دونوں جز شریعت سے ہی متعلق ہیں... اور جو جاہل عوام میں یہ بات مشہور ہو گئی ہے کہ شریعت احکام ظاہرہ کو کہتے ہیں اور تصوف یا طریقت اعمال باطنہ کو... یہ تعبیر کسی طرح ٹھیک نہیں بلکہ شریعت جامع ہے فقہ (یعنی ظاہری اعمال سے متعلق احکام) اور طریقت ( یعنی باطنی اعمال سے متعلق احکام) کو!
اب جب قرآن و حدیث سے استنباط کر کے علوم نکالے گئےتو ہر ایک کا علیحدہ نام بھی تجویز ہوا... اور ان پر بنیادی محنت کرنے والوں کو سب نے امام مانا... امام اعظم ابو حنیفہ،امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ وغیرہ فقہ کے امام ... اوراسی طرح امام بخاری اور مسلم رحمہم اللہ اپنے تبحر فی الحدیث کی وجہ سے حدیث کے امام مانے گئے... اسی طرح تزکیہ باطن کی تعلیم دینے والے بزرگان دین مثلاً حضرت جنید بغدادی ، شیخ عبدالقادر جیلانی، خواجہ بہاؤ الدین نقشبندی، خواجہ معین الدین چشتی، شیخ شہاب الدین سہروردی رحمہم اللہ وغیرہ کو سب نے ہی اس علم میں پیشوا مانا... اور وہ تصوف کے شیخ کہلائے...!
اب ہوا یوں کہ اپنے اپنے علمی میدان میں تو سب اسپیشلسٹ کہلائے مگر وہ ایک دوسرے سے مستغنی نہیں ہو گئے... کیوں کہ اسی طرح وہ پورے دین پرکامل چل سکتے تھے... سو ہم دیکھتے ہیں کہ تمام ائمہ تصوف ظاہری علوم میں کسی نہ کسی امام فقہ کی پیروی کرتے رہے اور کبھی اس سے باہر نہ ہوئے...اور اسی طرح تمام ائمہ فقہ اور ائمہ حدیث نے اپنے تمام علم و فضل کے باوجود تصوف کی لائن میں کسی نہ کسی شیخ سے بیعت رہے اور اجازت ملنے پر آگے بھی بیعت کرتے رہے!
اب اعمال ظاہرہ اور اعمال باطنہ کی تفصیل پیش کرتے ہیں... تا کہ معلوم ہو کہ یہ جو ہم بار بار "اعمال باطنہ" کہہ رہے ہیں، یہ کوئی باطنیہ تحریک کی طرح کسی خفیہ، پوشیدہ چیز یا سحرانگیز علوم و اعمال کا نام نہیں بلکہ کلام اللہ اور کلام رسول اللہ میں بیان کردہ صاف صاف احکام ہیں جن سے ہر خاص و عام خوب واقف ہے!
دیکھیے ظاہری بدن یا ظاہری چیزوں سے متعلق شریعت کے احکام کلمہ پڑھنا، نماز روزہ، حج زکوٰۃ، والدین کی خدمت اور تبلیغ و جہاد وغیرہ ہیں ان کو مامورات کہتے ہیں... اور اس کے برعکس کلمات کفر کہنا، شرکیہ افعال کرنا، زنا، چوری، سود خوری وغیرہ کو مناہی کہتے ہیں...جن سے بچنا ضروری ہے... بالکل اسی طرح بعض اعمال صالحہ ایسے ہیں جن کا تعلق باطن سے ہے... مثلاً ایمان و یقین، اخلاص، صبر و شکر، توکل، رضا بالقضاء اور محبت الٰہی و رسول وغیرہ...ان کو اوصاف حمیدہ یا فضائل کہتے ہیں اور اس کی ضد یعنی عقائد باطلہ،تکبر، ریا، ناشکری، بے صبری، حسد اور عجب وغیرہ یہ رذائل کہلاتے ہیں، جن سے شریعت نے منع کیا ہے!
اب دیکھیے جس طرح قرآن مجید میں امر کے صیغے کے ساتھ نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دیا کرو کے احکام موجود ہیں... تو بالکل اسی طرح امر کے صیغے کے ساتھ (یاایھا الذین امنو ااصبرو) اے ایمان والو! صبر کرو اور(واشکرو) یعنی اللہ کا شکر بجا لاؤ بھی تو موجود ہے... اگر ایک جگہ پر (قد افلح المومنون الذین ھم فی صلوتھم) ہے تو اس کے ساتھ ہی (خاشعون) بھی تو لگا ہوا ہے تو کیا وجہ ہے کہ جب صلوتھم سے نماز کے ظاہری رکن مطلوب سمجھے جاتے ہیں تو پھر (خاشعون) سے خشوع کو مطلوب کیوں نہیں سمجھا جاتا، حالاں کہ دونوں حکم ضروری ہیں!
اسی طرح جہاں (اذا قاموا الی الصلوٰ ۃ قاموا کسالیٰ) یعنی جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو سستی سے کھڑے ہوتے ہیں (ظاہری عیب) مذکور ہے تو اس کے ساتھ ہی (یراءون الناس) یعنی لوگوں کو دکھلاتے ہیں (ریا باطنی عیب) بھی تو موجود ہے!
اگر ایک مقام پر روزہ اور حج فرض بتایا گیا ہے تو دوسرے مقام پر ( والذین امنو ا اشد حبا للہ)یعنی جو ایمان والے ہیں، وہ اللہ سے بہت محبت رکھتے ہیں) بھی تو بتایا گیا ہے... تو کیا ایمان والے محبت کے سوز و گداز سے خالی روزے رکھتے اور حج کرتے رہیں گے... اس محبت کی جوت اپنے دل میں جگانے کی کوشش محنت نہیں کریں گے...؟؟؟
تو ثابت ہوا کہ جس طرح اعمال ظاہرہ حکم خداوندی ہیں، اسی طرح اعمال باطنہ بھی حکم خداوندی ہیں... اور یہ دونوں اعمال ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم اور دائمی کامیابی کے لیے ضروری ہیں.. بلکہ ظاہری اعمال سے باطنی اعمال ایک درجہ اس لیے بڑھ کر ہیں کہ مثلا ایک مسلمان ساری زندگی ظاہری اعمال ، یعنی نماز، روزہ نہیں کرتا مگر انکار بھی نہیں کرتا تو وہ بہرحال مسلمان ہے مگر اگر وہ ایمان سے ہی ہاتھ دھو بیٹھے تو کتنے ہی ظاہری اعمال کر لے، کوئی فائدہ نہیں... اس تزکیہ نفس سے ہی متعلق اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے:قد افلح تزکھا......
"بے شک جس نے (نفس کو )صاف کیا، کامیاب رہا اور جس نے میلا کیا ناکام رہا۔"
اسی طرح دوسری جگہ یوم حشر کے متعلق ارشاد ہے: "اس دن مال اور اولاد کام نہ آئیں گے مگر جو شخص اللہ کے پاس سلامت قلب لے کر آیا!"
تو دیکھیے مدار نجات قلب کی درستی اور تزکیہ نفس پر ہی منحصر ہوئی... اور ہمیں اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ظاہر میں جتنے اعمال ہیں، وہ دراصل ایمان ہی کی تکمیل کے لیے ہیں اور ایمان کا محل تو ظاہر ہے کہ قلب (یعنی باطن) ہے... پس معلوم ہوا کہ اصل مقصود دل کی اصلاح ہے جو بمنزلہ بادشاہ کے ہے... اور اعضاء اس کی رعایا ہیں... بادشاہ درست ہو جائے تو رعایا خودبخود اس کی مطابقت کرنے لگتی ہے!
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مشہور ارشاد تو سب نے ہی سنا ہو گا کہ
"بے شک آدمی کے بدن میں ایک گوشت کا لوتھڑا ہے جب وہ درست ہو جاتا ہے تو تمام بدن درست ہو جاتا ہے اور جب وہ بگڑ جاتا ہے تو تمام بدن تباہ ہوجاتا ہے، سن لو وہ دل ہے!"
تو سوچنے کی بات ہے کہ کیا حضور کا اشارہ اس حدیث میں دل کے ظاہری فنکشن کی طرف تھا یا قلب کی روحانی حیثیت اجاگر کرنا تھا؟
اسی طرح عموما ہم تقویٰ کوصرف ظاہری جوارح سے متعلق سمجھتے ہیں مگر مسلم کی ایک حدیث میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک نقل ہوا ہے: "تقویٰ یہاں ہے اور سینے کی طرف اشارہ فرمایا۔" (مسلم)
اب ان دو صفات یعنی ایمان اور تقویٰ سے متعلق اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا مفہوم ملاحظہ فرمائیے:
آگاہ ہو جاؤ کہ بے شک اللہ کے اولیاء پر نہ کچھ خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے ، یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور تقویٰ اختیار کرتے ہیں۔ ان کے لیےدنیا و آخرت کی زندگی میں بشارت ہے!
اس آیت میں ولایت کا مدار دو چیزوں یعنی ایمان اور تقویٰ پر فرمایا گیا ہے... اور سمجھ لیجیے کہ مثل نماز روزے کے یہ بھی فرض و واجب ہے اور یہ دونوں چیزیں اپنے کامل ہونے میں بغیر اصلاح باطن کے حاصل نہیں ہوتیں... کیوں کہ جیسا کہ پہلے عرض کیا، دونوں ہی کا تعلق باطن یعنی قلب سے ہے!
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک اور مشہور ارشاد کو بیان کر کے قسط ختم کرتے ہیں۔فرمایا:
"احسان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اس طرح عبادت کرو کہ گویا تم اس کو دیکھ رہے ہو۔ اگر تم اسے نہیں دیکھتے تو وہ تمہیں دیکھ رہا ہے!"
معلوم ہوا کہ عقائد ضروریہ اور اعمال ظاہرہ کے علاوہ ایک اور چیز بھی ہے جسے حدیث میں "احسان" (یعنی حضوری) کہا گیا ہے اور جو طریق باطن میں سے ہے... اور چودہ سو سال سے لاکھوں معتبر آدمیوں کی شہادت موجود ہے کہ بغیر مخصوص طریق کے یہ نصیب نہیں ہوتی... بے شمار نیک روحوں کا مشاہدہ صدیوں سے ہے کہ اہل تصوف کے پاس بیٹھنے سے ایک نئی حالت اپنے قلب کی محسوس ہوتی ہے جو اس سے پہلے نہیں ہوتی... اور اس مبارک حالت کا اثر یہ ہوتا ہے کہ انسان کو طاعت سے طبعاً رغبت ہونے لگتی ہے اور معاصی سے نفرت...اس کی تائید میں بزرگوں کے کشف و کرامات بھی اس درجے منقول ہیں کہ جس کی انتہا نہیں اور یقیناً ان سب کا غلط ہونا محال ہے!
قسط کے آخر میں عرض ہے کہ یہ جو کچھ اوپر لکھا گیا، یہی تصوف کی اصل تعریف ہے اور یہی تصوف کا مقصود ہے... باقی جہاں تک مقامات کی بات ہے تو انہی اوصاف حمیدہ کے حصول یعنی "تحلیہ" اور اخلاق ذمیمہ کو دور کرنا (جسے تخلیہ بھی کہا جاتا ہے) کو ہی صوفیاء کی اصطلاح میں "مقامات" کہا جاتا ہے، یہ کوئی الگ بات نہیں... ان کے حصول کے لیے جو مجاہدات یا ریاضتیں کروائی جاتی ہے، اس کے بارے میں اگلی اقساط میں بات ہو گی ان شاء اللہ!
ان کے علاوہ دیگر کیفیات و احوال کی اصل بھی اگرچہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے مگر چونکہ ایک تو وہ مقصود نہیں، اور دوجے ان پر نجات کا دارومدار بھی نہیں بلکہ...
اگر یہ کہوں کہ کیفیات و احوال کی حیثیت تو بچے کو بہلانے والے کھلونوں سے زیادہ بھی نہیں تو غلط نہ ہو گا...اس لیے وہ کمال کا لازمہ تو کیا ہوتے، اس کے برعکس ان کا نہ ہونا کمال ہے کیوں کہ یہ مبتدی کو اور ضعفاء کو راہ آسان کرنے کے لیے عارضی طور پر دیے جاتے ہیں... اور چونکہ تمام اعتراضات انہی کیفیات و احوال پر ہی عموما وارد کیے جاتے ہیں اس لیے ان کو ہم اسی درجے میں رکھتے ہیں کہ اگر کسی کا دل ان سے مطمئن نہیں ہوتا تواپنی ذات کی حد تک انکار کردے... اس کا کوئی مسئلہ نہیں مگر... اس کی آڑ میں بزرگوں پر طعن نہ کرے کہ یہ بدبختی کی علامت ہے!
اب ناقدین تصوف سے گزارش ہے کہ بتائیں اس تفصیل میں کیا چیز شریعت پر اضافہ ہے؟
(تحریر : محمد فیصل شہزاد)
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔