Sunday, June 28, 2015

تصوف - 16 (اولیاء اور انکے مناصب)

0 comments
تصوف - 16
:::::::::::::::
آج ہم بات کرتے ہیں انسانی جسم کے دو پارٹس بدن اور روح میں سے دوسرے اور اہم جزو' روح کی۔۔ اسکے بارے میں آپ کافی کچھ پہلے ہی جان چکے ہیں کہ اسے اپنے اعضاء (لطائف) کی صحت و زندگی برقرار رکھنے کیلئے غذا کی ضرورت ہوتی ہے۔۔یہ بھی آپکو علم ہے کہ اسکی غذا اللہ کا ذکر ہے۔۔جب تمام سات لطائف پر ذکرِ قلبی مضبوط ہوجاتا ہے، یعنی لطائف منور ہوجاتے ہیں، تو روح میں ایک قوت پیدا ہوتی ہے جو اسے عالمِ اَمر اور قربِ الہٰی کی جانب سفر میں سپورٹ کرتی ہے۔۔کثرتِ ذکر اور شیخ کی توجہ کے باعث روح میں جیسے جیسے لطافت بڑھتی جاتی ہے، اسکا سفر تیز تر ہوتا جاتا ہے۔۔روح کے اس سفر میں مختلف اولیاء اللہ کواللہ پاک کی طرف سے مختلف مناصب (Designations) بطور گفٹ عطا کئے جاتے ہیں۔۔سب سے پہلا منصب ہے ابدال، اسکے بعد قطب،،قطب ارشاد،، پھر قطب مدار،، غوث،،قیوم،، فرد،،قطب وحدت اور صدیق کے مناصب ہیں۔۔ یہ ضروری نہیں کہ کسی غوث کو یہ علم بھی ہو کہ میں اب غوث بن چکا ہوں، دنیا میں اللہ کی مرضی کہ کسی کو بتائے یا نہ بتائے،، ہاں مرنے کے بعداسے پتہ لگ جاتا ہے۔۔ تصوف و سلوک میں قلندر کوئی منصب نہیں ہے۔۔یہ ایک انجانی اصطلاح ہے جو نامعلوم کس بنا پر لعل شہبازؒ کے ساتھ منسوب کر دی گئی ہے۔۔عوام کا حال تو یہ ہے کہ علم ذرا نہیں اور دعویٰ ایسا کہ شرم بھی نہ آئے۔۔ کئی بزرگوں کے نام کیساتھ دو منصب لکھ دیتے ہیں، مثلاً پہلے کسی کو قطب لکھیں گے پھر اسےابدال بنا دیں گے، یعنی پہلے ترقی دی پھر تنزلی کرا دی۔۔ یا کبھی یوں ہوگا کہ اللہ کے کسی ولی کا منصب صدیق ہوگا تو اسے غوث لکھ دیں گے،، یہ تو ایسا ہے کہ جیسے کسی وزیر اعظم کو پٹواری لکھ دیا جائے۔۔ اسی طرح 'خواجۂ خواجگان' بھی کوئی منصب نہیں ہے۔۔ یہاں ولایت سے متعلق کچھ ضروری وضاحت سُن لیں۔۔ قرآن مجید کے مطابق ہر وہ بندہ ولی اللہ ہے جو ایمانیات پر ایمان لاتا ہے،،'اللہ ولیُ الذین آمنو'۔۔ اللہ ایمان والوں کا ولی (دوست) ہے۔۔ اسے ولایت عامہ کہا جاتا ہے، یعنی یہ ہر مومن کو حاصل ہے۔۔ اسکے بعد ولایتِ خاصہ ہے جسکے متعلق ایک حدیث مبارکہ آپکے گوش گزار کرتا ہوں۔۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا:"اللہ کے کچھ بندے ایسے ہیں جو انبیاء نہیں مگر قیامت کے دن انبیاء اور شہداء ان پر رشک کریں گے۔ عرض کیا گیا: وہ کون ہیں، تاکہ ہم ان سے محبت رکھیں؟۔فرمایا:وہ ایسے لوگ ہیں کہ اللہ کے نور کی وجہ سے ایک دوسرے کو دوست رکھتے ہیں، نہ ان میں خونی رشتہ ہے نہ نسبی، انکے چہرے نورانی ہوں گے، وہ نور کے منبروں پر بیٹھے ہوں گے۔ جب لوگ خوفزدہ ہوں گے، انہیں کوئی خوف نہ ہوگا۔ جب لوگ غمگین ہوں، انہیں کوئی غم نہ ہوگا۔ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی، اَلا اِنّ اَولیاءاللہ لاخوف علیھم ولا ھم یحزنون، یاد رکھو، اللہ کے ولیوں پر نہ کوئی اندیشہ(خوف) ہوتا ہے، نہ وہ مغموم ہوتے ہیں۔" (الترغیب 4:5، نسائی و ابن حبان)۔۔ ان اولیاء اللہ کے بارے میں ہمارا یہ عقیدہ ہرگز نہیں کہ یہ کوئی مافوق الفطرت، خود مختار، نفع نقصان کے مالک، عالمِ غیب یاحاضرناظر ہستیاں ہیں، جن کو جاہل لوگ غائبانہ پکار کر فریاد رسی کرتے ہیں، یا انکو سجدہ کرتے ہیں، یا انکے پسینے والے ٹشوپیپر اپنے لئے تبرک سمجھتے ہیں، یا انکے رنگ برنگے کپڑوں اور جھنڈوں میں پناہ ڈھوندتے ہیں۔۔اللہ کے ولی اور شیخِ کامل کا حقیقی منصب تو خاکروب کا سا ہے۔۔ ہم نے اپنے دل کوحسد، جھوٹ، کینہ، چغلی، بدنیتی، ریا ، غفلت، اور نفرت کی غبار سے میلا کر ڈالا ہے،، حالانکہ یہ تو اللہ کریم کے رہنے کی جگہ تھی،، شَیخ اس جھاڑ جھنکار کو صاف کرکے اسمیں محبت، ایثار، اخوت ، اطاعت اور خلوص جیسے بیج بونے والا ہے۔۔شَیخِ کامل تو راہبر ہوتاہے،، ہیرا پھیری سے لوگوں کی راہزنی نہیں کرتا۔۔شَیخ کا کام ہے کہ اللہ سے بچھڑے ہوئے لوگوں کو اللہ سے ملا دے، انکو قرآن و سنت کا پابند بنا دے، اللہ و رسول کی نافرمانی سے بچنے کا جذبہ پیدا کردے۔۔تصوف کی پیری مریدی میں حسبی نسبی اور موروثی گدی نشینی کی کوئی گنجائش نہیں۔۔ باپ کے بعد بیٹا صرف اس صورت میں شیخ بنایا جائے گا جب اس میں باپ والی اہلیت ہوگی، ورنہ کسی اور خلیفہ کو شیخ نامزد کیا جائےگا۔۔کوئی بھی بندہ پیدائشی طور پر ولی اللہ نہیں ہوتا، بلکہ ولایت ایک کسبی شے ہے، یعنی یہ محنت مجاہدے، ذکر اذکار سے بطور انعام کمائی جاتی ہے۔۔کوئی کتنے ہی عجائبات و کرامات دکھائے،اگر اسکی عادات، اخلاق اور اطوار میں سنتِ نبی ﷺ کی خوشبو نہیں ، تو وہ مداری ہو سکتا ہے، ولی اللہ نہیں۔۔شیخ اور مرید کے تعلق میں دنیا کی دولت حائل نہیں ہوتی، بلکہ غریب وامیر کو اسکے ظرف، اسکی محنت، طلب، اسکی عقیدت، ادب اور اطاعت کے مطابق اللہ کی طرف سے بہترین نوازا جاتا ہے۔۔ شَیخ کی حیثیت دلدل میں پڑے ہوئے ایک مضبوط پتھر کی سی ہوتی ہے جس پر قدم رکھ کے لوگ اپنا ایمان بچا کر بارگاہِ الہٰی تک پہنچتے ہیں، ،ایسا کرنے والے نادان ہیں جو اس پتھر کو ہی پوجنا شروع کردیتے ہیں۔۔اللہ اور اسکے رسول ﷺ کی پیروی سے ہٹا کر جن لوگوں نے عوام کو اپنی پیروی پر لگا رکھا ہے، دراصل یہی لوگ تصوف کی بدنامی کا سبب ہیں۔۔!!

نوٹ :میں نے اپنی دانست میں تصوف کے بارے میں جتنا ضروری سمجھا، اتنا آپ دوستوں سے اپنے الفاظ میں بیان کردیا ہے۔۔اسکا مقصد یہ تھا کہ عوام کے ذہنوں میں تصوف سے متعلق جو شکوک وشبہات تھے، انکا ازالہ کیا جائے اور ایک صحیح تصوف اسلامی کا پاکیزہ چہرہ آپکو دکھایا جائے۔۔
اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی
ہم نے تو دل جلا کے سرِ عام رکھ دیا
آئندہ لیکچرز میں میں آپ دوستوں کےپوچھے گئے سوالات کے جوابات دوں گا۔۔!

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔