Sunday, June 28, 2015

تصوف – 9

0 comments
تصوف – 9
::::::::::::::
آپ نے کئی حیاتی پیروں کے سامنے یا مماتی پیروں کے درباروں پر لوگوں کو تڑپتا، ناچتا، مست ہوتا دیکھا ہو گا۔۔کسی کو کوئی خبر ہے کہ یہ سب کیا ہے؟
'سر مجھے تو یہ بہت عجیب لگتا ہے، کبھی میں سوچتا ہوں کہ کیا صحابہ کرام کے زمانے میں یا نبی کریم ﷺ کی بابرکت محفل میں کسی کو اس طرح تڑپنے کی جرات ہوتی ہو گی؟'
ہوں، کوئی اور اس بات کا جواب دے گا؟
'سر، میرا بھی یہی خیال ہے، بلکہ میں نے تو سنا ہے کہ آنحضور ﷺ کی مجلس میں صحابہ یوں دم بخود موجود ہوتے کہ پرندے انکے سر پر بیٹھ جاتے تھے'
کسی اور کے مائینڈ میں کوئی جواب ہوکہ تصوف سے اسکا کیا تعلق ہے؟
'سر، آپ ہی اسکی مزید وضاحت کردیں پلیز'
چلیں میں بتائے دیتا ہوں۔۔ اس میں تین قسم کے گروہ ہیں۔۔ ایک وہ جو شراب وغیرہ پی کر مخمور ہوئے ہوتے ہیں، میلے کچیلے کپڑے اور گندے سندے بال بنائے رکھتے ہیں۔۔ یہ عموماً کاروباری لوگ ہوتے ہیں، جو منشیات کا دھندہ کرتے ہیں، درباروں کو اپنی آماجگاہ بناتے ہیں، اور بیوقوف لوگ انہیں مجذوب سمجھتے ہیں۔۔ مجذوب کی تفصیل میں نے آپکو سابقہ لیکچر میں بتائی تھی۔۔ منتھلی نہ دینے پر پولیس کا چھاپہ پڑ جائے تو یہ خود ساختہ مجذوب رن وے پر جہاز سے زیادہ تیز دوڑتے ہیں۔۔ دوسرے وہ ہوتے ہیں جنہوں نے ہپنا ٹزم اور مسمرزم کا فن سیکھا رکھا ہوتا ہے۔۔ یہ اپنی قوتِ متخیلہ سے لوگوں کے ذہنوں کو ٹریپ کرتے ہیں اور پھر ان سے اپنی مرضی کا کام کراتے ہیں۔۔ تیسرے وہ ہیں جن کے قلوب و اذہان کمزور ہوتے ہیں،، ایسے لوگوں کے دل یا دماغ پر اگر کوئی قلبی توجہ کرنے والا توجہ ڈالے تو یہ برداشت نہیں کرپاتے اور یوں پھڑپھرانےلگتے ہیں جیسے کسی نے انہیں کرنٹ مارا ہو۔۔اس کرنٹ کا اثر مضبوط اعصاب والے شخص پر نہیں ہوتا تو یہ پریشان ہو جاتے ہیں۔۔ اصل میں اس Shock لگانے کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ آنے والے کو اپنی اہمیت کا احساس دلا کر متاثر کیا جائے، اور اپنی جماعت کی طرف راغب کیا جائے تاکہ یہ کسی نہ کسی حد تک "دین" سے جُڑا رہے۔۔ یہ تینوں طرح کے لوگ اس تھرتھرانے اور دیوانہ وار ناچنے کو 'وجد' یا 'دھمال' کا نام دیتے ہیں۔۔ وجد ایک کیفیت ہے جو بے خودی اور سرور کا احساس دیتی ہے۔۔ جسکے نتیجے میں بندہ دھمال ڈالتا ہے۔۔ پہلی دو کیٹگریز کو چھوڑ دیں کیونکہ اس سے زیادہ تر جہلاء منسلک ہیں،، تیسری کے بارے میں ' میں آپکو سمجھاتا ہوں کہ یہ کیوں طاری ہوتی ہے۔
اسکی تین وجوہات ہیں۔۔1۔ شیخ کی توجہ اس حد تک مضبوط نہ ہو کہ وہ مرید کو کنٹرول کر سکے،، 2۔ یا شیخ بلند منازل کا حامل نہ ہو،، 3۔مرید کیفیات کو جذب کرنے کی قوت نہ رکھتا ہو
۔یہ تینوں چیزیں تصوف میں کمزوری سمجھی جاتی ہیں۔
اب آگے سنیں۔۔ انسانی روح جب عالمِ امر کی طرف یا اس سے اوپر سفر کرتی ہے تو لازم ہے کہ شیخ انتہائی مضبوط کیفیات اور روحانی قوت کا حامل ہو،، ورنہ یہ ڈرائیور کی سیٹ کسی اپنے سے بلند مرتبہ ڈرائیور کو سونپ دے جو مرید کی صحیح تربیت کر سکے۔۔یہاں چند باتیں غور طلب ہیں۔۔ نبی کریم ﷺ دنیا کے سب سے بڑے شیخِ کامل ہیں، حتیٰ کہ امام الانبیاء ہیں۔۔کسی بھی اُمت کو برکاتِ نبوت اُس اُمت کے نبی کے راستے بطفیل سرکارِ دوعالم ﷺ نصیب ہوتی ہیں۔۔اگر یہ وجد یا دھمال کامل ہونے کی علامت ہوتا تو ضرورکسی نبی علی السلام کو بھی وجد پڑتا۔۔اسی طرح جن اصحاب کرام کی نبی کریم ﷺ نے تربیت فرمائی، ان میں بھی یہ وجد والا نقص نہیں تھا۔۔انبیاء علیہم السلام تو ہمہ وقت کیفیتِ ذکر میں رہتے ہیں۔۔صحبتِ نبی ﷺ کی برکت سے صحابہ کرام کے قلوب سے لیکر انکی جلدیں (Skins) تک ذاکرہوتی ہیں،، اس کے باوجود وہ دنیا کے سارے جائز امور اپنے مکمل ہوش و حواس میں سرانجام دیتے ہیں،، مگروجد میں تو بندہ کسی کام کا نہیں رہتا۔۔ آج بھی جو صوفیاء حضرات صحیح تصوفِ اسلامی پر قائم ہیں ،انکی محفلوں اور صحبت میں آنے والے مریدین تعظیم اور احترام سے انکے قلوب سے فیض پاتے ہیں،، کسی کو نہ وجد پڑتا ہے، نہ کوئی دھمال ڈالتا ہے۔۔ بلکہ یہاں تو حال یہ ہے کہ کم ظرف کا دامن بھی وسیع کردیاجاتا ہے۔۔ جن لوگوں کو وجد یا دھمال کی کمزوری ہو، انکو میرا مشورہ ہے کہ اپنے گھر کی چار اِنچی دیوار یا کسی کنویں کے کنارے بیٹھ کر ذکر کیا کریں،، لگ پتہ جائیگا کہ وجد ہوتا ہے یا نہیں۔۔ اور یہ سارنگی طبلے کی سرسراہٹ پر رقص کرنا یا گھومنا بھی تصوفِ اسلامی کا حصہ نہیں ہے۔
تو دوستو،، آج کے لیکچر کاحاصل یہ ہے کہ وجد ایک روحانی خرابی یا نقص ہے جو کیفیات کو برداشت نہ کرسکنے پر وارد ہوتا ہے، یا آپکا شیخ اونچے مرتبے کا حامل نہیں ہے، کاملین کو وجد نہیں ہوتا۔۔ نیکسٹ ٹاپک ہو گا کہ فیض کسے کہتے ہیں، پھر ہم وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود، قلندر جیسے اہم نظریات کو ڈسکس کریں گے۔۔ رب راکھا۔۔!!

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔