تصوف – 7
::::::::::::::
ہر چند کہ یہ ایک Conceptual لیکچر ہے، مگر نئےطلباء کیلئے بھی یکساں مفید ہوگا۔۔ ایکسکیوز می، مس لاسٹ بینچ،، ابھی لیکچر شروع نہیں ہوا اور آپ نے اونگھنا شروع کر دیا۔۔ جائیں اور منہ پر پانی کے چھینٹے مار کر آناً فاناً واپس آئیں۔۔جب تک میں باقی طلباء سے گپ شپ کرلوں۔۔ پیارے دوستو، یہ تو آپکو معلوم ہو گیا کہ انسانی جسم کے دو حصے ہیں۔۔ بدن اور روح۔۔ بدن چونکہ کثیف ہے، اسلئے اسکے پارٹس کو دیکھا اور چھوا جا سکتا ہے۔۔ روح لطیف ہے، اسلئے اسکے پارٹس کو ظاہری آنکھ سے دیکھا نہیں جا سکتا اور نہ ہی یہ Touchable ہیں۔۔ بدن کے اعضاء کی ترکیب اور علاج کا علم اس شعبے کے ماہرین کو ہے اور ہم انکی تحقیق اور علاج پر بھروسہ کرتے ہیں۔۔اس طرح روح کے اجزاء کی ترکیب اور علاج کا علم روح کے ماہرین کو ہے اور ہم انکی تحقیق پر مطمئن ہیں۔۔ ہاں، اگر آپکو اللہ کریم قلبی نگاہ نصیب کرے تو آپ بھی اپنی تسلی کر سکتے ہیں۔۔' مے آئی کم اِن سر'۔۔ یس پلیز، امید ہے نیند اُڑ گئی ہو گی۔۔!اس سے پہلے کہ میں آپ سے کوئی سنجیدہ سوال کروں، میرے علم میں ہونا چاہئے کہ آپ عقلمند ہیں، بالغ ہیں، باشعور ہیں اور سوال کابالکل درست جواب دے سکتے ہیں۔۔دوسری صورت میں مجھے آپ سے کوئی اہم بات نہیں پوچھنی چاہئے۔۔ کیا آپ ایگری ہیں؟ 'یس سر'۔۔ اچھا اب اپنی ذات کو اپنے مکمل شعور کیساتھ پیچھے لے جائیں، بہت بعید ماضی میں، ذرا اور دور۔۔ حتیٰ کہ آپ وہاں پہنچ جائیں جہاں آپکی روح سے پوچھا گیا تھا، 'الست بربکم' پوچھنے والی ذات اللہ کریم کی تھی کہ بتاؤ، کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ آپکی طرف سے جواب آیا: 'بلیٰ'۔۔ بالکل ہیں،، صرف یہی نہیں بلکہ، 'شھدنا'۔۔ ہم گواہی دیتے ہیں۔۔معلوم ہوا کہ ہماری روح عاقل ہے، بالغ ہے، باشعور ہے اور خلافتِ الہٰی کی ذمہ داری اپنی مکمل ہوش و حواس میں قبول کی تھی۔۔اب ہوا یوں کہ موجودہ عالمِ امتحان میں روح کو بدن کے ماتحت کیا گیا۔۔ یعنی روح کو سوار اور بدن کو میٹرو بس بنا دیا۔۔ غور کریں کہ یہ کیسی عجیب کمپوزیشن بن گئی کہ بدن کوتو اِرتقائی منازل سے گزر کر بچپن، لڑکپن، جوانی اور بڑھانے کی دہلیز تک آنا تھا،، جب کہ روح پیدائشی طور پر صحت مند اور سمجھدار تھی۔۔آپکو پتہ ہے کہ جو با عقل ہو، اسکی خصلت ہوتی ہے کہ وہ حق پر رہے۔۔ اور آپکو یہ بھی علم ہے کہ سب سے بڑا حق کیا ہے؟ ۔'اسلام'۔۔ جی ہاں، اسلام ہی حق ہے،، اسلئے ہربچہ جسمانی طور پر پیدا ہوتے ہی فطرتِ اسلام پر ہوتا ہے،، کیونکہ فطرت کا تعلق روح سے ہے، بدن سے نہیں۔۔یہاں تک جس کو سمجھ نہیں آئی وہ برائے مہربانی دوبارہ اوپر والی لائنز پڑھ لے ،پھر ہم آگے چلتے ہیں۔۔ اوہو، شور نہ کریں، دل میں پڑھیں۔۔!توجہ رکھیں،، جس طرح بدن کےکچھ اعضائے رئیسہ ہیں،، مثلاً دل، گردہ، پھیپھڑا، جگر، آنکھ، دماغ وغیرہ،، اسی طرح روح کے پارٹس کو لطائف کہا جاتا ہے۔۔ علماء ربانیین کا اجماع ہے کہ پانچ بنیادی لطائف ہیں، جنکے نام یہ ہیں۔۔ قلب، روح، سری، خفی، اخفاء۔۔ اسکے علاوہ ایک لطیفۂ نفس ہے اور ایک سلطان الاذکار۔۔ سکون اور ٹینشن کا تعلق قلب سے ہے، قلب پریشان ہو تو دماغ کو بھی وختہ پڑا ہوتا ہے۔۔قلوب کے اطمینان کیلئے قرآن پاک نے جو نسخہ بتایا ہے وہ ہے، اللہ کی یاد۔۔جتنا جتنا اللہ کےذکر میں کھوتے جاؤ گے،، اتنا ہی دنیاوی مصیبتیں بھی آپکو مزہ دیں گی۔۔ اچھا، کسی نے کلام باھوؒ پڑھا ہو تو اس میں انہوں نے یوں فرمایا ہے،،جنہاں عشق حقیقی پایا ،مونہوں نہ کجھ اَلاون ھو --ذکر فکر وچ رہن ہمیشہ ،د م نوں قید لگاون ھو -- قلبی روحی سری خفی اخفا لطائف کماون ھو--قربان انہاں توں باہو جہیڑے عکس نگاہ جگاون ھو۔۔۔اسی طرح مجدد الف ثانیؒ ، شاہ عبد القادر جیلانیؒ،شیخ علی ہجویریؒ ، مولانا اللہ یار خانؒ، اور دیگر صوفیاء کی کتب میں لطائف کی وضاحت اور انکے فنکشنز پر سیر حاصل بحث موجود ہے۔۔ان کا حاصل، جو میں سمجھا ہوں وہ یہ ہے کہ جس طرح ہم بدن کے ہر عضو کی نگہداشت کرتے ہیں، ڈاکٹر کو چیک اپ کرواتے رہتے ہیں، وہ بیماری کی نوعیت کے مطابق دوا تجویز کرتا ہے، تو متعلقہ حصہ اپنا کام ٹھیک سے کرنے لگتا ہے۔۔اسی طرح روح کے اعضاء (لطائف) میں بیماری یا فالج کی صورت میں انکا منفی اثر انسانی نفس ، ضمیر اور مزاج پر پڑتا ہے۔۔ مثلاً نفس رشوت لینے کا عادی ہے، بد نگاہی میں مبتلا ہے، غیبت میں مزہ آتا ہے، عریانیت کو فیشن سمجھتا ہے ، وغیرہ،، تو اس سے مزاج بے دین ہو جاتا ہے، نیکی میں دل نہیں لگتا، اور ضمیر صاحب کی موت واقع ہو جاتی ہے، وغیرہ۔۔نگاہوں کے سامنے چونکہ دنیا کی راحتیں زیادہ ضروری ہوتی ہیں اور نفس بھی حرام کھا کر ہٹا کٹا ہو گیا ہوتا ہے، تو یہ روحانی اوصاف پر غالب آ جاتا ہے۔۔اب روح تو بیمار ہو کر بسترِ مرگ پر پڑی ہے، اور نفس صاحب گانے سن کر مزے لے رہے ہیں، جھوم رہے ہیں۔۔ اور پتہ ہے اس نفسانی لطف کے بارے میں یار لوگ کیا کہتے ہیں؟ ۔'واقعی بھئی موسیقی توروح کی غذا ہے،، دیکھو کیسی چس آتی ہے جب لتا اور نصرت فتح کے سُر کانوں میں رس گھولتے ہیں'۔۔ نادانوں کو یہ نہیں پتہ کہ نفس کی خوشی اور روح کی تازگی میں کیا فرق ہے۔۔ روح کی غذا تو اللہ کا ذکر ہے۔۔نفس مضبوط ہو جائے تو وہ اللہ کے ذکر والی غذا کو بھی بد ہضمی بنا دیتا ہے اور پھر آپ کہتے ہیں کہ ہمیں نماز میں مزہ نہیں آتا۔۔۔۔!اب ان تمام بیماریوں کے علاج کی فکر لے کر جب ہم کسی روحانی فزیشن کی خانقاہ پر جاتے ہیں تو وہ تشخیص کرتا ہے، اور علاج تجویز کرتا ہے۔۔ یہاں بطور علاج ہی اسکی قلبی توجہ بھی انتہائی اثر رکھتی ہے۔۔ 'سر میرا ایک کؤسچن ہے یہاں، کہ یہ قلبی توجہ کیا ہوتی ہے؟'۔۔ عمدہ سوال اٹھایاآپ نے۔۔ یہ وہی کیفیات، برکات اور انوارات ہیں جو اس قلب سپیشلسٹ نے سینہ بہ سینہ نبی کریم ﷺ سے حاصل کئے ہیں، اور اب آپکے دل میں انڈیل رہا ہے۔۔ یہ دل کی سیاہی کیلئے انک ریموور کا کام کرتے ہیں۔۔اور نتیجے میں آپکا نفس کمزور ہوتا ہے، ، عبادت کرنا خوشی بن جاتا ہے، جب لطائف پر اللہ کے ذکر کاا سپرے کیا جاتا ہے تو ان میں موجود امریکی سنڈیاں اور انڈین جڑی بوٹیاں مرجھا جاتی ہیں۔۔ اور ایمان کی مضبوطی، دین پر استقامت، گناہ سے نفرت اور اطاعتِ الہٰی کی محبت کے نایاب پھول ناصرف آپکے چمن کو مہکاتے ہیں بلکہ آپکے اردگرد کے ماحول میں بھی خوشبو پھیلا تے ہیں۔۔یہی تصوف ہے، اور اسی کو تزکیہ کہتے ہیں۔۔!!۔۔اگلی کلاس میں ہم دیکھیں گے کہ القاء، الہام، کشف، وجد، وجدان، استدراج، دھمال وغیرہ کیا ہیں اور ان کا تصوف ِ اسلام میں کیا مقام ہے۔۔ہو گئی چھٹی،، نعرے لاؤ ۔۔ دا اللہ پا امان۔۔!!
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔