Sunday, June 28, 2015

تصوف - 17 (سوال و جواب)

0 comments
تصوف - 17
:::::::::::::::
دوستو،آج سے سوال و جواب کی محفل شروع ہو گئی ہے۔۔آپ تصوف کے بارے میں دل کھول کر سوال کریں، ان شاء اللہ آپکو تسلی بخش جواب دیا جائے گا۔۔نئے دوستوں سے گزارش ہے کہ بلا وجہ لفظ تصوف یا شعبۂ تصوف کو غلط اور خلافِ اسلام ثابت کرنے کی بجائے میری وال پر موجود تصوف کے لیکچرز میں سے کسی ایک بات کو خلافِ اسلام ثابت کردیں۔۔معاشرے میں موجود غلط فہمیوں کو بنیاد بنا کر، یا جعلی تصوف فروشوں سے متاثر ہو کر اگر آپ تصوف کو دین ِ اسلام نہ سمجھنے پر مصر ہیں، تو میں آپ سے بحث نہیں کر سکتا۔۔ہاں جن باتوں کو آپ نے تصوف سمجھ رکھا ہے، اور انکی وجہ سے اس شعبے میں قدم رکھنے سے کترا رہے ہیں، تو میں ان شاء اللہ آپکی خاطر خواہ راہنمائی کر سکتا ہوں، اور آپکے اعتراضات برائے علم کا خاطر خواہ ردّ کر سکتا ہوں الحمدللہ۔۔ لیجئے، پھر ہو جائیے تیار اور کون کرے گا پہلا سوال؟۔۔'سر، ہر چند کہ میں آپکے لیکچرز میں اکثر اونگھتا رہا ہوں، مگر سوالات کی ابتدا میں ہی کرتا ہوں۔۔ آپ کہتے ہیں کہ روح عالمِ اَمر کی طرف ٹریول کرتی ہے۔۔ یہ بتائیں کہ جب روح کسی کے بدن کو چھوڑ کر سفر کرتی ہے تو انسان مرتا کیوں نہیں ہے، زندہ کیسے رہتا ہے؟'۔۔نائس کؤسچن،، اسکا اصل جواب تو یہ کہ جب کوئی اس پراسس سے گزرا ہی نہ ہوتو اسے کیسے سمجھایا جائے۔۔ بہرحال مثال سے یوں سمجھ لیں کہ جیسے سورج سارے جہان میں روشنی پھیلا کر بھی نہیں پھٹتا، اسی طرح روح بھی بدن سے نکل کر مختلف مقامات تک جاتی ہے تو انسان نہیں مرتا۔۔جب ہماری آنکھ حدِ آسمان تک دیکھتی ہے تو اسکی بینائی ختم نہیں ہوتی، اور نہ ہی آنکھ پھٹتی ہے،، اسی طرح روح بھی بدن سے نکل کر مقاماتِ اعلیٰ تک پہنچتی ہےتو جسم میں پھر بھی باقی رہتی ہے۔۔ البتہ موت کے وقت اسکا تعلق بدن سے منقطع کردیا جاتا ہے۔۔موت ایک الگ کیفیت ہے جبکہ مراقبات دوسری شے ہیں۔۔ اگر اس مادی اور ظاہری آنکھ کی قوت و صلاحیت کا اندازہ آپ نہیں کر سکتے، تو روح کا ادراک تو بہت مشکل چیز ہے۔۔یہ لطائف، مراقبات، فنا، بقا، وغیرہ خود سے کرکے سمجھنے والی باتیں ہیں۔۔ الفاظ میں آپکو کس طرح بتایا جائے،، ناممکن لگتا ہے مجھے کہ میں آپکو بھوک کی کیفیت سمجھاؤں۔۔ البتہ آپکو دو دن بھوکا رکھا جائے تو سب سمجھ آ جائے گی کہ بھوک کس بلا کا نام ہے۔۔!!
'Sir، میرا بھی ایک سوال ہے،، کل میں نے ایک پوسٹ دیکھی،، اس میں لکھا تھا کہ تصوف کو سارا کا سارا ردّ کرنے کی بجائے اس کی اصلاح کیجئے،،، آپ کیا کہیں گے اس بارے میں؟'۔۔ ویل، میرا مقدمہ اسکے برعکس ہے۔۔ میں تصوف کو قابلِ اصلاح نہیں بلکہ تصوف کے ذریعے لوگوں کو قابلِ اصلاح سمجھتا ہوں۔۔ یہ تو ایسا ہے کہ جیسے کچھ نفس پرست لوگ کہیں کہ جی اسلام کی اصلاح کرو، تاکہ ہمارے مقاصد پورے ہو سکیں۔۔ ڈئیر،، بات یہ ہے کہ اسلامی تصوف میں کچھ ایسا نہیں جسکی اصلاح کی ضرورت ہو۔۔ صوفیاء اسلاف کی کتب انکے تجربات اور محسوسات پر مبنی ہیں جنہیں انکا عقیدہ کہنا درست نہیں۔۔ عقیدہ وہ ہے جو ہمیں قرآن و سنت دیتے ہیں اور بس۔۔تمام صوفیاء کی زندگیوں پر شریعت ہی کی چھاپ نظر آتی ہے۔۔کسی صوفی نے کچھ ایسا لکھ دیا جو غیرصوفی کی سمجھ سے باہر ہےتو اسے چاہئے کہ ایسے کسی بھی فعل و قول کو رد کردے جو اسلام کے منافی ہو۔۔ وہ جانے اور اس کا رب جانے۔۔ہمیں اس پر نکیر کرنے کا حق نہیں ہے۔۔ جن غیر اسلامی تصورات کو آپ نافہمی میں تصوف سمجھ بیٹھے ہیں یا جن کرتبوں کو تصوف کیساتھ نتھی کردیا گیا ہے، انکو نکالنے کی ضرورت ہے۔۔ بتوفیق الہٰی میری اس ساری محنت کا مقصد یہی تھا کہ آپکے سامنے حق کھول کر واضح کردیا جائے تاکہ معاشرے میں پھیلی بدگمانیوں کا ازالہ ہو سکتے اور ہم سب اپنی اصلاح کی فکر کریں۔۔ یاد رکھیں، تصوف رضائے الہٰی کے لئے پورے خلوص سے سنت نبوی ﷺ کے مطابق زندگی گزارنے کا نام ہے اور بس۔۔!! کسی دوست کے کوئی اور سوالات ہیں تو مجھے لکھوا دیں تاکہ اگلے لیکچر میں انکا جواب دیا جا سکے۔۔ اللہ دی امان۔۔!!

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔