Monday, June 29, 2015

فرق تلاش کریں

0 comments
"میں تو صوفیوں کے وضع کردہ ان اشغال و اذکار کے بغیر ہی خشوع و خضوع حاصل کرلیتا ہوں، یہ سب ڈھکوسلے و ڈرامے بازیاں ہیں کہ حضور قلبی کے لئے انہیں سیکھنا ضروری ہے" ۔۔۔۔۔۔۔ تصوف کا جدید ناقد
.
"میں تو مولویوں کے وضع کردہ ان اصولوں کے بغیر ہی قرآن پڑھ کر سمجھ لیتا ہوں، یہ سب ڈھکوسلے و ڈرامے بازیاں ہیں کہ قرآن سمجھنے کے لئے انہیں سیکھنا ضروری ہے" ۔۔۔۔۔۔ مولوی کا جدید ناقد

ہے کوئی فرق؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
درحقیقت جس قدر یہ دوسرا شخص غلط ہے اسی قدر پہلا بھی غلط ہے؛ ان دونوں کی غلطی سمجھنے میں مشکل اس لئے پش آتی ہے کہ دوسرے علم کی افادیت کو ہم میں سے بہتوں نے پرکھ کر سمجھا جبکہ اول الذکر کو ہم میں سے بہت کم نے پرکھا۔ جس نے "سب کچھ  پرکھ لینے کے بعد" اسے پرکھا وہ اپنی آخری سانس تک اسی کا ہو کر رہ گیا ۔۔۔۔۔ وہ تھا غزالیؒ۔
(زاہد مغل)
_______________________

کمنٹس

عرفان شہزاد: تصوف میں جو خدا سے براہ راست رابطہ کا دعوٰی کیا جاتا ہے میرے خیال میں یہ سب سے بنیادی وجہ ہے جو تصوف کو نبوت کے ہم قدم کردیتی ہے. پھر فقہی اغلاط ہوں یا کلامی یا حکمت عملی کی اغلاط، نہایت اعتماد سے کی جاتی ہیں. غرض تصوف احتمال کی نہیں بزعم خود اعتماد کی دنیا ہے .اس اعتماد میں کوئی ولی بنے یا مہدی یا نبی سب ممکن ہو جاتا ہے۔

زاہد مغل: اگر تصوف کے ذریعے کوئی خدا سے رابطے کا کوئی ذاتی تجربہ رکھتا ھے تو بھلے ھی رکھے، مگر اسکا ایسا کوئی تجربہ کسی کے لئے شرعی حجت نہیں بن سکتا اور نہ ہی شرعی احکامات کو معطل کرسکتا ہے۔

عامر ہاشم خاکوانی: تصوف بنیادی طور پر ایک ٹریننگ سکول کا درجہ رکھتا ہے، جہاں اخلاقی تربیت کی غرض سے کچھ لوگوں نے اپنی فہم وفراست کے مطابق کوشش کر کے کچھ نصاب طے کیا، اسباق بنائے، ایک خاص طریقہ کار وضع کیا، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں تبدیلیاں آتی گئیں، بنیادی نقطہ پھر بھی تذکیہ نفس اور تربیت ہی ہے۔ تصوف کے حوالے سے گرد بہت زیادہ اڑائی گئی، کچھ ارباب تصوف کا بھی قصور ہے کہ اپنے پیر کو بڑا ثابت کرنے کے لئے بہت کچھ فسانہ طرازیان‌کی گئیں، انتہائی نجی محفلوں‌میں بیان کئے گئےواقعات یا اقوال بلا سوچے سمجھے عام کر دئے گئے ، یوں کئی مغالطے پیدا ہوئے۔ تصوف پر ہونے والی بیشتر تنقید بلاجواز ہے، ایسا کرنے والوں کی اکثریت کو تصوف کے بارے میں کچھ بھی نہیں معلوم، انہیں اس کے خلاف تعصبات ورثے میں‌ملے ہیں، مسلک سے یا اپنے فکری قائدین سے۔

محمد لطیف: اصل میں تصوف کوکوئی بھی برا نہیں کہتا۔ تصوف نما جعل سازی کوسب ہی برا کہتے ہیں- ہراصل کی نقل ھوتی ھے- جس کی نقل نہ ھووه خود نقل ہے- تصوف کی نقل/جعل سازی یہ بتاتی ہے کہ تصوف کی اصل بھی ہے- ہم لوگ اصل تصوف سامنے لانے کے بجائے جعلی تصوف کے جوازمیں دلائل دینا شروع کردیتے ہیں جو کہ غلط ہے-

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔