جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں تعلیم و تعلم اور تزکیہ نفس کا کام ساتھ ساتھ ھوتا رھا. صحابہ کرام کے دور میں اور تابعین تبع تابعین کے دور میں بھی تعلیم و تعلم اور تزکیہ نفس کا کام ساتھ ساتھ ھوتا رھا. لیکن جب علوم کی تدوین اور تخصصات کا دور شروع ھوا تو تعلیم و تعلم اور تزکیہ نفس کے مستقل ادارے وجود میں آگئے. چناچہ محدثین و فقہاء نے حدیث و فقہ سے اشتغال رکھا اور صوفیاء کرام نے قرآن و حدیث کی روشنی میں تزکیہ نفس کو اپنا موضوع بنایا . انسانی آبادی کے بڑھتے مسائل کی وجہ سے کسی ایک ادارے کے لیے ممکن نھیں تھا کہ وہ تعلیم و تعلم ، تبلیغ ، جہاد ، تزکیہ نفس کو ساتھ ساتھ لے کر چلے اور ان سب سے انصاف کر سکے . چناچہ تقسیم کار ھوا اور ہر ایک نے اپنے حصے کا کام شروع کیا لیکن کبھی کسی نے دوسرے کے کام کو ہلکا نہیں سمجھا بلکہ ہر ایک دوسرے سے استفادہ کرتا رھا . تمام صوفیاء کرام بھی ائمہ اربعہ کے مقلد اور خوشہ چین رھے. صوفیاء نے تصوف کے ساتھ ساتھ جہاد بھی جاری رکھا. خود ہندوستان میں سب سے بڑی جہادی تحریک سید احمد شہید نے برپا کی جو مشہور صوفی بزرگ تھے، جن کے مرید ھزاروں میں تھے۔ اور ماضی قریب میں مفتی رشید احمد لدھیانوی مشہور صوفی بزرگ تھے، جنہیں مجاھدین آج بھی امیر المجاہدین کے نام سے یاد کرتے ھیں. دیوبندی مکتب فکر کے تمام جہادی راہنما صوفی بھی تھے.
خیر بعض حضرات یہ بھی کہتے ھیں کہ امام ابوحنیفہ تو کسی سے بیعت نہیں تھے!
یہاں دو باتیں سمجھنے کی ہیں پہلی بات تو یہ ہے کہ امام صاحب کے دور تک تعلیم و تعلم اور تزکیہ نفس کا کام ساتھ ساتھ ھوتا تھا اسی لیے آپ نے فقہ کی تعریف " معرفة النفس مالھا وما علیھا " کی ھے جس میں فقہ کے ظاھری اور باطنی دونوں طرح کے مسائل آجاتے ھیں. امام صاحب کے دور تک تو علوم کی تقسیمات نہیں ھوئی تھیں۔ یہ تو بعد میں ہوا کہ فقہ و حدیث اور تزکیہ نفس کے الگ الگ ادارے وجود میں آئے. دوسری بات سمجھنے کی یہ ہے کہ اصل مقصود تزکیہ نفس ہے نہ کہ بیعت وغیرہ. اگر کسی کی اصلاح بغیر صوفیاء کے پاس جائے ھو جاتی ھے تو اچھی بات ہے۔ تصوف کا حاصل بھی یہی ہے جیسا کہ مولانا اشرف علی تھانوی صاحب نے لکھا ہے کہ ایسے شخص کو بیعت کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔ لیکن عام طور پر دیکھا یہی گیا ھے کہ بغیر محنت و مجاہدات کے اور صحبت صالح کے اصلاح نہیں ھوتی۔ ہر شخص اس سطح کا نہیں ھوتا کہ اس کی اصلاح محض لٹریچر سے ہی ھو جائے. صحبت کے اپنے اثرات ھوتے ھیں جن سے انکار نہیں کیا جا سکتا. اس لیے اصول یہی رہے گا کہ اصلاح بغیر صحبت صالح کے نہیں ھوتی۔ ہاں بعض شاذ شخصیات ایسی بھی ھیں جن کی شریعت میں مطلوب اصلاح بغیر اصلاح کرائے بھی ھو گئی. اللہ تعالی نے بھی کبھی ایسا نھیں کیا کہ کتاب بھیجی ھو اور پیغمبر نہ بھیجا ھو۔ ھاں ایسا ھوا ھے کہ پیغمبر بھیجا گیا ھو اور کتاب نہ بھیجی گئی ھو.
یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ صوفیاء کرام کی ایک جماعت نے کسی دور میں عجمی افکار کو بھی قبول کیا اور اس چشمہ صافی کو گدلا کیا، لیکن علماء نے ان افکار و اعمال پر شدید رد کیا. ابن تیمیہ ، امام جوزی ، مجدد الف ثانی سے لے کر مولانا اشرف علی تھانوی صاحب تک سب نے صوفیاء کے باطل افکار کا رد کیا ..... . ان تمام امور کے علی الرغم ہر دور میں مادیت اور گناہوں کے ہاتھوں ستائے لوگوں نے صوفیاء کے شجر سایہ دار تلے اطمینان کا سانس لیا ھے. مسلمانوں کی تاریخ کے لاکھوں لوگوں نے اپنے باطن کی اصلاح صوفیاء سے کرائی.
تصوف کا مقصد زندگی کے حقائق سے فرار قطعا نہیں ھے۔ تصوف کا مقصد یہ ھے کہ اس زندگی میں بندہ اتنا نہ ڈوبے کہ اپنے مقصد حقیقی ہی کو بھول جائے. خلاصہ یہ ھوا کہ مقصد تزکیہ نفس ہے اور صوفیاء کا اصلاح کرنے کا انداز اس مقصد کے حصول کے لیے ذرائع اور اسباب کی حیثیت رکھتا ھے، اور یہ ذرائع و اسباب بذات خود قطعا مقصود نہیں ھیں لیکن اصلاح اور صلاح نفس کے لیے ان کی اھمیت سے انکار بھی ممکن نہیں. اعتدال کا راستہ یہ ہے کہ فقہاء ، محدثین ، مجاھدین کے ساتھ ساتھ صوفیاء کرام کی خدمات کا بھی اعتراف کیا جائے.
(از: حمزہ صیاد)
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔