Sunday, June 28, 2015

ذرائع اور مقاصد میں فرق اور لطائفِ ستہ

0 comments
"اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تزکیہ اوراحسان کے لئے کتاب وسنت کافی ہیں۔ لیکن اگر آپ کو اس پر مستزاد کچھ مہارتیں حاصل کرنا ہیں، مثلا آپ مقابل کی زبان بندی کر سکیں، کسی کے دل کو مسخر کر کے اپنی ہوس یا حرص کو تسکین پہنچا سکیں، اپنی توجہ سے کسی کے شعور میں اچھی یا بری بات داخل کر سکیں، آپ کسی کو ہپناٹائز کر سکیں، کسی کی بیماری یا درد سلب کر سکیں،، تو اس کے لئے آپ کو کچھ ریاضتیں کرنا ہونگی۔ چونکہ تزکیہ واحسان کے حاملین اضافی طاقت حاصل کر کے اسے کارِ خیر میں استعمال کرتے رہے ہیں، اس لئے کچھ کج فہموں نے ان باتوں کو تزکیہ کے ساتھ گڈ مڈ کر دیا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ ہندو مسلم مناظروں میں کچھ یوگی ارتکازِ توجہ سے مسلم مناظر کی زبان بند کر دیتے تھے۔ اس کے مقابلے کے لئے اسی علم کی ضرورت تھی جو مسلم دعاہ اور مبلغین نے حاصل کر کے دعوت دین کے لئے استعمال کیا۔ 
(چنانچہ) اسلامی تزکیہ یا احسان کو ان اشغال سے گڈ مڈ (نہیں کرنا چاہئے) جن کا دین سے نہیں ریاضت سے تعلق ہے۔ وہ ریاضتیں مختلف مذاہب کے لوگ ہمیشہ کرتے رہے اور ان سے انہیں طاقتیں حاصل ہوتی رہیں۔ مثلا ٹیلی پیتھی اس نوعیت کی ایک مہارت ھے۔ البتہ خرابی اس وقت پیدا ہوئی جب ہندو یوگیوں نے اپنی مخفی طاقتیں مسلم دعاہ کے خلاف استعمال کرنا شروع کیں اور جواب میں مسلم مبلغین نے بھی اس نوعیت کی مہارتیں حاصل کر کے ان کا مقابلہ کیا۔ بہاں تک سب ٹھیک تھا، لیکن مسلم مبلغین کی ان ریاضتوں کے نتائج کو (بذات خود) تزکیہ یا احسان سے گڈ مڈ کر دیا گیا جو خرابی کی بنیاد بنا۔ اہل علم کو اس تاریخی فرق کو ملحوظ رکھنا چاہئے۔
ارتکازِ توجہ کے لئے لطائف ستہ کی وہی حیثیت ہے جو بدنی صحت کے لئے مختلف بدنی نظاموں مثلا نظام تنفس نظام انہضام عصبی نظام وغیرہ کی ھے۔ اگر بدنی نظاموں کو درست رکھنے کی معلومات طبی ماہرین خواہ غیر مسلم ہوں سے لے کر ان پر عمل کرنے میں کوئی شرعی قباحت نہیں ھے تو ارتکاز توجہ کا سبق کسی ہندو یوگی وغیرہ سے سیکھ کر اسے اپنے مقاصد میں استعمال کرنے میں کیا حرج ھے؟ بدنی صحت کی طرح ارتکازتوجہ کا براہ راست امور شرعیہ سے کوئی تعلق نہیں بلکہ اس کے اچھے یا برے استعمال پر دار ومدارہے۔ بدنی طاقت عبادت کے لئے بھی استعمال کی جا سکتی ہے اورفساد فی الارض کے لئے بھی۔ اسی طرح ارتکازِ توجہ عبادت میں خشوع کے کام بھی آسکتا ہے اور کسی زہرہ وش کو اپنے دام ہوس میں لانے کے لئے بھی۔ الغرض ذرائع اور مقاصد میں فرق ملحوظ رکھنا ہی علمی رویہ ہے"
(بشکریہ جناب طفیل ہاشمی صاحب - معمولی تصرف کے ساتھ پیش کیا گیا)
(زاہد مغل)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کمنٹس

عزیز ابن الحسن: کاش اتنی سی بات همارے عهد کے تین بڑے علماء(مولانا مودودی امین احسن اصلاحی اور جاوید احمد غامدی) بھی سمجھ جاتے. اے کاش! یک کاشکے بود بصد جا نوشته ایم

سید متین احمد: عمدہ بات فرمائی ڈاکٹر صاحب نے۔ ذرائع اور مقاصد کے فرق پر مولانا ابوالحسن علی ندوی نے بھی اپنی کتاب "ربانیۃ لارہبانیہ" کے آغاز میں عمدہ گفت گو فرمائی ہے۔ (اردو ترجمہ تزکیہ و احسان یا تصوف وسلوک)
ڈاکٹر صاحب،،،
غامدی صاحب کا نقطۂ نظر تو سخت ہے، البتہ مولانا مودودیؒ اور مولانا اصلاحیؒ کا معاملہ قدرے مختلف ہے۔ مولانا مودودیؒ کے حوالے سے وضاحت کے لیے عاصم نعمانی کی مرتب کردہ کتاب "تصوف مولانا مودودی کی تحریروں کی روشنی میں " اور مولانا اصلاحی کے حوالے سے یوسف سلیم چشتی کی کتاب پر ان کا مقدمہ دیکھنا چاہیے کہ یہ حضرات کن پہلؤوں سے ناقد تھے۔ مولانا اصلاحی نے "تزکیۂ نفس" تصوف کی اصل روح کو بے غبار انداز میں پیش کرنے کے لیے ہی لکھی تھی، اگرچہ غامدی صاحب کے موجودہ حلقے میں اس کتاب کا کوئی خاص چلن نہیں ہے۔ Aziz Ibnul Hasan

طفیل ہاشمی: اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مولانا اصلاحی کی تزکیہ نفس بہت اعلی درجے کی کتاب ھے لیکن یہ نہیں بتاتی کہ ان رذائل سے بچنے اور فضائل سے آراستہ ہونے کا عملی طریقہ کیا ہے۔
غالب نے ٹھیک ہی کہا تھا،،،
؎ ہر چند ہو مشاہدہ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ وساغر کہے بغیر
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔