Tuesday, July 28, 2015

کیا وحی کے ساتھ الہام، القا اور کشف بھی صرف نبی کے ساتھ مخصوص ہیں؟

0 comments
معترضین ایک حدیث مبارکہ سناتے ہیں، جس میں ارشاد نبوی ہے:
مفہوم: "میرے بعد نبوت باقی نہیں رہے گی سوائے مبشرات کے، آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا : یا رسول اﷲ! مبشرات کیا ہیں؟ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اچھے یا نیک خواب۔‘‘ (احمد)
پھر معترضین کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ: وحی، الہام، القا، کشف سب ختم ہو گیا.... کہ یہی تو نبوت کے کمالات ہیں!
یہ ایک انتہائی عجیب و غریب بات ہے کیوں کہ "وحی کے ساتھ بار بار الہام اور کشف و القاء کو جوڑنا اور ان سب کو نبوت کا جز قرار دینا شاید غامدی صاحب پر ہی "القاء" ہوا ہے... کیوں کہ چودہ سو برسوں سے ان کے اصطلاحی معنوں میں فرق ہر وہ مسلمان جانتا ہے جس نے دین کو تھوڑا بہت بھی پڑھا ہے !سب سے پہلے وحی کی اصطلاح لیجیے:

وحی:
٭٭٭٭
اصطلاح شریعت میں وحی اس کلامِ الہٰی کو کہتے ہیں کہ جو اﷲ کی طرف سے بذریعہ فرشتہ نبی کو بھیجا ہو۔ اس کو وحی نبوت بھی کہتے ہیں جو انبیاء علیہم السلام کے ساتھ مخصوص ہے...
اب آتے ہیں  معترضین کی فرمودہ باقی اصطلاحات کی طرف جن کو وہ وحی کے ساتھ جوڑ کر نبوت کا جز بتاتے اور ان کا ختم ہونا مندرجہ بالا حدیث سے ثابت کرتے ہیں... احادیث میں ان تمام اصطلاحات کا ذکر ملتا ہے!

الہام:
٭٭٭٭ 
کسی خیر اور اچھی بات کا بلانظر و فکر اور بلاکسی سبب ظاہری کے من جانب اﷲ قلب میں القاء ہونے کا نام الہام ہے... اس کو مومن کی فراست ایمانی بھی کہہ سکتے ہیں جو حدیث سے ثابت ہے...
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں عمر ہوں اور تم پر حاکم بننے کی مجھ کو خواہش نہ تھی لیکن مجھ کو متوفی (حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ) نے اس کی وصیت کی تھی اور اللہ تعالیٰ نے ان کے قلب میں اس کا القا فرمایا تھا۔ (الحدیث اخرجہ مالک)
اور حضرت عمررضی اللہ عنہ کے لیے ہی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کا مفہوم ہے کہ:
تحقیق تم سے پیشتر امتوں میں صاحب الہام گزرے ہیں پس اگر میری امت میں کوئی ہے تو وہ عمرؓ ہیں۔ (بخاری و مسلم)

اب اصطلاحِ کشف کا ثبوت اُمتی کے لیے دیکھئے:

کشف:
٭٭٭٭
الہام کا تعلق امور قلبیہ سے ہے تو کشف کا زیادہ تر تعلق امورِ حسیہ سے ہے... 
بخاری، مسلم اور ترمذی کی حدیث میں حضرت انس بن نضر رضی اللہ عنہ کا قول مروی ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ:
میں جبل احد کے پیچھے سے جنت کی خوشبو پاتا ہوں۔"
اسی طرح حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے غزوہ احد کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے داہنے بائیں دو شخص دیکھے جن پر سفید کپڑے تھے اور بہت سخت لڑائی لڑ رہے تھے۔ میں نے ان کو نہ اس سے پہلے دیکھا تھا نہ بعد میں دیکھا۔ یعنی وہ دونوں شخص جبرئیل و میکائیل تھے۔ (بخاری و مسلم)
عالم غیب کی اشیاء کا منکشف ہونا ایک حال رفیع ہے اگر اتباع شرع کے ساتھ ہو...

فرق و اصلاح:
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وحی قطعی ہوتی ہے اور معصوم عن الخطاء ہوتی ہے اور نبی پر اس کی تبلیغ فرض ہوتی ہے اور امت پر اس کا اتباع لازم ہوتا ہے...
جب کہ الہام یا کشف ظنی ہوتا ہے اور معصوم عن الخطاء نہیں ہوتا... اولیاء معصوم نہیں... اسی وجہ سے اولیاء کا الہام یا کشف دوسروں پر حجت نہیں اور نہ الہام یا کشف سے کوئی حکم شرعی ثابت ہوسکتا ہے، حتیٰ کہ استحباب بھی الہام سے ثابت نہیں ہوسکتا... کیوں کہ کسی کے الہام یا کشف پر عمل نہ کرنے یا مخالفت کرنے سے کوئی گناہ نہیں ہوتا... البتہ دنیا کا ضرر ہو تو وہ الگ بات ہے!
حتیٰ کہ بعض اوقات اہلِ کشف کو خود اپنے کشف کی حقیقت کا ادراک نہیں ہوتا... چنانچہ بخاری کی مشہور حدیث میں حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ کو ملائکہ کا کشف تو ہوا مگر یہ اطلاع نہ ہوئی کہ یہ ملائکہ ہیں... علماء کرام نے اس کی تصریح کی ہے کہ جو شخص اس تحقیق سے آگاہ ہو جائے گا... وہ کشف میں اپنے فہم و رائے پر ہرگز اعتماد نہیں کرے گا اور بہت سی غلطیوں سے محفوظ رہے گا!
بزرگوں کو جو کشف ہوتا ہے وہ ان کے اختیار میں نہیں... بلکہ انبیاء کرام کے اختیار میں بھی نہیں... دیکھیے حضرت یعقوب علیہ السلام کو ایک مدت تک حضرت یوسف علیہ السلام کی خبر نہ ہوئی حالانکہ اس بے خبری سے جو کچھ ان کو رنج وغم پہنچا وہ مشہور ہے کہ روتے روتے نابینا ہو گئے تھے... اور جب اللہ نے چاہا کہ انہیں خبر ہو جائے تو میلوں دور سے حضرت یوسف علیہ السلام کے کرتہ کی خوشبو آنے لگی... پس کشف نہ اختیاری ہے نہ کوئی کمال کی چیز ہے... (کیوں کہ کمال ہمیشہ کسبی ہوتا ہے) ... بلکہ یہاں تک علماء کرام فرماتے ہیں کہ اگر کافر بھی مجاہدہ اور ریاضت کرے تو اس کو بھی کشف ہونے لگتا ہے... جیسے کہ مسلم کی حدیث شریف میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دجال سے ملاقات اور دجال کا پانی پر تخت دیکھنے کا اعتراف ہے ، جس پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ شیطان کا تخت ہے!
دیکھیے دجال جیسے کافر کا کشف بیان کیا گیا اور اس کے شیطان کے تخت کے کشف کو معرض مذمت میں بیان فرمایا... پس جو لوگ کشف و الہام کو ولایت کی علامت سمجھتے ہیں یا ہر کشف پر اعتماد کرتے ہیں ، ان کو اپنی اصلاح واجب ہے!
٭٭٭٭٭٭
الحمدللہ ثابت ہوا کہ وحی بالکل الگ اصطلاح ہے جو نبوت کے ساتھ خاص ہے اور الہام و کشف بالکل علیحدہ اصطلاحات ہیں جن کی اصل حدیث میں ہے، مگر ان میں غلطی کا برابر امکان ہے اور وہ نبوت کے ساتھ خاص نہیں!
(تحریر: محمد فیصل شہزاد)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔