پیشہ وروں کی وجہ سے تصوف کے ساتھ المیہ یہ ہوا کہ لوگوں کو جو غیرشرعی حرکات نظر آتی ہیں، وہ تصوف کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں اور پھر اپنے تئیں بغلیں بجاتے ہیں کہ دیکھو تزکیۂ نفس کے اس شعبے میں فلاں خرافات موجود ہیں۔۔ اس سادگی میں جہلاء تو درکنار،، اچھے بھلے پڑھے لکھے دوست بھی پیش پیش ہیں۔۔!!
واضح کردوں کہ تصوف میں تزکیۂ باطن کا وہی بنیادی اصول موجود ہے جو دورِ پیغمبر ﷺ میں رائج تھا۔۔ جو بھی بارگاہِ اقدس ﷺ میں آکر اسلام قبول کرتا گیا،، اس کا تزکیہ ہوتا چلا گیا۔۔ یہ انعکاسی عمل تھا جس کو پانے کیلئے عمر کی تخصیص تھی اور نہ پڑھا لکھا ہونا شرط تھا۔۔عرب کے بدو منصبِ صحابیت پر فائز ہوئے۔۔ کیا آج آپ تصور کر سکتے ہیں کہ کسی صحرانورد گڈرئیے کو مولانا یا علامہ صاحب کہہ دیں؟ لیکن یہ فیض تھا آقائے نامدار ﷺ کی مبارک صحبت کا، کہ آنِ واحد میں وہ اس مقام پر جا پہنچے کہ ہم انکی گردِ پا بھی نہیں پا سکتے۔۔یہی اصول تبع تابعین کیلئے بھی کارفرما رہا کہ انہیں صحبتِ تابعین سے یہ دولت میسر آئی۔۔اچھا آپ دیکھ لیں کہ دورِ نبوی ﷺ میں ہونے کے باوجود جو لوگ نگاہِ عالی سے مستفید نہ ہو سکے،وہ صحابی نہ بن سکے، حالانکہ ان تک تعلیماتِ نبوت تو وہی پہنچ رہی تھیں جو حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت بلالؓ کے پاس تھیں۔۔ پھر کس چیز کی کمی تھی؟ ؟ اُن برکات کی، جو آقا ﷺ کے قلبِ اطہر ﷺ سے موجزن تھیں۔۔ یہ نبوت کا دوسرا پہلو ہے جسے صوفیاء نے سنبھالا ہوا ہے۔۔جبکہ علماء کرام کے حصے میں تعلیماتِ نبوت آئیں اور انہوں نے اسے اُمت تک بخوبی پہنچانے کا حق ادا کردیا۔۔!
پھر پوچھا جاتا ہے کہ خیرُالقرون میں مجاہدات کی ضرورت کیوں نہ ہوئی اور آج آپ الگ سے بیٹھ کر ذکرِ قلبی کیوں کرتے ہیں؟ جناب! یہ اس لئے کہ دور بدل گیا،، وقتِ رسالت مآب ﷺ سے استفادہ کا فاصلہ بڑھ گیا۔۔ ماحول میں پاکیزگی نہ رہی۔۔آپ آج سےتاش والوں کی محفل میں بیٹھنا شروع کر دیں،، ان سے کوئی مکالمہ نہ کریں،، چند دن بعد آپ بھی انہی جیسے ہو جائیں گے اور آپکو بھی تاش کھیلنے کا چسکا لگ جائیگا۔۔وجہ یہی ہے کہ صحبت سے کیفیات ٹرانسفر ہوتی ہیں جو سامنے والے کو ہر صورت متاثر کرتی ہیں۔۔ اسکی وصولی لئے فریکونسی ایڈجسٹمنٹ کی ضرورت ہے کہ ٹرانسمٹر اور ریسیور ایک ہی ماڈولیشن پہ ہوں۔۔ نبی کریم ﷺ کے سینہ مبا رک میں وہ پاور اللہ نے عطا کی تھی کہ ایمان لانے والا جیسا بھی ہو، اسکی قلبی ریسیونگ فریکونسی آپ ﷺ کے مطابق آٹو ٹیون ہو جاتی تھی۔۔ آج ماحول میں بے حیائی کی کثافت اور ظلمت اتنی ہے کہ ہمیں اپنے دل کو اللہ اللہ کی ضربوں سے رگڑ کر پالش کرنا پڑتا ہے،، اس پر سے زنگ اتارنا پڑتا ہے،، تاکہ یہ آئینہ بھی کسی اللہ والے کی صحبت میں برکاتِ نبوت ﷺ وصول کرنے کی کپسٹی حاصل کرسکے۔۔!
یہی وہ مقام ہے جہاں ناقدینِ تصوف اور قائلینِ تصوف کی لفظی جنگ شروع ہوجاتی ہے۔۔
ناقدین کہتے ہیں قرآن و سنت ہی سب کچھ ہے۔۔ قائلین کہتے ہیں بےشک درست،، ہم قرآن و سنت پر عمل کرنے کیلئے ہی یہ خصوصی قوت حاصل کرتے ہیں۔۔ ہر مسلمان کو 'علم 'ہے کہ روزہ فرض ہے،، مگر جان بوجھ کر چھوڑ دینے پہ ذرا بھی پشیمانی نہیں ہوتی۔۔ یعنی علم تو ہے،، عمل کیوں نہیں؟ کس فورس کی کمی ہے جو عمل کرائے؟
ناقدین کہتے ہیں قرآن پڑھنے سے ہی تزکیہ ہو جاتا ہے۔۔ قائلین کہتے ہیں بالکل صحیح،، مگر قرآن سمجھنے کیلئے بھی تزکیہ کی ضرورت ہے۔۔
ناقدین کہتے ہیں تزکیہ کی اہمیت بجا ہے،، مگر اسے الگ سے ' شعبۂ تصوف' کیوں کہا جائے؟۔۔ قائلین کہتے ہیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں کیونکہ تصوف اور تزکیہ ایک ہی میدان ہے۔۔ مگر یہ بتا دیجئے کہ شعبہ تعلیماتِ نبوت ﷺ کی ترویج کیلئے وہ اصطلاحات کیوں وضع کی گئیں جن کا قرآن و احادیث میں کوئی ذکر نہیں ملتا؟
ناقدین کہتے ہیں ہمیں پتہ ہے دیانتداری کیا ہوتی ہے کیونکہ قرآن میں اسکی تفصیل موجود ہے۔۔ قائلین کہتے ہیں جو آپ نے پڑھا ہے حق ہے،، مگر ہم دیانتداری کی کیفیت کو محسوس کرسکتے ہیں کہ سراپا دیانت کیا ہوتا ہے۔۔
ناقدین کہتے ہیں قرآن میں لکھا ہے کہ اللہ انسان کی شہ رگ سے بھی قریب ہے۔۔ قائلین کہتے ہیں یقیناً ایسا ہی ہے،، ہمیں اس کیفیت کا بخوبی ادراک ہے۔۔
ناقدین کہتے ہیں صوفیاء کو کشف کیوں ہوتا ہے؟۔۔ قائلین کہتے ہیں کہ جب آئینۂ قلب سے ظلمت چَھٹ جائے تو حقائق نظر آجانا کوئی اَچھنبے کی بات نہیں،، اللہ کےاس انعام پہ آپکو پریشانی کیوں ہے؟ویسے یہ ضروری نہیں کہ ہر صوفی کو کشف ہو،اور نہ ہی کوئی اس' غیرُاللہ' کے لئے محنت کرتا ہے۔۔
ناقدین کہتے ہیں صحابہ میں یہ مکاشفات کیوں نہ تھے؟ ۔۔ قائلین کہتے ہیں جو جتنا کامل ہوتا ہے وہ اتنا عالی ظرف ہوتا ہے۔۔ کشف احقاقِ حق کیلئے ہوتا ہے،، صحابہ کرام میں یہ صلاحیت بدرجۂ اَتم موجود تھی۔۔
ناقدین کہتے ہیں صوفیاء اسلاف کی کتب میں ایسی عبارات لکھی ہیں جو قرآن و سنت کے صریح متصادم ہیں۔۔ قائلین کہتے ہیں آپ کو آپکی فہم کے مطابق جو بات خلافِ شرع لگے، اسے ترک کر دیں اور اُن کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیں کہ انہوں نے کس وجہ سے کیا کہا،، اسکی درست تاویل وہی بہتر سمجھتے ہیں۔۔ اگر غلط کہا ہو گا تو عنداللہ جوابدہ ہوں گے۔۔
ناقدین کہتے ہیں قرآن میں لکھا ہےکہ اللہ کا ذکر کثرت سے کرو ۔۔ ہم نماز، روزہ، تسبیح، تلاوت، صدقہ کرتے ہیں،، یہ سب اللہ کا ذکر ہی ہے۔۔ قائلین کہتے ہیں سو فیصد سچ ہے،، مگرہمیں اس آیت مبارکہ پہ عمل کا طریقہ سمجھا دیں اور ہر دم ، Round the clock اللہ کا ذکر کرکے دکھائیں۔۔۔'' اور اے شخص! اپنے رب کا ذکر کر،، دل ہی دل میں ،، عاجزی کے ساتھ،، اور خوف کے ساتھ،، اور قول (آواز) کے بغیر،، صبح سے شام تک (ہر وقت)،،اور اہل غفلت میں سے مت ہونا۔۔'' (الاعراف: 205)
ناقدین کہتے ہیں اس سب کیلئے ریاضت کی کیا ضرورت ہے؟۔۔ قائلین کہتے ہیں اللہ کے اِس حکم پہ عمل کا ہر وہ حیلہ جائز ہے جو خلافِ شرع نہ ہو،، آپ کو یہ ذکرِ دوام بغیر ریاضت کے طرزِ صحابہ کرام پر حاصل ہو جائے تو ہمیں خوشی ہوگی۔۔ یاد رہے کہ انکی جلدیں اور قلوب بھی ذکراللہ کرتے تھے۔۔( زمر:23)
ناقدین کہتے ہیں یہ قلب کا جاری ہونا اور دل کاذاکر ہونا، سب ڈھونگ ہے، بے دلیل ہے، ہم نہیں مانتے۔۔ قائلین کہتے ہیں ہمارا کام منوانا ہے ہی نہیں۔۔ آپ آزما کے دیکھ لو،، کہیں کوئی بات جھوٹ لگے،، یا شریعتِ محمدی ﷺ پر خلوصِ دل سے عمل کرنے کیلئے آمادہ نہ ہو جاؤ، تو فوراً سے پہلےچھوڑ دینا۔۔مگر دھیان رہے کہ کسی افیمی اور شعبدہ باز کے ہتھے نہ چڑھ جانا۔۔!!
(تحریر: محمد نعمان بخاری)
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔