1- تصوف کے سلاسل و اشغال وغیرہ پر یہ اعتراض کرنا کہ یہ سلف صالحین سے ثابت نہیں۔
تو اس بابت صرف یہ عرض ہے کہ سلف صالحین تو ایک طرف دین کے کسی مقصود کو حاصل کرنے کے لئے کوئی ذرائع اگر صحابہ نے بھی اختیار نہ کئے ہوں یہ بھی انہیں اختیار نہ کرنے کی کوئی شرعی دلیل نہیں۔ یہ اعتراض اس غلط اصول پر مبنی ہے کہ 'جو کام صحابہ نے نہیں کیا وہ غلط و محدث ہوتا ہے'۔ پہلے تو خود اس اصول کی شرعی دلیل درکار ہے۔ صحابہ کا کسی کام کو کرنا یقینا اسکے جائز ہونے کی ایک دلیل ہے، مگر صحابہ کا کسی کام کو نہ کرنا اسکے عدم جواز کی دلیل ہے، یہ خود ایک ایسا اصول ہے جسکا ذکر اصول فقہ کی کتابوں میں نہیں ملتا۔
اصولیین نے 'عمل و قول صحابی کے ہونے' کو یقینا ایک شرعی ماخذ کے طور پر ذکر کیا ہے، لیکن 'عدم قول و فعل صحابی' بھی ایک شرعی ماخذ ہے یہ بالکل انوکھی منطق ہے؛ گویا عدم (حکم شرعی کا نہ ہونا) بھی ایک وجود (حکم شرعی کا ہونا، یعنی نہی) ہے، فیاللعجب۔
2- جو لوگ کہتے ہیں کہ صوفیاء نے قرآن و سنت کو چھوڑ کر تزکئے کے طریقے وضع کئے لہذا یہ سب بدعت ہے،، ان پر واجب ہے کہ نماز کی طرح قرآن و سنت سے 'تزکئے کا وہ معین و منصوص طریقہ' واضح کریں جسکی پابندی شارع نے فرض نماز کی رکعتوں کی طرح اس طور پر لازم قرار دی ہو کہ اسکے علاوہ کسی دوسرے طریقے و ذریعے کی طرف التفات بھی گناہ ہو۔
اگر شارع علیہ السلام کی طرف سے ایسا کوئی معین طریقہ طے نہیں کردیا گیا تو پھر صوفیاء کے اختیار کردہ ذرائع کو بدعت قرار دینے والے درحقیقت خود بدعت کے فتوے کی زد میں ہیں کہ یہ شارع علیہ السلام کی طرف ایک ایسی بات و حکم کی نسبت کررہے ہیں جسکی ماخذات دین میں کوئی اصل نہیں؛ اور اصل بدعت اسی چیز کا نام ہے۔
(زاہد مغل)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کمنٹس
ــــــــــ
حافظ محمد زبیر: اس سے بڑی کوئی گمراہی نہیں ہے کہ پروردگار نے تزکیہ نفس کے لیے اپنی کتاب میں کوئی منہج نہیں دیا،،، جب مثنوی معنوی سے وہ احوال پیدا کیے جائیں جو صحابہ کے ہاں قرآن سے پیدا ہوتے تھے تو ایسی سوچ تو پیدا ہو گی۔ ایسے سائل کو یہی کہا جا سکتا ہے کہ عربی اچھی ہے تو قرآن مجید پڑھ لیں، اب اس سے زیادہ تزکیہ نفس کے لیے کیا چاہیے؟
زاہد مغل: برادر، یہ کس نے کہا کہ قرآن میں تزکئے سے متعلق کوئی مواد نہیں؟ سوال تو یہ ھے کہ کیا اللہ نے کوئی ایسا فکسڈ پروگرام مرتب کرکے دیا ہے جیسا کہ پوسٹ میں کہا گیا؟ یہ سوال بالکل یوں بھی ہے کہ تعلیم کے لئے بھی قرآن نازل کیا گیا لیکن کیا تعلیم کا کوئی "فکسڈ نصاب" مقرر کرکے دیا کہ اسکے علاوہ کچھ اور پڑھنا پڑھانا ناجائز ہو؟ اگر قرآنی مقاصد کے حصول کے لئے تعلیم کے میدان میں نجانے دنیا کے کن کن ماخذات سے نکلنے والے علوم کو پڑھنا پڑھانا جائز ھے تو تزکیے کے میدان میں یہ دروازہ کس نے بند کیا؟
عاصم بخشی: زاہد بھائی گزارش یہ ہے کہ یہ بحث اس لئے طول پکڑ رہی ہے کہ آپ بہت زیادہ عمومیت سے کام لے رہے ہیں اور تنقید کا حق سرے سے دینے پر ہی مائل نہیں ہیں، جب کہ میں جانتا ہوں کہ آپ شاید خود بھی کسی خاص حیثیت میں تصوف کے نقاد ہوں۔ سب جانتے ہیں کہ تصوف اصطلاحات کا ایک متوازی نظام قائم کرتا ہے اور یہ اس کی طریقت کا حصہ ہے اور اس کا حصول ایک مقصد کے طور پر جاری و ساری ہے۔ اب ظاہر ہے کہ کچھ لوگ اگر خطیرۃ القدس اور قیومیت اور خاتم الاولیاء وغیرہ پر قرآنی نصوص کی مدد سے انگلی اٹھائیں گے تو آپ کو ان کو یہ حق دے کر بات ختم کر دینی چاہئے۔ یہ میری رائے ہے کوئی بحث مقصود نہیں۔
زاہد مغل: عاصم بھائی: اس سلسلہء پوسٹ کا مقصد تصوف پر کسی کے حق تنقید کو ضبط کرنا نہیں بلکہ تصوف بحیثیت مجموعی کے بارے میں غلط العام اشکالات و اعتراضات کے حوالے سے ذہن صاف کرنا ہے۔ رہا اسکی کسی معین شے پر علمی طور پر اعتراض کرنا،، تو اسے کون ختم کرسکتا ھے؟ جن چیزوں کی طرف آپ نے اشارہ کیا (مثلا قطب ابدال جیسے درجات اور انکے تکوینی وظائف وغیرہ) ان چیزوں پر خود مجھے بھی ابھی پوری طرح شرح صدر نہیں ھوسکا کہ انکا درست محل کیا ھے، غور و فکر اور احباب سے اس پر ڈسکشن جاری ہے۔ فی الوقت تو اسی نتیجے پرپہنچا ہوں کہ یہ انکے دائرہ کار کے اندر کی چیزیں ہیں جن پر اندر کا بندہ (صوفی) ہی شاید کچھ کہنے کی پوزیشن میں ہوسکتا ہے۔ البتہ ایک بات طے ھے کہ ان چیزوں کو ماننا کوئی شرعی تقاضا نہیں، نیز میرے خیال میں خود صوفیاء کی طرف سے بھی باہر والوں سے ایسا کوئی تقاضا نہیں۔
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔