1- صحیح حدیث کا مفہوم ہے کہ "اللہ تعالی فرماتا ہے کہ جب بندہ فرائض و نوافل کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا ہے تو میں اسکی آنکھ ، کان و پیر بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا، سنتا و چلتا ہے، وہ مجھ سے سوال کرے تو میں اسے لازما عطا کرتا ہوں"۔
پس جسکی آنکھ کان و پیر کے ساتھ خصوصی خدائی توفیق شامل حال ہوجائے اس آنکھ، کان و پیر کی وسعت کا اندازہ کون کرے؟ یہ حدیث کرامات و کشف (ایسے امور کے مشاہدے جسے عام انسانی آنکھ و کان دیکھ و سن نہ سکے) میں بالکل صریح ہے۔
2- صوفیاء کا لٹریچر پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مبتدی کے قلب پر جب چند غیبی امور کا اظہار ہوتا ہے تو بہتیرے اسکا ضبط نہ لاتے ہوئے بلند و بانگ دعوے کرنے لگتے ہیں۔ اس لائن میں جو جس قدر گہرا ہوتا چلا جاتا ہے گہرے سمندر کی طرح اسی قدر خاموش ہوتا جاتا ہے۔ عام مشاہدہ ہے کہ ایک مبتدی جب کسی علم کی نئی باتیں سیکھتا ہے یا خود اپنی تحقیق کی بنا پر کوئی نئی بات معلوم کرتا یا نیا طریقہ ایجاد کرلیتا ہے تو سمجھتا ہے کہ شاید یہ میرے ساتھ ہی خاص ہے، بلکہ یہاں تک شیخی بکھارتا ہے کہ یہ تو میرے استاد کو بھی نہ آتا ہوگا۔ مگر جسکی علم کی وسعتوں پر جس قدر وسیع و گہری نظر ہوتی چلی جاتی ہے وہ اسی قدر منکسر المزاج اور دعوے کرنے میں محتاط ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہ سوال کہ آخر پیغمبر کی زبان سے "سبحان من اعظم شانی" جیسے الفاظ کیوں صادر نہیں ہوتے، تو وہ اس لئے کیونکہ پیغمبر کا ضبط بھی اسی قدر وسیع ہوتا ہے؛ ورنہ اس نبی کی آنکھ کی وسعت کا مقابلہ بھلا کون کرے جسکی آنکھ سے جبرائیل، جنت، دوزخ یہاں تک خدا بھی مخفی نہ رہا ہو۔
(زاہد مغل)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کمنٹس
ــــــــــ
افتخار محمد: محترم زاھد مغل بھائی، رسول اللہ ﷺ کے دیدارِ الہی (بچشم سر) کے متعلق ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کی ایک حدیث نظر سے گزری تھی صحیح الفاظ یاد نہیں۔
زاہد مغل: یہ پوسٹ دیدارِ الہی کی بحث پر نیں۔ حضرت عبداللہ ابن عباس اور صحابہ کی ایک جماعت کے نزدیک دیدار ثابت ہے۔
افتخار محمد: ٹھیک ہے سرمیں اپنی بات پر اصرار نہیں کرونگا
لا تدركه الأبصار وهو يدرك الأبصار وهو اللطيف الخبير
کیونکہ جماعت صحابہ کو یہ کلام الہی بھی معلوم تھا اور وہ پھر بھی دیدار کے قائل ہیں تو ضرور کوئی نہ کوئی بات ہوگی۔ میں اس آیت کو نہیں سمجھ سکتا۔ قرآن بہت ہی مشکل کتاب ہے سمجھنے واسطے۔
زاہد مغل: بھائی اب آپ نے پوچھ لیا ہے تو جواب عرض کئے دیتا ہوں کہ لاتدرکہ الابصار میں رؤیت کی نہیں بلکہ ادراک کی نفی آئی ھے۔ ادراک کا معنی کسی چیز کا احاطہ کرلینا ھوتا ہے۔ اور ظاھر ھے لامحدود کا احاطہ ممکن نہیں۔ اگر دیدار یکسر ناممکن ہو تو جنت میں بھی نہ ہوسکے۔ حضرت عائشہ رض نے اسی آیت سے استدلال فرمایا تھا جو ظاھر کرتا ھے کہ اس حدیث میں جو بات کہی گئی تھی وہ انکا ذاتی اجتہاد تھا، نہ کہ نبی علیہ السلام کی خبر۔
صفتین خان: یہ جو دعوے نقل کئے جاتے ھیں وہ کسی مبتدی کے نہیں امام الصوفیا کے ھیں ۔۔ بایزید بسطامی سے شاہ ولی اللہ تک سب نے عجیب و غریب دعوے کئے جن کو نرم سے نرم الفاظ میں بھی حد سے تجاوز کہا جا سکتا ھے ۔۔۔ یہ کون سے منکسر المزاج صوفی تھے جو اپنے آپ کو اعلی ترین منازل پر فائز قرار دیتے تھے ۔۔۔۔ لگتا ھے انکسار لفظ کے معنی تبدیل کرنا پڑیں گے ۔۔۔
حضور ﷺ نے جنت جہنم اور خدا کو چشم سر سے نہیں دیکھا ۔۔۔ ایسا ممکن بھی نہیں کیوں کہ جنت جہنم کا ابھی وجود ہی نہیں۔ اور انسانی آنکھ خدا کو نہیں دیکھ سکتی اس دنیا میں ،، یہ سارا سفر تمثیلا تھا ۔۔۔۔
زاہد مغل: ان دعوؤں میں ایسا غلط کیا ہے یہ بتایا جانا چاھئے۔ کس کس نے دعوے کئے یہ اہم نہیں۔
بایزید بسطامی نے عمر کے کس حصے میں کیا کہا، اسکا تعین آج کون کرے گا بیٹھ کر؟ بایزید بسطامی پر تو ابن تیمیہ جیسے تصوف کے سخت ناقد بھی انگلی نہ اٹھا سکے بلکہ انکی عظمت کے قائل ہوئے۔
یہ تمثیل کا دعویٰ آپ کی اپنی گھڑی ہوئی باتیں ہیں، یہ سب کچھ حقیقت تھا۔ اور آپ تو اتنے یقین سے کہہ رھے ھیں کہ جنت دوزخ موجود نہیں جیسے دیکھ کر آئے ہوں کہ واقعی نہیں ہے۔ یہ پوسٹ ان موضوعات کے لئے نپیں۔
صفتین خان: سبحان اللہ ۔۔ کیا دلیل دی ہے عمر کے تعین کی ۔۔ کس کس کی عمر کا دفاع کریں گے ۔۔۔ شاہ ولی اللہ کی عمر تو چھوٹی نہیں تھی ۔۔۔ چلو مان لیتے ھیں کہ ابتدا میں ٹھوکر کھا کر کہہ گئے سب ۔ مگر کیا اس سے کبھی رجوع بھی کیا پختہ عمر میں ۔۔۔
زاہد مغل: صوفی کا رجوع تب ثابت کرنے کی ضرورت پڑے کہ جب پہلے آپ یہ ثابت کریں کہ اسکی بات غلط تھی۔
عاصم بخشی: صفتین بھائی کی بات یہاں تک تو درست ہے کہ یہ دعوے عجیب و غریب ہیں اور ان کا دفاع شاید مذہبی نصوص سے اخذ کی گئی عقلی بنیادوں پر کرنا ناممکن ہے۔ کیوں کہ اپنے اندر ایک سریت کا پہلو لئے ہیں۔ ظاہر ہے ایک خاص قسم کا مزاج ان سے ہمیشہ دور بھاگتا آیا ہے اور ایک دوسری قسم کا مزاج ان صوفیاء کی تاویل کرتا آیا ہے جو اس کے نزدیک اہل حق یا معتبر ٹھہرتے ہیں۔ میری رائے میں دونوں مزاج کے لوگ ہی اپنی اپنی جگہ ایک محکم رائے رکھتے ہیں اور اس کو عقلی بنیادیں فراہم کرتے رہتے ہیں اور کسی حد تک اپنی اپنی جگہ اپنے مخصوص تناظر میں حق پر ہیں۔ تصوف علمی سے زیادہ عملی چیز ہے اور جس کا مزاج اس سے میل کھاتا ہے اس کے لئے اس میں لطف و کشف کے سامان ہیں۔
زاہد مغل: جی بالکل، صوفیاء نے اپنے ذاتی تجربات کے ذریعے جو مشاہدات کئے انکا اظہار کردیا۔ ان میں سے بعض چیزیں ایسی ہیں (مثلا عالم لاہوت وغیرہ کے مشاہدے) کہ انکے امکان کی نہ تو نصوص میں صحت وارد ہوئی ہے اور نہ ہی واضح نفی۔ ایسی صورت میں جس طرح ان دعوؤں کو دلیل بنا کر کسی کو منوانے پر اصرار کرنا درست نہیں (کہ یہ شرعی حجت نہیں) اسی طرح انکے عجیب و غریب ھونے کی بنا پر ان سے وحشت ذدہ ھوکر انھیں رد کرنے کے پیچھے پڑجانا بھی درست رویہ نہیں۔ کسی دعوے سے متوحش ہوکر اسے رد کرنا یہ کوئی علمی بات نہیں، اسے عجیب کہا جاسکتا ہے، شاید غیر ضروری بھی کہا جاسکتا ہے (کہ شارع نے اسے لازم قرار نہیں دیا)، مگر یہ کہنا کہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا، یہ غیر علمی بات ہے کہ اس دعوے کے لئے بھی شرعی و عقلی دلیل درکار ہے۔
عاصم بخشی: زاہد بھائی، اب اس کو غیر علمی کہنا بھی ایک بحث طلب مسئلہ ہے۔ میرا خیال ہے کہ اگر تحقیر کی جائے تو وہ غیر علمی ہے لیکن اگر حیران یا وحشت زدہ ہو کر رد کیا جائے تو شاید اس رویے کو غیر علمی نہیں کہہ سکتے۔ اہل تصوف میں صرف حضرت بایزید بسطامی ہی تو نہیں حضرت داراشکوہ بھی ہیں۔ اور اگر ان متون کی ایک پوری فہرست میں موجود دعووں کا موازنہ کیا جائے تو شاید یہ ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ کون سا صوفی سب اہل علم کی کسوٹی پر پورا اترتا ہے۔ اس لئے کئی اہل علم ان کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے پر یقین رکھتے ہیں۔
زاہد مغل: مگر یہ تو ایسی ھی بات ھے کہ علم فقہ کے اندر امام ابوحنیفہ ھی نھیں بلکہ ۔۔۔۔۔۔ بھی آتے ھیں۔
کسی دعوے سے متوحش ھوکر اسے رد کرنا یہ کوئی علمی بات نھیں۔ ہاں اسے عجیب کھا جاسکتا ھے، اسے غیر ضروری کھا جاسکتا ھے، مگر یہ کہنا کہ ایسا ھو ھی نھیں سکتا یہ غیر علمی بات ھے کہ اس دعوے کے لئے تگڑی دلیل درکار ھے۔
عاصم بخشی: اب ملاء الاعلی کی پورے وثوق سے دی گئی خبروں کے رد کے لئے تگڑی دلیل تو پھر کسی اور کوہ قاف سے ہی لائی جا سکتی ہے۔ :) ہم تو اسی لئے طلسمی دعوؤں کو بھی ’عزت‘ کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
زاہد مغل: اسی لئے کہا کہ انکا رد کرنے کے لئے بھی دلیل چاھئے جو شاید نصوص مین موجود نہیں۔
عاصم بخشی: علم فقہ کی مثال یہاں بالکل غلط ہے۔ علم فقہ کے کم از کم علم ہونے پر تمام اصولین کا اتفاق ہے۔ سفینہ الاولیا سے علم کے دھارے بہتے ہیں اس پر سب کا اتفاق نہیں۔ ظاہر ہے ایک اہل علم سے یہ توقع کرنا کہ وہ اہل تصوف کو چھلنی میں سے کھنگالتا رہے ذرا ناممکن سی بات ہے۔ اور اختلافی سوال بھی بڑا بنیادی ہے کہ تصوف کیا ہے اور اس کے مشمولات کیا ہیں۔
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔