Monday, July 27, 2015

سورۃ المجادلہ کی ایک آیت کی وجۂ تنسیخ

0 comments
نبی کریم ﷺ تعلیم و تزکیہ اور اصلاحِ خلق کے مشن میں ہمہ وقت مشغول رہتے۔۔ مجالسِ عامہ میں سب حاضرینِ مجلس آپ ﷺ کی صحبتِ عالی سے فیضیاب ہوتے تھے۔۔اس سلسلے کی ایک صورت یہ بھی تھی کہ کچھ لوگ آپ ﷺ سے علیحدگی میں کوئی بات یا ذاتی مسئلہ ڈسکس کرنا چاہتے تو آپ ﷺ انہیں وقت دے دیا کرتے تھے۔۔ ظاہر ہے کہ ایک ایک بندے کو الگ سے ٹائم دینا زحمت و مشقت ہے،، پھر بھی آپ ﷺ نے اپنی نفیس و مصلح طبیعت کی بنا پر کبھی کسی کو منع نہیں فرمایا تھا۔۔اب اس میں کچھ منافقین کی شرارت بھی داخل ہو گئی کہ وہ مخلص مسلمانوں کو دلی ایذاء پہنچانے اور مجلس کو بلاوجہ طویل کرنے کی غرض سے آپ ﷺ سے سرگوشی کا علیحٰدہ وقت مانگتے۔۔ بعض ناواقف مسلمان بھی اس عمل میں شامل تھے۔۔ پھر لوگ اسے اپنے لئے باعثِ برتری و بڑائی جانتے کہ دیکھو ہم حضور ﷺ سے تخلیہ میں بات کرتے ہیں۔۔ یہ وہ دور تھا جب سارا عرب مدینہ کے خلاف برسرِ جنگ تھا اور مسلمانوں کو کمزور کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا جاتا۔۔ ایسے میں کسی شخص کی سرگوشی کے بعد شیطان لوگوں کے کانوں میں یہ پھونک دیتا کہ یہ فلاں قبیلےکے حملہ آور ہونے کی خبر لایا تھا۔۔ اس سے مدینہ میں بازارِ افواہ گرم ہوجاتا۔۔ ان وجوہ کی بنا پر حق تعالیٰ نے آپ ﷺ سے یہ بوجھ ہلکا کرنے اور اپنے حبیب ﷺ کی راحت کیلئے یہ آیہ مبارکہ نازل فرمائی۔۔"اے مومنو!جب تم پیغمبر ﷺ سے سرگوشی میں بات کرنا چاہو، تو اپنی بات سے پہلے (مساکین کو) کچھ صدقہ دے دیا کرو۔ اس میں تمہارے لئے خیر ہے اور (یہ گناہوں سے) پاک ہونے کا ذریعہ ہے۔ پھر اگر تم نہ کر سکو تو یقیناً اللہ بخشنے والے ، رحم کرنے والے ہیں"۔ (سورۃ المجادلۃ -12)۔۔!
اس آیت کے نزول کے بعد منافقین آپ ﷺ سے خلوت میں بات کرنے سے رُک گئے،، کیونکہ ایک تو انہوں نے بےفائدہ بات کرنی ہوتی تھی،، اور دوسرا یہ کہ اپنے مال سے صدقہ دینا ان کیلئے شاق تھا۔۔ یہاں اللہ پاک نے نادار مسلمانوں کو ان الفاظ 'پھر اگر تم نہ کر سکو تو' کے ذریعےصدقہ دینے سے مستثنیٰ رکھا تھا۔۔از مختصر، حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کچھ مسئلہ پوچھنے کی حاجت ہوئی تو آپؓ نے ایک دینار صدقہ دیا اور اپنا معاملہ نبی اکرم ﷺ سے ڈسکس کیا۔۔ کچھ ہی وقت بعد (مدت میں اختلاف ہے،، مفسرین ایک سے دس دن اس حکم کے بقا کی مدت بتاتے ہیں)اس سے اگلی آیت نازل ہوئی تو اس سے صدقہ کا وجوب منسوخ ہوگیا۔۔ "کیا تم گھبرا گئے کہ خلوت میں گفتگو سےپہلے تمہیں صدقہ کرنا ہوگا؟ پس اگر تم ایسا نہ کر سکے، تو اللہ نے تمہیں اس سے معاف کیا۔ تو اب تم نماز قائم کرتے اور زکوٰۃ ادا کرتے رہو، اور اللہ اور اسکے رسول ﷺ کی اطاعت کرتے رہنا۔ اور اللہ کو تمہارے اعمال کی پوری خبر ہے"۔۔ (سورۃ المجادلۃ -13)
یہ تنسیخ بھی حکمتِ الہٰی سے خالی نہیں ہے۔۔ جس مصلحت کے تحت صدقہ واجب ہوا تھا، وہ مصلحت حاصل ہوگئی، جو تنسیخ کے بعد بھی باقی رہی۔۔ یعنی اب لوگ حد درجہ احتیاط کرنے لگے کہ آپ ﷺ سےکوئی بےکار بات نہ کی جائے، کیونکہ یہ آپ ﷺ پر گراں ہے اور اللہ کو بھی پسند نہیں۔۔ جب مقصد پورا ہو گیا تو لوگوں پر صدقہ کا وجوب باقی رکھنے کی کوئی وجہ نہیں تھی، لہذا آیت-12 منسوخ مقرر ہوئی۔۔کیونکہ اللہ کریم ہمارے لئے آسانی و عافیت چاہتا ہے۔۔!
اسی آیت سے متعلق حضرت علی کرم اللہ وجہ فرمایا کرتے تھے: "قرآن میں ایک ایسی آیت ہے جس پر میرے سوا کسی نے عمل نہیں کیا۔۔ نہ مجھ سے پہلے کسی نے عمل کیا اور نہ میرے بعد کوئی کر سکے گا۔۔"!!
(تحریر: محمد نعمان بخاری)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔