تصوف - 13
:::::::::::::::
یہ بتائیں کہ کبھی آپ نے اپنے خالق سے گپ شپ کی ہے؟
'گپ شپ، اور خالق سے، یہ کیسے ہو سکتی ہے سر؟'
اسکا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنے دل و دماغ میں کوئی سوال اُٹھائیں ، اور پھر اسے اپنے خالق کے دئیے ہوئے 'یوزر مینول' پر پیش کردیں۔۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ خالق سے کمیونیکیشن کیلئے اپنے قلب کی فریکونسی ایڈجسٹمنٹ کریں تاکہ سگنلز وصول ہو سکیں۔۔فی الحال ہم پہلا طریقہ آزماتے ہیں۔
آپ کو یہ ہرگز نہیں سوچنا چاہئے کہ آپ اپنے خالق سے کوئی سوال کریں اور وہ اسکا جواب نہ دے۔۔ کیونکہ جس نے آپکو تخلیق کیا ہے وہ آپکی ہرسوچ سے واقف ہے، آپکی مکمل نفسیات جانتا ہے۔۔ مثلاًمیں نے قرآن کی ایک آیت پڑھی۔۔ پھر بے تکلف ہو کرسوال پر سوال کرتا چلا گیا۔۔ دیکھئے کہ میرے مالک نے کس طرح مجھےتسلی بخش جوابات عنایت فرمائے۔
میرے رب نے فرمایا: فَاذْكُرُوْنِيْٓ اَذْكُرْكُمْ (البقرہ : 152) "پس تم میرا ذکر کرو، میں تمہارا ذکر کروں گا"
پوچھا: یا اللہ آپکا کتنا ذکر کروں ؟
فرمایا: يٰا يُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوا اللّٰهَ ذِكْرًا كَثِيْرًا (الاحزاب : 41) "اے اہل ایمان، اللہ کا ذکر کثرت سے کیا کرو"
پوچھا: یا اللہ کتنی کثرت سے؟ دن رات میں ہزار بار؟ دس ہزار بار؟ یا دس لاکھ بار؟؟
فرمایا: وَّسَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّاَصِيْلًا (الاحزاب : 42) "اور میری تسبیح کرو صبح شام (یعنی ہروقت)"
پوچھا: یا اللہ کن الفاظ سے یاد کروں ؟۔فرمایا: وَاذْكُرِاسْمَ رَبِّكَ وَتَبَتَّلْ اِلَيْهِ تَبْتِيْلًا (المزمل : 8 ) "اور اپنے رب کے نام کا ذکر کرو اورہر طرف سے کٹ کر اسکی طرف متوجہ ہو جاؤ "
پوچھا: یا اللہ دنیا کے اتنے زیادہ بکھیڑوں میں پھنسا ہوا ہوں، کیسے ممکن ہے کہ میں آپ کو اتنی کثرت سے یاد کروں ؟ کیسے ممکن ہے کہ آپ کے نام کی اتنی زیادہ تکرار کروں کہ دنیا سے ہی کٹ جاؤں ؟
فرمایا: لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا (البقرہ : 286) "اللہ تعالی کسی شخص کو اسکی وسعت (حیثیت) سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتے"۔پوچھا: یا اللہ آپکا یہ حکم صرف مجھ کمزور کے لیے ہے یا پہلے بھی کسی نے آپ کا اتنی کثرت سے ذکرکیا ہے کہ ہَمہ وقت آپکی یاد میں مشغول رہا ہو ؟
فرمایا: ثُمَّ تَلِيْنُ جُلُوْدُهُمْ وَقُلُوْبُهُمْ اِلٰى ذِكْرِاللّٰهِ (زمر : 23) "پس ان (صحابہ کرام رض) کی جِلدیں اور قلوب ذکراللہ کرنے لگے"
پوچھا: یا اللہ میری زبان میں اتنی طاقت کہاں کہ میں آپکا ذکر اتنی شدت سے کر سکوں کہ وہ جِلد اور قلب تک کو ذکر کرا دے۔ کوئی طریقہ ارشاد فرمائیے ۔
فرمایا: وَاذْكُرْ رَّبَّكَ فِيْ نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَّخِيْفَةً وَّدُوْنَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ وَلَا تَكُنْ مِّنَ الْغٰفِلِيْنَ (الاعراف : 205) "اور اپنے رب کا ذکر اپنے دل ہی دل میں کرو، عاجزی اورخوف سے اوراونچی آواز کے بغیر،صبح وشام (ہمہ وقت) اور غافلوں میں سے نہ ہونا"
'گپ شپ، اور خالق سے، یہ کیسے ہو سکتی ہے سر؟'
اسکا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنے دل و دماغ میں کوئی سوال اُٹھائیں ، اور پھر اسے اپنے خالق کے دئیے ہوئے 'یوزر مینول' پر پیش کردیں۔۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ خالق سے کمیونیکیشن کیلئے اپنے قلب کی فریکونسی ایڈجسٹمنٹ کریں تاکہ سگنلز وصول ہو سکیں۔۔فی الحال ہم پہلا طریقہ آزماتے ہیں۔
آپ کو یہ ہرگز نہیں سوچنا چاہئے کہ آپ اپنے خالق سے کوئی سوال کریں اور وہ اسکا جواب نہ دے۔۔ کیونکہ جس نے آپکو تخلیق کیا ہے وہ آپکی ہرسوچ سے واقف ہے، آپکی مکمل نفسیات جانتا ہے۔۔ مثلاًمیں نے قرآن کی ایک آیت پڑھی۔۔ پھر بے تکلف ہو کرسوال پر سوال کرتا چلا گیا۔۔ دیکھئے کہ میرے مالک نے کس طرح مجھےتسلی بخش جوابات عنایت فرمائے۔
میرے رب نے فرمایا: فَاذْكُرُوْنِيْٓ اَذْكُرْكُمْ (البقرہ : 152) "پس تم میرا ذکر کرو، میں تمہارا ذکر کروں گا"
پوچھا: یا اللہ آپکا کتنا ذکر کروں ؟
فرمایا: يٰا يُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوا اللّٰهَ ذِكْرًا كَثِيْرًا (الاحزاب : 41) "اے اہل ایمان، اللہ کا ذکر کثرت سے کیا کرو"
پوچھا: یا اللہ کتنی کثرت سے؟ دن رات میں ہزار بار؟ دس ہزار بار؟ یا دس لاکھ بار؟؟
فرمایا: وَّسَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّاَصِيْلًا (الاحزاب : 42) "اور میری تسبیح کرو صبح شام (یعنی ہروقت)"
پوچھا: یا اللہ کن الفاظ سے یاد کروں ؟۔فرمایا: وَاذْكُرِاسْمَ رَبِّكَ وَتَبَتَّلْ اِلَيْهِ تَبْتِيْلًا (المزمل : 8 ) "اور اپنے رب کے نام کا ذکر کرو اورہر طرف سے کٹ کر اسکی طرف متوجہ ہو جاؤ "
پوچھا: یا اللہ دنیا کے اتنے زیادہ بکھیڑوں میں پھنسا ہوا ہوں، کیسے ممکن ہے کہ میں آپ کو اتنی کثرت سے یاد کروں ؟ کیسے ممکن ہے کہ آپ کے نام کی اتنی زیادہ تکرار کروں کہ دنیا سے ہی کٹ جاؤں ؟
فرمایا: لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا (البقرہ : 286) "اللہ تعالی کسی شخص کو اسکی وسعت (حیثیت) سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتے"۔پوچھا: یا اللہ آپکا یہ حکم صرف مجھ کمزور کے لیے ہے یا پہلے بھی کسی نے آپ کا اتنی کثرت سے ذکرکیا ہے کہ ہَمہ وقت آپکی یاد میں مشغول رہا ہو ؟
فرمایا: ثُمَّ تَلِيْنُ جُلُوْدُهُمْ وَقُلُوْبُهُمْ اِلٰى ذِكْرِاللّٰهِ (زمر : 23) "پس ان (صحابہ کرام رض) کی جِلدیں اور قلوب ذکراللہ کرنے لگے"
پوچھا: یا اللہ میری زبان میں اتنی طاقت کہاں کہ میں آپکا ذکر اتنی شدت سے کر سکوں کہ وہ جِلد اور قلب تک کو ذکر کرا دے۔ کوئی طریقہ ارشاد فرمائیے ۔
فرمایا: وَاذْكُرْ رَّبَّكَ فِيْ نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَّخِيْفَةً وَّدُوْنَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ وَلَا تَكُنْ مِّنَ الْغٰفِلِيْنَ (الاعراف : 205) "اور اپنے رب کا ذکر اپنے دل ہی دل میں کرو، عاجزی اورخوف سے اوراونچی آواز کے بغیر،صبح وشام (ہمہ وقت) اور غافلوں میں سے نہ ہونا"
صَاحبانِ دانش ۔۔!! ذراسوچئے !! کہ اللہ پاک کا ہر حکم ماننا انسان پر فرض ہے تو اللہ کے اس حکم کی تعمیل کیسے ممکن ہے ؟یقیناً اللہ کریم کا کوئی بھی حکم ایسا نہیں جس پر عمل ممکن نہ ہو، اور اللہ اپنے حکم پر عمل کے لئے ذرائع بھی مہیا فرما دیتے ہیں، لیکن صرف اس شخص کو، جس کے دل میں حکمِ الٰہی پر عمل کرنے کی خالص طلب پیدا ہو۔۔ کیونکہ عموماً اللہ بے طلب کو ہدایت نہیں دیا کرتے۔ ۔!
آپ فٹ بال کھیلتے ہوئے اپنے بےشعور پاؤں کو ایسی تربیت کرتے ہیں کہ وہ گیند کی حرکت کیساتھ مربوط ہو جاتے ہیں،، جبکہ ہمارا قلب (دل) دیکھتا ہے ، سنتا ہے اور شعوربھی رکھتا ہے تو کیا اسے اللہ کا پاک نام پڑھنے کی تربیت نہیں دی جا سکتی؟؟ الحمد للہ ضرور دی جا سکتی ہے ۔۔ذکرِ قلبی کے حصول کے بعد انسان کی کیفیت کچھ یوں بن جاتی ہے کہ دِل ہر لمحے اللہ کا مبارک نام دہراتا رہتا ہے اور اس قدر دُہراتا ہے کہ واقعتاً گنتی کم پڑ جاتی ہے۔
یاد رکھیں،، عقلمند وہ نہیں جو ہماری ناقص رائے میں عقلمند ہو ۔۔ بلکہ قرآن مجید کے مطابق عقلمندوں کی نشانی ملاحظہ کیجئے ۔۔الَّذِيْنَ يَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِيٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰي جُنُوْبِھِمْ وَيَتَفَكَّرُوْنَ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ (آل عمران : 191) "وہ جواللہ کا ذکر کرتے ہيں کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے (یعنی ہرحال میں) اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے ہیں"۔
یہ اور اس طرح کی 700 سے زائد آیات قرآن پاک میں موجود ہیں جن میں بالواسطہ اور براہِ راست ذکرِ کثیر کا حکم دیا گیا ہے۔۔کثرتِ ذکر کے اس قدر واضح حکم کے باوجود بھی اگر ہم کسی وقت یادِ الٰہی سے غافل رہیں تو اللہ پاک کی تنبیہ پہ غور کریں۔۔وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِيْ فَاِنَّ لَهٗ مَعِيْشَةً ضَنْكًا وَّنَحْشُرُهٗ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ اَعْمٰى (طٰہ - 124) "اور جو میرے ذکر(یاد) سے منہ پھیرے گا اس کی (دنیاوی) زندگی تنگی میں رہے گی، اور ہم اسے بروز قیامت اندھا کرکے اٹھائیں گے "۔۔!
یاد رکھیں،، عقلمند وہ نہیں جو ہماری ناقص رائے میں عقلمند ہو ۔۔ بلکہ قرآن مجید کے مطابق عقلمندوں کی نشانی ملاحظہ کیجئے ۔۔الَّذِيْنَ يَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِيٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰي جُنُوْبِھِمْ وَيَتَفَكَّرُوْنَ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ (آل عمران : 191) "وہ جواللہ کا ذکر کرتے ہيں کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے (یعنی ہرحال میں) اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے ہیں"۔
یہ اور اس طرح کی 700 سے زائد آیات قرآن پاک میں موجود ہیں جن میں بالواسطہ اور براہِ راست ذکرِ کثیر کا حکم دیا گیا ہے۔۔کثرتِ ذکر کے اس قدر واضح حکم کے باوجود بھی اگر ہم کسی وقت یادِ الٰہی سے غافل رہیں تو اللہ پاک کی تنبیہ پہ غور کریں۔۔وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِيْ فَاِنَّ لَهٗ مَعِيْشَةً ضَنْكًا وَّنَحْشُرُهٗ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ اَعْمٰى (طٰہ - 124) "اور جو میرے ذکر(یاد) سے منہ پھیرے گا اس کی (دنیاوی) زندگی تنگی میں رہے گی، اور ہم اسے بروز قیامت اندھا کرکے اٹھائیں گے "۔۔!
تو دوستو ! آپ بھی کسی صاحبِ دل، ولئ کامل کی صحبت میں پہنچ کر اپنے دل کو اللہ اللہ سکھائیے قبل ازیں اس کی یہ دھڑکن خاموش ہو جائے۔۔ان شاء اللہ اگلے لیکچر میں بیعت پر بات ہو گی۔۔دا اللہ پا امان۔۔!!
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔