تصوف – 5
:::::::::::::
کل میں نے آپکو دل کے بارے میں بتایا تھا۔۔ یہ ظاہری طور پرایک بلڈ پمپنگ مشین ہے جو پورے بدن میں خون کی صفائی و سپلائی کی ذمہ دار ہے۔۔اسے مسلز کا ایک لوتھڑا سمجھ لیں، جو اُس وقت سے تھرتھراہٹ میں ہے جب ہم ماں کے پیٹ میں تھے۔۔ جس دن اسکی کپکپاہٹ رک گئی، تو سمجھیں وہ آپکی زندگی کا آخری سانس ہو گا۔۔خون ایک ناپاک چیز ہے، اگر جسم سے نکل کر بہہ جائے تو وضو ٹوٹ جاتا ہے، کپڑوں کو لگ جائے تو کپڑا ناپاک۔۔ لیکن عجیب بات ہے کہ قرآن مجید کا نزول قلب پر ہوا ۔۔ نزلہُ على قلبك بإذن الله۔۔اور قرآن کو قبول بھی قلب ہی کرتے ہے۔۔إنما المؤمنون الذين إذا ذكر الله وجلت قلوبهم۔۔ جب مومن اللہ کا ذکر کرتے ہیں تو انکے قلوب دہل جاتے ہیں۔۔اسطرح کی درجنوں آیات ہیں جن میں قلب کی بات کی گئی ہے۔۔ کیا یہ یہی فزیکل ہڑٹ ہے جسکا آئی سی یو میں اپریشن کیا جاتا ہے؟اللہ کریم کی ذات کی وسعت اتنی ہے کہ وہ ساری کائنات میں نہیں سما سکتے، مگر قلبِ مومن میں سما جاتے ہیں۔۔ یہ کونسا قلب ہے؟۔۔ وہ حدیث مبارکہ تو آپ نے سنی ہوگی جس میں اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا تھا: "انسانی جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے، اگر وہ ٹھیک ہو جائے تو سارا جسم درست ہو گیا، اگر وہ بگڑا تو سارا جسم بگڑا، سنو، وہ قلب ہے"۔۔جس طرح میڈیکل سائنس نے دھڑکنے والے دل کی مختلف بیماریاں بتائی ہیں، اسی طرح قرآن مجید میں اللہ کریم نے باطنی قلب کی بیماریاں بھی بتائی ہیں اور خصوصیات بھی۔۔ہماری کلاس میں ایک ذاکر نائک تھا، کدھر ہے؟۔۔"یس سر، میں یہاں ہوں"۔۔ اچھا جی، قرآن میں قلب کی 15 ٹائپس بیان ہوئی ہیں، وہ کون کونسی ہیں ؟۔"سخت قلب ، متکبر قلب ، مہر لگا ہوا قلب ، مجرم قلب ، ٹیڑھا قلب،نہ سوچنے والا قلب، زنگ آلود قلب، گناہ آلود قلب، اندھا قلب، بے ایمان قلب۔۔سر،یہ 10 بیمار قلوب تھے، اور 5 صحت مند قلوب یہ ہیں۔۔ دانش مند قلب، لرز اٹھنے والا قلب، ایمان والا قلب، مطمئن قلب اور قلبِ سلیم"۔۔ ویری نائس۔۔اب سنیں ،یہ ان دلوں کی بات کی گئی ہے جن کا تعلق باطن سے ہے۔۔ ظاہر میں تو مومن و کافر کے دل ایک جیسا فنکشن پرفارم کرتے ہیں، لیکن ان کی باطنی حالت مختلف ہوتی ہے۔۔تصوف کی اصطلاح میں قلب ایک لطیفہ ربانی ہے، جسکی وضاحت اگلی کلاس میں ہو گی۔۔ یہ تو ہو گئیں قلب کی اقسام۔۔ اب انکی بیماریاں کون کونسی ہیں؟ بتا سکتا ہے کوئی؟۔۔"سر، میں بتاتی ہوں: قرآن و حدیث میں قلب و روح کی یہ بیماریاں مینشن ہوئی ہیں: شرک، تکبر، حسد، کینہ، بغض، جھوٹ، ریا کاری، ناجائزنفسانی خواہشات ، اللہ سے بے خوفی، یقین کی کمی، بد نیتی، بے چینی، انجانا خوف، بے حسی، نفاق، چغلی ،غفلت، وغیرہ"۔۔ شاباش بہت خوب۔۔اب مجھے یہ سمجھانے میں آسانی ہوگی کہ بیمار قلب کو صحت مند کرنا، مردہ دل کو زندہ کرنا، تاریک دلوں میں نور پھونکنا، بے حس دل کو با ضمیر بنانا، اندھے دل کو بینا کرنا، بے ایمان قلب کو متقی بنا دینا ،،اور اس اصلاحِ قلب کے نتیجے میں غلط عقائد کا صحیح ہو جانا، اعمالِ بد کا صالح ہو جانا، تزکیہ کہلاتا ہے۔۔فارسی میں اسے آپ تصوف کہہ لیں۔۔ تصدیقِ قلبی اور تزکیہ نہ ہو تو بندہ مردم شماری میں تو مسلمان ہوتا ہے لیکن اللہ کی کتاب کے مطابق نہیں ۔۔ خرد نے کہہ بھی دیا لاالہ تو کیا حاصل، دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں۔۔ اللہ پاک نے نبی کریم ﷺ کے قلب و نگاہ میں یہ قوت رکھی تھی کہ آپ ﷺ کی بارگاہ میں ایمان قبول کرنے والے کا آٹومیٹک تزکیہ ہو گیا۔۔ اس کے دل سے تمام بیماریاں ڈیلیٹ ہو گئیں۔۔دوسروں کی جان و مال لوٹنے والے انسانیت کی حفاظت و فلاح کے ضامن کیسے بن گئے؟یہ اثر تھا برکاتِ نبوت ﷺ کا ۔۔آج ہمیں نبی کریم ﷺ کی تمام تعلیمات کا علم ہے، مگر عمل پر دل آمادہ ہی نہیں ہو پارہے۔۔کیوں بھئی، کمی کہاں رہ گئی؟؟ آج ہم میں انہی کیفیات و تجلیاتِ باری تعالیٰ کی کمی ہے جو محمد رسول اللہ ﷺ کے سینۂ اطہر سے صحابہ میں منتقل ہوئیں، پھر تابعین، تبع تابعین سے چلتی ہوئی آج تک بفضل اللہ جاری ہیں۔۔ضرورت ہے اس نگاہِ ولی کی، جو اُن انوارات کی حامل ہو۔۔'قد افلح من تزکی '، ضروروہ فلاح پا گیا جس نے تزکیہ کرلیا۔۔لَکھ ہزار کتاباں پڑھیاں، ظالم نفس نہ مریا ھو،، اور ،نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں،، یہ صوفیاء پریکٹیکل لوگ ہوتے ہیں۔۔ یہ ضرورت پڑنے پر شمشیر اٹھا لیتے ہیں، تاجر بن جاتے ہیں، مزدوری کر لیتے ہیں، حکمرانی کر لیتے ہیں۔۔ صوفی گوشہ نشین نہیں ہوتا۔۔گوشے اللہ نے عورتوں کیلئے بنائے ہیں اور جنگل جانوروں کیلئے۔۔یہ کون سا تصوف ہے جو آبادیوں میں سے بھگا کر پردوں اور جنگلوں میں لے جائے۔۔میں آپکو بتا دوں کہ جن اکابر صوفیاء کے بارے میں آپ پڑھتے ہیں کہ وہ غاروں میں چلے گئے یا چلہ کشی کرنے لگے،، انکو حکومتوں نے دربدری پر مجبور کیا تھا۔۔ صوفیاء کے پاس لوگوں کے ہجوم کی وجہ سے بادشاہوں کی شہرت داؤ پر لگی تو انہوں نے خوف سے صوفیاء کو جنگلوں کا رخ کرنے پر مجبور کیا۔۔ دوسری وجہ کفر کے فتوے تھے جن کی وجہ سے صوفیاء عوام سے دور رہنے پر مجبور ہوئے۔۔ صوفی گوشہ نشین نہیں ہو سکتا، بھلا خوشبو کسی کونے میں بندہو سکتی ہے؟پھول تو چمن کی زینت ہوا کرتے ہیں، کیا بند کمروں اور کونوں میں گل کھلا کرتے ہیں؟آخر میں ایک پتے کی بات بتارہا ہوں، جسے آپ چاہے نہ مانیں، جن صوفیاء کو عوام سے دوری سہنا پڑی، ویرانی میں جا کر انکا مرتبۂ ولایت اسی سٹیج پر رہا، آگے ترقی نصیب نہیں ہوئی۔۔نیز مجنوں اور مجذوب لوگ جو ہمہ وقت مست رہتے تھے، وہ کون تھے، اور انکا تصوف سے کیا واسطہ تھا،، یہ پھر کبھی بتاؤں گا۔۔ اگلی کلاس روح، نفس اور ضمیر کے موضوع پر ہو گی ان شاء اللہ۔۔ چلو چھٹی کرو۔۔رب راکھا۔۔!!
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔