جس طرح دل خون پمپ کرتا ہے لیکن سارے بدن کو خون کی سپلائی یقینی بنانے کے لئے جگہ جگہ پریشر پوائنٹس ہیں۔ یا طبِ چین نے تمام بیماریوں کے علاج کے لئے بدن میں پریشر پوائنٹس دریافت کئے ھوئے ھیں، اسی طرح باطنی بیداری کے لئےطویل انسانی تجربے نے چھ پوانٹس دریافت کئے ھیں جنہیں لطائف ستہ کا نام دیا گیا ھے۔ یہ قلبی، روحی، نفسی، سری، خفی، اور اخفاء کے نام سے موسوم ہیں۔
قرآن نے سورہ الاعراف-205 میں کہا ہے:
واذکر ربک فی نفسک۔ ۔ ۔ ۔ اس کا عام طریقہ تو یہی ھے کہ اپنے خیال کو یاد الہٰی سے وابستہ رکھا جائے۔ لیکن گہرائی اور گیرائی سے یاد الہٰی سے وابستہ ہونے کے لئے ان لطائف ستہ کو بیدار کیا جاتا ھے جس کے نتیجے میں یاد الہٰی اس طرح اندر سمو جاتی ھے کہ دنیوی مشاغل سے اس میں فرق نہیں پڑتا۔
ہندو دھرم میں، جو بذات خود الہامی دھرم ھے، عبادت کا طریقہ گیان دھیان تھا اس لئے ان کے ہاں یہ تجربہ عام ھے۔ اسلام نے صرف خشوع وخضوع کا تقاضا کیا ھے۔ اس کے لئے کسی ایک طریقے کا تعین نہیں کیا۔ اربابِ تصوف نے دوسرے طریقوں کے ساتھ اسے بھی آزمایا۔ اسکی حیثیت شرعی نہیں ھے بلکہ اسی طرح ھے جیسے آپ دماغ کو تروتازہ رکھنے کے لئےکافی یا بادام دودھ اورخمیرہ گاوزبان عنبری جواھر والا یا مختلف ضرورتوں کے لئے دیسی دوائیں استعمال کرتے ہیں۔ اگر ان کا استعمال غیر شرعی نہیں ہے تو لطائف ستہ کو بیدار کرنا بھی غیر شرعی نہیں ہے۔
(ڈاکٹر فطیل ہاشمی)
(ڈاکٹر فطیل ہاشمی)
------------------------
کمنٹس
کمنٹس
عامر عبداللہ: ھاشمی صاحب.. یہ وہ باتیں ھیں جن پر کوئی جاھل ھی اعتراض کرے گا.. جیسے کوئی جسمانی ورزش کرنا خلاف اسلام نہیں ویسے ھی تزکیہ نفس کے لیے ایسی روحانی مشقوں پر کسے اختلاف ھوسکتا ھے لیکن جہاں اسلام اور تصوف کا جگھڑا شروع ھوتا ھے وہ پوائنٹ اور ھے.. آپ یقیناً میری نسبت کہیں زیادہ بہتر جانتے ھوں کہ تصوف اور روحانیت کے نام پر کیسے کیسے فلسفوں کو اسلام میں شامل کیا گیا اور اس میں کئی بہت بڑے بڑے نام بھی آتے ھیں.. تصوف کی جو شکل ھم عام طور پر قبر پرستی کی صورت میں دیکھتے ھیں اس کی حقیقت تو دین کی بنیادی باتیں جاننے والا ایک عام مسلمان بھی بخوبی سمجھ لیتا ھے لیکن تصوف کے نام پر اور بڑی بڑی نامور شخصیات کے ھاتھوں دوسرے مذاھب و ادیان سے جو گمراہ کن نظریات و عقائد دین میں شامل کر دیے گئے انکی تباہ کاریوں کا ادراک تو اچھے بھلے صاحب علم تک کے لیے مشکل ھے.. ان کو کس طرح ھضم کیا جائے ؟ تصوف کا یہی رخ اسلام کے لیے ناقابل قبول ھے.. ذرا غور تو کیجیے کہ آج جن عقائد اور نظریات نے ھمارے اندر فرقہ وارانہ تقسیم در تقسیم کی اتنی بڑی بڑی دیواریں کھڑی کر دی ھیں ان عقائد کو کہاں سے کشید کیا گیا ھے.... کیا قرآن و سنت سے؟ یا یہ ساری مہربانیاں تصوف کی ھیں..؟ ذکر کے چند طریقوں پر اعتراض کس کو ھے.. اعتراض تو اس باطل فلسفہ پر ھے جو تصوف کے راستے اسلام کی رگوں میں انجیکٹ کیا گیا.. کاش کہ آپ اس پر بھی کچھ لکھ سکیں..
ڈاکٹر طفیل ہاشمی: عامر عبداللہ صاحب ۔ ۔ میں تو آپ کی بات نہیں سمجھ پایا ۔تصوف عقائد نہیں دیتا ۔تصوف فقہ کی طرح کا ایک استخراجی علم ھے جس کا واحد ہدف رضائے الہی کا حصول ھے عقائد صرف کتاب اللہ اور سنت متواترہ سے ثابت ہو تے ہیں ۔اگر کہیں آستانوں پر بھنگ شراب پی جاتی ھے اور کنواریوں اور سہاگنوں کی عزتیں لٹتی ہیں اور غیر اللہ کو سجدے کئے جاتے ہیں تو اسے آپ کس علمی تعریف کی رو سے تصوف شمار کریں گے۔
محمد نعمان بخاری: عامر عبداللہ صاحب، جن باتوں پر کسی جاہل کو ہی اعتراض ہو سکتا ہے انہیں اپنانے میں آپ کو کیا تردد ہے؟ آپ جس چیز کو غلط سمجھ رہے ہیں اس پر بحث کی بجائے اسے ترک کرکے تصوفِ اسلامی کو اخیتار کیجئے.. یہ اختیار کرنا باتیں بنانے اور اعتراضات سوچنے سے کہیں زیادہ اہم ہے.
زاہد مغل صاحب: اصول فقہ کی تدوین میں اصولیین نے بڑے پیمانے پر یونانی طرز استدلال و استنباط کو استعمال میں لاتے ہوئے نصوص سے احکامات اخذ کرنے کے لئے اصول وضع کئے۔ کیا اسکا مطلب یہ ہوا کہ اصول فقہ و فقہ کا سارا ذخیرہ "غیر اسلامی" و غیر معتبر ہے؟ تو اگر صوفیاء کسی مقصد (حصول ارتکاز، خشوع و حضوری) کے لئے تجربے کی بنا پر چند اشغال و اذکار وضع کرلیں یا کسی سے مستعار لے لیں تو اس میں کونسا دینی اصول ٹوٹ گیا؟
اب اس پر غور کریں کہ کیا صحابہ کرام خبر واحد و متواتر، استقرائی قوانین، ارکان قیاس، علت اخذ کرنے کے پیچیدہ طرق، بذریعہ استقراء قواعد وضع کرنے، الفاظ کے اپنے معنی پر دلالتوں کے طرق وغیرہ جیسی بحثوں سے واقف تھے؟ کیا رسول اللہﷺ نے "خود براہ راست" کسی صحابی کو احکامات اخذ کرنے کی خاطر ان امور کی تعلیم دی؟ اگر اس سب کے باوجود اصول فقہ اس حد تک مطلوب و مقبول علم ہوسکتا ہے کہ اہل مدارس اسے سبقا سبقا سکھانا لازم سمجھیں تو آخر مخصوص مقصد کے لئے تصوف میں اختیار کردہ اشغال و اذکار ایسی کونسی کڑوی گولی ہے جسے حلق سے اتارنا ممکن نہیں؟
زاہد مغل صاحب: اصول فقہ کی تدوین میں اصولیین نے بڑے پیمانے پر یونانی طرز استدلال و استنباط کو استعمال میں لاتے ہوئے نصوص سے احکامات اخذ کرنے کے لئے اصول وضع کئے۔ کیا اسکا مطلب یہ ہوا کہ اصول فقہ و فقہ کا سارا ذخیرہ "غیر اسلامی" و غیر معتبر ہے؟ تو اگر صوفیاء کسی مقصد (حصول ارتکاز، خشوع و حضوری) کے لئے تجربے کی بنا پر چند اشغال و اذکار وضع کرلیں یا کسی سے مستعار لے لیں تو اس میں کونسا دینی اصول ٹوٹ گیا؟
اب اس پر غور کریں کہ کیا صحابہ کرام خبر واحد و متواتر، استقرائی قوانین، ارکان قیاس، علت اخذ کرنے کے پیچیدہ طرق، بذریعہ استقراء قواعد وضع کرنے، الفاظ کے اپنے معنی پر دلالتوں کے طرق وغیرہ جیسی بحثوں سے واقف تھے؟ کیا رسول اللہﷺ نے "خود براہ راست" کسی صحابی کو احکامات اخذ کرنے کی خاطر ان امور کی تعلیم دی؟ اگر اس سب کے باوجود اصول فقہ اس حد تک مطلوب و مقبول علم ہوسکتا ہے کہ اہل مدارس اسے سبقا سبقا سکھانا لازم سمجھیں تو آخر مخصوص مقصد کے لئے تصوف میں اختیار کردہ اشغال و اذکار ایسی کونسی کڑوی گولی ہے جسے حلق سے اتارنا ممکن نہیں؟
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔