Sunday, June 28, 2015

اعتراض-1 (از: قاری حنیف ڈار صاحب)

0 comments
نبئ کریم ﷺ کا لایا ھوا اللہ کا دین تمام نوعِ انسانیت کے لئے یکساں تھا ، اور یہ دین ظاھر و باھر تھا سینہ بسینہ نہیں تھا ،، جس نبئ ﷺ کے حجرے کے اندر کی زندگی اور نہانے کا طریقہ کار تک معلوم ھے ، اس نبی ﷺ پر یہ الزام رکھنا کہ وہ کوئی خاص تعلیم اپنے صرف دو صحابہ کو دے گئے تھے ،، جو صرف ان دونوں سے ھی آگے چلی ھے شاید چودہ صدیوں کا سب سے بڑا جھوٹ ھے ،، اسلام سیدھی سادی اور عملی تعلیمات کا دین ھے جو ایک مومن کو 24 گھنٹے کی روزمرہ زندگی کے بارے میں ھدایات دیتا ھے ،، نہ جبرائیل نے کچھ چھپایا کیونکہ رب انہیں امین کہہ رھا ھے ،، اور نہ ھی نبئ کریم ﷺ نے کچھ چھپایا کیونکہ اللہ ان کو بھی امین کہتا ھے ،،،،
حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے تصوف کے سلسلے چلانا بہت بڑا فراڈ ھے ،، عشرہ مبشرہ میں سے باقی آٹھ روحانی خلافت میں فیل کیوں ھو گئے ؟ عمرؓ میں کیا خامی تھی کہ وہ نبئ پاک کے تصوف کے خلیفہ مجاز نہ بن پائے ؟ عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو نبئ کریم ﷺ نے دو بیٹیاں دے دیں مگر خلعتِ خلافت نہ بخشی اور جن کو نبی ﷺ نے خلافتِ مجازی کے قابل نہ سمجھا ان کو مسلمانوں نے خلیفہ راشد کیسے بنا لیا،،، ؟ یہ سلسلے ایک چیستاں کے سوا کچھ نہیں ،تصوف بہت قدیم نفسیاتی علم ھے ،، سائیکومینٹری کہلاتا ھے ،ھندوؤں میں یوگا کہلاتا ھے اور وھی سات پاؤر پؤائنٹس ھندو یوگا میں بھی موجود ھیں جو ھمارے یہاں سات لطیفے کہلاتے ھیں ، وھی پاسِ انفاس ھندو یوگا کی تعلیم میں بھی موجود ھے ،، خواہ مخواہ صحابہ کو اس میں ملوث کرنے کی آخر ضرورت ھی کیا ھے ؟ ھم نے بھی اسے سیلف کنٹرول کے لئے ایک علم سمجھ کر سیکھا ھے ،،،
مگر ھمارے یہاں جس رسم میں علماء شامل ھو جاتے ھیں وہ فوراً دین بن جاتی ھے ،علماء نے باطنی علوم کے نام پہ اس علمِ یوگا کو سیکھ کر اسے دین بنایا اور فورا اس کا سلسلہ نسب جا حضرت علیؓ اور حضرت ابوبکر صدیقؓ سے جا جوڑا ،، جس کی کوئی دلیل ان حضرات کے پاس نہیں ھے ، یہ زیاد ابن سمیہ کے ابوسفیانؓ سے منسوب کرنے کے فعل سے بھی بڑھ کر شنیع فعل ھے ،،۔ (قاری حنیف ڈار)
-----------------------------------------------------------
جواب: (از: محمد نعمان بخاری)
ہمیں غلط فہمیوں نے مار ڈالا،، ورنہ آدمی ہم بھی بڑے کام کے تھے۔۔کنارے پہ رہ کر اندازۂ طوفاں کیا جائے اورغوطہ غوروں کی بات کی پرواہ نہ کی جائے تو ایسے ہی نتائج برآمد ہوتے ہیں۔۔میں نے تصوف پہ لیکچرز کیوں پیش کئے تھے؟ اس لئے کہ جن باتوں کو عوام نے پیشہ ورپیروں کی وجہ سے تصوف کا لازمہ سمجھ رکھا ہے اور انہی باتوں کی وجہ سے تصوف پہ تنقید کرتے ہیں،، انکی کج فہمیوں کا ازالہ کیا جائے۔۔اب آپ وہ مواد پڑھیں سمجھیں ہی ناں، تو اعتراض کی سوئی ایلفی سے ایک ہی جگہ چپکی رہے گی۔۔بہرحال، اعتراضات کا جواب دینا ضروری سمجھتا ہوں۔!
1۔ حضرت علیؓ اور ابوبکر صدیق ؓ سے تصوف کے سلسلے چلانا بہت بڑا فراڈ ھے ،، عشرہ مبشرہ میں سے باقی آٹھ روحانی خلافت میں فیل کیوں ھو گئے ؟ عمرؓ میں کیا خامی تھی کہ وہ نبئ پاک کے تصوف کے خلیفہ مجاز نہ بن پائے ؟ عثمان غنی ؓ کو نبئ کریم ﷺ نے دو بیٹیاں دے دیں مگر خلعتِ خلافت نہ بخشی اور جن کو نبی ﷺ نے خلافتِ مجازی کے قابل نہ سمجھا ان کو مسلمانوں نے خلیفہ راشد کیسے بنا لیا،،، ؟
جواب:یہ تو سیدھا سیدھا عطائے الہٰی پر اعتراض ہے کہ اللہ نے فلاں کو یہ مقام کیوں بخشا اور فلاں کو کیوں نہ نصیب کیا۔۔ اس طرح کی سینکڑوں 'کیوئیں' آپ اخذ کر سکتے ہیں۔۔مثلاً سارے صحابہ جرنیل کیوں نہ بن سکے، کیا باقی نعوذ باللہ بزدل تھے؟ یا سارے تابعین و تبع تابعین امام ابوحنیفہؒ اور امام احمدؒ کیوں نہ بن سکے، کیا باقی نعوذ باللہ جاہل تھے؟ یا اگرمیں یہ کہوں کہ جناب رعایت اللہ فاروقی میں کیا خامی ہے کہ وہ ابوظہبی کی مسجد کا امام نہ بن سکے وغیرہ۔۔! ہر صحابی کے پاس کیفیاتِ قلبی موجود تھیں مگر یہ اللہ کا فیصلہ ہے اس نے کس میں یہ کیفیات آگے ٹرانسفر کرنے کی کتنی صلاحیت رکھی۔۔ یہ علوم و کیفیات سینہ بہ سینہ منتقل ہوئے اور جسکے پاس نہیں ہیں، اسکو بھی قرآن و سنت سے راہنمائی لینے میں چنداں رکاوٹ نہیں ہے۔۔ اللہ شرحِ صدر دے تو دیکھا جا سکتا ہے کہ کونسا سلسلہ کہاں سے شروع ہوا۔۔ نیز سوائے نسبتِ اویسیہ کے، باقی سلاسل میں برکاتِ نبوت ﷺ کے حصول کیلئے صحبتِ شیخ شرط ہے، جیسا کہ صحابیت بارگاہِ رسالت پناہی میں حاضری سے مشروط تھی۔۔ کیا نظر تھی، جس نے مُردوں کو مسیحا کر دیا۔۔!
2۔ تصوف بہت قدیم نفسیاتی علم ھے ،، سائیکومینٹری کہلاتا ھے ،ھندوؤں میں یوگا کہلاتا ھے اور وھی سات پاور پوائنٹس ھندو یوگا میں بھی موجود ھیں جو ھمارے یہاں سات لطیفے کہلاتے ھیں ، وھی پاسِ انفاس ھندو یوگا کی تعلیم میں بھی موجود ھے ،، خواہ مخواہ صحابہ کو اس میں ملوث کرنے کی آخر ضرورت ھی کیا ھے ؟ 
جواب: تصوف نہ صرف ظاہری زندگی میں شرعی تبدیلی لاتا ہے بلکہ قلبی خواہشات کو بھی شرعی ضابطہ عطا کرتا ہے۔۔یہ اللہ کے نام اور اسکے ذکر کی برکات ہیں۔۔یہ برکاتِ نبوتؐ ہیں۔۔ یوگا میں کون سی ایسی' برکت' ہے جو انسان کو برائیوں سے روک دے اور کردار میں صالحیت پیدا کردے؟ کیا فقط نقشے اور تصویریں دیکھ لینے سے بندے کی عملی زندگی میں مثبت تبدیلی آجاتی ہے؟ یعنی ایک انسان کے افکار اور معمولات میں سنتِ نبوی ﷺ کی چھاپ لگ جاتی ہے اور اسے آپ یوگا سے تشبیہ دے رہے ہیں جسکا فنکشن فقط ذہنی اور جسمانی آسودگی فراہم کرناہے،، کمال ہے۔۔نیز یہ (سات نہیں) پانچ پوائنٹس روح کے وہ اعضائے رئیسہ ہیں جن سے یہ انواراتِ الہٰی کو جذب کرتی ہے اور اپنی غذا حاصل کرتی ہے۔۔ بتوفیقِ ربیّ دیکھا جا سکتا ہے۔۔! جو شخص انکو فقط Imagination اور DMT کا شاخسانہ سمجھتا ہے،، اسے جاننا چاہئے کہ کہیں اسکی نماز میں حلاوت ، ذکر میں جاذبیت اور تلاوتِ قرآن کی لطافت بھی اسی DMT اور نفسیاتی اثرات کا کیا دھرا نہ ہو۔۔ 
یہاں آپ یہ بھی پوچھ سکتے ہیں کہ ہم ایک مخصوص طریقے سے ذکر کیوں کرتے ہیں؟اسلئے کہ ہر وہ طریقۂ ذکر جائز ہے جو حدودِ شرعی سے متجاوز نہ ہو۔۔ویسے کیا آپ یہ بتا سکتے ہیں کہ اُردو زبان میں نفل نماز پڑھنے کا شرعی جواز کیا ہے؟ وہی جواز ذکر پاس انفاس کیلئے بھی سمجھ لیجئے۔۔!
جہاں تک میں سمجھا ہوں، آپکا اصل اعتراض یہ ہے کہ صوفیاء کو مکاشفات کیوں ہوتے ہیں اور وہ لوگوں کی قبریں کیوں جھانکتے پھرتےہیں،، نیز کیا قطب/غوث لوگوں کی حاجت روائی کیلئے مقرر کئے جاتے ہیں؟
اس بارے میں پہلے بھی عرض کرچکا ہوں، مکرر عرض ہے کہ:
تصوف کے لئے کشف و کرامات شرط نہیں ہیں، نہ ہی دنیا کے کاروبار میں ترقی دلانے کا نام تصوف ہے۔
تعویذ گنڈوں کا نام تصوف نہیں ہے، نہ ہی جھاڑ پھونک سے بیماری دور کرنے کا نام تصوف ہے۔
مقدمات جیتنے کا نام تصوف نہیں ہے، نہ ہی قبروں پر سجدہ کرنے، ان پر چادریں چڑھانے اور چراغ جلانے کا نام تصوف ہے، اور نہ آنے والے واقعات کی خبر دینے کا نام تصوف ہے۔
اولیاء اللہ کو غیبی ندا کرنا تصوف نہیں ہے، نہ ہی انہیں مشکل کشا اور حاجت روا سمجھنا تصوف ہے۔ 
تصوف میں کشف و الہام کا صحیح اترنا لازمی نہیں ہے، نہ ہی وجد و تواجد اور رقص و سرور کا نام تصوف ہے۔
اس میں کوئی ٹھیکیداری نہیں ہے کہ پیر کی ایک توجہ سے مرید کی پوری اصلاح ہو جائے گی اور سلوک (تصوف) کی دولت بغیر مجاہدے اور بغیر اتباعِ سنت حاصل ہو جائے گی۔۔۔۔یہ سب چیزیں تصوف کا لازمہ بلکہ عین تصوف سمجھی جاتی ہیں۔۔ فی الحقیقت یہ ساری خرافات اسلامی تصوف کی عین ضد ہیں۔ ۔!
دین کی طرف راغب کرنے کیلئے تو انبیاء علیھم السلام بھی کشف و معجزات دکھاتے اور آنے والے واقعات کی خبر دیتے آئے ہیں۔۔ اسمیں کیا عجب ہے کہ نبی ﷺ کی پیروی کے راستے میں امتی کو کچھ دکھا دیا جائے یا اسکے ہاتھ پر محیر العقول بات (کرامت) صادر ہو۔۔ یہ کشف و کرامات وغیرہ ذیلی چیزیں ہیں اور صوفیاء کے نزدیک ان کھلونوں کی مانند ہیں جن سے بچوں کو بہلایا جاتا ہے کہ میاں اِدھر دیکھو، یہاں توجہ کرو۔۔ انہی کو اصل سمجھ کر اور انہی پر بھروسہ کر کے بیٹھ رہنا سفرِ ولایت و سلوک میں بڑی رکاوٹ بن جاتا ہے۔۔بہرکیف، تصوف کا اصل موضوع قربِ الہی، عبادات میں حد درجہ خلوص اور پیروئ سنت خیر الانام صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔۔ صاحبِ حال افراد سے حاجت روائی اور مددطلب کرنا کسی تصوف کا حصہ تھا ،نہ ہے۔۔حصولِ فیض بہ توفیق اللہ دوسری شے ہے۔۔آپ کو حضرت خضر علیہ رحمہ کے علمِ لدنی کی جانکاری تو ہوگی،، یہ بتا دیجئے کہ حضرت موسی علیہ السلام کو بچے کو قتل کرنے اور سفینہ میں عیب ڈالنے کی حکمت کا علم کیوں نہ ہوا، جبکہ وہ وقت کے نبی تھے؟ اللہ کریم نے حضرت ابراہیمؑ کو ملکوت السمٰوات والارض کیونکر دکھا دئیے؟ نبی کریمﷺ کو اہلِ قبور کے احوال کا کیسے علم ہوا؟ اگر یہ سب کام معجزہ ہیں،، جو کہ سو فیصد عطائے ربانی ہے، تو کیا اُمتی کو بتوفیق الٰہی بطور کرامت اس میں سے حصہ نہیں مل سکتا؟کیا حضرت عمرؓ کی آواز بغیر اسکائپ کے حضرت ساریہؓ تک نہیں پہنچ سکتی؟ کل اگر صحابہ کرام کو میدانِ بدر میں فرشتے نظر آسکتے تھے تو آج اللہ دکھانے پر قادر نہیں ہے؟اللہ کی رحمت برسنا اور گناہوں کا جھڑنا صرف کتابی اور تخیلاتی باتیں ہیں یا تالیفِ قلب کیلئے مشاہدے کی بھی کوئی صورت ہے؟ اگر اللہ نے اسلاف کے بعد آج مجتہد بننے پر پابندی نہیں لگائی تو کیا ان مکاشفات پرٹیکس عائد کردیا ہے؟ اور وہ چشمِ قلب وا ہونا کیا ہوا؟ حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ میں نے قرآن حکیم حالتِ بیداری میں نبی کریم ﷺ سے سبقاً پڑھا ہے۔۔ اس پر ایک فتویٰ تو بنتا ہے۔۔ :)
لیکن یہ سب باتیں دین کا حصہ نہیں ہیں بلکہ از قسم انعام ہیں۔۔ان کے حصول کی جستجو کرنا ہرگز ہرگز تصوف نہیں ہے۔۔حاصل ہوبھی سکتی ہیں اور نہیں بھی،، اصل چیز دلِ زندہ پیدا کرنا ہے۔۔ شریعت تو صرف وہی ہے جس کے احکام آقا ﷺ نے ہمیں پہنچا دئیے،، ان کے علاوہ کوئی نیا حکم پیش کرتا ہے تو وہ مردود ہے۔۔ دو واقعات عرض کرکے اجازت چاہوں گا۔۔
ہمارے ایک پیر بھائی ہوا کرتے تھے،، جو یہ تک بتا سکتے تھے کہ امام نے سری نماز میں کون سی سورہ تلاوت کی ہے۔۔ آپ اگر ان سے یہ استعداد چھین سکتے ہیں تو کوشش کرنے میں حرج نہیں۔۔ :)
حضرت شیخ المکرم (مولانا محمد اکرم اعوان مدظلہ) ایک مرتبہ اپنے شیخ کیساتھ سفر میں تھے،، انہوں نے اپنی پستول ایک ساتھی کو پکڑائی اور وضو کرنے لگے۔۔ جماعت کا وقت ہو گیا تو اس ساتھی نے پستول سمیت نماز ادا کی۔۔ بعد نماز،شیخ المکرم اپنے شیخؒ سے پوچھنے لگے؛ حضرت، آج اس ساتھی پر بنسبت ہمارے ،انوارات کی کثرت تھی، کیا وجہ ہے؟ حضرتؒ فرمانے لگے کہ کبھی نبی کریمﷺ اسلحے سمیت نماز بھی ادا فرمایا کرتے تھے۔ اس شخص پر ہم سے ایک سنت کی سبقت کی وجہ سے انوارات کی کثرت تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ واقعات بطور نمونہ ہیں،، ورنہ یہ اسٹیٹس ایسی باتوں کا متحمل نہیں۔۔ وما توفیقی الا باللہ۔۔ میرا نہیں خیال کہ کوئی ادنیٰ مسلمان بھی اللہ اور اسکے حبیب ﷺ کی ذاتِ گرامی پر اس طرح بےدھڑک جھوٹ بول سکتا ہے،، کہ آخر ہمیں اُسی مالک الملک کے حضور پیش ہونا ہے ۔۔ مزہ تو تب ہے کہ آپ ہمیں یہ بتائیں کہ جناب، شعبۂ تصوف کو اپنانے کے بعد آپ میں فلاں فلاں شرعی نقائص پیدا ہوچکے ہیں اور اب آپ قرآن وسنت سے دور جارہے ہیں۔۔کیا خیال ہے۔۔؟
محرومِ تماشا کو -----پھر دیدۂ بینا دے
دیکھا ہے جو کچھ میں نے اوروں کو بھی دکھلا دے

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔