اصول فقہ کی تدوین میں اصولیین نے بڑے پیمانے پر یونانی طرز استدلال و استنباط کو استعمال میں لاتے ہوئے نصوص سے احکامات اخذ کرنے کے لئے اصول وضع کئے۔ کیا اسکا مطلب یہ ہوا کہ اصول فقہ و فقہ کا سارا ذخیرہ "غیر اسلامی" و غیر معتبر ہے؟ تو اگر صوفیاء کسی مقصد (حصول ارتکاز، خشوع و حضوری) کے لئے تجربے کی بنا پر چند اشغال و اذکار وضع کرلیں یا کسی سے مستعار لے لیں تو اس میں کونسا دینی اصول ٹوٹ گیا؟
اب اس پر غور کریں کہ کیا صحابہ کرام خبر واحد و متواتر، استقرائی قوانین، ارکان قیاس، علت اخذ کرنے کے پیچیدہ طرق، بذریعہ استقراء قواعد وضع کرنے، الفاظ کے اپنے معنی پر دلالتوں کے طرق وغیرہ جیسی بحثوں سے واقف تھے؟ کیا رسول اللہﷺ نے "خود براہ راست" کسی صحابی کو احکامات اخذ کرنے کی خاطر ان امور کی تعلیم دی؟ اگر اس سب کے باوجود اصول فقہ اس حد تک مطلوب و مقبول علم ہوسکتا ہے کہ اہل مدارس اسے سبقا سبقا سکھانا لازم سمجھیں تو آخر مخصوص مقصد کے لئے تصوف میں اختیار کردہ اشغال و اذکار ایسی کونسی کڑوی گولی ہے جسے حلق سے اتارنا ممکن نہیں؟
(زاہد مغل)
-------------------------------
کمنٹس
عبید فاخر: مسئلہ یہ ہے کہ شاید جن شخصیات کی طرف آپ کا روئے سخن ہے وہ تو اصولِ فقہ اور فرض، واجب، سنت وغیرہ کی تقسیم کو ہی نہیں مانتے اور نہ ہی اہلِ مدارس کا سبقا کسی علم کو پڑهانا ان کے لئے کوئی حجت ہے، ان حضرات کے سامنے تو امام ابوحنیفہ رح اور امام بخاری رح کسی کهاتے میں نہیں ہیں تو آپ کی مثالیں کیا حیثیت رکهتی ہیں؟
زاہد مغل: انتہائی معذرت کے ساتھ لیکن دین کا بیڑا غرق ان صوفیاء کرام نے اپنی " سادگی" میں کیا ہے......
نہ صوفیاء کرام کے اقوال فقہ میں حجت ہے
نا انکی احادیث قبول کی جاتی ہے...
خطیب بغدادی اپنی مشہور کتاب "الجامع لاخلاق الراوی"
میں فرماتے ہیں کہ جب صوفیاء تمہیں کوئی حدیث بیان کرے ...تو انکے الفاظ ہے یہ کہ (اغسل یدک)
اس حدیث سے ہاتھ دهو لو....
کچھ لوگوں کی رائے میں دین کا بیڑا متکلمین نے بٹھایا جنھوں نے امت کو بیکار کی کلامی و فلسفیانہ موشگافیوں میں الجھایا۔ کچھ کے خیال میں اصول فقہ و فقہ والوں کے کباڑا کیا جنھوں نے امت کو قرآن سے دور کرکے انسانوں کے فھم کے پیچھے لگا دیا۔ ایسے میں اگر کچھ لوگوں کا یہ خیال بھی ہے کہ صوفیاء نے دین کا بیڑا غرق کیا تو کوئی حیرانی کی بات نہیں۔
محمد بن مالک: آپ اپنے ذہنی سکون یا دنیوی تسخیر کے لیے ریاضتیں کرنا چاہتے ہیں تو شوق سے کریں۔ لیکن یہ ریاضتیں جو آپ نے سادھووں اور جوگیوں سے مستعار لی ہیں یہ خدا کے سامنے خشوع خضوع بڑھانے اور حضورِ قلب پیدا کرنے میں مددگار ثابت ہوں گی؟؟!!! جنابِ والا، ہر وہ چیز جو آدمی کے اندر خدا کے لیے خشوع و خضوع پیدا کرے وہ بھی عبادت ہے۔ اور عبادات توقیفی ہوتی ہیں۔ یعنی ثابت شدہ ہوتی ہیں۔ عبادات کے معاملے میں کوئی چیز کفار سے مستعار لی جائے تو شریعت میں اس کی کیا حیثیت ہوگی اس کی تشریح کی بہت زیادہ ضرورت نہیں۔
سوچنے کی بات ہے ایک مسلمان کسی ہندو سے یوگا سیکھے اور اس یوگا کی مشقیں کرنے سے وہ عنداللہ ماجور ہوتا ہو!!! کیوں؟ اس لیے کہ ان مشقوں سے اس کی نماز کے اندر خشوع میں اضافہ جو ہوتا ہے!!!!
آپ کہہ سکتے ہیں کہ ہم امریکہ سے اسلحہ و ٹیکنالوجی لے کر روس کے ساتھ جہاد کر سکتے ہیں جس پر ہم سے اجر کے وعدے کیے جا سکتے ہیں تو ہندو سے ہم اپنی نمازوں کے لیے خشوع و خضوع کیوں نہیں سیکھ سکتے؟
جو امور مراسمِ عبودیت میں شمار ہوتے ہیں اور جن کا معاملہ توقیفی ہوتا ہے ان میں از اول تا آخر ایک ایک حرکت اور فعل کے لیے ہدایات دینی نصوص میں دستیاب ہوتی ہیں۔ ان میں تو مسلمان کو ہر فعل کے طریقہ کے لیے دینی نصوص ہی کا پابند رہنا ہوگا۔ اور مراسمِ عبودیت دراصل قلبی کیفیات ہی کی پیمائش و آزمائش اور ان کے استحضار کو جانچنے ہی کے لیے لازم ٹھہرائی گئی ہیں۔ تو کیا ہوگا جب کہ قلبی استحضار کا ماخذ کوئی غیر ایمانی منبع ہوگا؟؟
جبکہ کفار سے جہاد براہِ راست مراسمِ عبودیت میں شمار نہیں ہوتا، اگرچہ یہ خدا کی نگاہ میں ایک بہت ہی عظیم فعل ہے۔ نہ ہی اس کے نماز و حج کی طرح ارکان ہوتے ہیں۔ اس میں شریعت نے ایک دائرہ کار مقرر کر دیا ہے جس سے انحراف کیے بغیر آپ کوئی بھی فیصلہ اپنی صوابدید سے کر سکتے ہیں۔ کفار سے اسلحہ خریدنا یا ٹیکنالوجی لینا یا دنیاوی علم حاصل کرنا اسی زمرہ میں آتا ہے۔
معاملہ دراصل الجھتا ہے چیزوں کو ان کے غیر متماثل چیزوں پر قیاس کرنے سے۔ سو یہاں پہ بھی کچھ ایسا ہی دکھائی دیتا ہے۔
زاہد مغل: صوفیا نے کب کہا کہ قرب اختیار کرنے کے مسنون طریقوں کو ترک کرکے ان مشاغل میں مصروف ھونا چاھئے یا عبادت کے منصوص طریقے خشوع پیدا نھیں کرتے؟
ایک مولانا صاحب جب کسی کو کسی مخصوص اثر کو زائل کرنے کے لئے (مثلا غصے کو قابو مین رکھنے کے لئے) کوئی وظیفہ بتاتے ھیں (جو انھوں نے تجربے سے سیکھا ھوتا ھے) تو کیا انکے کھنے کا مطلب یہ ھوتا ھے کہ قرآن و سنت کو چھوڑ دو؟
محمد بن مالک: جناب میں نے یہ کب عرض کیا کہ آپ لوگوں کو بالکلیہ سنت کا طریق چھوڑنے کا حکم دے رہے ہیں؟! (ویسے جب بدعت رائج ہوتی ہے تو سنت کو ہٹا کر ہی ہوتی ہے!) عرض کرنے کا مقصد یہ تھا کہ عبادات میں کسی معاملے سے متعلق ایک چیز اگر سنت میں ہے تو اس کے ہوتے ہوئے کسی غیر سنت چیز یا غیر ثابت شدہ چیز کی طرف رجوع کرنے کا شرعی حکم کیا ہے؟؟ اور اگر اسی سے متعلق ایک چیز سنت میں سرے سے ہے ہی نہیں اس کو اپنی طرف سے گھڑ لینا از روئے شریعت کیسا ہے؟ یعنی ایک چیز کی شریعت نے ضروت محسوس کی تو اس کا طریقہ بتا دیا۔ اور جس چیز کی ضرورت محسوس نہیں کی تو اس بارے میں کوئی چیز لاگو نہیں کی۔ دونوں صورتوں میں ایک چیز کو اپنی طرف سے ایجاد کر کے اختیار کر لینا کیا شریعت سے تجاوز نہیں ہے؟؟ کیا عبادات سے متعلقہ چیزیں بھی گھڑی جا سکتی ہیں؟؟ اور کوئی عبادتی یا تعظیمی امر جو دین میں ثابت شدہ نہ ہو خدا کا تقرب حاصل کرنے کے لیے بجا لایا جا سکتا ہے؟؟ نیز اگر تجربے سے یہ بات معلوم ہو سکتی ہے کہ فلاں تعظیمی یا روحانی فعل جو دین میں ثابت شدہ نہیں ہے اس کے ذریعے خدا کو راضی کیا جا سکتا ہے تو پھر عبادات کے توقیفی ہونے کا مطلب کیا ہے؟ ایسے "تجربات" کا شریعت میں کیا اعتبار ہے؟ اور کیا سنت کے طریقوں کے ہوتے ہوئے ہم عبادات اور اس کی قلبی کیفیات سے متعلق کوئی بھی طریقہ گھڑنے کے مجاز ہیں؟؟
زاہد مغل: لطائف ستہ (اس سے بھت سے غلط فھمیاں دور ھونگی)
جس طرح دل خون پمپ کرتا ھے لیکن سارے بدن کو خون کی سپلائ یقینی بنانے کے لئے جگہ جگہ پریشر پوائنٹس ہیں۔یاطب چین نے تمام بیماریوں کے علاج کے لئےبدن میں پریشر پوائنٹس دریافت کئے ھوئے ھیں اسی طرح باطنی بیداری کے لئےطویل انسانی تجربے نے چھ پوانٹس دریافت کئے ھیں جنہیں لطائف ستہ کا نام دیا گیا ھے جو قلبی روحی نفسی سری خفی اور اخفی کے نام سے موسوم ہیں۔
قرآن نے الاعراف=205 میں کہا ھے
واذکر ربک فی نفسک۔ ۔ ۔ ۔ اس کا عام طریقہ تو یہی ھے کہ اپنے خیال کو یاد الہی سے وابستہ رکھا جائے لیکن گہرائ اور گیرائ سے یاد الہی سے وابستہ ہونے کے لئے ان لطائف ستہ کو بیدار کیا جاتا ھےجس کے نتیجے میں یاد الہی اس طرح اندر سمو جاتی ھے کہ دنیوی مشاغل سے اس میں فرق نہیں پڑتا۔
ہندو دھرم میں جو بذات خود الہامی دھرم ھے عبادت کا طریقہ گیان دھیان تھا اس لئے ان کے ہاں یہ تجربہ عام ھے۔اسلام نے صرف خشوع وخضوع کا تقاضا کیاھے اس کے لئے کسی ایک طریقے کا تعین نہیں کیا۔ارباب تصوف نے دوسرے طریقوں کے ساتھ اسے بھی آزمایا اسکی حیثیت شرعی نہیں ھے بلکہ اسی طرح ھے جیسے آپ دماغ کو تروتازہ رکھنے کے لئےکافی یا بادام دودھ اورخمیرہ گاوزبان عنبری جواھر والا یا مختلف ضرورتوں کے لئے دیسی دوائیں استعمال کرتے ہیں۔ اگر ان کا استعمال غیر شرعی نہیں ھے تو لطائف ستہ کو بیدار کرنا بھی غیر شرعی نہیں ھے۔
(Tufail Hashmi بشکریہ)
طفیل ہاشمی: عبادت کی مقادیر توقیفی ھیں عبادت میں معاون وسائل توقیفی نہیں ھیں ۔ورنہ اے سی لگا کر نماز پڑھنا اورتلاوت کرنا بدعت شمار ہوتا۔
زاہد مغل: جی بالکل۔ ھر مسجد والے مسجد میں اے سی لگاتے ھیں، اس لئے کہ "تجربے سے ثابت ھوا" کہ اس سے نماز میں انھماک بڑھتا ھے حالانکہ سنت میں اس طریقے کا کوئی ذکر نھیں ملتا۔ اگر اس نیت سے اے سی لگانا جائز و کار ثواب تک ھے تو دیگر اشغال، جنکے بارے میں ایک گروہ کا بعینہہ یہی دعوی ہو کہ ان سے حضور قلبی میں اضافہ ھوتا ھے، اسے کس بنا پر رد کیا جارھا ھے؟
اہل فقہ کے خیال میں "عقلی اصولوں کے ذریعے" عقل کو جلا بخشنے سے کتاب اللہ و سنت سے خدا کی رضا سمجھنے (یعنی عرفان الھی) میں مدد ملتی ہے جبکہ دوسرے کا خیال یہ ہے کہ "قلب کو مستحضر رکھنے والے ان اصولوں کے ذریعے" قلب کو جلا بخشنے سے خدا کی طرف لو لگانے (یعنی عرفان الھی) میں مدد ملتی ہے۔ آخر وہ کونسی منطق ہے جسکے ذریعے اول الذکر تو جائز مگر مؤخر الذکر ناجائز ٹھرتا ہے؟
طفیل ہاشمی: کیا عبادات توقیفی ھیں؟
توقیفی سے مراد یہ ھے کہ کوئ چیز پوری تفصیل کے ساتھ اللہ نے خود مقرر کر دی ھو اور اس میں کسی نوع کی کسی تبدیلی کی گنجائش نہ ہو ۔جیسے قرآن حکیم کی ترتیب توقیفی ھے کا مطلب یہ ھے کہ اللہ نے خود رسول اللہ ﷺ کو ترتیب بتادی اور آپ نے وہی ترتیب رکھی ۔
کیا عبادات بھی اسی طرح توقیفی ہیں ؟
عبادات میں در حقیقت بہت تنوع اور تفصیلات ہیں ۔ان میں منصوص اور مجتہد فیہ دونوں قسم کے امور شامل ہیں ۔پھر منصوص امور بھی سارے یکساں نہیں کچھ واجبات ہیں کچھ سنن اور مستحبات ۔لیکن توقیفی ہونے کے حوالے سے دیکھا جائے تو غالبا صرف مقادیر (Quantities)ہی توقیفی ہیں یعنی فرض نمازوں اور ان کے داخلی ارکان روزوں کی تعداد اور زکوات کی شرح وغیرہ ایسے امور ہیں جو توقیفی ہیں ۔دیگر ہزار ہا ایسی اشیاء ہیں جو اجتہادی ہیں یا فرد کی صواب دید پر ہیں ۔جمع قرآن کے سلسلے میں صحابہ کا اجماع ھے کہ یہ عبادت توقیفی نہیں ھے ۔اور ہر عبادت کے توقیفی نہ ہونے پر حضرت عمر ؓنے وافعلوا الخیر کے عموم سے استدلال کرتے ہوئے حضرت ابو بکر ؓکو یہ کہہ کر قائل کر لیا کہ
واللہ انہ لخیر
عبادات کے مطلقا توقیفی ہونے کا موقف کتاب اللہ سنت کے اختلاف تنوع صحابہ کے اجماع اور مجتہدین امت کی تعبیرات سے ھم آھنگ نہیں معلوم ہوتا ۔
محمد بن مالک: كَانَ أَحْمَدَ وَغَيْرِهِ مِنْ فُقَهَاءِ الْحَدِيثِ يقُولُون : إَنَّ الْأَصْلَ فِي الْعِبَادَاتِ التَّوْقِيفُ ، فَلَا يُشْرَعُ مِنْهَا إلَّا مَا شَرَعَهُ اللَّهُ تَعَالَى وَإِلَّا دَخَلْنَا فِي مَعْنَى قَوْلِهِ : ( أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنْ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَنْ بِهِ اللَّهُ )
"امام احمد بن حنبل اور دیگر فقہائے کرام فرمایا کرتے تھے، عبادات میں اصل، توقیف ہے۔ پس عبادات میں سے کوئی بھی چیز مشروع نہیں ٹھہرائے جائے گی سوائے اس کے جس کو خود اللہ نے مشروع کیا ہو۔ وگرنہ ہم اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے مصداق ٹھہریں گے: ( أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنْ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَنْ بِهِ اللَّهُ )" کیا ان کے لیے اللہ کے شریک پائے جاتے ہیں جو ان کے لیے شریعت سازی کرتے ہیں جس کی اللہ نے اجازت نہیں دی؟""
(مجموع الفتاوٰی امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ۔ ج 16 ص 29-17)
اب بتائیے کس کی بات مانی جائے۔ امام ابنِ تیمیہ، امام احمد بن حنبل اور دورِ اول کے فقہائے کرام کی یا آپ کی؟؟
طفیل ہاشمی: کاش آپ کو اس عبارت کا مفہوم بھی معلوم ہوتا ۔امام احمد اور امام ابن تیمیہ وہی بات کہہ رھے ہیں جو میں نے کہی ھے ۔
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔