Thursday, July 30, 2015

کیا تصوف صرف ابن عربی رحمہ اللہ کے کلام اور وحدۃ الوجود پر قائم ہے؟

0 comments
دو دن قبل محترم احمد بشیر طاہر صاحب نے غامدی صاحب کے 2014 کے دو بیانات اپ لوڈ کیے... غامدی صاحب نے ان دونوں کلپس میں صوفیاء کرام کی فاش غلطیوں کو واضح کرتے ہوئے مرزا قادیانی کے نبوت کے دعوے اور اس کی بنیادوں کو صوفیاء کے کلام سے اخذ کرنے کی بات کی ہے!
میں آج اسی درس میں غامدی صاحب کے بیان کردہ ایک نکتے پر بحث کرنا چاہتا ہوں۔
بیان کے شروع میں ہی غامدی صاحب حضرت شیخ احمد سرہندی المعروف مجدد الف ثانی رحمہ اللہ کے مکتوبات کو تصوف کی نہایت مقبول اور غیر معمولی کتاب کہتے ہوئے ان مکتوبات سے نقل کرتے ہیں:
"مشایخ کے تین گروہ ہوئے... ایک وہ جو معتقدات میں علمائے اہل سنت کے ساتھ ہیں یعنی جو کہتے ہیں کہ یہ جو عالم ہے اور اس میں جو کمالات و صفات ہیں ... ان سب کو اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے خارج میں وجود بخشا ہے... مشایخ کا یہ گروہ گویا اہل سنت کا ہے!
دوسرا گروہ مشایخ کا وہ ہے جو عالم کو خدا کا سایہ کہتا ہے لیکن اس کا قائل ہے کہ عالم خارج میں موجود ہے... یعنی اس عالم کی کوئی حقیقت نہیں ہے جیسے کہ سائے کی حقیقت نہیں ہے مگر... جیسا کہ سائے کا وجود اصل سے قائم ہے ویسے ہی عالم کا وجود حق کے ساتھ قائم ہے!
پھر حضرت مجدد صاحب لکھتے ہیں کہ تیسرا گروہ مشایخ کا وہ ہے جو وحدت الوجود کا قائل ہے اور یہی سب سے بڑا گروہ ہے( سب سے بڑے گروہ کے الفاظ غامدی صاحب کے ہیں نہ کہ حضرت مجدد صاحب کے)... جو کہتا ہے کہ خارج میں بس "ایک" ہی وجود ہے یعنی کثرت نہیں ہے... وحدت الوجود کا مطلب یہی ہے کہ وجود ایک ہی ہے، اس کے علاوہ کچھ نہیں... "
اس کے بعد غامدی صاحب یہ کہتے ہیں کہ: " توحید جو قرآن میں ہےاس کا مطلب ہے کہ اس عالم کا الہٰ ایک ہے لیکن وحدت الوجود کے قائلین اس کے برعکس یہ کہتے ہیں کہ عالم کچھ ہے ہی نہیں... بلکہ موجود حقیقی ہے ہی ایک اور وہ حق تعالیٰ کی ذات ہے... باقی کیا ہے؟ وہ اس کے تعینات ہیں... جب کہ حق تعالیٰ کی ذات تو کوئی تعین نہیں رکھتی، نہ اس کی کوئی جہت ہے، نہ اس کا کوئی اوپر ہے نہ کوئی نیچے ہے... نہ اس کا کوئی وجود ہے جس پر انگلی رکھی جا سکے... وہ لاتعین ہے... لیکن بقول صوفیاء کے (ایک گروہ کے) پھر ذات تعینات کو قبول کرتی ہے... اور تعینات قبول کرتے ہوئے وہ نزول کرتی ہے اور پہلا مرتبہ حقیقت محمدی سے ہوتے ہوئے مختلف عالم میں ظہور پاتے ہوئے بالآخر حضرت انسان تک پہنچتی ہے... (یعنی انسان ہی عین خدا ہو جاتا ہے نعوذ باللہ)"
٭
اب چلیے ہم فی الحال وحدۃ الوجود اور اس کی بتائی گئی تفصیل کی صفائی پیش نہیں کرتے کہ کیا واقعی اکابر صوفیاء مثلا ابن عربی رحمہ اللہ نظریہ وحدۃ الوجود کا یہی مطلب سمجھتے اور بیان کرتے تھے یا بعد کے چند زندیق لوگوں نےاسی طرح صوفیاء کا لبادہ اوڑھ یہ کفریہ باتیں (یعنی انسان اور جانور تک عین حق ہیں) وحدۃ الوجود کا لازمہ سمجھیں، جس طرح مرزا زندیق نے مناظر اسلام کے بہروپ میں اسلام پر ہی ڈاکا ڈال دیا...!
مگر چلیے ہم کہتے ہیں کہ یہ تیسرا گروہ غلط ہے... کیوں کہ ابن عربی کی کتابیں شریعت کا مدار نہیں ہیں...مگر صرف تیسرا گروہ ناں!... لیکن باقی جن دو گروہ کا آپ نے ذکر کیا... ان کا کیا قصور ہے؟ جب کہ وہ تعداد میں بھی زیادہ ہیں...
خود حضرت شیخ احمد سرہندی رحمہ اللہ جن کی بات کو آپ نقل کر رہے اور ان کے مکتوبات کو تصوف کی نہایت غیر معمولی کتاب کہہ رہے، نے نظریہ وحدت الوجود کے بالمقابل وحدۃ الشہود کی اصطلاح دی اور وحدۃ الوجود کو ایک درمیانی مقام یعنی فنا فی اللہ بتا کر، ایک اس سے اگلا مقام وحدۃ الشہود یعنی عبدیت کا بتایا ہے... جو مقامات میں سب سے اونچا مرتبہ اور مقام ہے...مقام فنا فی اللہ میں استغراق یعنی ایک اللہ کے اثبات اور ہر شے کی نفی سے آخر یہ بات پیدا ہو جاتی ہے کہ اپنا آپ تک محو ہو جاتا ہے اور آدمی خود اپنی نفی تک کرتے ہوئے پورے یقین سے کہہ اٹھتا ہے کہ وجود صرف ایک ہی ہے... یہ محبت الٰہی اور توحید کے غلبے کی وجہ سے ہوتا ہے جسے خارج میں رہنے والا قبول گر نہیں کرے گا تو برا بھلا بھی نہیں کہے گا، کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ محبت کے غلبے نے عارضی طور پر قائل کی عقل مختل کر دی یعنی غلبہ حال ہو گیا!
حضرت شیخ احمد سرہندی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ پھر اللہ کی توفیق اور داد رسی سے اس کےبندے کو اس مقام سے (یعنی وحدۃ الوجود سے ) عروج حاصل ہوتا ہے اور وہ اگلا اور بلند ترین مقام وحدۃ الشہود یعنی مقام عبدیت تک پہنچتا ہے جو درحقیقت انسانیت کی معراج ہے...مقام عبدیت ہی دراصل اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ عالم اور تمام مخلوقات خارج میں موجود ہے اور خالق کے وجود بخشنے سے ہی موجود ہیں اور سب عبد ہیں اور وہ معبود ہے اور بندوں کو حق تعالیٰ سے اس کی مخلوق ہونے کے نسبت سے تعلق ہے اور کوئی وجہ اتحاد نہیں!
اس مقام پر مخلوق کو اپنی ناپاکی، اپنے عیب، اپنی کمیاں بخوبی نظر آتی ہیں اور خالق ذوالجلال کا ہر عیب سے پاک ہونا یوں واضح ہو جاتا ہے کہ وہ بے اختیار سجدے میں پیشانی ٹیکے اللہ رب العزت کی وہ بڑائی اور وہ پاکی بیان کرتا ہے کہ اللہ اس حالت کو اپنے سب سے قرب کی حالت قرار دیتا ہے!... یہی مقام گویا حقیقت محمدی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جیساکامل و اکمل عبد کوئی نہ تھا...!
٭
اب بتائیے ذرا جب یہی شیخ احمد سرہندی رحمہ اللہ ہی خود وحدۃ الوجود کے برعکس وحدۃ الشہود کی تفصیل بتانے والے ہیں اور خود ان کے بقول دو گروہ اہل سنت کے اعتقادات کے قریب ہیں، جسے غامدی صاحب بھی نقل فرما رہے ہیں تو صوفیاء کی اکثریت تو پھر اہل سنت کے اعتقادات پر ہوئی ناں!
غامدی صاحب کا یہ جملہ کہ "بڑا گروہ یہی ہے" ہم کیوں اور کیسے مان لیں؟ اس کا حوالہ کیا ہے؟
جس کو وہ بڑا گروہ کہہ رہے ہیں، ان غالی صوفیا ء کے کلمات کو تو ہر دور کے کبارمحقق صوفیاء رد فرماتے رہے... اور تصوف کے جن بڑے اور معتبر ناموں نے کبھی کوئی متنازعہ بات کہی بھی تو حالت سکر میں کہی، جس کے وہ مکلف نہ تھے... مگر جیسے ہی ہوش میں آئے فورا توبہ بھی کی!
تو مرزا معلون نے اگرصوفیاء کی اتباع میں حالت سکر میں ایسی ہفوات بکیں تو کیا کبھی ان سے رجوع کیا یا توبہ کی؟؟؟
نہیں جناب نہیں... آپ کا مقدمہ ہی غلط بنیاد پر قائم ہے ... 
ہمارا کہنا تو یہ ہے کہ چند لوگوں کے مجہول کلمات کو آپ بنیاد بنا کر اہل سنت کے تمام محقق صوفیائے کرام جن میں سے 98 فیصد متبحر عالم بھی تھے کو متنازعہ نہیں بنا سکتے... اور نہ تصوف کو بنیاد بنا کر آپ مرزا کو رعایت بھی نہیں دے سکتے... کیوں کہ دین کے کسی شعبے سے غلط استدلال پر کوئی احمق ہی ہو گا جو یہ کہے گا کہ اس شعبے کو ہی ختم کر دیا جائے!
(محمد فیصل شہزاد)

کشف الہام اور القاء وغیرہ کی حیثیت ۔۔۔ فقہ وتصوف میں

0 comments
چھٹی حس/تیسری آنکھ/بجلی کا کوندا،، خیالات کی ایسی کیفیات ہیں جن سے شاید ہر فرد کو کبھی نہ کبھی سابقہ پڑتا ہے۔ یہ کیفیت در اصل استخارہ کا جواب ہوتی ہے اور استخارہ (یعنی اللہ سے کسی الجھن میں مشاورت) کا کوئی متعین پروٹوکول نہیں ہے۔ جب بھی آپ کا دل کسی الجھن میں راہ پانے کے لئے رسمی یا غیر رسمی طور پر اسے پکار رہا ہو تو وہ جواب دیتا ہے۔ اجیب دعوہ الداع اذا دعان۔ اصطلاحِ تصوف میں یہی کشف الہام القاء وغیرہ کی اصطلاحات سے موسوم ھے۔ یہ سعادت ہر کسی کو حاصل ہوجاتی ھے لیکن اس کا تعلق بالعموم فرد اور انفرادی معاملات سے ہوتا ھے۔ اس سے حاصل ہونے والاعلم نہ قطعی ہے اور نہ حجت۔ اس سے رہنمائی حاصل کرنے کے لئے اسے کتاب وسنت پر پیش کرنا ضروری ہے۔ اور میرے اس بیان کی اساس تمام اولیاء وصوفیاء فقہاء و مجتہدین کا اجماع ہے ۔
البتہ تاریخی واقعات کے مطالعے سے ایک تلخ حقیقت سامنے آتی ھے کہ جب کبھی کسی رہنما نے قومی مسائل میں شرعی معیار ترک کر کے اپنے کشف والہام پر فیصلہ کیا اس کے مطلوبہ نتائج بر آمد نہیں ہوئے۔ واقعات معروف ہیں۔
(ڈاکٹر طفیل ہاشمی)

کتب تصوف کے اقتباسات

0 comments
زندگی بھر کا تجربہ یہ ہے کہ کسی کے دئے ھوئے اقتباس کو جب تک Original Sources سے کنفرم نہ کر لیا جائے اس کے بارے میں توقف کیا جائے ۔کیونکہ اس میں وہم راوی اور فہم راوی قسم کے کئ مسائل ہوتے ھیں ۔
اگر ادراج وتلبیس سے احادیث کی مستند ترین کتب محفوظ نہیں رہ سکیں تو ۔ ۔ تا بدیگراں چہ رسد ۔
پریس سے پہلے کی کتب میں ادراج تلبیس انتحال وغیرہ اس کثرت سے ھیں کہ مجھے اپنی تحقیق کے دوران سینکڑوں ایسی اشیاء ملیں جو ثقہ راویوں نے غلط منسوب کر دیں ۔عام مورخین کا تو ذکر ہی کیا ابن شہاب زھری ایسے امام الثقاہ کا دفاع آسان نہیں رہتا ۔
تصوف میں اس کے امکانات اس لئے بھی زیادہ تھے کہ صوفیاء اصول روایت و درایت میں حسن ظن کو مرتبہ اولی پر رکھتے ھیں ۔شعرانی خود بتاتے ہیں کہ ان کی کتاب میں غلط افکار وخیالات شامل کر کے ان کے نام سے شائع کر دی گئ ۔سید علی ہجویری بھی انتحال کے شکوہ سنج ہیں ۔شبلی نے غزالی کے بارے میں جو تاثر دیاھے وہ کسی مستند ثقہ دیانت دار انسان کی شخصیت سے ھم آھنگ نہیں ھو سکتا ۔
صحیح بخاری کے اعلی استناد میں تو شبہ نہیں لیکن اس کی روایات کی تعداد اس کے سب سے بڑے شارح حافظ ابن حجر نےفتح الباری کے مقدمہ میں بدون تکرار 2460 بتائی ھیں۔ لیکن فتح الباری میں ان کی تعداد 2513 جب کہ نووی اور ابن صلاح نے 4000 کی تعداد بتائی ھے۔ حیرت کی بات یہ ھے کہ دارالسلام نے جو نسخہ بے پناہ تحقیق واہتمام سے 1999ء میں ریاض سے شائع کیا ھے اس میں 105 احادیث کے نمبر موجود ہیں لیکن ان کے ذیل میں کوئی حدیث نہیں ھے۔
ترمذی میں مسح علی الجوربین کے تحت قال ابوعیسی کا تبصرہ دارالسلام کے نسخے میں ھے لیکن بر صغیر کے بیشتر نسخوں میں نہیں ھے ۔۔
ان مثالوں سے یہ عرض کرنا مقصود ھے کہ تصوف کی امہات الکتب کے جدید اسلوب تحقیق کے مطابق منقح نسخے تیار کرنے کی ضرورت ھے شاید بہت سی باتیں محض الحاقی ہوں تاہم اس امر میں کوئ دوسری رائے نہیں ھے کہ معیار حق وصداقت اور دلائل قطعیہ صرف اور صرف کتاب وسنت ھیں اور کسی بڑی سے بڑی شخصیت کی رائے اگر واقعتا ان سے متصادم اور متعارض ہو تو وہ ہر گز قابل التفات نہیں۔
(ڈاکٹر طفیل ہاشمی)

کشف کی حیثیت

0 comments
ذرا سوچئے ۔ ۔ ۔
رات آپ نے ایک خواب دیکھا ۔آپ نے مجھ سے من وعن بیان کر دیا۔ کیا مجھے یہ حق پہنچتا ھے کہ میں آپ سے کہوں 
بالکل غلط ۔ ۔ آپ نے غلط خواب دیکھا ۔ ۔ آپ کو تو یوں دیکھنا چاہئے تھا ۔
کیا آپ میری دماغی حالت پر شک نہیں کریں گے۔؟
ذرا سوچئے ۔ ۔ ۔ میں نے کیا کہا ہے ؟
(ڈاکٹر طفیل ہاشمی)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

کمنٹس: 

محمد نعمان بخاری: درست۔ ہر شخص اپنے کشف کا خود مکلف ہے، دوسرا نہیں۔۔ نیز کشف حدودِ شرعی میں ہے تو قبول ورنہ رد۔ :)

امین اکبر: کوئی مجھ سے فرمائے: میں نے خواب میں خدا کو دیکھا(نعوذ باللہ)۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں کہتا ہے مجھے کوئی نہیں دیکھ سکتا۔ مجھے کیا کرنا چاہیے۔؟ تاویلیں بناتا رہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس بات کی وضاحت تو نہیں کی کہ خواب میں بھی دیکھ سکتا ہے یا نہیں اس لیے بھائی درست ہی فرما رہا ہوگا۔

سلمان احمد: پتہ نہیں قرآن نے کہاں اللہ کا یہ فرمان نقل کیا ہے کہ مجھے کوئی نہیں دیکھ سکتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر اللہ کو کوئی نہیں دیکھ سکتا تو پھر ان تمام احادیث کا بھی انکار کرنا پڑے گا جن میں جنت میں رویت باری تعالیٰ کا ذکر ہے۔

طفیل ہاشمی: اگر کو ئی شخص کہے کہ میں نے خواب میں خدا کو دیکھا تو آپ کو کون مجبور کر رہا ھے کہ آپ اس کے خواب پر ایمان لائیں؟ لیکن علمی طور پر یہ بات غلط ھے کہ ایسا خواب کوئی نہیں دیکھ سکتا اور یہ بھی غلط ھے کہ خواب میں خدا کو نہیں دیکھ سکتا۔ اگر بعد از وفات دیکھ سکتا ھے تو قرآن کی رو سے موت اور نیند قریب قریب ہیں ۔جو آیت آپ کے ذہن میں ھے اس میں ادراک کا لفظ ھے اور ادراک معرفت حقیقت کو کہتے ھیں۔ یوں بھی خواب میں انسان مکلف نہیں ھوتا۔
اللہ نے قرآن میں یہ نہیں کہا مجھے کوئی نہیں دیکھ سکتا۔ اس نے کہا نگاہیں میرا ادراک نہیں کر سکتیں۔ رویت اور ادراک الگ الگ امور ہیں۔

محمد فیصل شہزاد: امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی بات تو مشہور ہے کہ خواب میں سو مرتبہ باری تعالیٰ کی زیارت ہوئی!




Wednesday, July 29, 2015

کیا خدا اپنے بندوں سے لاتعلق ہوچکا؟

0 comments
 کیا خدا بندوں سے لاتعلق ہوچکا؟ کشف و الہام کی نفی کے پیچھے کارفرما مفروضے کا جائزہ
----------------------------------------------------------------------------
کشف و الہام (خدا کے ساتھ تعلق کی مخصوص روحانی کیفیات) کا انکار کرنے کے لئے یہ مفروضہ ماننا لازم ہے کہ "اب خدا اپنی مخلوق سے غیر متعلق ہوکر بیٹھ گیا، اب وہ کسی بھی درجے میں بندوں سے تعلق نہیں رکھتا"۔ 
یہ ایک ایسا دعویٰ ہے جو نہ صرف یہ کہ نصوص میں بیان کردہ واضح اشارات کے خلاف ہے بلکہ بے شمار انسانوں کے ایسے ذاتی تجربات کے بھی منافی ہے جہاں کسی کیفیت اور واقعے میں انسان بالکل واضح انداز میں یہ محسوس کرتا ہے گویا کسی غیبی ہاتھ نے اسے آلیا اور اسکی راہنمائی کی۔ یہاں اختصار کے ساتھ ان نصوص کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے جو خدا کے اپنے بندے کے ساتھ مسلسل تعلق کے امکان پر دال ہیں۔ اہل علم پر یہ بات تو قرآن سے واضح ہے کہ خدا غیر نبی سے خفیہ کلام (وحی کے ذریعے تعلق) کرتا ہے جسکی مثال حضرت موسی علیہ السلام کی والدہ ماجدہ سے گفتگو (کمیونیکییشن) کرنا ہے۔ اس کے علاوہ قرآن میں آیا: 
1) "والذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا" یعنی 'جو لوگ ہماری (ذات کی معرفت میں) تگ و دو کرتے ہیں تو ہم یقینا انہیں راستے دکھاتے ہیں" 
یہاں واضح طور پر اس بات کا بیان ہے کہ خدا اپنے بندوں کو راستہ سجھاتا ہے، وہ مخلوق سے بے نیاز ہوکر نہیں بیٹھ گیا کہ مخلوق اس کے ساتھ تعلق استوار کرنے سے بالکلیہ قاصر ہوجائے۔ اور خدا کا وعدہ ہے کہ بندہ جب خلوص کے ساتھ مجھ سے دعا مانگتا ہے تو میں اسکا جواب دیتا ہو۔
2) ان الذین قالوا ربنا اللہ ثم استقاموا تتنزل علیھم الملائکۃ الخ یعنی بے شک وہ لوگ جنہوں نے کہا کہ اللہ ھمارا رب ھے اور پھر اس پر ڈٹ گئے ان پر فرشتے نازل ھوتے ہیں (یہ کہتے ہوئے کہ) تم کوئی خوف اور حزن نہ رکھو
فرشتوں کے یوں نازل ہوجانے کا بیان حدیث نبوی کی روشنی میں سنئے (یہاں حدیث کے صرف مفھوم پر اکتفا کیا گیا ہے)۔ حضرت حنظلہ (رض) پریشانی کے عالم میں حضرت ابوبکر (رض) کو فرماتے ہیں کہ میں تو منافق ہوگیا ہوں کہ رسول اللہﷺ کی بارگاہ میں تو یہ کیفیت ہوتی ہے کہ اللہ، جنت جھنم سب سامنے ہے لیکن پھر بوجوہ مشاغل دنیا یہ کیفیت نہیں رہتی۔ حضرت ابوبکر (رض) فرماتے ہیں کہ اس کیٖفیت سے تو میں بھی دوچار ہوتا ہوں، آؤ بارگاہ رسالت میں چل کر پوچھیں کہ یہ منافقت ہے یا نھیں۔ بارگاہ نبوت میں پیش ہوکر اپنی کیفیت بیان کرتے ہیں تو آپﷺ نے فرمایا کہ اس کیفیت کا ھمیشہ باقی رہنا ممکن نہیں۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنْ لَوْ تَدُومُونَ عَلَى مَا تَكُونُونَ عِنْدِي وَفِي الذِّكْرِ لَصَافَحَتْكُمْ الْمَلَائِكَةُ عَلَى فُرُشِكُمْ وَفِي طُرُقِكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اس ذات کی قسم جسکے دست قدرت میں میری جان ہے اے حنظلہ اگر یہ کیفیت تم پر ہر وقت برقرار رہے تو فرشتے چلتے، پھرتے، لیٹتے تم سے مصافحہ کریں (رواہ مسلم)
اب یہی بات ایک اور انداز سے ملاحظہ فرمائیں۔ حضرت اسید بن حضیر (رض) ایک رات سورہ بقرہ کی تلاوت فرما رہے ہیں کہ گھوڑا اچھل کود کرنے لگا۔ جب آپ نے تلاوت بند کی تو گھوڑے کی اچھل کود بند ھوگئی۔ جونھی تلاوت شروع کرتے ہیں تو گھوڑا پھر پھڑکنے لگا۔ ایسا تین مرتبہ ہوا۔ آپ آسمان کی طرف دیکھتے ہیں تو خیمےکی طرح تنی ہوئی کوئی شے دکھائی دیتی ہے جس میں چراغاں ہورہا ہے۔ صبح کو یہ سب واقعہ نبی کریمﷺ کی خدمت میں بیان کیا تو آپ نے دو مرتبہ فرمایا کے اے ابن حضیر قرآن پڑھتے رہو، ابن حضیر نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ میں ڈرگیا کہ میرا گھوڑا میرے بچے یحیی کو روند نہ ڈالے، جب میں یحیی کے پاس گیا اور آسمان پر نظر کی تو روشن سائبان دیکھا، میں دیکھتا رہا اور وہ سائبان اٹھتے اٹھتے غائب ہوگیا۔ آنحضرتﷺ نے دریافت کیا اسید تم جانتے ہو یہ کیا چیز تھی؟ اسید نے کہا نہیں یا رسول اللہﷺ، آپ نے فرمایا کہ وہ فرشتے تھے تمہاری تلاوت کی آواز سن کر تم سے قریب ہوئے تھے تم نے تلاوت بند کردی تو وہ غائب ہوگئے، اگر تم صبح تک تلاوت کرتے رہتے تو لوگ صبح انہیں دیکھ لیتے (متفق علیہ)
پس یہ اپنے اپنے حال و مقام کی بات ہے۔ الغرض نصوص میں اس امر کے واضح اشارے موجود ہیں کہ خدا آج بھی بندے سے تعلق رکھے ہوئے ہے، جستجو کرنے والوں کی راہنمائی کرتا ہے۔ ہاں فرق یہ ہے کہ یہ تعلق اس نوع کا قطعی نہیں ہوتا جس طرح نبی کو اس کا ادراک و تجربہ ہوتا ہے اسی لئے ایسا تجربہ شرعا حجت و دلیل نہیں۔ نبی کا تعلق خدا سے چونکہ بالکل قطعی اور واضح ہوتا ہے جبکہ عام بندے کا ایسا دعوی ظن کے درجے کی چیز ہے، لہذا اگر دونوں میں تضآد ھو تو ظنی کو قطعی کے مقابلے میں رد کردیا جاتا ہے کہ ممکن ہے بندہ جسے رب کی طرف سے سمجھ رھا ھو وہ اسکی طرف سے نہ ھو جبکہ نبی کی بات کا رب کی طرف سے ھونا قطعی طور پر معلوم ہے۔ الغرض اصول یہ ہے کہ کشف، الہام، سچے خواب (استخارہ) وغیرہ قبیل کی ہر شے کو تصدیق کے لئے نبی کی وحی پر پیش کیا جائے گا، اگر اس پر پورا نہ اترے تو رد کردیا جائے گا۔
(زاہد مغل)
-------------------------------------

کمنٹس


ڈاکٹر طفیل ہاشمی: یہ کہنا کہ ختم نبوت کے اعلان کے بعد کشف القااور الہام کا وجود بھی نہیں رہا ۔ذرا ذیادہ جذباتی رویہ ھے ۔ اس کے لئے دلیل بھی تو کوئی نہیں ھے۔ کیونکہ یہ فرد کا ذاتی تجربہ ھے۔ البتہ ختم نبوت ﷺ کا یہ تقاضا ھے کہ کسی بھی فرد کے کشف القا اور الہام کا بطور حجہ شرعیہ جائزہ لینا یا اسے حجہ شرعیہ سمجھنا عقیدہ ختم نبوت کے منافی ہے ۔

محمد نعمان بخاری: اسی استدلال کی بنا پر لیلۃ القدر کا دیکھا جانا بھی عین ممکن ہے.

زاہد مغل: لیلۃ القدر میں بھی فرشتوں کے نزول کا ذکر ہے، بعض روایات کے مطابق وہ بندوں سے مصافحہ بھی کرتے ہیں۔

تصوف، قادیانیت اور غامدی صاحب

0 comments
ناظرین..! غامدی-ازم تصوف سے فقط اپنے متعصب پن کی وجہ سے مرزے کو صوفی ڈکلئر کرنے پر تن من دھن نثار کر رہی ہے.. مرزے کے صوفی ہونے کی ایک بھی دلیل نہیں غامدیت کے پاس.. اگر ہے تو اسکا سلسلہ اور شجرہ بتائیں.. نیز وہ کس کا مرید تھا؟
جنابِ معترض..! جو مرزا غلام قادیانی کل تک ایک متبحر عالم اور مناظر ہو، آج وہ کسی 'سلسلہء انگلشیہ' کی ایماء پر بونگیاں مارنا اور گالیاں بکنا شروع کر دے تو آپکی علمی طبیعت اسے صوفیاء کرام سے بےدلیل جوڑنے پر مجبور کیوں ہو جاتی ہے؟ دلچسپ حقیقت تو یہ ہے کہ مرزے کی جھوٹی نبوت کا علمی و منطقی تعاقب کرنے والوں کی اکثریت صوفیاء کرام کی ہے.. اہلِ تصوف کو خالص علمی بنیاد پر علماءِ اُمت کا تحریری دفاع حاصل ہے،، مرزے کو جنابِ غامدی صاحب کے لسانی دفاع کے علاوہ کس مسلمان کا قلمی کندھا میسر ہے؟؟
.
متاثرین و مقلدین المورد..! اس فریب کو پہچانو.. سہارا دینا ہے تو حق کو دو.. اس حق کو نہیں جسے آپ حق سمجھ بیٹھے ہو،، بلکہ اس حق کو جو قرآن و سنت کے مطابق حق ہے.. صحابہ کرام نے تو بلا ردوکد اور قیل وقال منکرِ ختمِ نبوت کو دلیل بالسیف سے زیر کیا تھا.. آج محترم غامدی صاحب کی نقاب کشائی ہوئی ہے تو آپ انہیں مظلوم سمجھ بیٹھے ہیں؟؟ آپ کمزور کو کندھا دینے کے داعی ہیں تو اس سادگی میں آپ مارے جائیں گے، کیونکہ مرزا بھی طاقت ور نہیں تھا، نحیف تھا.. میں تو آپکے قابلِ قدر جذبات کو قابلِ ہمدردی سمجھتا ہوں صاحبو..!
.
میرے مکرم دوست..! سرِ راہ چلتے چلتے ایک بات تو بتائیں،، جب متصوفین کو لوگ اپنی کم علمی کی بنا پر زدوکوب کرتے ہیں، تب آپکے مضبوط کندھے جِم خانہ میں مصروفِ ریاضت ہوتے ہیں؟؟ بات کرتے ہیں مظلوم کا ساتھ دینے کی........ اصل میں ظلم وہی ہے جو غامدی صاحب کے ساتھ ہو،، باقی علماء کرام تو ایویں سیاپا ہی ہیں..!!
(محمد نعمان بخاری)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

کمنٹس

فرنود عالم: میں تسلی کیلئے مکرر عرض کرتا ہوں۔
’’رجوع تو چھوڑ دیں ، اس پہ ان کا رجوع کبھی نہیں آئے گا۔ کیوں نہیں آئے گا، اس کیلئے انہی کے اصولوں کو دیکھنا پڑے گا۔ اب جب میں کہہ رہا ہوں کہ انہی کے اصولوں کو دیکھنا پڑے گا، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میں اپنا موقف بیان کر رہا ہوں۔؟ میرے خیال سے یہ بات سمجھنے کی ہے جو کئی بار کہنے کے با و جود اسے ایک ہی اینگل سے دیکھنے پہ اصرار کر رہے ہیں۔ 
بات ہے میری رائے کی اس رائے پر جو غامدی صیب کا ہے۔ سو سب سے اول ختم نبوت پہ ان کا ایمان شک شبہے سے بالا تر ہے۔ مرزا غلام احمد قادیانی کے دعوے کو وہ رد ہی نہیں کرتے بلکہ اس کے دعوے کے بطلان کیلئے بیسیوں دلائل اسی کے لٹریچر سے دیتے ہیں۔ اب بات آتی ہے مرزا کو کافر کہنے کی۔ ٹھیک ۔؟ اب غامدی صیب کا مرزا کو کافر نہ کہنا در اصل قادیانیوں کی حمایت ہے۔؟ آپ کہتے ہیں کہ ہاں۔۔۔ جبکہ میں کہتا ہوں کہ نہیں۔ یہ وہ بنیادی پوائنٹ ہے جو میرے نقطہ نظر کی مین تھیم ہے۔ کیا اب یہ ہے کہ غامدی صیب پہ شک کیا جائے۔؟ میں ادنی درجے میں بھی شک کیلئے تیار نہیں ہوں۔ اب ان کے متعلق فتوی کیا ہونا چاہیئے؟ جب فتوے کی بات ہوگی تو آپ ظاہر ہے جاوید صیب کی بات سنے بغیر تو فتوی صادر نہیں کر سکیں گے۔ جب بات سنیں گے، تو آپ فتوی لگا ہی نہیں پائیں گے۔ میں ایک مثال دیتا ہوں
اگر کسی نے یہ سمجھنا ہو کہ غلام احمد پرویز کی فکر کیا تھی؟ اس کیلئے جاوید صیب کا لیکچر یوٹیوب پہ موجود ہے۔ کم و بیش دو گھنٹے کا لیکچر ہے۔ اس لیکچر جاوید صیب غلام احمد پرویز صیب کی پوری شد ومد کے ساتھ رد کر رہے ہیں۔ یہ رد بلا کم وکاست ہے اور قران و سنت کی روشنی میں ہے۔ رد کیلئے جاوید صیب نے خود پرویز صیب کے لتریچر سے بھی بے لاگ رد کیا ہے۔ مگر آپ جاوید صیب سے اگر پوچھیں کہ کیا پرویز صیب کافر تھے۔؟ وہ کہیں گے ’’یہ فیصلہ میں نہیں کر سکتا‘‘۔۔۔۔
اچھا اب جب جاوید صیب پہ اس بنیاد پہ فتوی لگے گا کہ وہ قادیانی کو کافر ڈیکلیئر نہیں کرتے، تو وہی بات کہ جاوید صیب کی بات سننی پڑے گی۔ اب جب سنیں گے تو وہ اس کو جسٹی فائی کرتے ہیں۔ ایسے میں فتوی صادر نہیں ہوتا، یہ فتوی اور قضا دونوں کے ہی بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔ 
سو اب دو باتیں ہوگئیں
۱۔ مرزا غلام احمد قادیانی کو اس کے نقطہ نظر کی روشنی میں کیا سمجھتا ہوں؟
جواب: مرزا غلام احمد قادیانی کا لٹریچر پڑھنے کے بعد میں اسے ادنی درجے میں بھی اسلام کے راستے پہ نہیں سمجھتا۔ مزید واضح کردوں تو مسلمان نہیں سمجھتا ۔۔۔۔ 
۲۔ جاوید صیب کا نقطہ نظر جاننے کے بعد جاوید صٰب کے بارے میں رائے کیا ہے؟
جواب: جاوید صیب کا پورا لٹریچر پڑھنے کے بعد اور ان کے تمام لیکچرز سننے کے بعد میں نتیجہ اخذ نہیں کر سکتا کہ جاوید صیب قادیانیوں کے حمایتی یا عقیدہ ختم نبوت میں کہیں جھول رکھتے ہیں۔ ان کا کسی کو بھی کافر نہ کہنا یہ انہی کے اصول ’’اتمام حجت‘‘ کی بنیاد پر ہے۔۔۔ اتمامِ حجت کے اصول پہ وہ اپنا ایک مفصل مقدمہ رکھتے ہیں۔ وہ مقدمہ اگر پڑھ لیا جائے، تو اختلاف رائے کے مکمل امکان کے ساتھ یہ واضح ہوجائے گا کہ جاوید صیب کا اصل میں مسئلہ کیا ہے؟ رہے بس نام خدا کا۔۔۔۔

محمد نعمان بخاری: فرنود بھائی، آپکی بات کو قلبی طور پر قبول کرتا ہوں.. بالکل ایسا ہی ہے کہ مجھے آپ حضرات کے اس عقیدے سے کلی اتفاق ہے..!
بات ہو رہی ہے غامدی صاحب کے اس طرز کے کہ وہ مرزے کے رد میں صوفیاء کو کیونکر شاملِ معاملہ کرتے ہیں؟ مجھے غرض نہیں کہ غامدی صاحب اپنی ذات کی حد تک جو بھی نظریہ رکھیں، مجھے اعتراض ہے کہ خود تو تصوف کے قائل نہیں (نہ ہوں میری بلا سے)، مگر غیر منطقی طور پر،، بلکہ اگر میں کہوں کہ دانستاْ وہ ہزاروں جید صوفیاء عظام کی تردید کرتے ہیں،، کرتے رہیں.. مگر مرزے کے ساتھ موازنہ کیوں؟ جبکہ مرزا صوفی نہ تھا.. اگر غامدی صاحب اپنی اس علمی بددیانتی پہ رجوع نہیں کرتے تو ان شاءاللہ، مسلمان انکا تعاقب کرنے میں کسی مصلحت کی پرواہ نہیں کریں گے.

محمد فیصل شہزاد: میں اللہ کو حاضر ناظر جان کر کہوں کہ کل غامدی صاحب کا ایک گھنٹے کا بیان سن کر میں جو پوسٹ کرنے لگا تھا۔۔۔ بلکہ لکھ بھی لی تھی، اگر کر دیتا تو میرے سارے دوست مجھ پر برس پڑتے۔۔۔ کیوں کہ وہ پوسٹ غامدی صاحب کے حق میں تھی۔۔۔ ان کلپس سے متاثر ہو کر میں غامدی صاحب سے اس صوفیاء کرام کو گمراہ سمجھنے والے پوائنٹ سے اختلاف کے باوجود ان کی نیت پر مطمئن ہو گیا تھا!
اور مجھے لگا کہ مرزا کے حوالے سے ان کا موقف روایتی نہ سہی مگر وہ اسے شدید گمراہی پر سمجھتے ہیں۔ بس چونکہ وہ اپنی مخصوص رائے کی بنا پر کسی کو کافر نہیں کہتے اس لیے کافر نہ کہنے پرمجبور ہیں!
مگر
نہایت حیرت انگیز طور پر
اچانک تصور سمیع کی پوسٹ پر نظر پڑ گئی ۔ ۔ ۔جس میں غامدی صاحب کی ایک اور کلپ سے اقتباس لیا گیا تھا کہ:
مرزا صاحب نے کبھی صریحاً نبوت کا دعوی نہیں کیا، بلکہ دیگر صوفیاء کی طرح باتیں کی ہیں اور کوئی غیر محتاطی نہیں برتی...؟؟
میں نے وہ کلپ بھی دیکھی اور گویا دماغ بھک سے اڑ گیا!
دونوں کلپس میں زمین آسمان کا فرق تھا! :(

ملک جہانگیر اقبال: جب مرزا قادیانی نے نبوت کا دعویٰ کیا اور مردود ہو کر دنیا سے رخصت ہوا تو محترم غامدی صاحب شکم مادر میں بھی نہیں تھے .
تب یہ صوفیاء ہی تھے جس نے اس فتنے کا مقابلہ کیا . 
اب اس عمر میں غامدی صاحب جو کچھ فرما رہے ہیں یہ معلومات کہیں وہیں سے تو نہیں موصول ہورہی جہاں سے مرزے کو " وحی " آتی تھی ؟؟
سوچنے کی بات ہے. آج کے دور میں بندہ ماضی کی معلومات کرنا چاہے تو اسکے تین طریقے ہیں . 
١) آپ اسکے مخالفین کی لکھی کتابیں پڑھیں ( پر اس میں تو مرزا کافر قرار دیا گیا)
٢) آپ اس شخص کی اپنی لکھی کتابیں پڑھیں ( جس میں اس نے نبوت کا دعویٰ کیا ہوا یعنی اس کے لحاظ سے بھی کافر )
٣) آپکو کشف یا الہام ہو ( پر غامدی صاحب تو اسکو مانتے ہی نہیں )
اگر غامدی صاحب چوتھی جگہ " انگریزی وحی" سے یہ حقیقتیں جان رہے ہیں تو پھر انا للہ وا انا الیہ راجعون۔

ظفر اقبال اعوان: عقل گھاس چرنے چلی گئی ہے.....مرزا تصوّف کے کس سلسلے کا صوفی تھا اور کس پیر طریقت سے بیعت تھا ؟؟ یا اس کا اپنا "سلسلہء انگلشیہ" تھا اور وہ کسی صاحب بہادر سے "بیعت" تھا- اس نے اپنی کس کتاب میں لکھا ہے کہ وہ ابنِ عربیؒ سے متاثر ہے؟ اس نے فقر کی منازل کہا طے کیں....او میرے بھائی....غامدی صاحب ایک کوّے کا پر لیکر آ گئے ہیں....اور فرنود بھائی نے اسے مورچھل بنا کر رکھ دیا ہے.....مرزا ایک سیلف میڈ عالم تھا جس طرح آجکل فیس بک پر تھوک کے حساب سے پائے جاتے ہیں- اسے رب نے کلام کی نعمت سے نوازاتھا جو اس نے بدّی کے لئے استعمال کی جس طرح فیس بک پر رب نے بہتوں کو قلم کی نعمت سے نوازا ہے اور وہ ہر برائ کو سپورٹ کرتے ہیں- وہ 1880ء میں بطور مناظر سامنے آیا- جس طرح فیس بک پر کچھ لوگ ہمارا دماغ چاٹنے آن بیٹھتے ہیں- اسے ایک بڑی کمیونٹی واہ واہ کرنے والی مل گئ جس طرح فیس بک پر بعدے دانشوروں کو لائکس اینڈ کمنٹس کے ٹوکرے ملتے ہیں- وہ کھُل کر انگریز کے خلاف بولتا تھا اور جنگِ آزادی کی ماری ہوئ قوم اس کے صدقے واری جاتی تھی جیسے فیس بک پر کچھ لوگ حکومت کے خلاف بولتے ہیں تو انقلابی اس کا مذھب مسلک پوچھے بغیر جھومنے لگتے ہیں- اس نے لاہور کے ایک جلسے میں ملکہء وکٹوریا کو اسلام کی دعوت دے ڈالی تو لوگ اس کی جی داری پر قربان ہوگئے حالانکہ اس تقریر کا مسودہ انگریز نے ہی اسے تھمایا تھا ....جیسے آج بھی بعد لیڈروں کو وہ خود "بڑبولیاں "لکھ کے دیتا ہے تاکہ ان کا قد بڑھا سکے....سو اس کا قد بڑھتا گیا....اور زبان دراز ہوتی گئ.....پہلے منکران حدیث کہتے رہے کہ مرزا نے تمام دلائل بخاری اور مسلم سے اخذ کئے تھے- کچھ دن قاری حنیف ڈار صاحب ہمارا دماغ کھاتے رہے کہ اس نے تمام دلائل دیوبند اکابرین کی کتب سے لئے تھے.....اور اب ایک نئی کہانی ....جس کا نہ سر ہے نہ پیر....کہ مرزا صوفی تھا.....کون سے سلسلے کا صوفی بھائی؟؟..........ایک جھوٹا شخص جسے جاھلین کی ایک بڑی کمیونٹی دستیاب ہو....اور حاکم وقت اس کی پیٹھ تھپتھپا رہا ہو......اس کی ہر بڑبولی پر....عقل کے اندھے واری صدقے ہی جاتے ہیں....چاہے وہ ملتان کا پیر سپاہی ہو یا کراچی کا گوہر شاہی....
اللہ کا شکر ادا کرو جس نے اپنے آخری نبی ﷺ کے صدقے علمائے حق اور صوفیاء کرام کو اس فتنے کی بیخ کنی کےلئے منتخب کیا- دعائیں دو پیر مہر علی شاہؒ کو ، ثناءاللہ امرتسریؒ ، حسین احمد بٹالویؒ ، عطاءاللہ شاہ بخاریؒ کو ، مودودی صاحبؒ کو ، شاہ احمد نورانیؒ صاحب کو اور ان جیسے سینکڑوں دیگر علمائے کرام کو...جنہوں نے اس فتنے کا راستہ روکا.....اور ایسے ہزاروں عاشقان رسول (ص) کو جنہوں نے 1953ء میں سینے پر گولیاں کھا کر ختم نبوّت کی لاج رکھی- مولانا یوسف لدھیانویؒ سے لیکر اس ختم نبوّت کے آخری شہید تک جنہوں نے خون دیکر اس فتنے کا راستہ روکا......اب چاہے تاویلات کا جتنا مرضی چونا لگا لو.....اس کوّے کو سفید کرنا ممکن نہیں رہا.....کیونکہ یہ ازل سے کالا ہے۔

تصوف اور اسکے متعلقات کے بارے میں علامہ ابن تیمیہؒ کا عقیدہ

1 comments
عام طور پر علامہ ابن تیمیہؒ کے بارے میں یہ تاثر پایا جاتا ھے کہ آپ تصوف و صوفیاء کے مخالفین میں سے تھے (بدقسمتی سے بعض اوقات انکے نام لیوا خود ہی اس تاثر کو بڑھاوا دینے کا باعث بن جاتے ہیں)، درج ذیل تحریر اس غلط تاثر کے حوالے سے نہایت چشم کشا ہے۔

تحقیق: مولانا حافظ محمد خان 
تدوین:  بنیاد پرست

''بعض لوگ جو اپنے آپ کو سلفی منہج کی طرف منسوب کرتے ہیں، یہ لوگ تصوف کواسلام کے مقابل اورمخالف ایک الگ مذهب تصور کرتے هیں تصوف کو کفر شرک وبدعت سمجهتے هیں اور بڑے زورشور سے تمام ذرائع نشر واشاعت استعمال کرکے لوگوں کویه باورکراتے هیں که صوفیه اورتصوف کا سلسلہ ایک شرکیه کفریه بدعیه اور خرافات پر مبنی سلسله هے اورصوفیه کرام دین اسلام کے دشمن اور باطل عقائد رکهنے والے لوگ هیں .اوریه بعض لوگ اپنے سلفی منهج کی بنیاد شیخ الاسلام ابن تیمیه رح اوران کے شاگرد ابن قیم رح کی تعلیمات وتحقیقات پر رکهتے هیں اور لوگوں کویه کهتے هیں که ان دو حضرات کا منهج ومسلک قرآن وسنت کے عین مطابق هے لیکن درحقیقت یه لوگ اپنے اس دعوے میں جهوٹےهیں کیونکه شیخ الاسلام ابن تیمیه رح اور ابن قیم رح جن کی تقلیدواتباع کا یه لوگ دعوی کرتے هیں وه تو تصوف اور صوفیه کرام کی تعریف وتوصیف میں رطب اللسان هیں وه تو صوفیه کو ائمه هدی ائمه حق ائمه اسلام کهتے هیں اور ان کی اتباع کو باعث سعادت ونجات سمجهتے هیں. قول وفعل کے اس تضا د کو هم کیاکهیں منافقت یا جهالت یا محض ضد وتعصب ؟ وه تمام امورجن کی وجه سے یه لوگ علماء دیوبند کو اور دیگر صوفیه کو کافرمشرک کهتے هیں وه سب باتیں بلکه اس سے کهیں زیاده ابن تیمیه رح اور ابن قیم رح کی کتابوں میں موجود هیں . مختصرطورپرچند حوالے ملاحظه فرمائیں .

تصوف کے بارے میں ابن تیمیهؒ کی شہادت

سب سے پهلے صوفی کا نام ابو هاشم الکوفی کو حاصل هوا یه کوفه میں پیدا هوئے اور اپنی زیاده زندگی شام میں گزاری اور (160 ھ ) میں ان کی وفات هوئ اور سب سے پهلے تصوف کی نظریات کی تعریف وشرح ذوالنون المصریؒ نے کی جو امام مالکؒ کے شاگرد هیں اور سب سے پہلے جنید بغدادیؒ نے تصوف کو جمع اور نشر کیا۔

صوفی کی تعریف ابن تیمیهؒ کے نزدیک

صوفی حقیقت میں صدیقین کی ایک قسم هے وه صدیق زهد وعبادت کے ساتهہ مشہور هو اس طریقه پر جس پر دیگر صوفیه نے عبادت وریاضت کی تو ایسے آدمی کو اهل طریق کے یهاں صدیق کها جائے گا جیسے کها جاتا هے صدیقوآلعلماء صدیقوآلاُمراء یعنی علماء میں صدیق اور امراء میں صدیق الخ. (مجموع الفتاوى 11ـ 17)

لفظ فقراورتصوف کی تشریح

لفظ فقر اورتصوف میں جوالله ورسول کے پسندیده امور داخل هیں ان پرعمل کا حکم دیاجائے گا ، اگرچہ ان کانام فقر وتصوف هو،کیونکہ کتاب وسنت ان اعمال کے استحباب پر دلالت کرتے هیں لهذا یہ اعمال استحباب سے خارج نهیں هوں گے نام بدلنے کی وجہ سے۰ جیساکہ فقروتصوف میں اعمال قلوب یعنی باطنی اعمال توبہ صبر شکر رضا خوف رجاء محبت اور اخلاق محمودہ یعنی اچہے اخلاق بهی داخل هیں.(مجموع الفتاوى 11ــ 28 ـ 29)

اولیاء الله کی تعریف

اولیاء الله وه مومنین متقین هیں چاهے کوئ ان کو فقیر یا صوفی یا فقیه یا عالم یا تاجر یا فوجی یا کاریگر یا امیر یا حاکم وغیرہ کہے (مجموع الفتاوى جلد 5)

اعمال قلوب کی تشریح

وه اعمال قلوب جن کا نام بعض صوفیہ احوال ومقامات یا منازل السائرین الی اللہ یا مقامات العارفین وغیره رکہتے هیں اس میں سب وہ اعمال هیں جن کو الله ورسول نے فرض کیئے هیں بعض وہ اعمال هیں جو فرض تو نهیں لیکن پسندیده هیں لهذا ان پر ایمان مستحب اور اول پر ایمان فرض جس نے فرض اعمال پر اکتفاء کیا وه اَبراریعنی نیک لوگوں میں سے اور اصحاب الیمین میں سے هے اور جس نے دونوں کو جمع کیا وه مقرّبین سابقین میں سے هے الخ. (مجموع الفتاوى جلد 7 صفحه 190)

ابن تیمیہؒ اور آئمه تصوف کی تعریف وتزکیہ

سالکین میں سے صراط مستقیم پرچلنے والے جیسے جمهورمشائخ سلف میں سے فُضیل بن عیاض اور ابراہیم اَدہم اور ابوسلیمان دارانی اور معروف کرخی اورسِرّی سقطی اورجنید بن محمد وغیرہم رحمہم اللہ هیں یہ سب بزرگ پہلے زمانے کے هیں اور ان کے بعد کے زمانے کے بزرگوں میں شیخ عبدالقادر جیلانی شیخ حماد شیخ ابی البیان وغیرہم هیں . یہ سب بزرگ سالک کیلئے یہ جائز نهیں سمجہتے تہے که وه امر ونهی سے باهر نکل جائے اگرچه سالک ہوا میں اڑے یا پانی پر چلے بلکه سالک کیلئے مرتے دم تک مامورات پر عمل کرنا اور محظورات کو چہوڑنا فرض هے . اور یہی وه حق ہے جس پر قران وسنت اور اجماع سلف دلالت کرتے هیں اور اس طرح کی نصیحتیں ان بزرگوں کی کلام بہت زیادہ هیں .(مجموع الفتاوى جلد 10 صفحه 516 ـ 517)

ابن تیمیهؒ کے نزدیک شیخ عبدالقادر جیلانیؒ اور شیخ جنید بغدادیؒ تصوف کے امام ہیں

آئمہ تصوف میں سے اور پہلے زمانے کے مشہور مشائخ میں سے جنید بغدادی اور ان کے پیروکارهیں اور شیخ عبد القادر جیلانی اور ان جیسے دیگر بزرگ یہ بزرگ امر ونہی کو سب سے زیاده لازم پکڑنے والے تہے اور لوگوں کو بهی اس کی وصیت کرتے تهے الخ-(مجموع الفتاوى جلد 8 ــ 369)
ابن تیمیهؒ فرماتےهیں که جنید بغدادیؒ اور ان جیسے دیگر شیوخ آئمہ هدی هیں اور جو اس بارے میں ان کی مخالفت کرے وه گمراه هے۔ (مجموع الفتاوى جلد 5 صــ 321)
اور اپنی کتاب اَلفرقان میں بهی شیخ الاسلام نے جنید بغدادی کو ائمہ هدی میں کہا۔ (الفرقان صفحه 98)
اورشیخ عبد القادر جیلانی کے بارے میں کہا که وه اتباع شریعت میں اپنے زمانه کے سب بڑے شیخ تهے.( مجموع الفتاوى جلد 10 صــ 884)
اور فرمایا که صوفیاء میں سے جو بہی شیخ جنید بغدادیؒ کے مسلک پر چلے گا وه هدایت ونجات وسعادت پائے گا۔
(مجموع الفتاوى جلد 14 ص 355)
ابن تیمیہؒ کے نزدیک علماء تصوف مشائخ اسلام اور ائمہء هدایت هیں۔ (مجموع الفتاوى جلد 2 ص 452)

فقیر افضل هے یا صوفی؟

شیخ الاسلام فرماتے هیں که اس بارے میں اختلاف هواهے که صوفی افضل هے یا فقیر ایک جماعت نے صوفی کو ترجیح دی جیسے ابوجعفر سهروردی وغیره نے اور ایک جماعت نے فقیر کو صوفی پر ترجیح دی اور تحقیقی بات یہ هے کہ جوان دونوں زیادہ متقی هے وه افضل ہے۔۔ الخ (مجموع الفتاوى جلد 11 ص 22)
شیخ الاسلام فرماتے هیں: صوفیاء کرام کے الفاظ و اصطلاحات ان کے علاوہ اور کوئی نہیں جانتا-(مجموع الفتاوى جلد 5 ص 79)

صوفیاء کے کلام کی تشریح

صوفیاء کے کلام کچہه عبارات ظاهری طور پر سمجھ میں نهیں آتی بلکہ بعض مرتبہ تو بهت غلط عبارت نظر آتی هے لیکن اس کو صحیح معنی پر حمل کیا جا سکتا هے۔ لہذا انصاف کا تقاضہ یہ هے کہ ان عبا رات سے صحیح معنی مراد لیا جائے جیسے فناء، شہود،اورکشف وغیرہ (مجموع الفتاوى جلد ص 337)

ابن تیمیہؒ کے نزدیک فناء کے اقسام

فناء کی تین 3 قسمیں هیں ایک قسم کاملین کی هے انبیاء اور اولیاء میں سے دوسری قسم هے قاصدین کی اولیاء وصالحین میں سے اور تیسری قسم هے منافقین وملحدین کی الخ شیخ نےاس کے بعد ان تینوں اقسام کی تعریف وتفصیل ذکر کی۔ دیکھئے . (مجموع الفتاوى جلد 10 ص 219)

صوفیہ کرام کی طرف لوگوں نے باطل عقائد بہی منسوب کئے هیں

شیخ الاسلام فرماتے هیں کہ اهل معرفت صوفیہ میں سے کسی ایک کا بهی یہ عقیده نهیں هے کہ الله تعالی اس میں یا اس کے علاوه دیگر مخلوقات میں حلول واتحاد کر گیاهے ، اور اگر بالفرض اس طرح بات ان اکابر شیوخ کے بارے میں نقل کی جائے تو اکثر اس میں جھوٹ هوتاہے ، جس کو اتحاد وحلول کے قا ئل گمراہ لوگوں نے ان صو فیہ کرام کی طرف منسوب کیاہے ، صوفیہ کرام اس قسم کے باطل عقائد سے بری هیں .. (مجموع الفتاوى جلد 11 ص 74 - 75)

صوفیہ کرام عقیدہ حلول سے بری ہیں

صوفیہ کرام جو امت کے نزدیک مشہور هیں وه اس امت سچے لوگ هیں وه حلول و اتحاد وغیرہ کا عقیده نهیں رکہتے بلکه لوگوں کو اس سے منع کرتے هیں اور اهل حلول کی رد میں صوفیہ کرام کا کلام موجودهے ، اور حلول کے عقیده کو ان نا فرمان یا فاسق یا کافر لوگوں نے اختیار کیا جنہوں نے صوفیہ کرام کے ساتھ مشابہت اختیارکی اور ظاہری طور پر ولایت کے دعوے کیئے الخ (مجموع الفتاوى جلد 15 ص 427)

صوفیہ کرام کفر سے بری ہیں

اگر ان لوگوں کی تکفیر کی جائے تو لازم آئے گا بہت سارے شافعی مالکی حنفی حنبلی اشعری اہل حدیث اهل تفسیر اور صوفیہ کی تکفیر، حالانکہ باتفاق مسلمین یہ سب لوگ کافر نهیں تھے .. (مجموع الفتاوى جلد 35 ص 101)

شیخ الاسلام کے شاگردِ رشید حافظ صوفی ابن القیمؒ کا کلام تصوف کے بارے میں علم تصوف بندوں کے اشرف وافضل علوم میں سے ہے علم توحید کے بعد اس سے زیاده اشرف کوئ نہیں ہے اور یہ علم تصوف شریف نفوس کے ساتهہ هی مناسبت رکہتا ہے.. (طريق الهجرتين ص 260-- 261)

صوفیہ کی اقسام

صوفیہ کی تین 3 قسمیں هیں۔ 1 صوفیہ اَرزاق ،2 صوفیہ رسوم ،3 اور صوفیہ حقائق
پهلے دو2 فریق جوهیں سنت وفقہ کا علم رکهنے والے لوگ ان کی بدعات کو جانتے هیں، اور جہاں تک تعلق صوفیہ حقائق کا تو صوفیہ حقائق وہ لوگ هیں جن کے سامنے فقهاء ومتکلمین کے سر جهکے هوئے هیں اور حقیقت میں صوفیہ حقائق هی علماء اور حکماء هیں .. (شرح منازل السائرين)

صوفیہ و فقراء کی اقسام ابن القیمؒ کے نزدیک

پهر ان کی دو قسمیں هیں۔ صوفیہ اور فقراء۔ پهر اس میں اختلاف هے کہ صوفیہ کو فقراء پر ترجیح هے یافقراء کو صوفیہ پریا دونوں برابر هیں ، اس بارے میں تین 3 اقوال هیں .
1 ایک جماعت نے صوفی کو ترجیح دی اور یہ اکثر اهل عراق کا قول هے اور صاحب کتاب ، العوارف ، کابهی یہی قول هے ، اور انهوں نے کها کہ فقیر کی جہاں انتهاء هوتی هے وهاں سے صوفی کی ابتدا هوتی هے ..
2 ایک جماعت نے فقیر کو ترجیح دی ، اور فقر کو تصوف کا لُب لباب اور ثمره قرار دیا اور اکثر اهل خراسان کاقول هے ..
3 اور ایک جماعت کی رائے یہ هے کہ فقر اور تصوف ایک هی چیز هے ، اور اهل شام کا قول هے ..
(مدارج السالكين ج 2 ص 368)

عارف باللہ کی تعریف

بعض سلف نے کہا که عارف کی نیند بیداری هوتی هے ، اس کے سانس تسبیح هوتی هے ، اور عارف کی نیند غافل کی نماز سے افضل هے۔عارف کی نیند بیداری کیوں هوتی هے؟ اس لیئے کہ اس کا دل زنده اور بیدار هوتاهے اور اس کی آنکهیں سوئی هوتی هیں اور اس کی روح عرش کے نیچے اپنے رب اور خالق کے سامنے سجده ریز هوتی هے جسم اس کا فرش پر هوتاهے اور دل اس کا عرش کے ارد گرد هوتا هے.. (مدارج السالكين ج 3 ص 335)
سبحا ن الله۔ عا رف کی یہ حالت وتعریف زندگی میں پهلی مرتبہ صوفی ابن القیمؒ کی کتا ب میں دیکهی ۰ فجزاه الله خیرالجزاء علی هذه الفوائد الرائعہصوفیہ کی عبارات و اصطلاحات کو جا ننا هر کس و نا کس کا کام نهیںصوفی ابن القیمؒ فرماتے هیں: خوب جان لو کہ صوفیہ کرام کی زبان میں جو استعارات هوتے هیں اتنے کسی اور جماعت کی زبان میں نهیں هیں ، عام بول کر خاص مراد لینا، لفظ بول کر اس کا اشاره وکنایہ مراد لینا حقیقی معنی مراد نہ لینا وغیره، اس لیئے صو فیہ کرام فرماتے هیں کہ هم اصحاب اشاره هیں اصحاب عباره نهیں هیں ، لهذا ایک جماعت نے ان صوفیہ کرام کی ظاهری عبارات کو لیا اور ان کو بدعتی و گمراه قرار دیا ، اور ایک جماعت نے ان عبارات و اشارات کے اصل روح ومغز ومقاصد کو دیکها اور ان کو صحیح قرار دیا ۰ (مدارج السالكين ج 3 ص 330)

صوفیہ کرام نے مجمل ومتشابہ الفاظ بول کر صحیح معانی مراد لیئے هیں لیکن جاهل لوگوں نے ان الفاظ کےسمجهنےمیں غلطی کی

خبردار هو کر خوب جان لو کہ صوفیہ کرام کی اصطلاح میں جو مجمل ومتشابہ الفاظ واقع هوئے هیں وه اصل آزمائش هے ، کم علم اور ضعیف معرفت والا آدمی جب وہ الفاظ سنتاهے، تو وه اس کو حلول اتحاد وشطحات سمجهہ لیتا هے ، حالانکہ صوفیہ عارفین نے اس قسم کے الفاظ بول کر فی نفسہ صحیح معانی مراد لیئے هیں، جاهل و ان پڑھ لوگوں نے ان کی صحیح مطلب ومراد سمجهنے میں غلطی کی ، اور صوفیہ کرام کو ملحد و کا فر قرار دیا . (مدارج السالكين ج 3 ص 151)

صوفی ابن القیمؒ کے نزدیک فناء کی تعریف

فناء کا لفظ جو صوفیہ کرام استعمال کرتےهیں ، اس کا مطلب یہ هے کہ بنده کی نظروں سے سب مخلوقات دور هو جائیں اور افق عدم میں غائب هو جائیں جیسا کہ پیدا هونے سے پهلے تهیں ، اور صرف حق تعالی کی ذات اس کی نظروں میں باقی رهے ،پهر تمام مشاهدات کی صورتیں بهی اس کی نظروں سے غائب هو جائیں ، پهر اس کا شهود بهی غائب هو جائے ،اور صرف حق تعالی کا مشاهده کرے . حقیقت اس کی یہ هے کہ هر وه چیز جو پهلے موجود نهیں تهی اس کی نظروں سے فناء هو جائے اور صرف حق تعالی عزوجل ولم یزل کی ذات عالی اس کی نظروں کے سامنے رهے ۰ اور خوب جان لو کہ اس فناء سے ان کی مراد یہ نهیں هے کہ الله تعالی کے سوا هر چیز کا وجود خارج میں حقیقتََا فناء هو جائے ،بلکہ مطلب یہ هے کہ اس بنده کے حِس اورنظروں سے یہ سب چیزیں غائب هو جائیں فقط۔ (مدارج السالكين ج 1)

علم لَدُنّی کی تعریف

علم لدنی عبودیت ، اتباع ،صدق مع الله ،اخلاص ،علوم نبوت حاصل کرنے میں کو شش ،اور الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی کامل اتباع کا ثمره هے ، ایسے بنده کیلیئے کتاب وسنت کی فهم کا خصوصی دروازه کهول دیا جاتاهے۔۔ الخ
(مدارج السالكين ج 2 ص 457)

فراست کی تعریف

فراست ایک نور هے جس کو الله تعالی بنده کے دل میں ڈالتا هے ، جس کے ذریعه سے بنده حق و باطل ، حالی و عاطل ، صادق و کاذب کے درمیان فرق کرتا هے الخ (مدارج السالكين ج 2 ص 483)
ابن تیمیہؒ تبرک کو جائز کہتےهیں اور اس کو امام احمد بن حنبل رح کی طرف منسو ب کرتے هیں فرمایاکہ امام احمد وغیره نے منبر نبوی اور رُمّانہ نبوی صلی الله علیه وسلم سے تبرک کو جائز قرار دیا ۰ اقتضاء الصراط المستقيم ابن تیمیہ رح قرآن اور آثار النبی صلی الله علیہ وسلم کے ساتهہ تبرک کو جائز کهتے هیں اگرکوئی آدمی کسی برتن یا تختی پر کچهہ قرآن یا ذکر لکهہ دے اور اس کو پانی وغیره سے مٹاکر پی لے ، تو اس میں کوئ حرج نهیں هے ، امام احمد وغیره نے بهی اس بات کی تصریح کی هے ، اور ابن عباس رضی الله عنهما سے منقول هے که وه قرآن و ذکر کے کلمات لکهتے تهے اور بیمار لوگوں کو پلانے کا حکم کرتے تهے ، اس میں دلیل هے برکت کی ،اور وه پانی بهی بابرکت هے جس سے آپ صلی الله علیہ وسلم وضو فرمایا اور حضرت جابر رض پر چهڑک دیا کیوں کہ وه بیمار تهے ،اور سب صحابہ کرام رض اس سے تبرک حاصل کرتے تهے۔ (مجموع الفتاوى ج 12 ص 599)
ابن تیمیہؒ سُبحہ یعنی دانوں والی تسبیح استعمال کرنے کو جائز اور صحابہ کرامؓ  کا عمل بتلاتے هیں انگلیوں کے ساتهہ تسبیح شمار کرنا سنت هے ،اور کهجوروغیره کی گٹهلیوں اورکنکریوں وغیره کے ساتهہ بهی تسبیح پڑهنا جائزهے ،بعض صحابہؓ بهی اس طرح کرتے تهے ،اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے اُم المومنینؓ کو کنکریوں کے ساتهہ تسبیح پڑهتے دیکها تو آپ نے اس کی تائید کی منع نهیں کیا ،اور حضرت ابو هریرهؓ کے بارے میں روایت هے کہ وه بهی اس کے ساتهہ تسبیح پڑهتے تهے ،اور وه تسبیح جو دهاگے میں دانے وغیره ڈال کر بنائ جاتی هے ، بعض نے اس کو مکروه کها هے اوربعض نے مکروه نهیں کها۔ شیخ الاسلام فرماتے هیں کہ اگر نیت اچهی هو تویہ تسبیح یعنی دهاگے میں دانے وغیره ڈال کر جو بنائ جاتی هے یہ جائزهے مکروه نهیں هے .. (مجموع الفتاوى ج 22 ص 6)

ابن تیمیہؒ نماز میں بهی سُبحہ یعنی تسبیح استعمال کرنے کو جائز کهتے هیں

سوال ۰ ایک آدمی نمازمیں قرآن پڑهتاهے اور تسبیح کے ساتهہ شمار کرتا هے کیا اس کی نماز باطل هو گی یا نهیں ؟جواب ۰ اگر سوال سے مراد یہ هے که وه آیات شمار کرتاهے یا ایک هی سورت مثال کے طور قل هوالله احد کا تکرارشمار کرتاهے تسبیح کے ساتهہ تو یہ جائز هے اس میں کوئ حرج نهیں هے ، اور اگر سوال سے کچھ اور چیز مراد هو تو اس کو بیان کردیں ۰ والله اعلم۔ (مجموع الفتاوى ج 22 ص 625)

میت کے لیئے ایصا ل ثواب جا ئز هے

سوال۰ اگر میت کو تسبیح تحمید تهلیل تکبیر کا ثواب هدیہ کر دیاجائے تواس کو ثواب پہنچتا هے یا نهیں ؟
جواب ۰ میت کو اگر اس کے اهل وعیال وغیره تسبیح تکبیر اور تمام اذکا ر کا ثواب هدیہ کردیں تو وه اس کو پہنچ جاتاهے والله اعلم ۰ (مجموع الفتاوى ج 24 ص 324-321)۔

میت کیلئے کلمہ طیبہ 70 هزار مرتبہ پڑهنا جائز هے

سوال۰ کیامیت کیلئے کلمہ طیبہ 70 هزار مرتبہ پڑهہ کر اس کو بخش دیا جائے تو اس کو جہنم سے براءت حاصل هو جائے گی یہ حدیث صحیح هے یا نهیں ؟اور اگر اس کا ثواب میت کو بخش دے تو اس کو پہنچتا هے یا نهیں ؟ جواب ۰ اگر اس طرح 70 هزار دفعہ یا کم یا زیاده پڑهہ کر میت کو بخش دیا جئے تو اس کو ثواب پہنچتا هے اور الله تعالی میت کو اس سے نفع دیتے هیں ، باقی یہ حدیث نہ صحیح هے نہ ضعیف یعنی حدیث نهیں هے والله اعلم ۰ (مجموع الفتاوى ج 24 ص 324)

هر قسم کے نیک اعما ل کا ثواب میت کو پہنچتا هے

قرآن مجید کی تلاوت اور صدقہ وغیرها نیک اعمال کا جهاں تک تعلق هے تو علماء اهل سنت کا اس میں کوئ اختلاف نهیں کہ عبادات مالِیّہ جیسے صدقہ ، عتق وغیره کا ثواب اس کو پہنچتا هے ، جیسا کہ دعا اور استغفار اور نماز جنازه اور اس کے قبر کے پاس دعا کا ثواب بهی اس کو پہنچتاهے . هاں عبادات بدنِیّہ روزه نماز قراءت کی ثواب میں اختلاف هواهے ، لیکن صواب اور صحیح با ت یہ هے کہ تمام نیک اعما ل کا ثواب میت کو پہنچتا هے ، اور هر مسلمان کی طرف سے چاهے وه میت کا رشتہ دار هو یا غیر هو میت کو جو کچهہ بخشا جا تا هے میت کو اس سے نفع هو تا هے ، جیسا کہ اس پر نماز جنازه پڑهنے اور اس کے قبر کے پا س دعا کرنے سے اس کو نفع هوتا هے ۰۰ (مجموع الفتاوى ج 24 ص 367-366)

ابن تیمیہؒ اور با طنی علم

علم باطن قلوب کے ایمان و معارف واحوال کا علم هے اوروه علم هے با طنی ایمان کے حقائق کا اور یہ باطنی علم اسلام کے ظا هری اعمال سے افضل واشرف هے . (ألفرقان ص 82)

اور صوفیہ میں بعض حضرت علیؓ کو علم با طنی میں فضیلت دیتے ہیں۔ جیسا شیخ حربیؒ اوردیگر کا طریقہ هے اور یہ لوگ دعوی کرتے هیں کہ حضرت باطنی علوم کے سب سے بڑے عا لم هیں اور حضرت ابو بکر صدیقؓ ظاهری علوم کے سب سے بڑے عالم هیں ، اِن لوگوں کی رائے محققین و ائمہ صوفیہ سے مختلف هے ، کیونکہ محققین صوفیہ کا اتفاق هے کہ باطنی علوم کے سب بڑے عالم ابوبکر صدیقؓ هیں ، اور اهل سنت والجماعت کا اتفاق هے کہ ابوبکر صدیقؓ امت میں ظاهری وباطنی علوم کے سب سے بڑے عالم هیں اور اس کے اوپر ایک سے زائد علماء نے اجماع نقل کیا هے .. (مجموع الفتاوى ج 13 ص 237)

اولیاء کے کرامات و مکاشفات

فرماتے هیں کہ اهل سنت والجماعت کے اصول میں سے هے اولیاء الله کی کراما ت کی تصدیق کرنا اور جو کچهہ ان کے هاتهو ں پر خوارق عادات صادر هوتے هیں مختلف علوم ومکا شفات میں اور مختلف قدرت و تا ثیرات میں ان کی تصدیق کرنا۔ الخ (مجموع الفتاوى ج 3 ص 156)

شیخ الاسلام اور سماع موتی

سوال۰ کیا میت قبر میں کلام کرتاهے؟
جواب ۰ جی هاں میت قبر میں کلام کرتاهے ، اور جو اس سے با ت کرے تو سنتا بهی هے جیسا که صحیح حدیث میں هے، انهم یسمعون قرع نعالهم ، اور صحیح حدیث میں هے کہ میت سے قبر میں سوال کیا جاتا هے اور اس سے کها جاتا هے مَن ربُّک ؟ وما دینُک ؟ ومَن نبیُّکَ ؟ ۔۔ الخ (مجموع الفتاوى ج 4 ص 273)
کبهی میت کهڑا هوتا هے ، اور چلتا هے ، اور کلام بهی کرتا هے ،اور چیخ بهی مارتا هے ، اور کبهی مرده قبر سے با هر بهی دیکها جا تا هے۔۔ الخ (مجموع الفتاوى ج 5 ص 526)
شیخ الاسلام کے شا گرد ابن مُفلِحؒ فرماتے هیں کہ همارے شیخ یعنی ابن تیمیہ نے فرمایا کہ اس با رے میں بهت ساری احادیث آئ هیں کہ میت کے جو اهل وعیال و اصحاب دنیا میں هوتے هیں اُن کے احوال میت پر پیش هوتے هیں اور میت اس کو جانتا هے ،اور اس بارے میں بهی آثار آئ هیں کہ میت دیکهتا هے ، اور جو کچھ میت کے پاس هوتا هے اس کو وه جانتا هے ، اگر اچها کام هو تو اس پر میت خوش هوتا هے اور اگر برا کا م هو تو میت کو اذیت هو تی هے ۰ (كتا ب الفروع ج 2 ص 502)

موت کے بعد خواب میں شیخ الاسلام کا مشکل مسائل حل کر نا
ابن القیمؒ فرماتے هیں کہ مجهے ایک سے زیاده لوگوں نے بیان کیا جو کہ شیخ الاسلام کی طرف مائل بهی نهیں تهے ، انهوں نے شیخ الاسلام کو موت کے بعد خواب میں دیکها اور فرائض وغیره کے مشکل مسائل کے بارے میں سوال کیا تو شیخ الاسلام نے ان کو درست و صحیح جواب دیا ، اور یہ ایسا معاملہ هے کہ اِس کا انکار وُهی آدمی کرے گا جو کہ اَرواح کے احکام واعمال سے لوگوں سب سے بڑا جاهل هو ۰ (كتا ب الروح ص 69)
تنبیه: کتاب الروح ، ابن القیمؒ کی کتا ب هے۔ اس کتا ب میں ارواح واموات کے جو حالات وواقعات بیان هوئے هیں کسی اور کتاب میں اتنی تفصیل آپ کو نهیں ملے گی ، اور اس کتاب وه سب کچھ هے جس کی وجہ سے نام نہاد اهل حدیث اور سلفی دیگر علماءکو مشرک وبدعتی کهتے هیں ، اسی لیئے تو حید وسنت کے ان نام نهاد علمبرداروں نے جب اس کتاب کو دیکها تو اس کا انکار کر دیا اور کہا کہ یہ سلفیہ کے امام ابن القیمؒ کی کتاب نهیں هے بلکہ اُن کی طرف منسوب کی گئ هے ، حقائق کا انکارکرکے جاهل آدمی کو تو منوایا جا سکتا هے لیکن اهل علم کے نزدیک اس کی کوئ حیثیت نهیں ہے ، یہ کتاب درحقیقت ابن القیم رح هی کی هے۔
1 = جتنے بهی کبار علماء مثلا حافظ ابن حجر وغیره نے ابن القیم کا ترجمہ وسیرت ذکرکی هے سب نے ان کی تا لیفات میں ،کتاب الروح، کابهی ذکرکیاهے اور کسی نے بهی اس اعتراض نهیں کیا۔
2 = اورسب سے بڑھ کر یہ کہ خود ابن القیمؒ نے اپنی دیگر کتابوں میں ، کتاب الروح ، کا حوالہ دیا هے مثلا اپنی کتا ب ، جلاء الاَفهام ، باب نمبر 6 میں حضرت ابوهریرهؓ کی حدیث ، اذا خَرجت روحُ المومن۔۔ الخ،، پر کلام کرتے هوئے ابن القیمؒ نے کها کہ میں نے اِس حدیث اور اس جیسی دیگر احادیث پر تفصیلی کلام اپنی ، کتاب الروح، میں کیاهے ،اب اس کا کیا جواب هو گا؟
3 = حافظ ابن حجرؒ کے شاگرد علامہ بقاعیؒ نے بهی یہ شہادت دی کہ یہ ابن القیم کی کتاب هے اور انهوں نے اس کا خلاصہ بهی " سرُالروح" کے نام سے لکها
۰4 = ابن القیمؒ کتاب الروح میں جا بجا اپنے شیخ ابن تیمیہؒ اقوال وتحقیقات بهی ذکر کرتے هیں جیسا کہ اپنی دیگر کتابوں میں ان کی یهی عادت مالوفہ هے٠

ابن تیمیہؒ کا کشف اور لوح محفوظ پر اطلاع

ابن قیمؒ شیخ الاسلامؒ کی باطنی فراست کا تذکره کرتے هوئے فرماتے هیں کہ میں نے شیخ الاسلام کی فراست میں عجیب عجیب امور دیکهے اور جو میں نے مشا هده نهیں کیئے وه بهت بڑے هیں اور ان کی فراست کے واقعات کو جمع کرنے کیلئے ایک بڑا دفتر چا ئیے ،فرمایا کہ ابن تیمیہ رح نے ،،699 هجری ،، کے سال اپنے ساتهیوں کو خبر دی کہ ،ملک شام ، میں تاتاری داخل هوں گے اور مسلمانوں کے لشکرکو فتح ملے گی اور ، دِمَشق ، میں قتل عام اور قید وبند نهیں هو گا اور یہ خبر ابن تیمیہ رح نے تاتاریوں کی تحریک سے پهلے دی تهیپهر ابن تیمیہ رح نے لوگوں کو خبر دی ،،702 هجری ،، میں جب تاتا ریوں کی تحریک شروع هوئ اور انهوں نے ملکِ شام میں داخل هونے کا اراده کیا تو شیخ الاسلام نے فرمایا کہ تاتاریوں کو شکست و هزیمت هو گی اور مسلمانوں کو فتح ونصرت ملے گی اور شیخ الاسلام نے یہ بات قسم اٹها کر کهی ، کسی نے کها ان شاء الله بهی بولیں تو فرما یا ان شاء الله یقیناََ ۰ ابن القیمؒ فرماتے هیں کہ میں نے شیخ الاسلام سے سنا فرمایا کہ ، جب انهوں نے مجهہ پر بهت زیاده اصرار کیا تو میں نے کها کہ مجهہ پر زیاده اصرار نہ کرو الله تعالی نے ،،لوح محفوظ ،، پر لکهہ دیا هے کہ تاتاریوں کو اِس مرتبہ شکست هو گی اور فتح مسلمان لشکروں کی هو گی ، اور ایسا هی هوا۔۔۔ الخ۔۔ ابن القیمؒ فرماتے هیں کہ مجهے کئ مرتبہ ابن تیمیہ رح نے ایسے با طنی امور کی خبر دی جو میرے سا تهہ تهی میں نے صرف اراده کیا تها زبان سے نهیں بولا تها ، اور مجهے بعض ایسے بڑے واقعات کی بهی خبر دی جو مستقبل میں هونے والے تهے ، ان میں سے بعض تو میں نے دیکھ لیئے هیں باقی کا انتظار کر ها هوں ، اور جو کچهہ شیخ الا سلام کے بڑے اصحاب نے مشاهده کیا هے وه اُس سے دوگنا هے جو میں نے مشاهده کیا ۰۰(مدارج السا لكين ج 2 ص 490-489)

فائدہ

مدارج السالکین ، ابن القیمؒ کی کتاب هے اور یہ کتاب شرح هے کتا ب ، مَنازِلُ السا ئرین ،کی اور اس کتا ب کے مصنف کا نا م هے علامہ ابو اسماعیل عبدالله بن محمد الاَنصاری الهروی الحنبلی الصوفی اوران کی یہ کتاب علم تصوف اور مسائل تصوف پر مشتمل هے ،ابن القیمؒ نے اس کتا ب کی شرح ۳ جلدوں میں لکهی اور اس صوفی بزرگ کی بڑی تعریف کی اور اس صوفی عالم کو شیخ الاسلام کا لقب دیا اور جنت میں اُس کے ساتهہ جمع هو نے کی دعا کی اور اپنے آپ کو اس کا مُرید کہا۔۔ الخ۔ لهذا جو لوگ تصوف کو شرکت و بدعت اور صوفیہ کو مشرک کہتے هیں اُن کے اِن بکواسا ت سے ابن تیمیہؒ اور ابن القیمؒ کیسے محفوظ هوں گے؟ کیونکہ دونوں استاد شاگرد صوفی هیں اور شاگرد استاد سے بهی بڑا صوفی هے کما لا یخفی علی العلما ء

خواب میں الله تعالی کی زیا رت

شیخ الاسلام فرماتے هیں کہ جس نے خواب میں الله تعالی کو دیکها تو دیکهنے والا اپنی حالت کے مطا بق الله تعالی کو کسی صورت میں دیکهے گا ، اگر وه آدمی نیک هے تو الله تعالی کو اچهی صورت میں دیکهے گا ، اسی لیئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے الله تعالی کو خو بصورت اور بهترین صورت میں دیکها۰ (مجموع الفتا وى ج 5 ص 251)

شیخ الاسلام کا مخصوص وظیفہ مخصوص وقت میں

حافظ عمر بن علی اَلبَزّار شیخ الاسلام کے شاگرد هیں وه فرماتے هیں کہ میں نے شیخ الاسلام کی یہ عادت دیکهی کہ ، نماز فجر کے بعد بغیر ضرورت کوئ ان سے بات نهیں کرتا ذکر میں مشغول رهتے بعض دفعہ ان کے ساتهہ بیٹها هوا آدمی بهی اُن کا ذکر سنتا ، اور اس دوران کثرت سے آسمان کی طرف نظر پهیرتے تهے ، طلوع شمس تک ان کا یهی طریقہ هوتا تها ۰ اور میں جب ، دِمَشق ، میں مقیم تها تو دن و رات کا اکثر حصہ شیخ الاسلام کے ساتهہ گذرتا ، مجهے اپنے قریب بٹها تے تو اس وقت میں ان کا ذکر وتلاوت سنتا ، میں نے دیکها کہ وه تکرار کے ساتهہ سورت فاتحہ پڑهتے تهے اِس سارے وقت میں یعنی نمازفجر کے بعد سے لے کر طلوع شمس تک ۰ تومیں نے اس بات میں غور کیا کہ شیخ الاسلام نے صرف اسی سورت کا وظیفہ کیوں لازم پکڑاهے ؟ تو میرے اوپر ظاهر هوا والله اعلم کہ شیخ الاسلام کا اراده یہ تها اس کی تلاوت سے ان تمام فضائل کو جمع کرلے جو احادیث میں وارد هوئ هیں ، اوروه جو علماء نے ذکر کیاهے کہ ،کیا اس وقت میں مسنون اذکار کو تلاوت قرآن پر مقدم کرنا مستحب هے یا تلاوت کو اذکار پر ؟ تو شیخ الاسلام نے سورت فاتحہ کی تکرار کو اس وقت میں وظیفہ مقر ر کیا تاکہ دونوں اقوال کو جمع کرلیں اوریہ شیخ الاسلام کی کمال ذهانت اور پختہ بصیرت تهی ۰۰ (ألأعلام العليه فى مناقب ابن تيمية ج 1 ص 38)
یقینا شیخ الاسلام نے اس خاص وقت میں اپنے لیئے جو خاص وظیفہ مقر ر کیا تها وه اس طریقہ پر کسی حدیث سے ثا بت نهیں ، لهذا وه لوگ جو صوفیہ کرام کے اورد ووظائف کو بدعت و منکر کهتے هیں، شیخ الاسلام کے اس وظیفہ کو کیا کهیں گے؟؟

شیخ الاسلام کی کشف و کرامات

حافظ البزّارؒ اپنی اسی کتاب میں شیخ الاسلام کی کشف وکرامات کابهی ذکرکرتے هیں ، فرمایا بعض وه کرامات جن کا میں نے مشاهده کیا ، ان میں سے ایک یه هے که ، بعض علماء کے ساتهہ چند مسائل میں میرا اختلاف هو گیا اور اُن مسائل میں بحث و مباحثہ طویل هو گیا ، تو هم نے فیصلہ کیا کہ شیخ الاسلام کے پاس جاتے هیں جس قول کو وه ترجیح دے دیں اسی پر فیصلہ کرتے هیں ، اتنے میں شیخ الاسلام حاضر هوئے تو هم نے شیخ الاسلام سے سوال کرنے کا اراده کر لیا ، لیکن شیخ الاسلام همارے بولنے سے پهلے هی هم پر سبقت کر گئے ، اور اکثر وه مسائل جن میں همارا بحث و مبا حثہ هوا تها ، شیخ الاسلام نے ایک ایک مسئلہ ذکر کرنا شروع کر دیا ، ساتهہ هی علماء کے اقوال بهی ذکر کرتے پهر هر مسئلہ کو دلیل کے ساتهہ تر جیح دیتے ، یهاں تک کہ آخری مسئلہ ذکر کیا جس میں همارا اختلاف هوا تها ،اور هم نے جو شیخ الاسلام سے سوال پوچهنے کا اراده کیا تها وه بهی بیان کیا ، لهذ ا میں اور میرا ساتهی اور جو لوگ همارے ساتهہ حاضر تهے سب حیران ره گئے ، کہ کیسے شیخ الاسلام کو کشف هو گیا اور همارے دلوں میں جو کچهہ تها الله تعا لی نے اُن پر ظا هر کر دیا ۰۰ ؟؟؟؟ مزید کرامات کی تفصیل کے لیئے دیکهئے: (ألأعلام العلية ج1 ص 56)

شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ صوفیہ کے قبرستان میں مدفون هیں

علامہ ابن عبد الهادی اَلمَقدَسی اپنی کتا ب میں شیخ الاسلام کی وفا ت کا تذکره کرتے هوئے فرماتے هیں کہ ، لوگوں نے تبرک حاصل کرنے کیلئے شیخ الاسلام کے نعش پر اپنے رومال اور پگڑیاں ڈال دی تهیں۔ اور جنازه شیخ الاسلام کے بهائ زین الدین عبد الرحمن نے پڑهایا ، اور شیخ الاسلام کو ،مَقبره صوفیہ ، میں اپنے بهائ شرف الدین عبد الله کے پہلو میں دفن کیا گیا۔
(العقودالدُرّیہ فی سیرت ابن تیمیہ ج 1 ص 486)

گزارشات

تصوف اور اس سے متعلق چند اقوال میں نے شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ اور ابن القیمؒ کی کتابوں سے مختصر طور پر با حوالہ ذکر کیئے هیں ، تا کہ وه لوگ جو ان دونوں بزرگوں کواپنا راہنما تسلیم کرتے هیں اور ان کی تعلیمات سے جاهل هیں ،ان کو نصیحت هو جائے اور اولیاء وصوفیہ کرام کو بُرا کہنے سے باز آ جائیں ، اور چند جاهل اور جهوٹے لوگوں کی پیروی میں اپنی آخر ت برباد نہ کریں ۰ اور اگر یہ لوگ اپنی اس غلط روش سے با ز نهیں آتے ، تو هماری درخواست هے کہ ، فضائل اعمال ، وغیره کتابوں کا اپریشن کے نا م سے چند جاهل لوگوں نے جو کتابیں لکهی هیں تو وه لو گ ایک کتا ب شیخ الاسلام کی ، مجموع الفتا وی ، اور ابن قیم کی کتاب ، مدارج السالکین ، کا اپریشن کے نا م سے ضرور لکهنے کی زحمت کریں ، کیونکہ جن امور کی وجہ سے ، فضائل اعمال ، وغیره کتابوں کا اپریشن کیا گیا هے وه سب کچھ بلکہ اس سے بهی بهت زیاده شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور ابن القیم کی کتا بوں میں موجود هے۔ موضوع تو بہت طویل هے لیکن میں ،، وَلَديْنَا مَزِيْدْ ،، کہہ کراسی پر اکتفا کرتا هوں اور یہ بات ذہن میں رهے کہ همارے نزدیک ان مذکوره باتوں پر کوئی اشکال واعتراض نهیں هے ، بلکہ یہ ساری تفصیل ان لوگوں کی اصلاح و نصیحت وعبرت کیلیئے هے جو ان سب باتوں کو شرک وبدعت کہتے هیں۔ کیا مذکوره با تیں پڑهنے کے بعد شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور شیخ الاسلام ابن القیم کے متعلق بهی شرک وبدعت کا حکم صا در کریں گے؟؟ یا اپنی برُی اور مذموم روِش سے توبہ کریں گے؟؟
وصلی اللہ علی النبی الامی وعلی آلہ وصحبہ اجمعین

مرزا قادیانی کا جھوٹا دعوئ نبوت اور جاوید احمد غامدی صاحب

0 comments
ایک تحقیق
جناب جاوید احمد غامدی صاحب کے علاوہ کسی اور عالمِ دین کی تقلید اور دفاع کرنا 'اکابر پرستی' کہلاتا ہے..!
.
ایک تبصرہ
غامدی صاحب اپنی کسی 'خاص مجبوری' کے چکر میں جانتے بوجھتے ہوئے مرزے کا ایسا دفاع کررہے ہیں جو خود مرزائیوں سے بھی نہ ہو سکا.. مگر مجھے افسوس ہے کہ انکے سیدھے سادے مقلدین کے ایمان کا بیڑا غرق ہو رہا ہے، کہ وہ اُن کے چار چار گھنٹوں پر مبنی مبہم بیانات کی اپنے تئیں تشریح کرنے میں لگے ہوئے ہیں.. دوٹوک بات کرنا اس فرقے کے بس میں ہی نہیں ہے.. مزے کی بات یہ کہ جس تصوف کو کل تک یہ غلط سمجھتے تھے، آج اسی کے سائے میں بیٹھ کر اپنے موقف کی درستی ثابت کرنے پر خون پسینہ ایک کر رہے ہیں..!
.
ایک اصرار
آپ اپنے امام صاحب سے یوں پوچھنے کی سعی کریں؛
تُو اِدھر اُدھر کی نہ بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا،،
مجھے راہزنوں سے گلہ نہیں، تیری راہبری کا سوال ہے..!
اگر پھر بھی جواب نہ آئے تو اس طرح مطالبہ کریں؛ 
'یا استاذی، صرف چند لفظوں میں کہہ دیں کہ گامے میراثی کو بھی پتہ ہے کہ مرزے نے واضح طور پر جھوٹا نبی ہونے کا اعلان کیا تھا، لہٰذا وہ قرآن مجید کی رو سے صریح کافر ہے.. اس سے آپکے پیروکار وضاحتیں دینے کی خواری اور ٹینشن سے بچ جائیں گے'.. 
دوسری صورت میں غامدیت کیلئے اسلام میں قادیانیت کی طرح کوئی جائے پناہ نہیں جب تک کہ رجوع نہ کریں..!
.
ایک حقیقت
نہ جب تک کٹ مروں میں خواجہ یثرب کی حرمت پر
خدا شاہد ہے،،،، کامل میرا ایماں ہو نہیں سکتا..!!
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
(بخاریات)
-----------------------------------

کمنٹس

عمران بیگ: کسی کافر کو کسی وجہ سے کافر نہ کہنا کیا اس احتیاطی عمل سے کسی مسلمان کا ذاتی ایمان خطرے میں پر جاتا ہے۔

محمد نعمان بخاری: جب اللہ اور اسکے رسول ﷺ نے اس معاملے میں احتیاط نہیں فرمائی اور مصلت کا رویہ نہیں رکھا تو ہم کون ہوتے ہیں میاں.. قل یاایھا الکافرون۔۔ 
صحابہ کرامؓ نے دندان شکن جواب دیا ایسے کذابوں تو ہم اپنے ایمان کو 'کسی وجہ' سے داؤ پہ کیوں لگائیں؟

فرنود عالم: سبحان اللہ۔ یہ تو خدا کا شکر ہوا تین چار جنتیوں سے اپنی دوستی ہے.. نہیں تو گئے تهے تیل لینے... 
میں مکرر عرض کروں گا کہ ختم نبوت پہ جو موقف غامدی صیب نے اختیار کیا، وہ شدید ترین ہے.. اور یہ کہ ان کی نظر میں کسی فکر کی تردید اور رد کفر کا فتوی نہیں بلکہ علمی استدلا ل ہے... تصوف کا سہارا لیکر قادیانی کو چهوٹ دے رہے ہیں... ایسا ہر گز ہر گز نہیں ہے. صرف یہ بتایا جا رہا ہے کہ قادیانی کے دعوے کا فکری پس منظر کیا تها. اس پر وہ قادیانی کے وہ تمام خطوط پیش کرتے ہیں جو قادیانی کے اپنے خلیفہ کو لکهے گئے. بات وہی ہے کہ آپ لٹریچر پڑهنے سننے پہ آمادہ نہیں ہیں. میں یہ ہر گز نہین کہتا کہ غامدی صیب کا لیکچر اس لیئے سنا جائے کہ آپ کو پتہ چل سکے کہ وہ قادیانی کو چهوٹ کیوں دے رہے ہیں. بهئی چهوٹ وہ دے ہی نہیں رہے تو میں یہ کہوں کیسے.؟ میں کہتا ہوں کہ ان کا لٹریچر پڑهکر دیکها جائے کہ وہ کس طرح غلام احمد قادیانی کے دعوے کو رد کر رہے ہیں. 
جس کلپ کا حوالہ دیا گیا وہ کلپ کامل لیکچر کا صدقہ بهی نہیں بنتا. وہ سارا لیکچر قادیانی کی تردید پہ ہے. جو بات آپ نے کہی وہ لیکچر کا ضمنی حصہ ہے. 
باقی آپ رجوع ایک ایسی بات پہ کروا رہے ہیں جس کا وجود ہے ہی نہیں. اس لیئے کہتا ہوں بات پوری سنی جائے.. یوں ایک جهٹکے میں آپ نے ہم پہ جنت حرام تو کر دی، مگر یہی آپ کیلئے وبال بن گیا تو.؟ 
ابو جندل کے پیروں میں چهالے نبی کے عشق میں پڑے تهے... مگر معاہدے کی خلاف ورزی پہ نبی نے وہ عشق مسترد کر دیا. ہمیں جنت کا دربان بننا تب ہی زیب دے گا جب خود کے جنتی اور جہنمی ہونے کا یقینی پیمانہ خدا ہمیں عطا کر دے گا..!

محمد نعمان بخاری: فرنود بھائی، سچی بات ہے کہ مجھے عقیدہ ختم نبوت کی پاسداری پہ نہ آپ پہ شک ہے اور نہ غامدی صاحب پہ تشکیک.. میرا موقف ہے کہ ہم دونوں تصوف اور قادیانیت کو ایک لمحے کیلئے بھول جاتے ہیں.. ٹھیک؟
اب میرا پھر وہی کمنٹ کہ جو غلاظتیں مرزا نے بکی ہیں ان پر سیدھی سادی رائے دے دی جائے غامدی صاحب کی طرف سے اور قصہ حجاب سے آگے بڑھے.. جب کسی واضح گالی اور ہفوات کو یوں اگنور کیا جائے گا تو ہمارے بیچ پل صراط تنا رہے گا.. میں دوستوں کی سہولت کیلئے وہ کمنٹ یہاں پیسٹ کرتا ہوں.
٭
میں غامدی صاحب کو تصوف کی فیلڈ میں انتہائی ناسمجھ مانتا ہوں۔۔ تفصیل میں جانے کا موقع نہیں اسلئے فی الوقت دومنٹ کیلئے تصوف کی تفصیلی بحث اور قادیانیت دونوں کو ایک سائیڈ پر رکھ دیں اور صرف ان جملوں کے متعلق اپنی رائے دیں:
1۔ کنجریوں کی اولادوں کے سواء سب میری دعوت کی تصدیق کرتے اور مجھے (نبی) مانتے ہیں۔ (آئینہء کمالات) -- ایسا قول صوفیاء سے ثابت کرسکتے ہیں؟
2۔ میں وہ آئینہ ہوں جس میں محمدی شکل اور محمدی نبوت کا کامل انعکاس ہے۔ (نزول المسیح، حاشیہ) -- کیا کہیں گے؟
3۔ دشمن ہمارے بیانوں کے خنزیر ہوگئے اور انکی عورتیں کتیوں سے بڑھ گئیں" (نجم الہدی) -- اور سناؤ۔۔
4۔ میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس طرح میں قرآن کو یقینی اور قطعی طور پر خدا کا کلام جانتا ھوں اسی طرح اس کلام کو جو میرے اوپر نازل ہوا ہے خدا کا کلام یقین کرتا ہوں" (حقیقۃ الوحی) -- ہے کوئی تُک؟
5۔ مجھے اپنی وحی پر ویسا ہی یقین ہے جیسا تورات، انجیل اور قرآن پر (اربعین 4)-- چھڈو دادا جی
6۔ اس امت میں نبی کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیا گیا، باقی کوئی اسکا مستحق نہیں" (حقیقۃ الوحی) -- اسے بھی صوفیاء کے کھاتے میں ڈال دیں پلیز
7۔ سچا خدا وہ ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا (دافع البلا) -- کمال نئیں ہو گیا۔۔
8۔ قل یا ایھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا ای مرسل من اللہ۔۔۔ "اور کہہ دو کہ اے لوگو میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہو کر آیا ہوں۔۔" (اشتہار معیار الاخیار ص 3 مجموعہ اشتہارات ج3 ص 270) -- بس یہی کمی رہ گئی تھی۔۔
شاید علامہ غامدی صاحب کی عقابی نگاہ سے یہ "تصوفاتی" اقوال اوجھل رہے ہوں۔۔ رابطہ کیجئے گا موصوف سے۔۔ یقین کریں اس معاملے میں دوٹوک موقف دئیے بنا غامدیت کی جان نہیں چھوٹنے والی، چاہے آپ ہم لوگوں کو بیوقوف سمجھیں یا غیر منطقی۔۔!

فرنود عالم: انہی ہفوات و مغلظات پہ غامدی صیب کی رائے پہ مشتمل ایک ویڈیو میں تصور سمیع صیب کیلئے سمیع اللہ سعدی کی آج ہی کی پوسٹ پہ شئیر کی. موبائل پہ ہوں ورنہ ضرور یہاں شئیر کر پاتا ابهی اور اسی وقت.... وہاں بهی معاملہ وہی ہوا کہ تعصب میں صرف غامدی کے پیرو کاروں نے ہی دیکهی... 
ہفوات و مغلظات کی جو بات ہے، وہ تو ناقابل برداشت وہ بهی ہیں، جو اہل تشیع کی تقاریر اور لٹریچر میں ملتی ہیں... اب اس پہ فتوی کیا صادر کیا جائے؟ ظاہر ہے میری رائے کچه ہو سکتی ہے، مگر غامدی صیب کی وہ نہیں ہوگی جو میں چاہتا ہوں... ہاں غامدی صیب سے ایک سوال کریں. کہ کیا آپ اہل تشیع کی فلاں نقطہ نظر کو ٹهیک سمجهتے ہیں. وہ کہیں گے نہیں. کیوں؟ وہ کہیں گے کہ میرے پاس معیار ایک ہے اور وہ ہے رسالت مآب کی ذات والا صفات. جب اس پہ پرکھتا ہوں تو معیار پہ پورا نہیں اترتا. قران و سنت سے اس کا کوئی تعلق نہیں. 
اپنی رائے میں دوہراتا ہوں:
"جو میں نے غامدی صیب سے سنا اور پڑها اسی کی روشنی میں مرزا غلام احمد قادیانی کو ادنی درجے میں بهی مسلمان نہیں سمجهتا"

Tuesday, July 28, 2015

غامدی صاحب سے مرزا غلام قادیانی کے متعلق واضح موقف کا اصرار

0 comments
ہم کہتے ہیں بھائی جی، آپ اپنے امام جناب غامدی صاحب کو کہیں کہ سیدھی طرح دوٹوک بات یوں فرما دیں کہ چونکہ مرزا غلام قادیانی نے نبوت کا صریح دعویٰ کیا تھا جس کا ثبوت اسکی تحاریر ہیں، چنانچہ میں اسے کافر مانتا ہوں.. بات ہی ختم ہو جائیگی.. مگر صاحب ہیں کہ غیر منطقی چونکہ چنانچہ کرکے اس کذاب کو بچانے پہ مصر ہیں.. پھر آپ کہتے ہیں کہ چار گھنٹے کا لیکچر سن لو.. کیوں جی وجہ؟ جو بات دو منٹ میں بآسانی کہی جا سکتی ہے اسے جاننے کیلئے ہم اپنے چار قیمتی گھنٹے کس خوشی میں لگا دیں؟ کیا اس ویڈیو میں اگر مگر کے علاوہ کچھ ہے؟ اگر ہے تو وہ جملے کوٹ کریں تاکہ ہم اپنے ٹائم اور موبائل ڈیٹا کے مثبت استعمال کے بارے میں سوچیں اور سیاق و سباق کا جائزہ لیں.. مگر آپ ایسا کر ہی نہیں سکتے.. کیونکہ موصوف مذہب کے عمران خان ہیں.. اپنے موقف کی توضیح و تدلیل کرنا بہت مشکل ہے جناب کیلئے..!!
(بخاریات)
تنبیہ: اب آپ یہ مت گننے بیٹھ جائیے گا کہ میں نے یہاں کتنی مرتبہ چونکہ چنانچہ اگر مگر استعمال کیا ہے. :)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

کمنٹس

سید اسرار احمد: نعمان بھائی یہ علمی بددیانتی پر مبنی رویہ ہے کہ آپ کسی کی بات مکمل سنے بغیر ہی رائے قائم کرلیں اور اپنے تئیں اطمینان بھی کرلیں کہ ہم جانب حق ہیں، 
حوصلہ کیجے اور مکمل چار قیمتی گھنٹے صرف کرلیجے، میرا دعویٰ ہے آپکو مایوسی نہیں ہوگی!

محمد نعمان بخاری: میرا مطالبہ پوسٹ میں واضح ہے. بسم اللہ کیجئے۔

سید اسرار احمد: نعمان بھائی بہت سادہ سی بات ہے آپ کی خدمت میں عرض کروں، آپ اس بات پر خفا مت ہوئیے گا، حقیقت یہ ہے کہ آپ کی یہ پوسٹ انتہائی بچکانہ ہے،
سنجیدہ علمی رویہ اپنانے کے لیے زبانوں کو لگام دینی پڑتی ہے، 
دھیان اور تسلی سے اور دوزانؤں ہو کر اہل علم سے پہلے ادب سیکھا جاتا ہے،
یہ کافر وہ کافر، فلاں گمراہ فلاں زندیق، یہ سب باتیں IMMATURITY پر مبنی ہیں، پوری تسلی سے رائے کو سنیے، اختلاف ہے تو دلیل سے بات کو واضح کیجے لیکن چونکہ آپ کی ' مرضی ' کی بات نہیں کی لہٰزاہ یہ صاحب قادیانیوں کی حمایت کررہے ہیں، بہت ہی نامناسب بات ہے۔

میری بات سن لیں تو چند لائنز میں عرض ہے،
غامدی صاضب کے نزدیک مرزا غلام احمد قادیانی صاحب نے نبوت کا جو دعویٰ کیا ہے اسکی وجہ ان کی متصوفانہ اپروچ ہے، اور جو دعویٰ مرزا صاحب کررہے ہیں، وہ صوفیوں کے ہاں روز کا معمول ہے، اس اعتبار سے ہمت کرو اور کفر کا فتویٰ مرزا صاحب سمیت تمام صوفیاء پر بھی لگاؤ، اور سب کو کافر قرار دو؛؛ کیونکہ وحی و الہام کے دروازے کو نبی ﷺ کے بعد کھولنے کی جسارت صوفیاء نے کی ہے، اور مرزا غلام احمد اسی کی ایک کڑی ہے۔
اب زرا ہمت کیجے اور پورا لیکچر سن لیجے
جزاک اللہ خیرا

محمد نعمان بخاری: تسلیم کہ یہ بچگانہ پوسٹ ہے.. اسکی وجہ یہی ہے کہ سابقہ سنجیدہ پوسٹس میں مجھے مطمئن نہیں کیا گیا.
میں یہاں کسی مسلک کی بات نہیں کررہا کہ یہ کافر وہ کافر کا نعرہ لگایا جائے.. سیدھی سی بات ہے جو مرزا لعین سے متعلق ہے اور بس..
مجھے یہ بتائیں کہ کس صوفی نے یہ دعوی کیا کہ مجھ پہ ٹیچی ٹیچی (فرشتے) وحی لے کر آتے ہیں اور اب میں مہدی اور پھر عیسی اور بھر ظلی بزوری ہوں؟؟ صوفیاء کی اپروچ القاء و کشف تک ہے جسے غامدی صاحب غلط طور پر وحی و الہام سے جوڑ رہے ہیں.. یہ بھی بتا دیجئے کہ کون ایسا صوفی تھا جس نے نبوت کا دعوی کیا ہو اور اسکی زندگی سنتِ پیغمبر کے متصادم ہو اور پھر انکے ماننے والے اسے نبی مانتے ہوں؟
غامدی صاحب دو مختلف کیسز کو گڈمڈ کر رہے ہیں...! ٹو دا پوائنٹ جواب کا منتظر ہوں۔

جمال مصطفیٰ: کبھی کبھی سوچتا ھوں حضرت عمر رضی اللہ عنہ تلوار لے کر غصے میں رسولﷺ کو قتل کرنے نکلے تھے اور اگر قرآن کی آواز انکے کان میں نہ پڑتی؟ تو؟. یہ مثبت تعصب اور اپنے فکر کو صحیح سمجھنے کی کوئی آخری حد ھی ھوتی ھے.... میں اور آپ اپنے بارے میں تصور کرسکتے ھیں کہ رسولﷺ کو قتل کرنے نکل پڑیں؟؟ معاذاللہ ھم سب اللہ سے اس بارے پناہ چاھیں گے. اپنی پہلے سے قائم شدہ رائے صرف تب ھی بدل سکتی ھے جب حق اور سچ سننے کے لئے کان کھلے رکھے جائیں. اور یہ ماننے کا حوصلہ کہ میں بھی غلط ھو سکتا ھوں....خدارا اس مثال کے جواب میں یہ لاجک نہ لے آئیے گا کہ کہاں وہ کہاں یہ.... صاف ظاھر ھے یہاں تقابل ھرگز مراد نہیں. البتہ کچھ اور کہنا مقصود ھے اگر اسی پر فوکس رھے تو آسانی سے سمجھ آجائے گی
.. ..کامل ایمان اور کامل حق کی تلاش میں چار گھنٹہ کیا شاید چار سال بھی لگ جائیں تو کیا غلط ھے؟ میرے خیال سے ایک سنجیدہ مزاج بات کی تہہ تک پہنچنے کےلئے اپنی کوشش جاری رکھے گا...وگرنه کئی بہتان اور فسق گناہ ھیں یہ تو ھم سب جانتے ھیں ...میں چونکہ وہ چار گھنٹے کی گفتگو سن چکا ھوں اس لئے جانتا ھوں کہ کسی فتنہ گر نے کتنی کامیابی سے گیارہ منٹ کی ویڈیو تیار کی ھے....سیاق اور سباق نہ صرف تباہ کئے بلکہ اس سے واقعی بلکہ یقیناﹰ غلط تائثر ملتا ھے.... .... لیکن اگر ھم اپنے تیئں اپنے ھی آپ کو نیک گردانتے ھیں تو دفع کرو کسی نئے عالم کو کیا سننا ...میرے باپ دادا کا مذھب ھی کافی تھا جس میں فیس بک تو دور کی بات لاؤڈ اسپیکر بھی حرام تھا ....لیکن تواصی بالحق ھمارا فرض ھے ورنہ خسارہ ھی خسارہ ..

محمد نعمان بخاری: ادھر ادھر کی باتیں چھوڑیں جناب،، یہ بتائیں کہ مرزا کا ختمِ نبوت پر عقیدہ کیا تھا؟ کیا آپ اس سے ایگری ہیں؟ نیز مرزا کے عقائد کو تسلیم کرنے والوں کو آپ اور غامدی صاحب کیا سمجھتے ہیں؟ دو لائنز میں جواب دیں اور وقت بچائیں..!

جمال مصطفی: وہی مسئلہ ہے چونکہ پورا لیکچر سیاق میں نہیں اسی لئے بات سمجھنی اور سمجھانی مشکل ھو رھی ھے. فیس بک پر تین دن لگانے کیا تین گھنٹے نکالنے سے بہتر نہیں ھیں؟ یا اسکا زیادہ ثواب ھے. ؟ 
سر وہی نقطہ غلط فہمی بن رھا ھے. جو جو خود کو نبی یا خدا سمجھ رھا ھے اسکی اگلی نسلوں کو غامدی فکر خیر خواہی سے اسلام کی خالص دعوت دینا چاھتا ھے. اور دیگر علماء اور حضرات اس کی اگلی نسلوں کو دعوت دینے تک کا روادار نہیں جانتے بس نفرت کرتے ھیں اور لازما جهنم میں ھی دھکیلنا چاھتے ھیں. جبکہ غامدی صاحب کا یہ کہنا کہ احمدیوں کی اگلی نسلیں شاید واپس آجاتیں یا رجوع کر لیتیں اگر ھمارے علماء شدت کی بجائے علمی رویہ اپناتے ....کیا احمدیوں کو دعوت دینا فرض ھے؟ یا ان کی تکفیر فرض ھے؟ اسی دعوتی پہلو سے غامدی صاحب انکا پورا نام بھی لیتے ھیں اور "مرزا صاحب" کہتے ھیں اور لوگوں کو لگتا ھے چونکہ عزت دے رھے ھیں اس لئے اسے نبی مان لیا ھے نعوذ بالله. برائے مہربانی تھوڑا وقت نکال لیں. اور پہلے سن لیں کہ بات کیا چل رھی ھے. وھاں انہوں نے واضح بتایا ھے کہ انہیں غلطی کیسے لگی ..!

محمد نعمان بخاری: غامدی صاحب واحد بندے نہیں جو مرزا کو صاحب کہتے ہیں.. جس بھی عالمِ دین نے مرزا کا علمی رد کیا ہے اسے صاحب ہی لکھا ہے، یہ تہذیبی اسلوب ہے جس پر ہم نے آپ سے موقف مانگا ہی نہیں..
دوسری بات، احمدیوں کو دعوتِ اسلام دینے کیلئے بھی غامدی صاحب واحد بندے نہیں ہیں بلکہ ہمارے علماء ہزاروں قادیانیوں کو مسلمان کر چکے ہیں الحمدللہ.. مگر کیسے؟ مرزا کے دجل و فریب کی وضاحت کرکے.. جب مرزائیوں پہ یہ واضح ہو جاتا ہے کہ مرزا اپنی ہی تحریروں کے حمام میں ایک مکار اور بیوقوف شخص ثابت شدہ ہے تو ایک عام فہم بندہ بھی حقائق سے بہرہ ور ہو جاتا ہے.. غامدی صاحب کیوں اس چکر میں ہیں کہ مرزا کو بچایا جائے تاکہ مرزائی بچ سکیں؟ ہم صدقِ دل سے مرزائیوں کیلئے نرم گوشہ رکھتے ہیں کیونکہ وہ اپنی سادگی میں دھوکہ کھا گئے ہیں.. اتنی سی بات ہے جسے بلاوجہ گھمایا جا رہا ہے..
مکرر مطالبہ ہے کہ ادھر ادھر کی باتیں چھوڑ دیں،، واضح طور پر یہ بتائیں کہ مرزا کا اسکی کتب کے آئینے میں ختمِ نبوت پر عقیدہ کیا تھا؟ کیا آپ اس سے ایگری ہیں؟ نیز مرزا کے عقائد کو تسلیم کرنے والوں کو آپ اور غامدی صاحب کیا سمجھتے ہیں؟ دو لائنز میں جواب دیں اور وقت بچائیں.

ظفر اقبال اعوان: حیرت ہوتی ہے کہ ہم جیسے نادیدے جس بات کو با آسانی سمجھ رہے ہیں اہل علم اس کا متنجن کیوں بنانے پر بضد ہیں....؟ جو بحث 1907ء میں ختم ہو گئی ....جس مباہلے کا فیصلہ آسمان سے سوا صدی پہلے آ چکا....اور جسکے تابوت پر 1953 ء میں خون شہیداں سے مہر لگائی جا چکی.....اسے محض چند فیشنی جدیدیوں سے منوانے کا اپن میں تو یارا نہیں ہے بھائی !!

محترم غامدی صاحب سے مرزا غلام قادیانی کے متعلق دوٹوک موقف کا مطالبہ کرنے والوں کے نام

0 comments
مجھے واضح موقف آنا ممکن نہیں لگتا.. کیونکہ غامدی صاحب تنگ گلی میں پھنس چکے ہیں جہاں سے یوٹرن نہیں لیا جا سکتا.. موصوف کا غلط طور پر یہ ماننا ہے کہ "جب تک کوئی بذاتِ خود اپنے آپ کو دائرہ اسلام سے باہر قرار نہ دے، تب تک کسی کو اس پر فتوئ کفر لگانے کا اختیار نہیں ہے.."
اس صورت میں قادیانیوں کے غیرلاہوری گروہ کو موصوف کے نزدیک غیرمسلم نہیں کہا جا سکتا کیونکہ وہ خود کو مسلمان ظاہر کرکے ہی سادہ دل مسلمانوں کو ڈی-ٹریک کرتے ہیں.. موصوف یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں اور آپ کے بعد نبوت کا باب بند ہے، مگر شاید یہ بیان نہ دے سکیں کہ مرزا غلام قادیانی کافر تھا.. حالانکہ اسکا دعوئ جعلی نبوت بالکل صریح ہے..
اللہ کرے مستقبل میں میرا موصوف سے متعلق یہ گمان غلط ثابت ہو جائے..!!
(بخاریات)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کمنٹس:

Late Nation: Some are unaware of these hateful words and don't know how they could serve Islam.
Please forgive innocent Muslims and let them live peacefully.
They don't want to hear shia sunni, kafir or ehmadi any more.
As don't have left blood anymore to shed on religion's name, which means love and not hatred.

I request politely to you who think they are serving Islam by discussing such subjects, this shop keeping should be stoped now.

محمد نعمان بخاری: نبوت کی کامل عمارت میں رخنہ ڈالنے والے کی سرکوبی نہ کرنا نرم دلی نہیں بلکہ بےغیرتی ہے.

Late Nation: Can you please what benefits Muslims have achieved since this such conspiracy and blood shed started from assassination of three caliphs to millions of people who died argue and fighting for this subjects.

I just request you to kindly provide me detail of benefits, while losses we suffered in this connection you don't need to give because already every Muslim know that.
I am your admirer and know your calibre as an Islamic scholar, if figures like you could not change themselves how you could expect other common followers who are mostly uneducated and have no visions that how nations could develop in the community of world. 

Nothing is against Islam in these lines. Rather Islam only you can save when you advocate for love and brotherhood, but not preaching for secretarionism.

I do apologize if I have offended you sir in your point of view.

محمد نعمان بخاری: یہ تو ایسے ہے جیسے پوچھا جائے کہ نماز نہ پڑھنے اور زکوٰت نہ دینے اور جہاد نہ کرنے والوں کو غلط قرار دینے سے لاکھوں مسلمانوں اور ریاست کو کیا فوائد حاصل ہوتے ہیں؟ 
بھائی ختم نبوت مسلمانوں کا بنیادی اور اہم ترین عقیدہ ہے.. اس پر لیت و لعل سے کام نہیں لیا جا سکتا بلکہ دوٹوک موقف اپنانا لازم ہے.. البتہ ہم ان قادیانیوں کیلئے نرم گوشہ رکھتے ہیں جن کو لاعلم رکھ کر مرزائی بنایا گیا ہے..
آپ مجھے بتائیں کہ اس عقیدے کی حفاظت نہ کرکے آپکو کیا مفاد ملتا ہے؟

Late Nation: Muhammad ( peace be upon him ) are a last Devine prophet.
His character and services for humanity are not needy of my rtestimony that I should prove Muhammad (pbuh) were a great prophet of Allah, as I am a common human who do not have enough words to prove and elaborate that this belief should be protected.

I am afraid to say while arguing for about it, why do we forget our prophet's exemplary morality and love HE showed even to infidels ( Kofar) and Jews to whom He seemed serving them in mosque of Nabvi.
Dear you don't remember when Nabi pak presented milk of 7:goats to a Jew, kept loving that old woman who use to throw dust, did not reacted harshly when a non Muslim put skin of camel on Him in Kabba, when He was praying.

My point of view is that you can win this war only with the power of love, compassion and tolerance.
We need to change our behaviour.

However, I think you are true to your belief. I have no doubt about it.
We should love our NABI PAK about whom's dignity and granduer a punhabi point, " TERIAN DHOMAN DU JUG WHICH DHOMIAN,
TERIAN JOTIAN ARSH NE CHUMIAN "

Ya Rub hamain moaf farma, beshak TUO he sub se bara Raem o Kareem hai, Ameen!

محمد نعمان بخاری: سورت الحشر کی تفسیر پڑھئے گا.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہودیوں کو مدینہ سے کیوں اور کیسے نکلوایا تھا.. آپ ص تو انکے مَردوں کے سر قلم کردینا چاہتے تھے..
پھر حضرت ابوبکر صدیق ر.ض نے مسلیمہ کذاب کا کیسے تعاقب کیا.. اشداء علی الکفار رحماء بینھم..
آپکو دعوتی سوچ اور ٹھوس منصوبہ بندی والی فکر میں فرق رکھنا چاہئے. معذرت کہ آپکو یہ میرا آخری رپلائی ہے اس موضوع پہ..!

ظفر اقبال اعوان: غامدی صاحب اگر 1880 سے 1907ء تک کی تاریخ مطالعہ فرما لیتے تو یقیناً ایسا نہ کہتے- وہ ہمیشہ ایک نئ لاجک لیکر آتے ہیں- ابن عربی کے بعد اقوال کی من چاہی تعبیر کر کے وہ قادیانیت کے مردہ گھوڑے میں نئ جان ڈالنا چاہتے ہیں- جبکہ یہ غیر ممکن ہے-

محمد شفیق حجازی: غامدی صاحب کے دو مختلف ویڈیو زیر بحث ہیں ایک ویڈیو قاری حنیف ڈار صاحب کی وال پر ہے جو ایک ٹی وی پروگرام کا کلپ جس میں غامدی صاحب نے ایک کالر کے جواب میں قادیانیت کے بارے میں اپنا موقف بیان کیا ہے ،ایک دوسرا ویڈیو ایک کلاس کا ہے جس میں غامدی صاحب قادیانیت کے بارے میں اپنا موقف اپنے شاگردوں کو پڑھا رہے ہیں ،اس ویڈیو میں شاگروں کی طرف سے کچھ سوالات بھی کیئے جارہے ہیں جو کہ واضح سنائی نہیں دیتے دونوں ویڈیوز میں بیان کردہ موقف میں فرق ہے، قاری حنیف ڈار صاحب کی وال کی ویڈیو پر ہم نے جو تبصرہ کیا ہے وہ درج ذیل ہے ----- قرآن سے آگے بڑھ کر کچھ کہنے کی کسی کو جسارت نہیں کرنی چاہیئے جتنا قرآن نے بتا دیا وہی ہدایت ہے اور اسی پر اکتفاکرنا چاہیئے قرآن سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ نبوت ختم یعنی نبی اکرم خاتم النبین ہیں جسکا مطلب وحی کاسلسلہ بھی ختم اب اگر کوئی وحی کا دعویٰ کرتا ہے تو اسکا یہ دعویٰ ازروئے قرآن باطل اور کذب پر مبنی قرار پائے گا قرآن نے اتنی بات بتائی ہے یہاں رک جانا چاہیئے اس سے آے بڑھ کر کچھ کہنا جہالت کا شاخسانہ ہے لیکن جاوید غامدی صاحب اپنے زعم علم میں اکثر اس حد کو پار کرجاتے ہیں ان کی بیشتر غلط آراء اور گمراہی کی باتوں کو اسی زمرے میں شمار کرنا چاہیئے، ہمارے اس تبصرے پر رفیق صاحب کا ایک تبصرہ آیا اس کا درج ذیل جواب ہم نے تحریر کیا ہے ،
وہ اس بات کو خود سے منسوب کررہے ہیں کہ" میں اس سے بھی آگے بڑھ کر یہ کہتا ہوں"
دوسری بات یہ ہےکہ وحی اور الہام میں بہت فرق ہے میں الہام کے لیئے القاء کا لفظ استعمال کرتا ہوں ،تیسری بات یہ کہ غامدی صاحب کے علم اور شخصیت کا جو امپکٹ آپ پر اور عام لوگوں پر ہے وہ ایک مصنوعی امپکٹ ہے جو میڈیا کے زور پر کریئیٹ کیا گیا ہے ہم نے ان کو قریب سے دیکھا ہے اور پرکھا ہے دجل وفریب انکی شخصیت کا خاصہ معلوم ہوتا ہے اپنی شخصیت کی ان کمزوریوں کے سبب نہ صرف خود کو نقصان پہنچانے کا سبب بنے بلکہ اپنے شاگردوں کوبھی خطرات سے دوچار کیا فیس بک کا دائرہ محدود ہے اس پر بہت زیادہ لمبی بات نہیں ہوسکتی۔ القاء کے موضوع پر میری ایک مفید تحریر ہے مناسب وقت پر اس شائع کرنے کا ارادہ ہے۔

کیا وحی کے ساتھ الہام، القا اور کشف بھی صرف نبی کے ساتھ مخصوص ہیں؟

0 comments
معترضین ایک حدیث مبارکہ سناتے ہیں، جس میں ارشاد نبوی ہے:
مفہوم: "میرے بعد نبوت باقی نہیں رہے گی سوائے مبشرات کے، آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا : یا رسول اﷲ! مبشرات کیا ہیں؟ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اچھے یا نیک خواب۔‘‘ (احمد)
پھر معترضین کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ: وحی، الہام، القا، کشف سب ختم ہو گیا.... کہ یہی تو نبوت کے کمالات ہیں!
یہ ایک انتہائی عجیب و غریب بات ہے کیوں کہ "وحی کے ساتھ بار بار الہام اور کشف و القاء کو جوڑنا اور ان سب کو نبوت کا جز قرار دینا شاید غامدی صاحب پر ہی "القاء" ہوا ہے... کیوں کہ چودہ سو برسوں سے ان کے اصطلاحی معنوں میں فرق ہر وہ مسلمان جانتا ہے جس نے دین کو تھوڑا بہت بھی پڑھا ہے !سب سے پہلے وحی کی اصطلاح لیجیے:

وحی:
٭٭٭٭
اصطلاح شریعت میں وحی اس کلامِ الہٰی کو کہتے ہیں کہ جو اﷲ کی طرف سے بذریعہ فرشتہ نبی کو بھیجا ہو۔ اس کو وحی نبوت بھی کہتے ہیں جو انبیاء علیہم السلام کے ساتھ مخصوص ہے...
اب آتے ہیں  معترضین کی فرمودہ باقی اصطلاحات کی طرف جن کو وہ وحی کے ساتھ جوڑ کر نبوت کا جز بتاتے اور ان کا ختم ہونا مندرجہ بالا حدیث سے ثابت کرتے ہیں... احادیث میں ان تمام اصطلاحات کا ذکر ملتا ہے!

الہام:
٭٭٭٭ 
کسی خیر اور اچھی بات کا بلانظر و فکر اور بلاکسی سبب ظاہری کے من جانب اﷲ قلب میں القاء ہونے کا نام الہام ہے... اس کو مومن کی فراست ایمانی بھی کہہ سکتے ہیں جو حدیث سے ثابت ہے...
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں عمر ہوں اور تم پر حاکم بننے کی مجھ کو خواہش نہ تھی لیکن مجھ کو متوفی (حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ) نے اس کی وصیت کی تھی اور اللہ تعالیٰ نے ان کے قلب میں اس کا القا فرمایا تھا۔ (الحدیث اخرجہ مالک)
اور حضرت عمررضی اللہ عنہ کے لیے ہی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کا مفہوم ہے کہ:
تحقیق تم سے پیشتر امتوں میں صاحب الہام گزرے ہیں پس اگر میری امت میں کوئی ہے تو وہ عمرؓ ہیں۔ (بخاری و مسلم)

اب اصطلاحِ کشف کا ثبوت اُمتی کے لیے دیکھئے:

کشف:
٭٭٭٭
الہام کا تعلق امور قلبیہ سے ہے تو کشف کا زیادہ تر تعلق امورِ حسیہ سے ہے... 
بخاری، مسلم اور ترمذی کی حدیث میں حضرت انس بن نضر رضی اللہ عنہ کا قول مروی ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ:
میں جبل احد کے پیچھے سے جنت کی خوشبو پاتا ہوں۔"
اسی طرح حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے غزوہ احد کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے داہنے بائیں دو شخص دیکھے جن پر سفید کپڑے تھے اور بہت سخت لڑائی لڑ رہے تھے۔ میں نے ان کو نہ اس سے پہلے دیکھا تھا نہ بعد میں دیکھا۔ یعنی وہ دونوں شخص جبرئیل و میکائیل تھے۔ (بخاری و مسلم)
عالم غیب کی اشیاء کا منکشف ہونا ایک حال رفیع ہے اگر اتباع شرع کے ساتھ ہو...

فرق و اصلاح:
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وحی قطعی ہوتی ہے اور معصوم عن الخطاء ہوتی ہے اور نبی پر اس کی تبلیغ فرض ہوتی ہے اور امت پر اس کا اتباع لازم ہوتا ہے...
جب کہ الہام یا کشف ظنی ہوتا ہے اور معصوم عن الخطاء نہیں ہوتا... اولیاء معصوم نہیں... اسی وجہ سے اولیاء کا الہام یا کشف دوسروں پر حجت نہیں اور نہ الہام یا کشف سے کوئی حکم شرعی ثابت ہوسکتا ہے، حتیٰ کہ استحباب بھی الہام سے ثابت نہیں ہوسکتا... کیوں کہ کسی کے الہام یا کشف پر عمل نہ کرنے یا مخالفت کرنے سے کوئی گناہ نہیں ہوتا... البتہ دنیا کا ضرر ہو تو وہ الگ بات ہے!
حتیٰ کہ بعض اوقات اہلِ کشف کو خود اپنے کشف کی حقیقت کا ادراک نہیں ہوتا... چنانچہ بخاری کی مشہور حدیث میں حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ کو ملائکہ کا کشف تو ہوا مگر یہ اطلاع نہ ہوئی کہ یہ ملائکہ ہیں... علماء کرام نے اس کی تصریح کی ہے کہ جو شخص اس تحقیق سے آگاہ ہو جائے گا... وہ کشف میں اپنے فہم و رائے پر ہرگز اعتماد نہیں کرے گا اور بہت سی غلطیوں سے محفوظ رہے گا!
بزرگوں کو جو کشف ہوتا ہے وہ ان کے اختیار میں نہیں... بلکہ انبیاء کرام کے اختیار میں بھی نہیں... دیکھیے حضرت یعقوب علیہ السلام کو ایک مدت تک حضرت یوسف علیہ السلام کی خبر نہ ہوئی حالانکہ اس بے خبری سے جو کچھ ان کو رنج وغم پہنچا وہ مشہور ہے کہ روتے روتے نابینا ہو گئے تھے... اور جب اللہ نے چاہا کہ انہیں خبر ہو جائے تو میلوں دور سے حضرت یوسف علیہ السلام کے کرتہ کی خوشبو آنے لگی... پس کشف نہ اختیاری ہے نہ کوئی کمال کی چیز ہے... (کیوں کہ کمال ہمیشہ کسبی ہوتا ہے) ... بلکہ یہاں تک علماء کرام فرماتے ہیں کہ اگر کافر بھی مجاہدہ اور ریاضت کرے تو اس کو بھی کشف ہونے لگتا ہے... جیسے کہ مسلم کی حدیث شریف میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دجال سے ملاقات اور دجال کا پانی پر تخت دیکھنے کا اعتراف ہے ، جس پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ شیطان کا تخت ہے!
دیکھیے دجال جیسے کافر کا کشف بیان کیا گیا اور اس کے شیطان کے تخت کے کشف کو معرض مذمت میں بیان فرمایا... پس جو لوگ کشف و الہام کو ولایت کی علامت سمجھتے ہیں یا ہر کشف پر اعتماد کرتے ہیں ، ان کو اپنی اصلاح واجب ہے!
٭٭٭٭٭٭
الحمدللہ ثابت ہوا کہ وحی بالکل الگ اصطلاح ہے جو نبوت کے ساتھ خاص ہے اور الہام و کشف بالکل علیحدہ اصطلاحات ہیں جن کی اصل حدیث میں ہے، مگر ان میں غلطی کا برابر امکان ہے اور وہ نبوت کے ساتھ خاص نہیں!
(تحریر: محمد فیصل شہزاد)

جاوید احمد غامدی صاحب کا قادیانیت اور تصوف کے بارے میں کھلا تضاد

2 comments
اگر بات یہیں تک محدود رہتی کہ آنجناب کہتے:
"مرزا نے وہی بات کی جو شروع سے صوفیاء کہتے آ رہے تھے... بلکہ ان کے کلام میں تو خدائی کے دعوے تک ملتے ہیں... تو اگر مرزا کو مرتد اورمنکر ختم نبوت کہتے ہو تو... پھر صوفیاء کے کفر کو بھی تسلیم کرو ورنہ پھر مرزا کو بھی رعایت دینی پڑے گی!"
اگر بات یہیں تک ہوتی تو ہم یہی سمجھ لیتے کہ آپ اپنے دیرینہ موقف یعنی تصوف کو اسلام سے مقابل ایک علیحدہ دین سمجھتے ہوئے دراصل مرزا پر بات رکھتے ہوئے صوفیاء کا کفر ثابت کرر ہے ہیں!
(اگرچہ یہ پھر بھی کسی طرح نہیں ہوتا، کیوں کہ صریح کفریہ عبارات، پھر صریح دعوے، اتنے صریح کہ جو انہیں نہ مانے، اسے ننگی گالیاں دی جائیں اوراس کے مقابلے میں...
... ...چند مجمل عبارات، کلامی مباحث میں گنجلک اصطلاحات کا استعمال، کسی بھی قسم کا کوئی دعویٰ نہیں، اپنے مکاشفات کو ماننے کی دعوت نہیں اور نہ ماننے والوں کو کفر کی دھمکی اور گالی نہیں، پھر سب سے بڑی بات کہ زندگی کا ایک ایک پل سنت کے مطابق... ... ... ...تو بتائیے کہ ان دونوں میں کسی قسم کی کوئی مماثلت ہے؟... ہرگز نہیں!)
٭
مگر پھر بھی ہم اسے آپ کے دیرینہ موقف کے حق میں ایک طنزیہ الزامی دلیل سمجھ کر خاموش ہو جاتے... یا دو چار جوابی پوسٹس خاص اسی تناظر میں کر لیتے... ... ... لیکن حضور!
آپ نے دراصل ایسا نہیں کہا ناں... !
آپ نے حیرت انگیز طور پر بالکل برعکس بات کی... آپ نے مرزا کے کفر کو ثابت کرتے ہوئے صوفیاء کو متہم نہیں کیا... ... بلکہ!
آپ نے حیرت انگیز طور پر اپنے دیرینہ موقف سے 180 ڈگری کا یوٹرن لیتے ہوئے... ... ... 
اس کے بالکل برعکس
صوفیاء کے گنجلک کلام سے دلیل دیتے ہوئے مرزا کو رعایتی نمبر دینے کی کوشش کی... آپ نے صاف کہا کہ وہ نبوت کا داعی نہیں تھا... ظلی بروزی تو تصوفیانہ اصطلاحات تھیں... جنہیں سمجھا نہیں گیا... آپ نے صاف کہا کہ:
"مرزاغلام احمد قادیانی صاحب کی جو تحریریں ہیں، ان میں بصراحت نبوت کےدعوے کی کوئی دلیل نہیں!"
اور...
"میرے نزدیک مرزا صاحب نے (صوفیاء کے مقابلے میں) کچھ زیادہ غیرمحتاطی نہیں برتی!"
اور...
"مرزا صاحب نے جو کہا وہ صوفیوں والی بات ہی کہی، اور پھر تمام جگہ اس کی توجیہہ بھی کی!... ...گویا مرزا سے غلطی ہو گئی ... وہی جو صوفیاء سے ہوئی تھی... بس صوفیاء نے اپنی بات کو پبلک نہیں کیا، مرزا نے پبلک کر دیا... اور مخالفت کے ردعمل میں پھر وہ کچھ آگے چلے گئے!"
٭
مرزا کےلیے یہ ساری تاویلیں دے کر آپ اتنی فراخ دلی دکھا رہے ہیں... جس نے بہرحال آپ ہی کے کہنے کےمطابق صوفیاء سے زیادہ آگے بڑھ کر خطا عظیم کی... تو سوال یہ ہے کہ یہ فراخ دلی آپ نے کبھی صوفیاء کے لیے کیوں نہ دکھائی؟... جب کہ آپ کے پورے ایک گھنٹے کے بیان سے ( جس کے بارے میں تفصیلی پوسٹ ان شاء اللہ اگلی ہو گی) یہ ثابت ہوتا ہے کہ صوفیاء کے تین گروہ میں سے ایک گروہ نے ہی ایسی باتیں کہیں جن پر اعتراض ہوا اور ہو سکتا ہے!... لیکن آپ نے سب ہی کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا؟
اتنا واضح تضاد کیوں؟
یہ ہمارا غامدی صاحب سے سوال ہے؟
(از: محمد فیصل شہزاد)
------------------------------------------
کمنٹس:

طاہر اسلام عسکری: آپ کا اعتراض وزنی نہیں؛غامدی صاحب صوفیاء کی تکفیر کب کرتے ہیں؛ان کا تو مقدمہ ہی یہ ہے کہ جس طرح وہ کافر نہیں ،مرزا صاحب کو بھی کافر نہیں کہنا چاہیے۔اس باب میں اصل نکتہ یہی ہے کہ کیا مرزا صاحب نے نبوت کا دعویٰ کیا یا نہیں اوردوسروں کو خود پر ایمان لانے کی دعوت دی یا نہیں اور نہ ماننے والوں کی تکفیر کی یا نہیں؟؟اگر یہ باتیں ان کی اپنی تحریروں سے ثابت کر دی جائیں تو جاوید صاحب کے موقف کی خود بہ خود تردید ہو جائے گی اور یہی کام کرنے والا ہے۔

محمد فیصل شہزاد: آپ کو شاید غامدی صاحب اور ان کے معتقدین کے صوفیاء کرام کے بارے میں سخت خیالات کے بارے میں علم نہیں۔۔۔ کافر تو وہ اپنی ایک مخصوص رائے کی بنا پر کسی کو نہیں کہتے۔۔۔ مگر کفریات وہ سارے صوفیاء کے لیے ثابت کرتے ہیں!
وہ صوفیا کو سخت گمراہ، خدائی کا دعویٰ کرنے والے، دین کو ڈھانے والے، تصوف کو دین اسلام کے متوازی ایک دین وغیرہ سب کہتے ہیں!
لیکن میرا سوال ہی پوسٹ میں یہ ہے کہ دوسری طرف وہ مرزا قادیانی کو جو ان کے ہی بقول صوفیاء سے دو ہاتھ آگے بڑھ گئے کو نہایت اعلیٰ انداز میں پکارتے ہیں،
اس کی حتی الامکان برات ظاہر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
اس نے بصراحت نبوت کا دعویٰ نہیں کیا! یہ فرق کیوں؟
یہ سوال تھا بس میرا!