Monday, June 29, 2015

دل و دماغ

0 comments
دل بدن کا بادشاہ ہے،، اور دماغ اسکے ماتحت ہے،، اسکا وزیر ہے،، اسکا مُشیر ہے،، اسکا تابع فرمان ہے۔۔دل کا کام خواہشات ابھارنا اور تمنائیں پیدا کرنا ہے۔۔دماغ کا کام ہے کہ ان خواہشوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے پلان اے،بی، سی بنائے۔۔دل کا مقام دماغ سے بلند ہے اور دونوں کے فنکشنز میں فرق ہے۔۔ کیسے؟
وہ ایسے کہ خواہشات کے پیدا ہونے کا مقام دل ہے۔۔ خواہش اچھی ہو یا بُری،، اِس نے دماغ کو حکم دیناہے کہ، اوئے دماغ،، اسے پورا کرنے کا منصوبہ بناؤ۔۔ بالفرض خواہش بُری ہو تو دماغ بطور مشیر، دل کو یہ مشورہ دیتا ہے کہ عالیجاہ، یہ تمنا درست نہیں۔۔آپکو چاہئے کہ ان پنگوں میں دل لگی نہ کریں۔۔ اب دل کی مرضی ہے کہ دماغ کی مانے یانہ مانے۔۔ دونوں صورتوں میں دماغ مجبور ہوتا ہے دل کا حکم بجا لانے پر۔۔اسی طرح جذبات، کیفیات، احساسات (غصہ، محبت، نفرت، دوستی، دشمنی، حسد، تکبر، ہمدردی وغیرہ) کی آماجگاہ بھی دل ہے۔۔آئیں،Examples سے سمجھتے ہیں۔۔!
1۔ میرا دل چاہا کہ آج دفتر سے چھٹی کرلوں۔۔ دماغ نے یاد کرایا کہ آج تو ایک میٹنگ ہے، لازمی جانا چاہئے۔۔ مگر دل نے کہا، دفع کرو یہ میٹنگز اور آج آرام کرو۔۔ دماغ مختلف خدشات ٹھونستا رہا مگر دل نے ایک نہ سُنی،، یوں میں نے آج آفس سے چھٹی کرلی۔۔!
2۔ آپ کے دل کی چاہت تھی کہ 'آج میں یونیورسٹی نہیں جاؤں گا'۔۔دماغ نے سمجھایا کہ پگلے، آج بہت اہم دن ہے، فلاں فلاں کام کرنا ہے۔۔ دل نے دماغ کی مان لی۔۔ یوں آپ یونیورسٹی پہنچ گئے مگر اپنے دوست سے کہنے لگے،' آج میرا بالکل موڈ (دل) نہیں تھا آنے کا، پھر بھی آگیا ہوں'۔۔!
3۔ شوگر کے مریض کا دماغ یہ خوب سمجھتا ہے کہ میٹھی چیز سے پرہیز کرنا ہے،، مگر دل کی خواہش کے تابع گھر والوں سے چُھپ کر کھا لیتا ہے۔۔!
4۔ ایک شخص کی آمدن کم ہے۔۔ اسکا دل چاہتا ہے کہ میرے پاس مہنگا موبائل ہونا چاہئے۔۔ دماغ سازشی تھیوری بناتا ہے اور دل کی تمنا کے مطابق وہ گاڑی میں ساتھ بیٹھے مسافر کی جیب سے موبائل کِھسکا لیتا ہے۔۔!
5۔دل (بادشاہ) نے اگر یہ چاہا کہ مجھے سیروتفریح کیلئے جانا ہے، تو دماغ (وزیرِ اعظم) اس چاہت کو پورا کرنے کی تدبیر کرکے ہاتھ پاؤں وغیرہ کو انکی ڈیوٹی پہ لگا دے گا۔۔!
اس قسم کی ہزاروں مثالیں ہم اپنی عملی زندگی سے دے سکتے ہیں۔۔ایک حدیث مبارکہ یاد آگئی مجھے،، چلیں آپ بھی سُن لیں۔۔ نبی کریم ﷺ کے فرمان کا مفہوم ہے: "انسانی جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے۔ جب وہ ٹھیک رہتا ہے تو سارا جسم ٹھیک رہتا ہے۔ اور جب وہ خراب ہو جاتا ہے تو سارا جسم خرابی کا شکار ہو جاتا ہے ۔ جان لو کہ وہ دل ہے۔"
جب دل بگڑ جائے تو اس میں منفی خواہشات پیدا ہوتی ہیں،، دماغ اسکی اطاعت میں منفی تدبیریں کرتا ہے،، اور یوں پورا بدن برائی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔۔ جب دل کی اصلاح/تزکیہ ہو جائے تو اس میں سے عجب، تکبر، خودنمائی،حسد، حبِ جاہ، ریا، حبِ دنیا، عبادات میں سُستی اور شہواتِ نفسانی جیسےرزائل نکل جاتے ہیں اور خشیتِ الٰہی، عاجزی، توکل، رضا، گناہ سے نفرت اور پاکیزہ اخلاق جیسے خصائل پیدا ہوتے ہیں۔۔ایسے ہی دل میں تفکر، تدبر اور فراست کا مادہ نمودار ہوتا ہے۔۔!
ہماری غلط فہمی ہے کہ ہم نے دماغی صلاحیتوں کے استعمال کو 'عقل' کا استعمال سمجھ لیا ہے۔۔ حالانکہ 'عقل' کا مقام دماغ نہیں دل ہے۔۔ دماغی خصائل کا استعمال کرکے ہم نے بےشمار مفیدایجادات کر لی ہیں اور تسخیرِ کائنات کی تدابیر کررہے ہیں۔۔اچھا، اگر آپ یہ پوچھیں کہ کیا انسان نے دماغ کے زیرِ اثر یہ تمام ایجادات کی ہیں؟ تو میرا جواب ہو گا 'نہیں'۔۔ وجہ؟۔۔۔۔وجہ یہ ہے کہ یہ تمام احکام جنابِ دل نے دماغ صاحب کو دئیے۔۔ مثلاً دل نے چاہا کہ کوئی ایسا آلہ ہونا چاہئے جس سے میں ہزاروں میل دور موجود بندے سے گفتگو کر سکوں،، تو دماغ نے دل کی خواہش کے مطابق سوچنا شروع کر دیا کہ اب مجھے کیا کچھ کرنا ہےاس تمنا کی تکمیل میں۔۔ نتیجتاً فیس بک اور اسکائپ جیسی اشیاء ایجاد ہوئیں،، جو دل کی تمنا کے مطابق دماغ کا کیا دھرا ہے۔۔!
قرآن حکیم کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ تفکر، تدبر دل ہی کا ٹھکانہ ہے۔۔ نیز جب دل (بادشاہ) مطمئن ہو گا تو سارے اعضاء (رعایا) بھی اطمینان اور تسکین میں ہوں گے۔۔ یہ تسکین تب ممکن ہے جب دل کو اسکی غذا (ذکرِ الہٰی) پہنچائی جاتی رہے تاکہ وہ ہشاش بشاش اور زندہ رہے۔۔!
چند آیات ملاحظہ ہوں:
1۔ کیا یہ لوگ قرآن میں تدبر (غور وفکر) نہیں کرتے، یا انکے دلوں پر تالے لگ چکے ہیں۔ (سورۃمحمد-24)
2۔ انکے دل ہیں، مگر وہ سوچتے سمجھتے نہیں۔ (سورۃ الاعراف - 179)
3۔ عقل مند وہ ہیں جو کھڑے، بیٹھے، لیٹے (یعنی ہر حال میں) اللہ کا ذکر کرتے ہیں۔ (آل عمران-190،191)
4۔ آیۃ -9۔۔۔۔وہ شعور نہیں رکھتے، کیونکہ انکے دلوں میں مرض ہے۔۔۔۔الخ آیۃ-10 (سورۃ البقرہ)
5۔ اور ہم ان کے دلوں پر بند لگادیں، پس وہ سن نہ سکیں ۔ (الاعراف -100)
6۔ قرآن کانزول آپ ﷺ کے قلب پر ہوا۔ (سورۃ البقرہ -97)
7۔ جو سینوں میں (دل) ہے، قرآن اس کیلئے شفا ہے۔ (سورۃ یونس -57)
8۔ کسی آدمی کے سینے میں اللہ تعالیٰ نے دو دل نہیں بنائے۔ (سورۃ الاحزاب- 4)
امید ہے اب آپکو اس بات کی سمجھ آگئی ہو گی کہ:
حکمتِ بالغہ کے نزول کا مقام اعلیٰ دماغ نہیں،، پاکیزہ قلب ہے۔۔!!
(تحریر: محمد نعمان بخاری)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

کمنٹس

شیث: اس دل سے مراد دل ہی ہے یا پھر نفس ؟

نعمان: نفس اور شے ہے۔

شیث: ایک پردے والی بات ہے فرض کریں میرا دل کر رہا ہے کوئی غلط کام کرنے کو میرا دماغ مجھے الارم دے رہا ہے کہ یہ سخت گناہ کا کام ہے باز آجاؤ اور یوں کئی کئی دن لڑنا پڑتا ہے دل سے اور دماغ سے ، تو یہاں پر نفس کا کیا کام ہے؟ یا پھر ٹوٹل دل و دماغ کی کہانی ہے ؟ نفس کا یہاں کوئی کردار نہیں؟

نعمان: انسانی جسم کے دو حصے ہیں۔ 1- بدن 2- روح 
روح کا تعلق عالمِ امر سے ہے اور جس دل/قلب کی ہم یہاں بات کر رہے ہیں اسکا تعلق بھی روح کے پارٹس سے ہے۔۔
بدن کی تخلیق چار چیزوں سے ہوئی ہے۔ ہوا، پانی، مٹی، آگ۔۔ ان چاروں کے ملنے سے انسانی نفس بنتا ہے۔۔ یہ نفس چونکہ مادی اور فانی اشیاء سے مل کر بنا ہے،، اسلئے اسکی خواہشات اور ضروریات بھی مادی ہیں، یہ اُن دنیاوی آسائشوں کی طرف رغبت کرتا ہے جس سےمادی بدن کو تسکین ملے۔۔ 
1۔ دل مردہ ہو جائے تو انسانی نفس مضبوط ہو جاتا ہے،، اور پہلوان بن جاتا ہے۔۔ اسے نفس امّارہ کہتے ہیں۔۔ سورہ یوسف میں اسکا ذکر ہے۔۔ (وما أبرئ نفسي إن النفس لأمارة بالسوء إلا ما رحم ربي)۔ یہ ہمیشہ بدی کی دعوت دیتا ہے۔
2۔ دل کی اصلاح شروع ہو جائے تو یہ نفس کمزور ہو کر امارہ سے لوّامہ ہو جاتا ہے۔۔ یہ نیکی پر ابھارتا ہے اور برائی پر ملامت کرتا ہے۔ سورۃ القیامہ میں اس کا ذکر ہے۔۔ (ولا اقسم بالنفس اللوامہ)
3۔ دل کو مزید غذا (ذکرِ الہٰی) وافر مقدار میں فراہم کی جاتی رہے تو نفس مزید کمزور ہو کر لوامہ سے نفس مطمئنہ بن جاتا ہے۔۔ اس مقام پر بندہ اللہ کی رضا سے ہمہ وقت راضی رہتا ہے اور نیکی کو چھوڑنا مشکل ہوجاتا ہے۔۔ گناہ سے نفرت ہو جاتی ہے۔۔ سورۃ الفجر میں اسکا ذکر ہے۔۔ (یا ایتھا النفس المطمئنۃ۔ ارجعی الی ربکِ راضیۃ مّرضیہ)

ظفراللہ جلالپوری: نعمان بھائی . . آپ نے بہت ہی اچھا لکھا ماشاء اللہ. . . میں کافی دیر سے اسے مختلف جہات سے سوچ رہا ہوں . . . . . فی الحال ان تین باتوں پر روشنی ڈالیں . . . 1. دماغ اور عقل میں مساوات ہے یا کچھ اور؟؟ 2. دل صرف خواہشات ابھارتا ہے یا تفکروتدبر بھی کرتا ہے ؟ ؟ جبکہ دماغ کا غوروفکر کرنا تو واضح ہے.. اور اس سلسلے کی آیات حقیقی معنی پر ہیں یا مجازی؟؟ نیز تفسیر جلالین کے بین السطور میں قلب سے قلب_صنوبری مراد ہونا مذکور ہے.. 3. اگر دل پاکیزہ حاصل ہو مگر اعلی دماغ حاصل نہ ہو تو . . . حکمت_بالغہ کا نزول کیا نتیجہ مرتب کرے گا؟؟ اور ایسے فرد کی حیثیت کیا ہوگی ؟ ؟

نعمان: 1۔ جیسا کہ پوسٹ میں واضح ہے کہ دماغ مشیر/وزیر ہے، اور مشیر/وزیر بےوقوف نہیں ہوتا بلکہ سیانا ہوتا ہے جو سوچ کر ہی مشورہ/پلاننگ کرتا ہے۔۔ اسکا اصل کمانڈنٹ دل ہے۔۔ دل میں خیالات اُبھرتے ہیں۔۔ دل عاقل بھی ہوتا ہے اور بے عقل بھی۔۔ یہ ڈیپنڈ کرتا ہے دل کے تزکیہ پر۔۔ اگر دل اچھی خواہش پیدا کرے گا تو عاقل ہے ورنہ قرآن کے مطابق مثلِ حیوان۔۔ 
2۔ تفکر و تدبر صرف وہ دل کرے گا جو زندہ ہو گا، جس میں ایمان کی حرارت باقی ہو گی۔۔ مردہ دل مَست ہی رہتا ہے دنیاوی خواہشات میں۔۔ (اللہ کا ذکر کرنے والوں کے دل زندہ ہوتے ہیں)۔۔ یہ آیات حقیقی/باطنی قلب سے متعلق ہیں جو روح کا حصہ ہے جس میں ایک لطیفۃ ربانی ہے۔۔ ظاہراً تو کافر و مومن کا دل ایک سا ہوتا ہے،، مگر باطناً کافر/گنہگار کا دل سیاہ ہوتا ہے۔۔ یہ سیاہی تدبر کی راہ میں رکاوٹ ہے جب تک اس پر اللہ اللہ کا ریگمار نہ رگڑا جائے اور پالش نہ کیا جائے۔
3۔ پچھلے کسی کمنٹ میں' میں نے وضاحت کی ہے کہ "حکمتِ بالغہ خاص عطا ہے۔۔ ضروری نہیں ہر مومن کو نصیب ہو۔۔ مگر نصیب مومن کو ہی ہوتی ہے۔"
یعنی ضروری نہیں کہ یہ 'ہر' پاکیزہ دل کو نصیب ہو،، مگر نصیب پاکیزہ دل کو ہی ہو گی۔۔


ناقدینِ تصوف کے نام ایک پیغام

1 comments
ویسے میں تو شکر کرتا ہوں کہ میرا مطالعہ ''اُس حد تک" نہیں گیا،، جہاں تک ناقدینِ تصوف جا پہنچے ہیں۔۔ خدا کی کرنی ایسی ہوئی کہ بس بغیر پڑھے جانے ہی پتہ نہیں کیسے شعبۂ تصوف میں جا گھسا۔۔ بفضل اللہ اسکے عملی ثمرات دیکھے ہیں اور میں تصوف میں عقیدتاً اور عملاً کوئی ایک بات بھی ایسی نہیں پاتا جو قرآن و سنت کے منافی ہو۔۔ اس بات کے گواہ میرے بلاگ میں موجود میرے وہ لیکچرز ہیں کہ جس بات کو دیانتداری سے حق سمجھا،، اپنے الفاظ میں بتا دیا۔۔ بلکہ میں یہاں تک کہوں گا کہ اُن تمام پوسٹس میں کوئی ایک جملہ بھی قرآنِ حکیم اورجناب محمد مصطفیٰ ﷺ کی تعلیمات کے خلاف نظر آئے تو فوراً میرا گریبان پکڑئیے تاکہ میں رجوع کر سکوں۔۔ میں اس بات کا جواب دہ نہیں کہ فلاں صوفی نے اپنی کتاب میں کیا لکھا، اور فلاں کا نظریہ کیا تھا۔۔ وہ جانے اور اس کا رب جانے۔۔ اگر تصوف کے ذریعے کوئی شخص خدا سے رابطے کا کوئی ذاتی تجربہ رکھتا ہے تو بھلے ہی رکھے، مگر اسکا ایسا کوئی تجربہ کسی کے لئے شرعی حجت نہیں بن سکتا اور نہ ہی شرعی احکامات کو معطل کرسکتا ہے۔۔ میں اس بات کا داعی ہوں کہ خدارا اُس چیز کی طرف آئیے جو آپ کو آپکے رب کے قریب کرسکے۔۔ چاہے تو آپ بغیر فقہ و تفسیر کے خود ہی اپنے استاد بن کر قرآن و سنت کا علم حاصل کریں،، اور چاہے آپ بغیر کسی رہبر کے کیفیاتِ قلبی حاصل کریں۔۔ لیکن کریں ضرور۔۔ کوشش کرکے دیکھ لینے میں مضائقہ نہیں ہے۔۔ خود سے کرنا چاہیں تو آپکو بتا دوں کہ اس کا طریقۂ حصول سوائے کثرتِ ذکر کے اور کچھ نہیں ہے۔۔ مجھ سے پوچھیں گے تو میں آپکو کسی شیخِ کامل کی صحبت میں بیٹھ کر اللہ اللہ کرنے کا مشورہ دوں گا۔۔ پھر خود ہی روتے پھرو گے کہ اب تک ایویں ہی اپنی سادگی اور منکرین کی بظاہر پرکشش دلیلوں سے متاثر ہونے کی وجہ سے خواہ مخواہ مخالفت برائے مخالفت کرتے رہے۔۔ مگر اتنا دیکھ لیجئے گا کہ کسی ٹھگ اور قبرپرست کے ہتھے نہ چڑھ جائیں جو آپکا ایمان برباد کردے۔۔اس میں کیا شے خلافِ اسلام ہے آخر؟ کرنے کو بہت باتیں ہیں مگر سب لفظوں کا گھماؤ ہے۔۔ کوئی اپنی بات کو درست ثابت کرنے کیلئے اپنے جملوں کو منطق کی دھونی دیتا ہے تو کوئی فلسفیانہ داؤ پیچ میں دوسرے کو پچھاڑنے کی سعی میں ہے۔۔ مگر عمل کی طرف آنے کو شاید ہی کوئی تیار ہو۔۔ اپنی اصلاح کی طرف راغب ہونا اور اپنے تزکیے کی فکر کرنا بہت کم لوگوں کا نصیب ہے، پڑھنے پڑھانے اور تنقید و اصلاح والی تحریروں پر واہ واہ اور آہ آہ کرنے پر البتہ لوگوں کی اکثریت متفق ہے۔۔!
منکرین لوگ جن باتوں کو لے کر اہلِ تصوف پر برس رہے ہوتے ہیں،، مجھے وہ پڑھ کر افسوسناک ہنسی آتی ہے۔۔ بلکہ یوں کہوں تو بہتر ہو گا کہ پیار بھرا دکھ ہوتا ہے۔۔ بھئی اگر تعلیماتِ شارع علیہ السلام کے متصادم کوئی بات لگتی تو بلاتاخیر چھوڑ دیجئے۔۔ اس میں کیا مشکل ہے بھلا؟ خدانخواستہ میں اگر تصوف کا "آپ کی طرح" مطالعہ کرلیتا ،تو شاید اس شعبے کو کبھی بھی اپنا نہ پاتا۔۔ پھر میرا بھی یہی اعتراض ہوتا کہ فلاں نے یہ کہا تو کیوں کہا اور اس کا کیا مطلب ہے آخر؟ بھئی فلاں نے جو بھی کہا، وہ اسے اپنے ساتھ اپنی قبر میں لے گیا اور مجھے حسنِ ظن ہے کہ وہ وہاں راحت میں ہے۔۔!
جنابِ ناقد! انکارِ تصوف کے کئی سارے لچھے دار فقرے آپکے ان دوستوں کو ضرور متاثر ( بلکہ کنفیوژ) کر سکتے ہیں جنکی وجہ سے آپکا کاروبارِ لائک و کمنٹ چل رہا ہے،، مگر بحمدللہ ،اس شخص کو قطعاً نہیں بہکا سکتے جو عملاً سورج کی تمازت سہہ رہا ہو اور کمروں میں بیٹھے لوگ کہیں کہ رات چھا چکی ہے۔۔!!
.
(خیراندیش : محمد نعمان بخاری)

فرق تلاش کریں

0 comments
"میں تو صوفیوں کے وضع کردہ ان اشغال و اذکار کے بغیر ہی خشوع و خضوع حاصل کرلیتا ہوں، یہ سب ڈھکوسلے و ڈرامے بازیاں ہیں کہ حضور قلبی کے لئے انہیں سیکھنا ضروری ہے" ۔۔۔۔۔۔۔ تصوف کا جدید ناقد
.
"میں تو مولویوں کے وضع کردہ ان اصولوں کے بغیر ہی قرآن پڑھ کر سمجھ لیتا ہوں، یہ سب ڈھکوسلے و ڈرامے بازیاں ہیں کہ قرآن سمجھنے کے لئے انہیں سیکھنا ضروری ہے" ۔۔۔۔۔۔ مولوی کا جدید ناقد

ہے کوئی فرق؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
درحقیقت جس قدر یہ دوسرا شخص غلط ہے اسی قدر پہلا بھی غلط ہے؛ ان دونوں کی غلطی سمجھنے میں مشکل اس لئے پش آتی ہے کہ دوسرے علم کی افادیت کو ہم میں سے بہتوں نے پرکھ کر سمجھا جبکہ اول الذکر کو ہم میں سے بہت کم نے پرکھا۔ جس نے "سب کچھ  پرکھ لینے کے بعد" اسے پرکھا وہ اپنی آخری سانس تک اسی کا ہو کر رہ گیا ۔۔۔۔۔ وہ تھا غزالیؒ۔
(زاہد مغل)
_______________________

کمنٹس

عرفان شہزاد: تصوف میں جو خدا سے براہ راست رابطہ کا دعوٰی کیا جاتا ہے میرے خیال میں یہ سب سے بنیادی وجہ ہے جو تصوف کو نبوت کے ہم قدم کردیتی ہے. پھر فقہی اغلاط ہوں یا کلامی یا حکمت عملی کی اغلاط، نہایت اعتماد سے کی جاتی ہیں. غرض تصوف احتمال کی نہیں بزعم خود اعتماد کی دنیا ہے .اس اعتماد میں کوئی ولی بنے یا مہدی یا نبی سب ممکن ہو جاتا ہے۔

زاہد مغل: اگر تصوف کے ذریعے کوئی خدا سے رابطے کا کوئی ذاتی تجربہ رکھتا ھے تو بھلے ھی رکھے، مگر اسکا ایسا کوئی تجربہ کسی کے لئے شرعی حجت نہیں بن سکتا اور نہ ہی شرعی احکامات کو معطل کرسکتا ہے۔

عامر ہاشم خاکوانی: تصوف بنیادی طور پر ایک ٹریننگ سکول کا درجہ رکھتا ہے، جہاں اخلاقی تربیت کی غرض سے کچھ لوگوں نے اپنی فہم وفراست کے مطابق کوشش کر کے کچھ نصاب طے کیا، اسباق بنائے، ایک خاص طریقہ کار وضع کیا، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں تبدیلیاں آتی گئیں، بنیادی نقطہ پھر بھی تذکیہ نفس اور تربیت ہی ہے۔ تصوف کے حوالے سے گرد بہت زیادہ اڑائی گئی، کچھ ارباب تصوف کا بھی قصور ہے کہ اپنے پیر کو بڑا ثابت کرنے کے لئے بہت کچھ فسانہ طرازیان‌کی گئیں، انتہائی نجی محفلوں‌میں بیان کئے گئےواقعات یا اقوال بلا سوچے سمجھے عام کر دئے گئے ، یوں کئی مغالطے پیدا ہوئے۔ تصوف پر ہونے والی بیشتر تنقید بلاجواز ہے، ایسا کرنے والوں کی اکثریت کو تصوف کے بارے میں کچھ بھی نہیں معلوم، انہیں اس کے خلاف تعصبات ورثے میں‌ملے ہیں، مسلک سے یا اپنے فکری قائدین سے۔

محمد لطیف: اصل میں تصوف کوکوئی بھی برا نہیں کہتا۔ تصوف نما جعل سازی کوسب ہی برا کہتے ہیں- ہراصل کی نقل ھوتی ھے- جس کی نقل نہ ھووه خود نقل ہے- تصوف کی نقل/جعل سازی یہ بتاتی ہے کہ تصوف کی اصل بھی ہے- ہم لوگ اصل تصوف سامنے لانے کے بجائے جعلی تصوف کے جوازمیں دلائل دینا شروع کردیتے ہیں جو کہ غلط ہے-

تصوف پر ہی الزامات کیوں؟

0 comments
جب تصوف کے خلاف کوئی دلیل نہ بن پائے تو کہہ دیا جاتا ہے:
"تصوف کے ذریعے گمراہ کن عقیدے و طرز عمل وضع کئے گئے، پس یہ غلط ہے"۔ 
اگر یہی اصول ٹھہرا تو پھر: 
- علم تفسیر اس لئے غلط ہے کہ اس میں تفسیر کے نام پر بے سروپا اسرائیلیات کو بھی فروغ دیا گیا۔
- علم حدیث اس لئے غلط ہے کہ حدیثوں کے نام پر جعلی حدیثیں منتقل ہوئیں۔
- علم کلام اس لئے غلط ہے کہ اس کے ذریعے بے شمار گمراہ کن عقیدے وضع کئے گئے۔
- علم فقہ اس لئے غلط ہے کہ اس کے نام پر بے پناہ الٹے سیدھے "احکامات" اخذ کئے گئے۔
ہاں بھائیو، ہے کوئی ایسا دینی علم جو "اس سنہرے اصول" کی کاٹ سے بچ سکے؟ 
(زاہد مغل)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کمنٹس

عامر ہاشم خاکوانی: تصوّف کے سارے سلسلے چھوٹی چھوٹی پگڈنڈیاں ہیں جو اپنے اپنے طریق سے انجام کار شریعت کی شاہراہ سے جاکر مل جاتی ہیں۔ان پگڈنڈیوں کی اپنی کوئی الگ منزل ِمقصود نہیں۔ان سب کی مشترکہ اورواحد منزل ِمقصود شاہراہ شریعت تک پہنچانا ہے ۔ اس شاہراہ پر مزید سفر کرنے سے وہ راہ سلوک طے ہوتی ہے جس کا مقصد نسبت ِباطنی ،نسبتِ مع اللہ ،معرفت الہیٰ اور رضاءالہیٰ کا حصول ہے ۔کچھ لوگ ہمت مردانہ رکھتے ہیں اور خودبخود راہ ِ شریعت پر گامزن ہوکر زندگی کا سفر بغیر کسی تکان،ہیجان اورخلجان کے پورا کرلیتے ہیں۔ ان کی خوش قسمتی قابلِ رشک ہے اور میں انہیں دلیِ عزت واحترام سے سلام کرتاہوں۔
.
لیکن بعض لوگ ایسے ہیں جن کے قدم شریعت کی راہ پررواں ہونے سے ہچکچاتے اور ڈگمگاتے ہیں،جس طرح کچھ بچے سکول میں داخل ہونے کے بعد پڑھنے سے گھبراتے اور کتراتے ہیں۔ان کے علاج کے لیے تعلیمی ماہرین نے کنڈرگارٹن (Kindergarten) اور مونیٹسوری (Montessori) سکول ایجاد کیے ۔جن میں بچوں کو کھیل کود اور کھلونوں وغیرہ سے بہلا پھسلا کر پڑھنے لکھنے سے مانوس کیا جاتاہے ،یہ صرف چھوٹی جماعتوں کے سکول ہوتے ہیں۔ان کا مقصد یہ ہوتاہے کہ بچوں کا رجحان لکھنے پڑھنے کی طرف مائل کرکے وہ انہیں معاشرے کے عام تعلیمی نظام میں شامل کردیں۔ تصوّف کے سلسلے بھی ایک طرح کے کنڈر گارٹن اور مونیٹسوری سکولوں کی مانند ہیں جو شریعت سے بھٹکے ہوئے بندوں کو طرح طرح کے اذکار ،اشغال اور مراقبات کے انوار و آثار وتجلّیات وبرکات سے چکا چوند کرکے انہیں شاہراہ شریعت پر خوشدلی سے گامزن ہونے کے قابل بنادیتے ہیں ،اس کے علاوہ تصوّف کا اور کوئی مقصود نہیں۔۔۔
(قدرت اللہ شہاب)

تصوف کے ظروف پر چند غلط العام استدلال

0 comments
- پہلا:
جب ناقدین سے کہا جائے کہ "قرآن و سنت کو سمجھ کر احکامات اخذ (یعنی "خدا کی رضا" معلوم) کرنے کے لئے اگر یونانیوں کے وضع کردہ طرق استنباط سیکھنا سکھانا اور استعمال کرنا جائز ہے، جب کہ سنت نبوی میں انکی تعلیم کا کوئی بھی ذکر نہیں ملتا، تو صوفیاء حضورِ قلبی و نفس کی صفائی کے لئے اگر کچھ اشغال و ظروف وضع کرلیں تو اس میں مسئلہ کیا ہے"
تو اسکے جواب میں کہا جاتا ہے کہ اصول فقہ وغیرہ شرعاً اصلا مطلوب نہیں۔
تو بھائی یہ کیوں خود سے فرض کرلیا گیا ہے کہ صوفیاء کے اشغال "اصلاً شرعاً مطلوب" ہیں؟ 

- دوسرا: 
پھر کہا جانے لگتا ہے کہ اگر یہ اصلاً شرعاً مطلوب نہیں، تو صوفیاء کے سلسلے ان پر اصرار کیوں کرتے ہیں؟ نیز اپنے مریدوں کو انہی کی تعلیم کیوں دیتے ہیں؟
تو بھائی ذرا یہ تو بتائیں کہ اگر اصول فقہ اصلاً مطلوب نہیں، تو اہل مدارس سالہا سال تک تمام شاگردوں کو انہیں سکھانے کا اہتمام کیوں کرتے ہیں؟ یہاں تک کہ جو اسکا امتحان پاس نہ کرے وہ فیل قرار دیا جاتا ہے؟ اگر اس معاملے میں اہل فقہ کا "اصلاً غیر مطلوب" شے پر اس شدت سے اصرار کرنا جائز ہے تو صوفیاء کے اصرار میں کیا خرابی ہے؟

- تیسرا:
کیا براہِ راست قرآن و سنت ان مقاصد کے حصول کے لئے کافی نہیں؟
تو بھائی کیا خود قرآن و سنت احکامات (خدا کا منشا کیا ہے) بتانے کے لئے کافی نہیں کہ اس کے لئے ایسے پیچیدہ عقلی قواعد سیکھنے پڑیں؟
اصل بات اتنی سی ہے کہ اہلِ فقہ کے خیال میں "ان عقلی اصولوں کے ذریعے" عقل کو جِلا بخشنے سے کتاب اللہ و سنت سے خدا کی رضا سمجھنے (یعنی "عرفان الہی") میں مدد ملتی ہے۔ جبکہ صوفیاء کا خیال یہ ہے کہ "حضورِ قلبی کو قائم رکھنے والے ان اصولوں کے ذریعے" قلب کو جِلا بخشنے سے خدا کی طرف لَو لگانے (یعنی "عرفان الہی") میں مدد ملتی ہے۔ آخر وہ کونسی منطق ہے جسکے ذریعے اول الذکر تو جائز مگر مؤخر الذکر ناجائز ٹھرتا ہے؟ ہر گروہ نے جس شے کو کارآمد پایا اسکی اپنے شاگردوں کو تعلیم دی اور اسی پر اصرار کیا۔
(زاہد مغل)
-------------------------------------------
کمنٹس

صفتین خان: اصل اعتراض کھا گئے ۔۔ فلسفہ تصوف پر اعتراض ھے ۔۔۔ اور عملیات پر بھی اسی لئے کہ وہ اس فلسفہ کو مقصد بنا کر کی جاتی ھیں۔

زاہد مغل: فلسفہ تصوف پر ایسا کوئی بامعنی اعتراض نھیں جو لائق توجہ ھو۔
درحقیقت ناقدین تصوف کسی ایک مقام پر کھڑے ھی نھیں ھوتے۔ پھلے کھیں گے کہ اسکے ظروف و اشغال بدعت ھیں، جب اسکا جواب دے دیا جائے تو کھیں گے اسکے ذریعے گمراھیاں پھیلیں، جب اسکا جواب دے دیا جائے تو کوئی نئی بات۔ الغرض مخالفت برائے مخالفت۔

صفتین خان: جناب میں ابتدا سے ایک ھی مقام پر کھڑا ھوں ۔۔۔ مضبوط ۔۔۔ آپ تسلی بخش جواب تو دیں مان جاؤں گا۔۔

زاہد مغل: آپ اپنا اعتراض بتائیں۔

صفتین خان: فلسفہ تصوف کے تحت جو زد اسلامی علم کلام پر پڑتی ھے بشمول عقائد کے اس کی کیا توجیہہ ہے؟

زاہد مغل: یہ واضح کریں کہ "فلسفہ تصوف" سے آپ کیا مراد لے رہے ھیں؟ کیونکہ عین ممکن ہے کہ جسے میں فرض کرکے جواب دوں وہ تصور آپ کے ذہن میں ہو ہی نہیں۔

صفتین خان: جی تفصیل کیا عرض کروں آپ سمجھ گئے ھوں گے ۔۔ توحید ، رسالت اور آخرت کا تصور سمجھا دیں تصوف کے فلسفہ کے تحت ۔۔۔ مہربانی ھو گی۔

زاہد مغل: گویا آپ یہ کہنا چاہ رہے ھیں کہ تصوف توحید، رسالت و آخرت کی نفی کا نام ہے؟
میں آپ کے سوال کو پہلے واضح طور پر سمجھنا چاہ رہا ہوں (گو کہ مجھے شک ہے کہ آپ غامدی صاحب کے مضمون کے تناظر میں گفتگو کررھے ھیں جو کہ میری نظر میں اغلاط کا مجموعہ ہے)

صفتین خان: جی ہاں ۔۔ جو صورت قرآن و سنت میں بیان ھوئی ھے، فلسفۂ تصوف اس پر اضافہ کرتا ھے ۔۔۔ اس میں تبدیلی کرتا ھے ۔۔۔ اس کو کمتر درجہ کا بیان کرتا ھے ۔

زاہد مغل: ایک بات بتائیں، اگر متکلمین کے گروہ میں سے کوئی عقیدہء جبر کے ذریعے خدا کے عدل کے تصور کا مذاق بنا دے تو کیا یہ علم الکلام کی غلطی تصور ھوگی یا اس مخصوص شخص کی جس نے یہ استدلال کیا؟
اسی طرح اگر کوئی شخص اصول فقہ کے ذریعے الٹے سیدھے اجتہاد کرتا پھرے تو یہ اصول فقہ کی غلطی ھوگی، اجتہاد کی یا اس شخص کی؟

صفتین خان: جی اگر صوفیا کے گروہ میں سے کوئی ایسی بات کرتا تو آپ کی دلیل مان لیتے مگر یہاں ہر بڑا صوفی وہی فلسفہ لے کے بیٹھا ھے ۔۔ اس صورت میں یہ فکر پورے گروہ کی نمائندگی کہلائے گا کسی ایک شخص کی نہیں۔۔۔

زاہد مغل: یہ تو نرا الزام ھے۔۔ بھائی میرے اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ تصوف سرے سے عقائد کا ماخذ ھے ھی نھیں۔ عقیدہ قرآن و سنت سے ثابت ھوتا ھے۔ اگر کوئی قرآن و سنت کے خلاف کوئی تصور رکھتا ھے تو چاھے صوفی ھو، متکلم یا اصولی، سب کی بات کو یکسر مسترد کردیا جاتا ھے
جس طرح علم الکلام کسی ایک اکائی کا نام نھیں بلکہ اسے استعمال میں لاکر عقیدے کی تشریح کرنے والے متعدد افراد و گروہ ھیں بعینہہ تصوف کا حال ھے۔ غامدی صاحب کے مضمون کو میں اسی لئے اغلاط کا مجموعہ سمجھتا ھوں کہ وہ اس قدر معمولی بات سمجھنے سے قاصر رھے۔

صفتین خان: جناب بات ایک شخص کی ھو ھی نہیں رھی بلکہ وہ کتابیں جو بڑے بڑے صوفیا نے تحریر کیں اور فلسفہ بیان کیا سب ایک کہانی سنا رھی ھیں ۔۔ یہ الزام نہیں حقیقت ھے ۔۔۔ اور اگر ایسا ھے تو پھر برات کا اعلان کریں ان کتابوں اور صوفیا سے ۔۔۔مجھے نہیں معلوم تھا کہ امام غزالی ، ابن عربی ، بایزید بسطامی ، شاہ ولی اللہ ، شاہ اسماعیل ، شیخ سرہندی اور ابو طالب مکی مستند صوفیا میں شامل نہیں ۔۔۔
تصوف کے اس فلسفہ کو اگر نہ دلیلیں فراہم کی جائیں تو تصوف پر کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا ۔۔۔ یہ عمل کی اصل روح تک پہنچنے کی کوشش ھے مگر اس کو حد میں رھنا چاھئے ۔۔۔
تصوف کی امہات کتب میں سے مثال کے طور پر ابو طالب مکی کی ’’قوت القلوب‘‘ ، ابو اسمٰعیل ہروی کی ’’منازل السائرین‘‘ اور غزالی کی ’’احیاء علوم الدین‘‘ کا ایک بڑا حصہ اِنھی مباحث کے لیے خاص ہے ۔

زاہد مغل: ابن عربی و غزالی کی باتوں میں ایسا کیا ھے جس پر آپ کو اعتراض ھے؟ آپ نے ایک مضمون پڑھ کر ذھن بنا لیا مگر کیا ان کتب کی طرف رجوع کرنے کی کوشش کی جو ان خیالات کا درست محل بتاتی ھیں؟

صفتین خان: جی میں نے مضمون پڑھ کر ذہن نہیں بنایا ان کی کتابوں کو پڑھ کر کہہ رھا ھوں ۔۔

زاہد مغل: میں تو سمجھا تو کوئی بہت بڑا توپ اعتراض پیش کرنے والے ھیں، اور شاید اچھوتا۔

صفتین خان: آپ اس اعتراض کا جواب دے دیں توپ کو چھوڑیں۔۔ توپ اعتراض تو آپ کے ہوتے ھیں۔

زاہد مغل: بھائی آپ کے "اصولی اعتراض" کے بارے میں جو اوپر چند سطریں لکھ دیں وھی کافی و اصولی جواب ہے۔ اس کے بعد تو صرف چند جزئیات پر بحث رہ جاتی ھے کہ انکے معنی و تاویل کیا ھے۔

صفتین خان: آپ کا جواب تضادات کا مجموعہ اور اس بات کا ثبوت ھے کہ آپ کو خود نہیں معلوم کہ دفاعی لائن کیا ہونی چاہئے۔۔۔ پہلے آپ نے اس کو کسی جاھل صوفی کی اختراع قرار دینا چاھا۔۔ پھر اسکا محل واضح کرنا چاھا ۔۔۔ بات نہیں بنی ۔

تصوف پر بےجا اعتراضات (از: تصور سمیع)

0 comments
"چھوڑیئے صاب تصوف کی باتیں آپ کےمنہ سے جچتی نہیں ہیں ..."
ذرا بات سنیں...
یہ جوتصوف ہے ناں، یہ اکیسویں صدی کی کوئی اختراع بےجواز نہیں ہے کہ آپ کے سطحی اعتراضات اور بچگانہ استدلال کو درست تسلیم کر لیا جائے اور تصوف کو غلط قرار دے دیا جائے..
اس کی بنیادیں سینکڑوں سالہ پرانی ہیں اور اس کی عمارت میں امت کے بہترین دماغوں کاخون پسینہ لگا ہے۔ 
اگر آپ خود کو مجددِ دوراں سمجتے ہوئے تصوف کے نام  پرانکار تصوف کا اودھم مچا کر خود کو محقق دوراں ثابت کرنا چاہتے ہیں تو جناب بہت بڑی غلط فہمی میں مبتلا ہیں آپ....
آپ کےاعتراضات میں کچھ نیا پن نہیں ہے، وہی سینکڑوں سال پرانے گھسے پٹے بدنام زمانہ اعتراض ہیں، جن کےجوابات بیسیوں مرتبہ دیئے جاچکے...
صاحب، شاید آپ کومعلوم ہو، ہر زمانے میں کچھ لوگوں کوتصوف سے چڑ رہی ہے، وہ بھی اپنے پچھلوں سے مستعار لے کر اسی قسم کےسوالات کیا کرتے تھے مگر کیا ہوا؟
کیا صوفیاء ختم ہوگئے؟
خانقاہیں ویران ہوگئیں؟
سالکین متنفر ہوئے کیا؟
تصوف کی اہمیت کم ہوئی؟
کیا اہل علم وعمل نے تصوف کومسترد کردیا؟
نہیں جناب نہیں، ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ ان سب اعتراضات کے باوجود صوفیاء ہمیشہ جہالت اور بےعملی کی تاریکیوں میں رشدوہدایت کے چراغ جلاتے رہے،
سالکین خدا سے قرابت کی رہنمائی پاتے رہے،
خانقاہیں آباد رہیں اور آج تک ایسا ہورہا ہے،
توآپ کےاعتراضات سے کیا ہوگا؟
کچھ نہیں صاحب کچھ نہیں...
آپ کے روحانی والدین کو تو پھر بھی اعتراض کرنے کا ڈھنگ آتا تھا۔ لفظی موزونیت سے واقف تھے، تنقید کےآداب بھی جانتے تھے،
اس کےباوجود کچھ نہ کر پائے اور تصوف آج بھی آب وتاب کےساتھ روشنیاں پھیلا رہا ہے۔
آپ میں تواپنے روحانی مائی باپ کی کوئی ایک بھی خاصیت نہیں پائی جاتی
آپ بھلا تصوف کا کیا بگاڑ سکتے ہیں؟
جس طرح پچھلے معترضین گزرگئے آپ بھی معدوم ہوجائیں گے۔۔
تصوف کو نہ توپچھلے نقصان پہنچا پائے اور نہ آپ ختم کرسکیں گے...
چھوڑو یار کوئی ایسا کام کرو جس میں کسی کا فائدہ بھی۔ جوآپ کےلیے بھی نافع ثابت ہو۔ اوقات کےقیمتی بننے کاسبب بنئے۔ چند روزہ زندگی ہے، کیوں انہیں بےفائدہ الجھنوں میں گزارنا چاہتے ہیں آپ...
اپنے ان روحانی والدین سے ہی سبق حاصل کیجیے جواسی طرح زندگی گزار گئے اور آج ان کو یاد کرنے والا بھی کوئی نہیں...مگر تصوف اور دیگر ثابت شدہ حقیقتیں جن کی اہمیت وہ زندگی بھر سبوتاژ کرنے کی کوشش کرتے رہے، آج بھی اپنی پوری چمک دمک اور قدآوری کےساتھ زندہ وجاوید ہیں اور ہمیشہ رہیں گی...جب تک میرے خدا نے چاہا....
والسلام علیک....
(از: تصور سمیع)

تصوف اور ہمارا مؤقف

0 comments
جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں تعلیم و تعلم اور تزکیہ نفس کا کام ساتھ ساتھ ھوتا رھا. صحابہ کرام کے دور میں اور تابعین تبع تابعین کے دور میں بھی تعلیم و تعلم اور تزکیہ نفس کا کام ساتھ ساتھ ھوتا رھا. لیکن جب علوم کی تدوین اور تخصصات کا دور شروع ھوا تو تعلیم و تعلم اور تزکیہ نفس کے مستقل ادارے وجود میں آگئے. چناچہ محدثین و فقہاء نے حدیث و فقہ سے اشتغال رکھا اور صوفیاء کرام نے قرآن و حدیث کی روشنی میں تزکیہ نفس کو اپنا موضوع بنایا . انسانی آبادی کے بڑھتے مسائل کی وجہ سے کسی ایک ادارے کے لیے ممکن نھیں تھا کہ وہ تعلیم و تعلم ، تبلیغ ، جہاد ، تزکیہ نفس کو ساتھ ساتھ لے کر چلے اور ان سب سے انصاف کر سکے . چناچہ تقسیم کار ھوا اور ہر ایک نے اپنے حصے کا کام شروع کیا لیکن کبھی کسی نے دوسرے کے کام کو ہلکا نہیں سمجھا بلکہ ہر ایک دوسرے سے استفادہ کرتا رھا . تمام صوفیاء کرام بھی ائمہ اربعہ کے مقلد اور خوشہ چین رھے. صوفیاء نے تصوف کے ساتھ ساتھ جہاد بھی جاری رکھا. خود ہندوستان میں سب سے بڑی جہادی تحریک سید احمد شہید نے برپا کی جو مشہور صوفی بزرگ تھے، جن کے مرید ھزاروں میں تھے۔ اور ماضی قریب میں مفتی رشید احمد لدھیانوی مشہور صوفی بزرگ تھے، جنہیں مجاھدین آج بھی امیر المجاہدین کے نام سے یاد کرتے ھیں. دیوبندی مکتب فکر کے تمام جہادی راہنما صوفی بھی تھے.
خیر بعض حضرات یہ بھی کہتے ھیں کہ امام ابوحنیفہ تو کسی سے بیعت نہیں تھے!
یہاں دو باتیں سمجھنے کی ہیں پہلی بات تو یہ ہے کہ امام صاحب کے دور تک تعلیم و تعلم اور تزکیہ نفس کا کام ساتھ ساتھ ھوتا تھا اسی لیے آپ نے فقہ کی تعریف " معرفة النفس مالھا وما علیھا " کی ھے جس میں فقہ کے ظاھری اور باطنی دونوں طرح کے مسائل آجاتے ھیں. امام صاحب کے دور تک تو علوم کی تقسیمات نہیں ھوئی تھیں۔ یہ تو بعد میں ہوا کہ فقہ و حدیث اور تزکیہ نفس کے الگ الگ ادارے وجود میں آئے. دوسری بات سمجھنے کی یہ ہے کہ اصل مقصود تزکیہ نفس ہے نہ کہ بیعت وغیرہ. اگر کسی کی اصلاح بغیر صوفیاء کے پاس جائے ھو جاتی ھے تو اچھی بات ہے۔ تصوف کا حاصل بھی یہی ہے جیسا کہ مولانا اشرف علی تھانوی صاحب نے لکھا ہے کہ ایسے شخص کو بیعت کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔ لیکن عام طور پر دیکھا یہی گیا ھے کہ بغیر محنت و مجاہدات کے اور صحبت صالح کے اصلاح نہیں ھوتی۔ ہر شخص اس سطح کا نہیں ھوتا کہ اس کی اصلاح محض لٹریچر سے ہی ھو جائے. صحبت کے اپنے اثرات ھوتے ھیں جن سے انکار نہیں کیا جا سکتا. اس لیے اصول یہی رہے گا کہ اصلاح بغیر صحبت صالح کے نہیں ھوتی۔ ہاں بعض شاذ شخصیات ایسی بھی ھیں جن کی شریعت میں مطلوب اصلاح بغیر اصلاح کرائے بھی ھو گئی. اللہ تعالی نے بھی کبھی ایسا نھیں کیا کہ کتاب بھیجی ھو اور پیغمبر نہ بھیجا ھو۔ ھاں ایسا ھوا ھے کہ پیغمبر بھیجا گیا ھو اور کتاب نہ بھیجی گئی ھو.
یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ صوفیاء کرام کی ایک جماعت نے کسی دور میں عجمی افکار کو بھی قبول کیا اور اس چشمہ صافی کو گدلا کیا، لیکن علماء نے ان افکار و اعمال پر شدید رد کیا. ابن تیمیہ ، امام جوزی ، مجدد الف ثانی سے لے کر مولانا اشرف علی تھانوی صاحب تک سب نے صوفیاء کے باطل افکار کا رد کیا ..... . ان تمام امور کے علی الرغم ہر دور میں مادیت اور گناہوں کے ہاتھوں ستائے لوگوں نے صوفیاء کے شجر سایہ دار تلے اطمینان کا سانس لیا ھے. مسلمانوں کی تاریخ کے لاکھوں لوگوں نے اپنے باطن کی اصلاح صوفیاء سے کرائی.
تصوف کا مقصد زندگی کے حقائق سے فرار قطعا نہیں ھے۔ تصوف کا مقصد یہ ھے کہ اس زندگی میں بندہ اتنا نہ ڈوبے کہ اپنے مقصد حقیقی ہی کو بھول جائے. خلاصہ یہ ھوا کہ مقصد تزکیہ نفس ہے اور صوفیاء کا اصلاح کرنے کا انداز اس مقصد کے حصول کے لیے ذرائع اور اسباب کی حیثیت رکھتا ھے، اور یہ ذرائع و اسباب بذات خود قطعا مقصود نہیں ھیں لیکن اصلاح اور صلاح نفس کے لیے ان کی اھمیت سے انکار بھی ممکن نہیں. اعتدال کا راستہ یہ ہے کہ فقہاء ، محدثین ، مجاھدین کے ساتھ ساتھ صوفیاء کرام کی خدمات کا بھی اعتراف کیا جائے.
(از: حمزہ صیاد)

کیا تصوف شریعت کے منافی ہے؟ (از: حمزہ سید)

0 comments
کچھ احباب آج کل تصوف کے خلاف لکھ رہے ھیں اور سطحی اعترضات کی بھرمار کیے ھوئے ھیں. ایک عام آدمی تو شاید ان کی مغالطہ انگیز تحریریں پڑھ کر مغالطے میں مبتلا ھو جائے، لیکن جو لوگ تصوف کے رمز شناس و محرم راز ھیں ان پر ان کے اعتراضات کی حقیقت واضح ھے.
معترضین کا سب سے بڑا اعتراض یہ ھے کہ تصوف کے مسائل قرآن و حدیث میں نھیں ھیں. حقیقت یہ ھے کہ یہ اعتراض بڑا سطحی اور اسلامی علوم سے اور ان کی تاریخ سے جہالت پر مبنی ھے. یہ اعتراض تو فقہاء کرام کے ان مسائل پر بھی ھو سکتا ھے جن پر اس وقت مسلم امہ کا عمل ھے. ان مسائل کی صراحت بھی تو قرآن و حدیث میں نھیں ھے. بات یہ ھے کہ مسائل کا قرآن و حدیث میں صراحت سے ہونا بلکل ضروری نہیں ھے، ہاں مسائل کی بنیاد قرآن و حدیث میں ھونی چاھییے. جس طرح فقہاء کے مسائل کی بنیاد قرآن و حدیث کی نصوص ھیں، اسی طرح صوفیاء کرام کے بیان کردہ مسائل تصوف کی بنیاد بھی قرآن و حدیث کی نصوص ھیں. تصوف کے مسائل انھیں نصوص کو بنیاد بنا کر کے اخذ کیے گے ھیں.
اصل میں بعض لوگ یہ سمجھتے ھین کہ اجتہاد صرف فقہی مسائل کے ساتھ خاص ھے جو کہ درست نھیں. انسان کی پانچ باطنی قوتیں ھیں. 1عاقلہ 2 محرکہ 3 متخیلہ 4 واہمہ 5 قلبیہ .
ان پانچوں قوتوں کی صحیح نشوونما شریعت میں مطلوب ھے اور ان پانچوں کے بارے میں نصوص بھی ھیں. قوت عاقلہ کے بارے میں جو نصوص تھیں انہیں متکلمین نے موضوع بنایا اور ان میں اجتہاد کرتے ھوئے ایک مستقل علم 'علم الکلام' کی بنیاد رکھی . قوت محرکہ کے بارے میں جو نصوص تھیں ان میں فقہاء نے اجتہاد کیا اور 'علم فقہ' کی بنیاد رکھی . اسی طرح قوت قلب کے بارے میں جو نصوص تھیں ان سے صوفیاء نے اپنایا اور ان میں اجتہاد کر کے ایک مستقل علم کی بنیاد رکھی جسے سلوک اور تصوف کے نام سے جانا جاتا ھے. یہ تمام علوم ، علوم شرعی ھیں اور اجتہاد ان سب میں ھوتا ھے. یہ بہت بڑی غلط فہمی ھے کہ اجتہاد کا تعلق صرف فقہ کے ساتھ ھے. اس چیز کو نہ سمجھنے کی وجہ سے لوگ تصوف پر بےجا اعتراضات کرتے ھیں. ھاں اگر کوئی مسئلہ ایسا ھے کہ اس کی بنیاد قرآن و حدیث میں نھیں ھے تو آپ اسے نہ مانیں لیکن یہ طریقہ ٹھیک نھیں کہ آپ اس مسئلے کو بنیاد بنا کر تصوف ھی کو غیر اسلام قرار دیں.
(از: حمزہ سید)
----------------------------------
زاہد مغل: جب تصوف کے خلاف کوئی دلیل نہ بن پائے تو کہہ دیا جاتا ہے: "تصوف کے ذریعے گمراہ کن عقیدے و طرز عمل وضع کئے گئے، پس یہ غلط ہے"۔ اگر یہی اصول ٹھرا تو پھر: - علم تفسیر اس لئے غلط ہے کہ اس میں تفسیر کے نام پر بے سروپا اسرائیلیات کو بھی فروغ دیا گیا - علم حدیث اس لئے غلط ہے کہ حدیثوں کے نام پر جعلی حدیثیں منتقل ہوئیں - علم کلام اس لئے غلط ہے کہ اس کے ذریعے بے شمار گمراہ کن عقیدے وضع کئے گئے - علم فقہ اس لئے غلط ہے کہ اس کے نام پر بے پناہ الٹے سیدھے "احکامات" اخذ کئے گئے ہاں بھائیو، ہے کوئی ایسا دینی علم جو "اس سنہرے اصول" کی کاٹ سے بچ سکے؟

صالح محمد: مفتی تقی عثمانی، پیر ذوالفقار نقشبندی، مولانا عبدالستار, عبداللہ فیروز میمن، مولانا محمد اکرم اعوان اور مفتی عبدالرؤف سکھروی جیسے چند حضرات کے پاس کچھ دن گزارنے کے بعد بھی کوئی اشکال بچے تو پھر کہنا…. معترض کا علم مولانا سید سلیمان ندویؒ جتنا تو ہو نہیں سکتا ..وہ بھی حضرت تھانویؒ کی خانقاہ آتے ہیں تو انہیں 3 دن تک خاموشی سے صرف مشاہدہ کرنے کا حکم ہوتا ہے.. شروع میں ہزار سوالات کلبلاتے ہیں.. اشکالات دماغ میں تابڑ توڑ حملے کرتے ہیں.. اعتراضات انگڑائیاں لیتے ہیں…. مگر تیسرے دن کیا منظر ہے کہ درِ آستاں پہ بیٹھے زار و قطار رو رہے ہیں…. ہچکیاں بندھ گئیں ہیں.. سب سوال ختم.. اشکال غائب.. گویا بن پوچھے ہی ہر اعتراض کا جواب مل گیا……
؎ یہاں تو سر سے پہلے دل کا سودا شرط ہے یارو
کوئی آسان ہے کیا سرمد و منصور ہو جانا

زاہد مغل: کائنات کی عظیم وسعتوں کا بذریعہ فزکس مطالعہ کرنے والا شخص اس علم کی بدولت خدا کی خدائی و کبریائی کا عارف بن کر جس طور ہیبت ذدہ ہوسکتا ہے وہ شاید فزکس سے انجان شخص کے لئے ممکن نہیں کہ اس نے اس وسعت کا مشاہدہ کیا ہی نہیں۔ حساب کے پیچیدہ اصولوں کی مدد سے کائنات پر غور و فکر کرنے والا "ھل تری من فطور" کا جو مشاہدہ کرسکتا ہے وہ حساب سے انجان شخص کے لئے ہرگز ممکن نہیں۔ اگر ان علوم کے ذریعے خدا کی معرفت کے ایسے دریچے کھلنا ممکن ہیں تو آخر ایک گروہ کے اس دعوے کو ماننے میں کونسا استحالہ لاحق ہے کہ وہ ایک ایسے علم سے واقف ہیں جو چند ایسی حقیقتوں سے پردے اٹھا سکتا ہے جو اس علم سے ناواقفوں پر مخفی رہتی ہیں؟ آخر کونسی شرعی و عقلی دلیل اس دعوے کا انکار کرنا لازم ٹھہراتی ہے؟

اگر حاملینِ تصوف کوتاریخ سے نکال دیا جائے تو۔۔ (از: سید متین احمد)

0 comments

"تصوف کے بارے میں اکثر یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ 
اگر تصوف کے حاملین کو تاریخ اسلام سے نکال دیا جائے تو پیچھے رہ کیا جاتا ہے؟"

تمام قابل ذکر محدثین، مفسرین، فقہاء وغیرہ کی سوانح کو دیکھا جائے تو ان میں چند باتیں نمایاں ہیں :
1۔ فقہ میں مذاہب اربعہ کے پیرو ہیں۔
2۔ عقائد میں معروف مذاہب سے منسوب ہیں۔
3۔ کسی روحانی شیخ سے تربیت یافتہ ہیں. 
اگر یہ لوگ اسلام کے وفادار نہیں تھے، اور ہندؤوں کے افکار سے بھی اسلام کو نہیں بچا سکے، تو آج قرآن حدیث قرآن حدیث کی تسبیح پڑھنے والے لوگ اس بات کی کیا ضمانت دیتے ہیں کہ ان لوگوں کے ہاتھوں منتقل ہونے والے اسلام کے یہ سر چشمے محفوظ حالت میں ہیں؟ 
اگر ان کا دعویٰ یہ ہے کہ بے آمیز اسلام صرف ان کے دیانت دار دماغ مبارک نے دریافت کیا ہے، تو پھر ان سے علمی مناظرہ کرنے کے بجائے انہیں دماغی شفا کے لیے خمیرۂ گاؤ زبان تجویز کرنا چاہیے۔
(از: سید متین احمد)

علم الاحسان و السلوک

0 comments

صدر اول میں تعلیمی عمل کی نوعیت ایسی ہوا کرتی تھی کہ ایک ہی عالم قران بھی پڑھا رہا ہے وہی عالم حدیث ، فقہ اور احسان و سلوک کی تعلیم بھی دے رہا ہے یعنی اس وقت ان الگ الگ علوم کو انفرادی حیثیت حاصل نھیں تھی بلکہ یہ سارے علوم ایک ہی علم قران و حدیث کی تضمین و تشریح سمجھی جاتی تھی . وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ ان تمام علوم میں تنوع پیدا ہوتا رہا اور ان علوم نے انفرادی حیثیت اختیار کرلی جس کے نتیجے میں علم التفسیر ،علم الحدیث ، علم الفقہ و علم الاحسان و السلوک (جو بعد میں تصوف کے نام سے جانا پہچانا گیا ) جداگانہ علوم کے طور پر سامنے آئے علم الاحسان کو جدا حیثیت دینے والوں میں مشھور تابعی امام سعید ابن مسیب رح کا نام مشھور ہے .
اب اگر کوئی مطلق علم الاحسان و السلوک کو بدعت کہتا ہے تو یہ ایسا ہی جیسے کوئی علم الحدیث و اصول الحدیث اسی طرح علم فقہ و اصول الفقہ کو بدعت کہہ رہا ہو ..
(از: عمار خان)

تصوف کیوں ضروری ہے؟

0 comments
تب ساتویں آسمان سے جبریل وحی لے کر آقائے مدنیﷺ کے پاس آتے تھے تو نطقِ مبارک سے جیسے ہی الفاظ ادا ہوتے تھے تو وہ صحابہ کرام ؓ جن کے ’’سمعنا اور اطعنا‘‘ میں کسی نینو سیکنڈ کا بھی وقفہ نہیں ہوتا تھا ‘اور وہ جس سماج میں جی رہے تھے وہاں ہر فتنے کی کمر توڑ ڈالی گئی تھی‘ تو انھیں ’’ان تخشع قلوبھم لذکر اللہ‘‘ جیسا کوئی بھی اسلوب سن کر کسی اضافی ذریعے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی تھی۔۔۔۔ اور تب ہو بھی کیسے سکتی تھی۔۔۔۔
ہاں البتہ!
پھر ہمتیں پست ہوئیں!!! سماج کی پسند ناپسند بدلنے لگی!!! مادیت کی یلغار نے سماج سے ’’ابو ذر غفاریؓ‘‘ ، ’’سلمان فارسی ؓ‘‘ اور ’’بلال حبشی ؓ‘‘ جیسے زہدِ نبوت کے پرتو پوشید ہ کرنے شروع کر دیے !!! علوم کے سبھی شعبوں میں چیزوں کو مدون کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی!!!تو وہ رب ِقدیر جس نے فرمایا کہ ’’ہم ہی الذکر کونازل کرنے والے ہیں اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں‘‘ اُسی نے دوسرے علوم کے ساتھ اسے بھی مدون کروایا!!!
جی ہاں!
اب پھر سے ہوا کہ کسی کو زہد کا ایسا نمونہ بننے کی چاہت ہے تو وہ آئے اُن قدسی نفوس کے پاس کے جن کی مجلس میں آتے ہی وہ رب کی یاد سے غافل کر دینے والے دنیا داری کے جھنجٹوں کو پیچھے چھوڑ آئے!!! یہاں اب چراغ سے چراغ جلتے تھے!!! یہاں صحابہ کرامؓ کا زہد عملا برتا گیا کہ کوئی آیا اور سب ہاتھ جھاڑ کر بس اللہ کی یاد دل میں بسا کر لے گیا!!! اور پھر صدیوں بعد بھی لوگوں کے لیے ممکن رہا کہ اگر صحابہ کا زہد دیکھنا ہے تو وہ عملا کیسے ہوتا ہوگا!!!
آپ صوفیائے کرام کو غلط کہنا چاہتے ہیں!
کہہ لیجیے!!!
مگر ذرا رُکیے گا!!!
اہل حق صوفیاء کے علاوہ صحابہ کا زہد کسی طبقے میں دکھا تو دیجیے جنھوں نے ویسے ہی برتا ہو!!! 
صاحب !
اگر’’اَن تخشع قلوبھم لذکر اللہ‘‘ جیسے اسالیب آج بھی کسی مجلس میں بغیر کسی اضافی محنت کروائے ویسا ہی اثر رکھتے ہیں کہ دل ویسے ہی ہو جائیں جیسے زبان رسالت مآب ﷺ سے سن کر ہوتے تھے تو بتلا دیجیے وہ طبقہ۔۔۔ ہم چھوڑے دیتے ہیں تصوف!!! ہمیں تصوف اپنی ذات میں عزیز نہیں ہمیں تو رب کی رضا چاہیے جہاں سے بھی رستہ ملے!!!
نبی پاکﷺ کے تمام کمالات کسی ایک صحابی میں جمع نہیں تھے!!! پھر بعد میں کسی میں کیسے ہوسکتے ہیں۔۔۔ یہ جوصحابہ کرام ؓ کی صفات آتی ہیں ناں کہ یہ حلال و حرام کو سب سے زیادہ جاننے والے ہیں، یہ صدق میں سب سے بڑھ کر ہیں وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔
تو !!!
آج ۔۔۔ یہ صفات بھی علیحدہ علیحدہ ہی ملیں گیں۔۔۔۔ کسی ایک طبقے میں اکٹھی ملنا عملا ً ممکن ہی نہیں۔۔۔ صوفیاء ہوں، علماء ہوں مجاہدین ہوں‘ دعاۃ ہوں وغیرہ۔۔۔ یہ سب میرے آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی صفات و کمالات کے محافظین ہیں۔۔۔ ان میں کوئی دوری نہیں۔۔۔
اور ہاں!
کھوٹ تو ہر جگہ ہوتا ہے۔۔۔۔ کسی طبقے کو کھوٹ سے پاک ماننا تو عقلا محال ہے۔۔۔ یہ ڈاکٹر، انجینر کتنے کتنے دو نمبر ہوتے ہیں ان میں۔۔۔ علم کے نام لیوا بھی کتنے ہیں جو صرف دنیا کمانا چاہتے ہیں۔۔۔ 
تو صاحب! 
تصوف میں بھی ہر وہ بات جس کے غیر شرعی ہونے پر شرح صدر ہوجائے وہ کسی بھی دوسرے طبقے کی غیر شرعی توجیہ کی طرح ناقابل اعتبار۔۔۔ کہ اصل تو وہ رب ہے۔۔۔ بس یہی چاہت ہے کہ کل وہ حشر میں اعلان کردے کہ میں اپنے اس بندے سے راضی۔۔۔۔!
(تحریر: اشتیاق احمد)

تصوف کی تعریف کا مسئلہ

1 comments

ناقدینِ تصوف کا کہنا یہ بھی ہے کہ اس کی کوئی ایک جامع اور مانع تعریف نہیں۔
تو صاحب!
پھر علم تفسیر، حدیث، فقہ وغیرہ کسی کی بھی کوئی ایک جامع اور مانع تعریف ہے جس پر اُس علم کے کبار حاملین کا اتفاق ہو۔ 
یا
پھر زبانِ رسالت مآب ﷺ سے ان کی اصطلاحی تعریفات منقول ہوں۔۔
تو پھر اپنے اس اصول پر ان سب کو بھی چلتا کیجیے۔۔۔۔


صاحب! اگر لفظِ تصوف کو اِس کی اصطلاحی تعریف کے ساتھ عہد نبوت میں نہ پا کر انکار کرنا درست ہے، تو پھر علوم کے تدوینی دور میں ہوئی ساری علمی کاوش (تفسیر حدیث ۔۔۔) پر بھی پوری Intellectual Honesty کے ساتھ موٹے نب والا قلم پھیر ڈالیو۔

(اشتیاق احمد)ٰ

کیا طریقت شریعت کے علاوہ کوئی شے ہے؟ (از : محمد فیصل شہزاد)

0 comments
سلوک و احسان کے چشمہ صافی پر گزشتہ ایک صدی میں جاہل اور غالی صوفیاء کے تصرف کی وجہ سے غلط فہمی اور بدگمانی کی ایسی دبیز اور گرد آلود تہہ بیٹھی ہے کہ چودہ سو برسوں سے دین حنیف کا تزکیہ نفس کا یہ مسلمہ شعبہ، اب بحث و تمحیص کا میدان کارزار بن گیا ہے... جس کا عکس آج کل فیس بک پر بھی دیکھا جا سکتا ہے... دراصل ہوا یہ کہ دین کے اور شعبوں کی طرح اس شعبے میں بھی دو انتہا ئیں پیدا ہو گئیں جن کی وجہ سےغلط فہمیاں پیدا ہوئیں... دونوں کی سوچ ایک مگر نتیجہ مختلف رہا... ایک خشک علماء کا گروہ جو کہنے لگے کہ تصوف کوئی چیز نہیں، یہ سب واہیات ہے... بس نماز، روزہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے، اسی کو کرنا چاہیے، گویا ان کے نزدیک قرآن و حدیث تصوف سے خالی ہیں... دوسری انتہا پر جاہل صوفیاء کا گروہ تھا جو کہتے تھے کہ قرآن و حدیث میں تو محض ظاہری احکام ہیں جو حجاب ہیں ... تصوف ایک باطنی علم ہے جو شریعت سے بالکل علیحدہ کوئی چیز ہے اور وہی اصل مراد ہے... سو نعوذ باللہ قرآن و حدیث ہی کی ضرورت نہیں... یوں دونوں انتہا پسند گروہوں نے قرآن و حدیث کو سلوک و احسان المعروف تصوف سے خالی سمجھا... پھر اپنی اپنی رائے کے مطابق ایک نے تو تصوف کو چھوڑ دیااور یوں کمال دین سے محروم ہو گیا... اور ایک بدبخت گروہ نے قرآن و حدیث کو ہی چھوڑ دیا اور کفر اختیار کیا!
ان دونوں انتہاؤں کےدرمیان محققین علماء کرام تھے، جو درحقیقت وارث انبیاء ہیں... انہوں نے نہ صرف شریعت کے اس اہم جز کو تھامے رکھا، ہر غلط ور زائد شے سے اس کی صفائی فرماتے رہے...بلکہ اپنی مساعی سے یہ ثابت بھی کیا کہ سلوک و احسان کچھ شریعت سے متصادم نہیں بلکہ عین شریعت ہے... اسی کی تفصیل ہم ذیل کی سطور میں پیش کر رہے ہیں۔
سب سے پہلا اعتراض منکرین تصوف کا یہ ہوتا ہے کہ... تصوف کا نام یا مخصوص ترتیب حضو راکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نہیں تھی...!
یہ نہایت سطحی اعتراضات ہیں... نام سے تو ہمیں کوئی مسئلہ نہیں... لفظ تصوف سے آپ کو مسئلہ ہے تو طریقت یا سلوک و احسان کہہ لیجیے... اگر اس میں بھی پریشانی ہے تو کوئی بات نہیں... آپ تزکیہ نفس کہہ لیجیے اور اس پر آپ کوئی اعتراض نہیں کرسکتے کیوں کہ قرآن و حدیث لفظ تزکیہ سے بھرے پڑے ہیں!
اور جہاں تک اس بات کا سوال ہے کہ تصوف بطور علم حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں نہیں تھا تو میرے بھائی... حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تو علم حدیث و اصول فقہ و علم کلام وغیرہ کچھ بھی جدا جدا نہ تھا... بلکہ تابعین اور تبع تابعین کے دور میں جب ہمتیں پہلی سی نہ رہیں... انفاس میں صحابہ کرام کی سی جامعیت نہ رہی... اسلام کی دور درازتک اشاعت ہونے کی وجہ سے نت نئے مسائل سامنے آنے لگے تو یہ ضرورت سمجھی گئی کہ شریعت جو تمام ظاہری و باطنی علوم و اعمال کا مجموعہ ہے، ان تمام پر جداگانہ محنت کی جائے...اس موقع پر یاد رہے کہ شروع میں لفظ "فقہ" شریعت کے ہم معنی استعمال ہوتا تھا... یعنی یہ صرف اعمال ظاہرہ سے متعلق نہیں تھا بلکہ اعمال ظاہرہ و باطنہ دونوں کو جامع تھا... خود امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے فقہ کی تعریف : معرفۃ النفس مالھا و ما علیھا (نفس کے نفع اور نقصان کی چیزوں کوپہچاننا) منقول ہے... بعد میں متاخرین کی اصطلاح میں لفظ "فقہ" کو انہوں نے شریعت کے اعمال ظاہرہ سے متعلق جزو کے لیے مخصوص کر دیا... جب کہ دوسرے جزو متعلق اعمال باطنہ کا نام "تصوف" ہو گیا...پس ثابت ہوا کہ یہ دونوں جز شریعت سے ہی متعلق ہیں... اور جو جاہل عوام میں یہ بات مشہور ہو گئی ہے کہ شریعت احکام ظاہرہ کو کہتے ہیں اور تصوف یا طریقت اعمال باطنہ کو... یہ تعبیر کسی طرح ٹھیک نہیں بلکہ شریعت جامع ہے فقہ (یعنی ظاہری اعمال سے متعلق احکام) اور طریقت ( یعنی باطنی اعمال سے متعلق احکام) کو!
اب جب قرآن و حدیث سے استنباط کر کے علوم نکالے گئےتو ہر ایک کا علیحدہ نام بھی تجویز ہوا... اور ان پر بنیادی محنت کرنے والوں کو سب نے امام مانا... امام اعظم ابو حنیفہ،امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ وغیرہ فقہ کے امام ... اوراسی طرح امام بخاری اور مسلم رحمہم اللہ اپنے تبحر فی الحدیث کی وجہ سے حدیث کے امام مانے گئے... اسی طرح تزکیہ باطن کی تعلیم دینے والے بزرگان دین مثلاً حضرت جنید بغدادی ، شیخ عبدالقادر جیلانی، خواجہ بہاؤ الدین نقشبندی، خواجہ معین الدین چشتی، شیخ شہاب الدین سہروردی رحمہم اللہ وغیرہ کو سب نے ہی اس علم میں پیشوا مانا... اور وہ تصوف کے شیخ کہلائے...!
اب ہوا یوں کہ اپنے اپنے علمی میدان میں تو سب اسپیشلسٹ کہلائے مگر وہ ایک دوسرے سے مستغنی نہیں ہو گئے... کیوں کہ اسی طرح وہ پورے دین پرکامل چل سکتے تھے... سو ہم دیکھتے ہیں کہ تمام ائمہ تصوف ظاہری علوم میں کسی نہ کسی امام فقہ کی پیروی کرتے رہے اور کبھی اس سے باہر نہ ہوئے...اور اسی طرح تمام ائمہ فقہ اور ائمہ حدیث نے اپنے تمام علم و فضل کے باوجود تصوف کی لائن میں کسی نہ کسی شیخ سے بیعت رہے اور اجازت ملنے پر آگے بھی بیعت کرتے رہے!
اب اعمال ظاہرہ اور اعمال باطنہ کی تفصیل پیش کرتے ہیں... تا کہ معلوم ہو کہ یہ جو ہم بار بار "اعمال باطنہ" کہہ رہے ہیں، یہ کوئی باطنیہ تحریک کی طرح کسی خفیہ، پوشیدہ چیز یا سحرانگیز علوم و اعمال کا نام نہیں بلکہ کلام اللہ اور کلام رسول اللہ میں بیان کردہ صاف صاف احکام ہیں جن سے ہر خاص و عام خوب واقف ہے!
دیکھیے ظاہری بدن یا ظاہری چیزوں سے متعلق شریعت کے احکام کلمہ پڑھنا، نماز روزہ، حج زکوٰۃ، والدین کی خدمت اور تبلیغ و جہاد وغیرہ ہیں ان کو مامورات کہتے ہیں... اور اس کے برعکس کلمات کفر کہنا، شرکیہ افعال کرنا، زنا، چوری، سود خوری وغیرہ کو مناہی کہتے ہیں...جن سے بچنا ضروری ہے... بالکل اسی طرح بعض اعمال صالحہ ایسے ہیں جن کا تعلق باطن سے ہے... مثلاً ایمان و یقین، اخلاص، صبر و شکر، توکل، رضا بالقضاء اور محبت الٰہی و رسول وغیرہ...ان کو اوصاف حمیدہ یا فضائل کہتے ہیں اور اس کی ضد یعنی عقائد باطلہ،تکبر، ریا، ناشکری، بے صبری، حسد اور عجب وغیرہ یہ رذائل کہلاتے ہیں، جن سے شریعت نے منع کیا ہے!
اب دیکھیے جس طرح قرآن مجید میں امر کے صیغے کے ساتھ نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دیا کرو کے احکام موجود ہیں... تو بالکل اسی طرح امر کے صیغے کے ساتھ (یاایھا الذین امنو ااصبرو) اے ایمان والو! صبر کرو اور(واشکرو) یعنی اللہ کا شکر بجا لاؤ بھی تو موجود ہے... اگر ایک جگہ پر (قد افلح المومنون الذین ھم فی صلوتھم) ہے تو اس کے ساتھ ہی (خاشعون) بھی تو لگا ہوا ہے تو کیا وجہ ہے کہ جب صلوتھم سے نماز کے ظاہری رکن مطلوب سمجھے جاتے ہیں تو پھر (خاشعون) سے خشوع کو مطلوب کیوں نہیں سمجھا جاتا، حالاں کہ دونوں حکم ضروری ہیں!
اسی طرح جہاں (اذا قاموا الی الصلوٰ ۃ قاموا کسالیٰ) یعنی جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو سستی سے کھڑے ہوتے ہیں (ظاہری عیب) مذکور ہے تو اس کے ساتھ ہی (یراءون الناس) یعنی لوگوں کو دکھلاتے ہیں (ریا باطنی عیب) بھی تو موجود ہے!
اگر ایک مقام پر روزہ اور حج فرض بتایا گیا ہے تو دوسرے مقام پر ( والذین امنو ا اشد حبا للہ)یعنی جو ایمان والے ہیں، وہ اللہ سے بہت محبت رکھتے ہیں) بھی تو بتایا گیا ہے... تو کیا ایمان والے محبت کے سوز و گداز سے خالی روزے رکھتے اور حج کرتے رہیں گے... اس محبت کی جوت اپنے دل میں جگانے کی کوشش محنت نہیں کریں گے...؟؟؟
تو ثابت ہوا کہ جس طرح اعمال ظاہرہ حکم خداوندی ہیں، اسی طرح اعمال باطنہ بھی حکم خداوندی ہیں... اور یہ دونوں اعمال ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم اور دائمی کامیابی کے لیے ضروری ہیں.. بلکہ ظاہری اعمال سے باطنی اعمال ایک درجہ اس لیے بڑھ کر ہیں کہ مثلا ایک مسلمان ساری زندگی ظاہری اعمال ، یعنی نماز، روزہ نہیں کرتا مگر انکار بھی نہیں کرتا تو وہ بہرحال مسلمان ہے مگر اگر وہ ایمان سے ہی ہاتھ دھو بیٹھے تو کتنے ہی ظاہری اعمال کر لے، کوئی فائدہ نہیں... اس تزکیہ نفس سے ہی متعلق اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے:قد افلح تزکھا......
"بے شک جس نے (نفس کو )صاف کیا، کامیاب رہا اور جس نے میلا کیا ناکام رہا۔"
اسی طرح دوسری جگہ یوم حشر کے متعلق ارشاد ہے: "اس دن مال اور اولاد کام نہ آئیں گے مگر جو شخص اللہ کے پاس سلامت قلب لے کر آیا!"
تو دیکھیے مدار نجات قلب کی درستی اور تزکیہ نفس پر ہی منحصر ہوئی... اور ہمیں اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ظاہر میں جتنے اعمال ہیں، وہ دراصل ایمان ہی کی تکمیل کے لیے ہیں اور ایمان کا محل تو ظاہر ہے کہ قلب (یعنی باطن) ہے... پس معلوم ہوا کہ اصل مقصود دل کی اصلاح ہے جو بمنزلہ بادشاہ کے ہے... اور اعضاء اس کی رعایا ہیں... بادشاہ درست ہو جائے تو رعایا خودبخود اس کی مطابقت کرنے لگتی ہے! 
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مشہور ارشاد تو سب نے ہی سنا ہو گا کہ 
"بے شک آدمی کے بدن میں ایک گوشت کا لوتھڑا ہے جب وہ درست ہو جاتا ہے تو تمام بدن درست ہو جاتا ہے اور جب وہ بگڑ جاتا ہے تو تمام بدن تباہ ہوجاتا ہے، سن لو وہ دل ہے!"
تو سوچنے کی بات ہے کہ کیا حضور کا اشارہ اس حدیث میں دل کے ظاہری فنکشن کی طرف تھا یا قلب کی روحانی حیثیت اجاگر کرنا تھا؟
اسی طرح عموما ہم تقویٰ کوصرف ظاہری جوارح سے متعلق سمجھتے ہیں مگر مسلم کی ایک حدیث میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک نقل ہوا ہے: "تقویٰ یہاں ہے اور سینے کی طرف اشارہ فرمایا۔" (مسلم)
اب ان دو صفات یعنی ایمان اور تقویٰ سے متعلق اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا مفہوم ملاحظہ فرمائیے:
آگاہ ہو جاؤ کہ بے شک اللہ کے اولیاء پر نہ کچھ خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے ، یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور تقویٰ اختیار کرتے ہیں۔ ان کے لیےدنیا و آخرت کی زندگی میں بشارت ہے!
اس آیت میں ولایت کا مدار دو چیزوں یعنی ایمان اور تقویٰ پر فرمایا گیا ہے... اور سمجھ لیجیے کہ مثل نماز روزے کے یہ بھی فرض و واجب ہے اور یہ دونوں چیزیں اپنے کامل ہونے میں بغیر اصلاح باطن کے حاصل نہیں ہوتیں... کیوں کہ جیسا کہ پہلے عرض کیا، دونوں ہی کا تعلق باطن یعنی قلب سے ہے!
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک اور مشہور ارشاد کو بیان کر کے قسط ختم کرتے ہیں۔فرمایا:
"احسان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اس طرح عبادت کرو کہ گویا تم اس کو دیکھ رہے ہو۔ اگر تم اسے نہیں دیکھتے تو وہ تمہیں دیکھ رہا ہے!"
معلوم ہوا کہ عقائد ضروریہ اور اعمال ظاہرہ کے علاوہ ایک اور چیز بھی ہے جسے حدیث میں "احسان" (یعنی حضوری) کہا گیا ہے اور جو طریق باطن میں سے ہے... اور چودہ سو سال سے لاکھوں معتبر آدمیوں کی شہادت موجود ہے کہ بغیر مخصوص طریق کے یہ نصیب نہیں ہوتی... بے شمار نیک روحوں کا مشاہدہ صدیوں سے ہے کہ اہل تصوف کے پاس بیٹھنے سے ایک نئی حالت اپنے قلب کی محسوس ہوتی ہے جو اس سے پہلے نہیں ہوتی... اور اس مبارک حالت کا اثر یہ ہوتا ہے کہ انسان کو طاعت سے طبعاً رغبت ہونے لگتی ہے اور معاصی سے نفرت...اس کی تائید میں بزرگوں کے کشف و کرامات بھی اس درجے منقول ہیں کہ جس کی انتہا نہیں اور یقیناً ان سب کا غلط ہونا محال ہے!
قسط کے آخر میں عرض ہے کہ یہ جو کچھ اوپر لکھا گیا، یہی تصوف کی اصل تعریف ہے اور یہی تصوف کا مقصود ہے... باقی جہاں تک مقامات کی بات ہے تو انہی اوصاف حمیدہ کے حصول یعنی "تحلیہ" اور اخلاق ذمیمہ کو دور کرنا (جسے تخلیہ بھی کہا جاتا ہے) کو ہی صوفیاء کی اصطلاح میں "مقامات" کہا جاتا ہے، یہ کوئی الگ بات نہیں... ان کے حصول کے لیے جو مجاہدات یا ریاضتیں کروائی جاتی ہے، اس کے بارے میں اگلی اقساط میں بات ہو گی ان شاء اللہ!
ان کے علاوہ دیگر کیفیات و احوال کی اصل بھی اگرچہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے مگر چونکہ ایک تو وہ مقصود نہیں، اور دوجے ان پر نجات کا دارومدار بھی نہیں بلکہ...
اگر یہ کہوں کہ کیفیات و احوال کی حیثیت تو بچے کو بہلانے والے کھلونوں سے زیادہ بھی نہیں تو غلط نہ ہو گا...اس لیے وہ کمال کا لازمہ تو کیا ہوتے، اس کے برعکس ان کا نہ ہونا کمال ہے کیوں کہ یہ مبتدی کو اور ضعفاء کو راہ آسان کرنے کے لیے عارضی طور پر دیے جاتے ہیں... اور چونکہ تمام اعتراضات انہی کیفیات و احوال پر ہی عموما وارد کیے جاتے ہیں اس لیے ان کو ہم اسی درجے میں رکھتے ہیں کہ اگر کسی کا دل ان سے مطمئن نہیں ہوتا تواپنی ذات کی حد تک انکار کردے... اس کا کوئی مسئلہ نہیں مگر... اس کی آڑ میں بزرگوں پر طعن نہ کرے کہ یہ بدبختی کی علامت ہے!
اب ناقدین تصوف سے گزارش ہے کہ بتائیں اس تفصیل میں کیا چیز شریعت پر اضافہ ہے؟
(تحریر : محمد فیصل شہزاد)

Sunday, June 28, 2015

صوفیاء پر اعتراض بے معنی ہے

0 comments
کچھ لوگوں کی رائے میں دین کا بیڑا متکلمین نے بٹھایا جنہوں نے امت کو بیکار کی کلامی و فلسفیانہ موشگافیوں میں الجھا کر فکری گمراہیوں کی راہ ہموار کی۔ کچھ کے خیال میں اصول فقہ و فقہ والوں نے دین کا کباڑا کیا جنہوں نے امت کو قرآن سے دور کرکے انسانوں کے فہم کے پیچھے لگا دیا۔ ایسے میں اگر کچھ لوگوں کا یہ خیال بھی ہے کہ صوفیاء نے دین کا بیڑا غرق کیا تو کونسی حیرانی کی بات ہے؟
(زاہد مغل)
-------------------------------------------
کمنٹس

حسن معاویہ: ایک بات تو ہے ۔۔ جتنے غیر اسلامی نظریات دین میں داخل ہوئے اکثر تصوف کے راستے سے ہی آئے۔

زاہد مغل: ایک بات تو ہے ۔۔ جتنے غیر اسلامی نظرییہ علم الکلام کے ذریعے جو کچھ غلط عقیدے اسلام مییں در آئے تھے انکا کیا؟ خوراج و معتزلہ کیا صوفی تھے؟

ھمایوں رشید رانا: کسی چیز کا غلط استعمال اسکی اعلی شان کی غمازی کرتا ہے جیسے عیسی علیہ السلام اور علی رضی اللہ عنہ. اصل کی مخالفت نہیں بلکہ غلط استعمال کی مخالفت پر کام ہونا چاہئے.

شریف ہزاروی: تصوف کے راستے سے کوئی غلط عقیدہ نہیں آیا۔ البتہ ہر اچھی چیز کے غلط استعمال سے بگاڑ پیدا ھوتاھے۔

Nassah La Isabba: حضرت،،،مسئلہ یہ ہے کہ میں ان اکابرین کے اقوال کا کیا کروں جس میں صوفیاء کی احادیث سے ہاتھ دهونے کی بات کی ہے؟ انکے فقہی اقوال کو رد کیا گیا ہے
ٹهیک ہے علم الکلام والوں نے بهی دین کی بنیادیں ڈهائی لیکن آپ صوفیاء کرام کی پردہ پوشی نہیں کرسکتے اس معاملے میں۔۔

زاہد مغل: شاید ایسے بھی اکابرین ہیں جو یہ کھا کرتے تھے کہ علم الکلام و فلسفہ لکھے صفحے سے استنجا کرنا جائز ھے۔ متشدد رائے رکھنے والے ھر علم و فن میں موجود رہے ہیں۔ 
نیز یہ آج تک کس نے کھا ھے کہ "اصول حدیث و اصول فقہ میں صوفیاء حرف آخر ھوتے ھیں یہ انھی سے لئے جانے چاہئے" کہ اسکا رد کرنا ضروری سمجھا جا رہا ھے؟

زکریا اشرف: (جی ہاں) منطق کے اوراق سے استنجا کے متعلق لکھا ہے جامع الرموز للقھستانی میں ہے۔

Nassah La Isabba: نہیں چند دنوں سے نظر آرہا ہے کہ چند ابحاث میں مسلسل فقہی استدلالات صوفیاء کرام کے اقوال سے دئیے جا رہے ہیں۔

تصوف پر دھرنے کے اثرات

0 comments
میں آج عمران خان صاحب کانہایت مشکور ہوں،، آپ اسے بھی بروکن نیوز ہی سمجھ لیجئے۔۔ وجہ یہ ہے کہ اِن ڈائرکٹلی خان صب کے فقہ و تصوف پر بہت احسانات ہیں۔۔ اب آپ کہیں گے کہ خان صب تو لبرل مسلمان ہیں،، انہیں ان مشکلات سے کیا لینا دینا؟۔۔ مگر میرا موقف جُدا ہے۔۔میں اس پر بحث نہیں کرنا چاہتا کہ دھرنے کے ملک پر کیا اثرات تھے اور کس نے کیا کھویا ، کیا پایا۔۔ میں صرف یہ جانتا ہوں کہ اگر دھرنا نہ ہوتا تو آج مجھے سوشل میڈیا پر آپ جیسے پیارے دوست کیونکر میسر آتے؟ اسی دھرنے کی ' برکت' سے جہاں بہت سے انتہائی گرانقدر اہلِ علم و فضل سے سابقہ پڑا، وہاں کچھ ایسے چہرے بھی سامنے آئے جن کا کام مختلف حیلوں سے احکاماتِ شرعیہ میں ابہام پیدا کرنا تھا۔۔ ہم تک جن ذرائع سے دینِ اسلام پہنچا ہے، انکا نہ صرف صریح انکار بلکہ اتقیاء کی تذلیل کی روش جاری تھی۔۔تصوفِ اسلامی پر بے بنیاد اعتراضات کرکے اسے دانستہ طور پر ہندوازم سے جوڑنے اور اُمت کے صلحاء کو بے وقوف ثابت کرنے کا پروپیگنڈہ عروج پر تھا۔۔ آپ یہاں رُک کر ایک لمبا سانس لیں تو میں آپکو بتاؤں کہ ابھی ایک دوست نے مجھے میسج کیا ہے کہ: " قاری صاحب تصوف پر جو اعتراضات آج کررہے ہیں،، یہ پچھلے سال اِسی موسم میں پہلے ہی کرچکے ہیں۔۔تب چونکہ قاری صب اس میدان کے اکیلے' شہسوار' تھے، تو ان کے بےسروپا اسٹیٹس پڑھ کر میں تصوفِ اسلامی سے متنفر ہو چکا تھا۔۔ اور کئی لوگ انکی دیوارِ فتنہ پر بیٹھ کر صوفیاء اور تصوف کو اعلانیہ گالیاں دیا کرتے تھے"۔۔۔۔۔۔
مگر اب الحمدللہ ایسا نہیں ہے۔۔ دھرنے کے بعد سوشل میڈیا پر جہاں فقۂ اسلامی پر قاری صب کے 'جدید دلائل' کا احسن علمی رد موجود ہے ،وہاں بہت سی معتدل ہستیاں شعبۂ تصوف پر اعتراضات کا شافی جواب دے رہی ہیں، جن میں ڈاکٹر طفیل ہاشمی صب، جناب زاہد مغل صب، جناب فیصل شہزاد صب اور دیگر کئی احباب شامل ہیں،، اور مزے کی بات یہ کہ ان ساتھیوں سے بات کرتے ہوئے موصوف کتراتے ہیں کہ کہیں تائب نہ ہونا پڑے۔۔ ;) 
قاری صب کی وال پر کمنٹ کرنے کا میرا صرف ایک مقصد ہوتاہےکہ جو لوگ لاعلمی میں ان کی باتوں کے قائل ہو جاتے ہیں،، انکو گمراہی سے بچایا جائے۔۔( پلیز مجھے بلاک نہ کیجئے گا قاری صب :( )۔۔ اب بھی دوستوں کی وال پر، میری وال پر اور قاری صب کی وال پرہمارے کئی سوالات افطاری کے انتظار میں سوکھ رہے ہیں،، مگر ان منطقی سوالات کا جواب دینا موصوف کے بس میں نہیں۔۔ الحمدللہ۔
آپکی ایک اور کج فہمی کا ازالہ بھی کردوں۔۔ واللہ فی الحقیقت میں قاری صب کو خود سے کہیں زیادہ بہتر، علمی و عملی مسلمان جانتا ہوں۔۔ بلکہ سچی بات ہے کہ میں علم و عمل کے میدان میں چٹا سیاہ بھگوڑا ہوں۔۔ ردِ الحاد، محبتِ الہٰی، عقیدتِ رسولؐ پر قاری صب کی تحاریر اکسیر کا درجہ رکھتی ہیں۔۔ اسی طرح دیگر کئی معاشرتی مسائل (خصوصاً خواتین کے فضائل ;) ) پر انکے فرمودات کی اہمیت کا انکار کرنا ممکن نہیں۔۔ نیز انکے حلم و اخلاق کا اقرار نہ کرنا بھی خیانت ہوگا۔۔ مگر فقہ اور تصوف کے باریک مسائل پر ان کا علم و 'اجتہاد' اُس قدر گہرا نہیں کہ ان پر اعتماد کیا جا سکے۔۔یہی وجہ ہے کہ جو سنجیدہ لوگ مستقلاً قاری صب کی پوسٹس پڑھتے ہیں وہ آہستہ آہستہ انکو چھوڑتے جا رہے ہیں۔۔!
نوٹ : کوئی بات رہ گئی ہو تو آپ کمنٹ میں بتا سکتے ہیں، بشرطیکہ دامنِ تہذیب کو کَس کے پکڑے رکھیں۔۔!!
(گستاخیاں از: محمد نعمان بخاری)
--------------------------------------------

 کمنٹس
ــــــــــــ
فرنود عالم: میرا خیال ہے قاری صیب کی باتوں کو بے سروپا کہنا اور ان کی بات کو سننے والوں پہ گمراہی کا خدشہ ظاہر کرنا قطعا درست نہیں ہے.
کیونکہ صوفیا کا ڈسکورس ریکارڈ کا حصہ ہے جو خود آپ کیلئے بهی شاید قابل ہضم نہ ہو. ابن عربی کے چند اقتباسات تو نہایت جان لیوا ہیں. قریب قریب رسالت مآب کو چهوتے ہوئے دکهائی دیتے ہیں. شہاب زہری کے فرمودات کو ہضم کرنے کیلئے غیر معمولی ہاضمہ چاہیئے. پهر یہ ہے کہ امام غزالی کے تصور توحید کو تو امام ابن تیمیہ اور ابن قیم پوری شدت سے مسترد کر چکے ہیں. ہوسکتا ہے ابن جوزیہ کا کہا غلط ہو مگر انہیں گمراہ تو نہیں کہا جا سکتا. ابن قیم کی بات کو بے سرو پا تو نہین کہا جا سکتا نا.
اچها آپ سب چهوڑیں شاہ اسماعیلؒ کو ہی پڑه لیں. مجهے ان کا معاملہ اور غلام احمد قادیانی کا معاملہ قریب قریب نظر آتا ہے کچه معاملات میں....... منصور حلاج کو منصور حلاج کو منصور حلاج کس چیز نے بنایا.؟ جنید بغدادیؒ کے اس ایک خط نے جو غلطی سے منصور کے ہاته لگ گیا. ہمیں سوچنا ہوگا کہ ان مشقون مین ایسے کیا تها کے منصور حلاج کہیں سے کہیں کا ہوگیا. آخر جنید بغدادیؒ حاکم وقت کے پوچهنے پر اپنے مقدمہ تصوف سے انکاری کیوں ہوئے؟ کوئی تو وجہ تهی کہ انہوں نے اپنا لکها اپنی گدی کے نیچے چهپایا.
خیر یہ لمبی بحث ہے جس سے گریز لازمی سمجهتا ہوں. اس گریز کی وجہ بتاتا ہوں
1.خدا کا حصول انسان کے ذاتی تجربات کا ایک حصہ ہے. جب ایک معاملے میں آپ اور خدا تنہائی میں ہوں تو اس وقت بیتنے والے تجربات ایک حقیقت ہوتے ہیں. علامی اقبال وحدت الوجود کے شدید ناقد تهے مگر خود آخر میں وہ اسی طرف چلے گئے.تو یہ هقیقت تو ہےمگر اس حقیقت کو پبلک کرنا شریعت کے ادارے کے ساته نا انصافی ہے. یہ تجربات آپ کے بهی ہون گے میرے ساته بهی ہوتے ہیں، مگر یہ سب جو کل رات آپ کے ساته ہوا اسے آپ ہی سمجه سکتے ہیں. یہ کسی اور کو سمجهانے کی کوشش کریں گے تو آپ شریعت کے متوازی ایک اور ادارے کو وجود میں آنے سے کبهی بهی نہیں روک سکتے. صوفیا کے تجربات بہت قیمتی ہیں، مگر ستم یہ ہوا کہ وہ تجربات پبلک ہوگئے. اب تصوف کے ادارے کے ساته جو ہوا ہے وہ کوئی تعجب خیز امر نہیں ہے. میں ملنگوں کی بات نہین کر رہا خود سنجیدہ خانقاہوں کے اندرونی ریاضات خاصی تسویشناک ہوچکی . میں پهر کہوں گا اہل تصوف پہ کوئی سوال نہیں، مگر اس ریاض میں وہ طبقہ شامل ہوگیا جسے شریعت کی شناخت تو تهی ہی نہین، تصوف سے بهی ناواقف تهے.
جو موقف اپ کا ہے اس کی میں حوصلہ افزائی کرتا ہوں. وجہ.؟
وجہ یہ ہے کہ صوفیا کے متنازعہ اور شریعت سے متصادم اصولوں سے آپ کو کوئی سروکار نہیں اور نہ ہی اسکا بیان کرتے ہیں . صرف تزکیئے اور تطہیر نفس کی طرف متوجہ کرتے ہیں. اگر ایسا ہے، تو پهر تصوف کے ناقدین کو حوصلے سے کام لینا چاہیئے. اگر کوئی تصوف کے معاملے میں کسی جادہ اعتدال پہ کهڑا ہے تو اسے ڈسٹرب نہیں کرنا چاہیئے.
باقی میں تو اس بودهست کا بهی احترام کرتا ہوں جو یوگا میں خدا کو ڈهوند رہا ہے. پهر یہ کیسے ممکن ہے کہ اہل تصوف کا بلا وجہ تعاقب کیا جائے. کچه بهی ہے، تلاس تو ایک خدا کی ہے.
میں تصوف کے بیشتر اصولوں کو نہیں مانتا، مگر تصوف کی حقیقت کو محسوس کرسکتا ہوں.تصوف کی مثال خوشبو جیسی ہے. اسے محسوس کر سکتے ہیں. بیان نہیں کرسکتے. بیان میں نقصان ہے.

نعمان بخاری: فرنود بھائی، میں نے آپکی آدھی تحریر پڑھی تو جواب دینے کیلئے قمیص کے کف چڑھا لئے۔۔ اور آخر تک پڑھ کر دوبارہ بٹن بند کر لئے۔۔ :) تاہم چند گزارشات کرنا ضروری سمجھتا ہوں تاکہ باقی احباب کے ابہام کلئر ہو سکیں۔۔
1۔ اہلِ علم کی تحقیق کے مطابق اگر مذکورہ بزرگان کی کتب میں موجود کوئی تصور شریعت کے متصادم ہے تو وہ اسے بلا جھجک رد کر دیں۔
2۔ عقائد اخد کرنے کا ماخذ قرآن و سنت ہے، تصوف نہیں، اور نہ ہی فقہ۔۔ پھر بھی فقہ کی اہمیت مسلم ہے، اسی طرح تصوف کی بھی۔
3۔ جن اہلِ علم علماء نے ابنِ عربی، امام غزالی، شاہ اسمٰعیل وغیرھما کو تمام فتوؤں کے باوجود شیوخ میں شامل سمجھا، ان کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔
4۔ تصوف عین شریعت پر عمل پیرا ہونے کا ہی ایک ٹول ہے جیسا کہ فقہ۔
5۔ یہ بات درست کہ صوفیاء کو اپنے مکاشفات پبلک نہیں کرنے چاہئیں، یہی قصور منصور حلاج کا تھا۔۔ اسکی بات اسکے مطابق درست تھی مگر عوامی طور پر جائز نہ تھی، کیونکہ وہ کیفیت تھی،، عقیدہ نہ تھا۔
6۔ وحدۃ الوجود یہ ہے کہ قائم بالذات صرف واحد ہے، اسکے بغیر سب نابود۔ اسکو غلط رنگ دیا گیا۔ بالاصل یہ خالق و مخلوق کے مابین تعلق کی نوعیت بیان کرنے سے عبارت ہے۔۔
7۔ لوگ فقہ سے بھی گمراہ ہو رہے ہیں چہ جائیکہ تصوف۔
8۔ تصوف کا مقصد دائرہ شریعت میں رہتے ہوئے نسبت ِباطنی ،نسبتِ مع اللہ ،معرفت الہیٰ، درجۂ احسان پانا اور رضاءالہیٰ کا حصول ہے۔ اس کے لئے ہرشرعی طریقہ جائز ہے چاہے وہ کسی ہندو سے مستعار لیا گیا ہو۔ جیسا کہ بدنی صحت کیلئے غیر مسلم طبی ماہرین سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔۔ اگر ارتکازِ توجہ کیلئے کسی سے سبق سیکھ کر اپنا مقصد حاصل کیا جائے تو حرج نہیں جیسا کہ اصول فقہ میں یونانی طرزِ استدلال درست ہے۔
9۔ میرا ذاتی واسطہ اس سلسلے سے ہے جس میں نہ کوئی شے شریعت سے متصادم سکھائی جاتی ہے اور نہ کسی ایسے کشف کو مانا جاتا ہے جو شریعت کے منافی ہو۔
10۔ قاری صب کی اس موضوع پر باتیں بےسروپا ہیں کیونکہ وہ دانستہ طور پر ہندوؤں کے تپسیا و ریاضات کو تصوف کا نام دے کر عوام کو بہکا رہے ہیں۔۔
جیتے رہیں۔۔ :)

اللہ کا فقیر: توجہ اور ارتکاز بذات خود نماز کا خاصہ اور محاصل ہیں، اس کیلئے کہیں اور جھانکنے کی کیا ضرورت ہے؟

نعمان بخاری: پچانوے فیصد وہ لوگ ہیں جو برسہا برس سے نمازیں پڑھ رہے ہیں مگر توجہ حاصل نہیں،، وساوس میں گھرے رہتے ہیں۔۔ انکا شافی علاج تصوف کرتا ہے۔

مشترک انسانی سرمایہ

0 comments
مسئلہ یہ ہے کہ بعض خودساختہ متجددین حضرات تصوفِ اسلامی میں پریکٹیکلی انوالو ہونا پسند کرنے کی بجائے سڑکوں اور قبروں پر بیٹھنے والے ملنگوں کو ہی 'اصل' پیر سمجھ بیٹھے ہیں اور انکی وارداتوں کو صوفیاء کرام کے کھاتے میں ڈال کر اپنے سادہ لوح پیروکاروں کو بہکا رہے ہیں.. حالانکہ میں کئی بار واضح کر چکا ہوں کہ صوفیاء کا ان سے کوئی واسطہ نہیں.. صوفیاء کی کتب میں موجود انکے افکار و صحیح اسلامی نظریات کی پیچیدگیوں کی شرح سمجھنے سے ان نام نہاد متجددین کے اذہان قاصر ہیں.. اور اس بےبسی کا اظہار وہ انکارِ تصوف کی صورت میں کرتے ہیں.. لاکھوں نابغہء روزگار صوفیاء کی صالحیت، تقویٰ اور معاشرے پر انکے مثبت اثرات سے ایک دنیا آگاہ ہے اور مستفید ہو رہی ہے جسکا ذکر میں نے اپنی سابقہ پوسٹ میں کیا تھا.. اسی حوالے سے ایک خوبصورت تبصرہ ڈاکٹر طفیل ہاشمی صاحب نے کیا ہے.. ملاحظہ کیجئے..!! (محمد نعمان بخاری)

مشترک انسانی سرمایہ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ابدی صداقتوں کو اس وجہ سے مسترد کر دینا کہ وہ دیگر مذاہب مثلاً ہندو دھرم بدھ ازم یہودیت اور عیسائیت میں بھی موجود ہیں، سراسر غیر علمی رویہ ھے۔ جب اللہ نے آدم وحوا علیھم السلام کو پہلے دن ہی اپنی طرف سے ہدایت بھیجتے رہنے کا وعدہ کیا تھا اور کسی قوم ملک علاقے اور امت کو اس سے محروم نہیں رکھا، تو باور کیا جانا چاہئے کہ ان صداقتوں کا معتد بہا حصہ ان اقوام نے محفوظ رکھا ہوگا ۔وہی انسانیت کا مشترک سرمایہ اور کلمہ سواء بیننا وبینھم ھے ۔اس کو باہمی گفتگو اور مذاکرہ کی بنیاد بنانا قرآنی تعلیما ت ھیں۔ وہ چند امور متعین ہیں جن پر مفاہمت کی گنجائش نہیں۔ انہی ابدی صداقتوں کے بارے میں ارشاد نبوت ہے:
الحکمہ ضالہ المومن حیث وجدھا فھو احق بھا 
یہ دانش سب سے زیادہ ارباب تصوف کے حصے میں آئ جسے استعمال میں لا کر انہوں نے ملکوں اور قوموں کو اسلام آشنا کیا۔
(ڈاکٹر طفیل ہاشمی)

ذرائع اور مقاصد میں فرق

0 comments
ارتکازتوجہ کے لئے لطائف ستہ کی وہی حیثیت ہے جو بدنی صحت کے لئے مختلف بدنی نظاموں مثلا نظام تنفس نظام انہضام عصبی نظام وغیرہ کی ھے۔ اگر بدنی نظاموں کو درست رکھنے کی معلومات طبی ماہرین خواہ غیر مسلم ہوں سے لے کر ان پر عمل کرنے میں کوئی شرعی قباحت نہیں ھے تو ارتکاز توجہ کا سبق کسی ہندو یوگی وغیرہ سے سیکھ کر اسے اپنے مقاصد میں استعمال کرنے میں کیا حرج ہے؟ بدنی صحت کی طرح ارتکازِتوجہ کا براہ راست امور شرعیہ سے کو ئی تعلق نہیں بلکہ اس کے اچھے یا برے استعمال پر دار ومدارھے۔  بدنی طاقت عبادت کے لئے بھی استعمال کی جا سکتی ھے اورفساد فی الارض کے لئے بھی۔ اسی طرح ارتکازتوجہ عبادت میں خشوع کے کام بھی آسکتا ھے اور کسی زہرہ وش کو اپنے دام ہوس میں لانے کے لئے بھی۔ ذرائع اور مقاصد میں فرق ملحوظ رکھنا ہی علمی رویہ ہے۔
(ڈاکٹر طفیل ہاشمی)
-----------------------

کمنٹس

عامر عبداللہ: کسی ھندو یوگی سے تصوف کے اسباق پڑھنے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ وہ قرآن و سنت کے منافی نہ ھوں لیکن سوال یہ بھی ھے کہ کیا اسلام کا اپنا "تزکیہ نفس کورس" اس جوگا بھی نہیں کہ ھماری پوری طرح سے "سہائتا" کرسکے..؟ مجھے تو یہ قصہ اپنے گھر کی خالص گھی میں بنائی گئی اصیل مرغی چھوڑ کر پرائے گھر کی ڈالڈا میں بنی دال پر رال ٹپکانے والا لگتا ھے.. :) ھاشمی صاحب.. اللہ کی رضا کس میں ھے.. قرآن و سنت کا پورا پورا پابند ایک بندہ مومن بننے میں یا مہا شکتی مان شکتی شالی گرو جی گھنٹال بننے میں..؟

طفیل ہاشمی: اصل غلط فہمی جس کے عامر عبداللہ لوگ شکار ھیں یہ ھے کہ وہ اسے دین سمجھتے ھیں اس لئے غیظ وغضب کا شکار ہیں یہ محض ایک مہارت ھے جیسے کیا یہ ضروری ھے کہ آپ چشمہ بنوانے کے لئے کسی شیخ التفسیر کو تلاش کریں ۔یہ بھی اسی طرح کے امور ھیں جن کا کسی عقیدے مذہب دین سے تعلق نہیں ریاضت سے ھر کوئ حاصل کر سکتا ھے۔
آپ اسلامی تزکیہ یا احسان کو ان اشغال سے گڈ مڈ کر رھے ھیں جن کا دین سے نہیں ریاضت سے تعلق ھے ۔وہ ریاضتیں مختلف مذاہب کے لوگ ھمہشہ کرتے رھے اور ان سے انہیں طاقتیں حاصل ہوتی رہیں مثلا ٹیلی پیتھی اس نوعیت کی ایک مہارت ھے ۔البتہ خرابی اس وقت پیدا ہوئ جب ہندو یوگیوں نے اپنی مخفی طاقتیں مسلم دعاہ کے خلاف استعمال کرنا شروع کیں اور جواب میں مسلم مبلغین نے بھی اس نوعیت کی مہارتیں حاصل کر کے ان کا مقابلہ کیا ۔بہاں تک سب ٹھیک تھا لیکن مسلم مبلغین کی ان ریاضتوں کے نتائج کو تزکیہ یا احسان سے گڈ مڈ کر دیا گیا ۔جو خرابی کی بنیاد بنا ۔اہل علم کو اس تاریخی فرق کو ملحوظ رکھنا چاھئے۔

عامر عبداللہ: خوش رھیں.. آپ کی ساری بات سے میں متفق ھوں.. دراصل مسئلہ ھی سارا یہ ھے کہ یہ فرق ملحوظ نہیں رکھا جاتا اور شریعت کی پابندی کے بجائے ان ریاضتوں کے نتائج کو ھی بزرگی کی علامت سمجھ لیا گیا ھے.. دوسری طرف راہ تصوف کے کچھ "شہہ سوار" جو فلسفہ دوسرے مذاھب سے کھینچ کھانچ کے (جو قرآن و سنت کے صریح خلاف ھے) دین اسلام میں گھسا لائے ھیں اسے بھی آج دین کی اصل سمجھا جارھا ھے.. ایسے میں اگر ھم اس تصوف کو قرآن و سنت کے تابع رکھنے کی بات کرتے ھیں اور ایسی تصوف کو دین کے نقصان دہ سمجھتے ھیں تو آپ ھی بتائیے کہ کیا غلط کرتے ھیں..؟
اگر تو تصوف اپنی "من مانی" کے بجائے شریعت اسلامی کے تابع ھو اور اس "اسلامی" تصوف کا دارومدار قرآن و سنت سے ثابت اعمال و عبادات ' اوراد و اذکار اور تزکیہ نفس کے طرائق پر ھو تو تصوف کی یہ صورت بغیر کسی اعتراض کے قابل قبول ھے..
لیکن اگر تصوف شریعت اسلامی کے اندر قرآن و سنت کے منافی اپنے من گھڑت نظریات ' مجاھدات و عبادات اور باطل فلسفہ کے ساتھ داخل ھونے کی کوشش کرے تو ایسی تصوف کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں..
طفیل ہاشمی: اگر جاہل لوگ موخر الذکر باتوں پر ہی مر مٹیں تو آپ کیا کر سکتے ہیں، حالانکہ اہل اللہ نے ہمیشہ اتباع سنت کی تلقین کی ھے۔

زاہد مغل: یہ جو تصوف کے ناقدین کھتے رھتے ھیں کہ اصل مقصد قرآن و سنت پر عمل کرنا ھے یہ باقی چیزیں کیوں کریں، تو کبھی وہ ان صوفیاء کے زندگی کے احوال پڑھ کر دیکھیں کہ وہ سنت کے کیسے پابند ھوا کرتے تھے۔ ایسی سنتیں جن پر خود یہ حضرات بھی عمل کرنا ضروری نھین سمجھتے وہ ان پر بھی جوں کا توں عمل کرتے تھے۔

مفتی روئیس خان ایوبی: ھاشمی صاحب! کیا تصوف کے نام پر جو کچھ مثنوی شریف میں ھے وہ وقعی مولانا روم کا کلام ھے یا باطنیہ کی کارستانی؟ کیا استخوا پیش سگان انداختم درست ھے؟ کتے کون ھیں اور استخوان سے کیا مراد ھے؟ استغفراللہ ربی۔

طفیل ہاشمی: مفتی صاحب میں تصوف میں افراد کا محاکمہ یا تزکیہ نہیں کرتا اورنہ اس کی اہلیت رکھتا ہوں ۔مولانا روم اقبال کے مرشدتھے اور اقبال سے ھم محبت کرتے ھیں محبت میں pick &chose نہیں ھوتا بس وہ محبت ہوتی ہے، اندھی بہری۔

ذرائع اور مقاصد میں فرق اور لطائفِ ستہ

0 comments
"اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تزکیہ اوراحسان کے لئے کتاب وسنت کافی ہیں۔ لیکن اگر آپ کو اس پر مستزاد کچھ مہارتیں حاصل کرنا ہیں، مثلا آپ مقابل کی زبان بندی کر سکیں، کسی کے دل کو مسخر کر کے اپنی ہوس یا حرص کو تسکین پہنچا سکیں، اپنی توجہ سے کسی کے شعور میں اچھی یا بری بات داخل کر سکیں، آپ کسی کو ہپناٹائز کر سکیں، کسی کی بیماری یا درد سلب کر سکیں،، تو اس کے لئے آپ کو کچھ ریاضتیں کرنا ہونگی۔ چونکہ تزکیہ واحسان کے حاملین اضافی طاقت حاصل کر کے اسے کارِ خیر میں استعمال کرتے رہے ہیں، اس لئے کچھ کج فہموں نے ان باتوں کو تزکیہ کے ساتھ گڈ مڈ کر دیا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ ہندو مسلم مناظروں میں کچھ یوگی ارتکازِ توجہ سے مسلم مناظر کی زبان بند کر دیتے تھے۔ اس کے مقابلے کے لئے اسی علم کی ضرورت تھی جو مسلم دعاہ اور مبلغین نے حاصل کر کے دعوت دین کے لئے استعمال کیا۔ 
(چنانچہ) اسلامی تزکیہ یا احسان کو ان اشغال سے گڈ مڈ (نہیں کرنا چاہئے) جن کا دین سے نہیں ریاضت سے تعلق ہے۔ وہ ریاضتیں مختلف مذاہب کے لوگ ہمیشہ کرتے رہے اور ان سے انہیں طاقتیں حاصل ہوتی رہیں۔ مثلا ٹیلی پیتھی اس نوعیت کی ایک مہارت ھے۔ البتہ خرابی اس وقت پیدا ہوئی جب ہندو یوگیوں نے اپنی مخفی طاقتیں مسلم دعاہ کے خلاف استعمال کرنا شروع کیں اور جواب میں مسلم مبلغین نے بھی اس نوعیت کی مہارتیں حاصل کر کے ان کا مقابلہ کیا۔ بہاں تک سب ٹھیک تھا، لیکن مسلم مبلغین کی ان ریاضتوں کے نتائج کو (بذات خود) تزکیہ یا احسان سے گڈ مڈ کر دیا گیا جو خرابی کی بنیاد بنا۔ اہل علم کو اس تاریخی فرق کو ملحوظ رکھنا چاہئے۔
ارتکازِ توجہ کے لئے لطائف ستہ کی وہی حیثیت ہے جو بدنی صحت کے لئے مختلف بدنی نظاموں مثلا نظام تنفس نظام انہضام عصبی نظام وغیرہ کی ھے۔ اگر بدنی نظاموں کو درست رکھنے کی معلومات طبی ماہرین خواہ غیر مسلم ہوں سے لے کر ان پر عمل کرنے میں کوئی شرعی قباحت نہیں ھے تو ارتکاز توجہ کا سبق کسی ہندو یوگی وغیرہ سے سیکھ کر اسے اپنے مقاصد میں استعمال کرنے میں کیا حرج ھے؟ بدنی صحت کی طرح ارتکازتوجہ کا براہ راست امور شرعیہ سے کوئی تعلق نہیں بلکہ اس کے اچھے یا برے استعمال پر دار ومدارہے۔ بدنی طاقت عبادت کے لئے بھی استعمال کی جا سکتی ہے اورفساد فی الارض کے لئے بھی۔ اسی طرح ارتکازِ توجہ عبادت میں خشوع کے کام بھی آسکتا ہے اور کسی زہرہ وش کو اپنے دام ہوس میں لانے کے لئے بھی۔ الغرض ذرائع اور مقاصد میں فرق ملحوظ رکھنا ہی علمی رویہ ہے"
(بشکریہ جناب طفیل ہاشمی صاحب - معمولی تصرف کے ساتھ پیش کیا گیا)
(زاہد مغل)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کمنٹس

عزیز ابن الحسن: کاش اتنی سی بات همارے عهد کے تین بڑے علماء(مولانا مودودی امین احسن اصلاحی اور جاوید احمد غامدی) بھی سمجھ جاتے. اے کاش! یک کاشکے بود بصد جا نوشته ایم

سید متین احمد: عمدہ بات فرمائی ڈاکٹر صاحب نے۔ ذرائع اور مقاصد کے فرق پر مولانا ابوالحسن علی ندوی نے بھی اپنی کتاب "ربانیۃ لارہبانیہ" کے آغاز میں عمدہ گفت گو فرمائی ہے۔ (اردو ترجمہ تزکیہ و احسان یا تصوف وسلوک)
ڈاکٹر صاحب،،،
غامدی صاحب کا نقطۂ نظر تو سخت ہے، البتہ مولانا مودودیؒ اور مولانا اصلاحیؒ کا معاملہ قدرے مختلف ہے۔ مولانا مودودیؒ کے حوالے سے وضاحت کے لیے عاصم نعمانی کی مرتب کردہ کتاب "تصوف مولانا مودودی کی تحریروں کی روشنی میں " اور مولانا اصلاحی کے حوالے سے یوسف سلیم چشتی کی کتاب پر ان کا مقدمہ دیکھنا چاہیے کہ یہ حضرات کن پہلؤوں سے ناقد تھے۔ مولانا اصلاحی نے "تزکیۂ نفس" تصوف کی اصل روح کو بے غبار انداز میں پیش کرنے کے لیے ہی لکھی تھی، اگرچہ غامدی صاحب کے موجودہ حلقے میں اس کتاب کا کوئی خاص چلن نہیں ہے۔ Aziz Ibnul Hasan

طفیل ہاشمی: اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مولانا اصلاحی کی تزکیہ نفس بہت اعلی درجے کی کتاب ھے لیکن یہ نہیں بتاتی کہ ان رذائل سے بچنے اور فضائل سے آراستہ ہونے کا عملی طریقہ کیا ہے۔
غالب نے ٹھیک ہی کہا تھا،،،
؎ ہر چند ہو مشاہدہ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ وساغر کہے بغیر
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

حصولِ مقصد کے اصول

0 comments
اصول فقہ کی تدوین میں اصولیین نے بڑے پیمانے پر یونانی طرز استدلال و استنباط کو استعمال میں لاتے ہوئے نصوص سے احکامات اخذ کرنے کے لئے اصول وضع کئے۔ کیا اسکا مطلب یہ ہوا کہ اصول فقہ و فقہ کا سارا ذخیرہ "غیر اسلامی" و غیر معتبر ہے؟ تو اگر صوفیاء کسی مقصد (حصول ارتکاز، خشوع و حضوری) کے لئے تجربے کی بنا پر چند اشغال و اذکار وضع کرلیں یا کسی سے مستعار لے لیں تو اس میں کونسا دینی اصول ٹوٹ گیا؟
اب اس پر غور کریں کہ کیا صحابہ کرام خبر واحد و متواتر، استقرائی قوانین، ارکان قیاس، علت اخذ کرنے کے پیچیدہ طرق، بذریعہ استقراء قواعد وضع کرنے، الفاظ کے اپنے معنی پر دلالتوں کے طرق وغیرہ جیسی بحثوں سے واقف تھے؟ کیا رسول اللہﷺ نے "خود براہ راست" کسی صحابی کو احکامات اخذ کرنے کی خاطر ان امور کی تعلیم دی؟ اگر اس سب کے باوجود اصول فقہ اس حد تک مطلوب و مقبول علم ہوسکتا ہے کہ اہل مدارس اسے سبقا سبقا سکھانا لازم سمجھیں تو آخر مخصوص مقصد کے لئے تصوف میں اختیار کردہ اشغال و اذکار ایسی کونسی کڑوی گولی ہے جسے حلق سے اتارنا ممکن نہیں؟
(زاہد مغل)
-------------------------------
کمنٹس

عبید فاخر: مسئلہ یہ ہے کہ شاید جن شخصیات کی طرف آپ کا روئے سخن ہے وہ تو اصولِ فقہ اور فرض، واجب، سنت وغیرہ کی تقسیم کو ہی نہیں مانتے اور نہ ہی اہلِ مدارس کا سبقا کسی علم کو پڑهانا ان کے لئے کوئی حجت ہے، ان حضرات کے سامنے تو امام ابوحنیفہ رح اور امام بخاری رح کسی کهاتے میں نہیں ہیں تو آپ کی مثالیں کیا حیثیت رکهتی ہیں؟

زاہد مغل: انتہائی معذرت کے ساتھ لیکن دین کا بیڑا غرق ان صوفیاء کرام نے اپنی " سادگی" میں کیا ہے......
نہ صوفیاء کرام کے اقوال فقہ میں حجت ہے
نا انکی احادیث قبول کی جاتی ہے...
خطیب بغدادی اپنی مشہور کتاب "الجامع لاخلاق الراوی"
میں فرماتے ہیں کہ جب صوفیاء تمہیں کوئی حدیث بیان کرے ...تو انکے الفاظ ہے یہ کہ (اغسل یدک)
اس حدیث سے ہاتھ دهو لو....
کچھ لوگوں کی رائے میں دین کا بیڑا متکلمین نے بٹھایا جنھوں نے امت کو بیکار کی کلامی و فلسفیانہ موشگافیوں میں الجھایا۔ کچھ کے خیال میں اصول فقہ و فقہ والوں کے کباڑا کیا جنھوں نے امت کو قرآن سے دور کرکے انسانوں کے فھم کے پیچھے لگا دیا۔ ایسے میں اگر کچھ لوگوں کا یہ خیال بھی ہے کہ صوفیاء نے دین کا بیڑا غرق کیا تو کوئی حیرانی کی بات نہیں۔

محمد بن مالک: آپ اپنے ذہنی سکون یا دنیوی تسخیر کے لیے ریاضتیں کرنا چاہتے ہیں تو شوق سے کریں۔ لیکن یہ ریاضتیں جو آپ نے سادھووں اور جوگیوں سے مستعار لی ہیں یہ خدا کے سامنے خشوع خضوع بڑھانے اور حضورِ قلب پیدا کرنے میں مددگار ثابت ہوں گی؟؟!!! جنابِ والا، ہر وہ چیز جو آدمی کے اندر خدا کے لیے خشوع و خضوع پیدا کرے وہ بھی عبادت ہے۔ اور عبادات توقیفی ہوتی ہیں۔ یعنی ثابت شدہ ہوتی ہیں۔ عبادات کے معاملے میں کوئی چیز کفار سے مستعار لی جائے تو شریعت میں اس کی کیا حیثیت ہوگی اس کی تشریح کی بہت زیادہ ضرورت نہیں۔
سوچنے کی بات ہے ایک مسلمان کسی ہندو سے یوگا سیکھے اور اس یوگا کی مشقیں کرنے سے وہ عنداللہ ماجور ہوتا ہو!!! کیوں؟ اس لیے کہ ان مشقوں سے اس کی نماز کے اندر خشوع میں اضافہ جو ہوتا ہے!!!!
آپ کہہ سکتے ہیں کہ ہم امریکہ سے اسلحہ و ٹیکنالوجی لے کر روس کے ساتھ جہاد کر سکتے ہیں جس پر ہم سے اجر کے وعدے کیے جا سکتے ہیں تو ہندو سے ہم اپنی نمازوں کے لیے خشوع و خضوع کیوں نہیں سیکھ سکتے؟
جو امور مراسمِ عبودیت میں شمار ہوتے ہیں اور جن کا معاملہ توقیفی ہوتا ہے ان میں از اول تا آخر ایک ایک حرکت اور فعل کے لیے ہدایات دینی نصوص میں دستیاب ہوتی ہیں۔ ان میں تو مسلمان کو ہر فعل کے طریقہ کے لیے دینی نصوص ہی کا پابند رہنا ہوگا۔ اور مراسمِ عبودیت دراصل قلبی کیفیات ہی کی پیمائش و آزمائش اور ان کے استحضار کو جانچنے ہی کے لیے لازم ٹھہرائی گئی ہیں۔ تو کیا ہوگا جب کہ قلبی استحضار کا ماخذ کوئی غیر ایمانی منبع ہوگا؟؟
جبکہ کفار سے جہاد براہِ راست مراسمِ عبودیت میں شمار نہیں ہوتا، اگرچہ یہ خدا کی نگاہ میں ایک بہت ہی عظیم فعل ہے۔ نہ ہی اس کے نماز و حج کی طرح ارکان ہوتے ہیں۔ اس میں شریعت نے ایک دائرہ کار مقرر کر دیا ہے جس سے انحراف کیے بغیر آپ کوئی بھی فیصلہ اپنی صوابدید سے کر سکتے ہیں۔ کفار سے اسلحہ خریدنا یا ٹیکنالوجی لینا یا دنیاوی علم حاصل کرنا اسی زمرہ میں آتا ہے۔
معاملہ دراصل الجھتا ہے چیزوں کو ان کے غیر متماثل چیزوں پر قیاس کرنے سے۔ سو یہاں پہ بھی کچھ ایسا ہی دکھائی دیتا ہے۔

زاہد مغل: صوفیا نے کب کہا کہ قرب اختیار کرنے کے مسنون طریقوں کو ترک کرکے ان مشاغل میں مصروف ھونا چاھئے یا عبادت کے منصوص طریقے خشوع پیدا نھیں کرتے؟
ایک مولانا صاحب جب کسی کو کسی مخصوص اثر کو زائل کرنے کے لئے (مثلا غصے کو قابو مین رکھنے کے لئے) کوئی وظیفہ بتاتے ھیں (جو انھوں نے تجربے سے سیکھا ھوتا ھے) تو کیا انکے کھنے کا مطلب یہ ھوتا ھے کہ قرآن و سنت کو چھوڑ دو؟

محمد بن مالک: جناب میں نے یہ کب عرض کیا کہ آپ لوگوں کو بالکلیہ سنت کا طریق چھوڑنے کا حکم دے رہے ہیں؟! (ویسے جب بدعت رائج ہوتی ہے تو سنت کو ہٹا کر ہی ہوتی ہے!) عرض کرنے کا مقصد یہ تھا کہ عبادات میں کسی معاملے سے متعلق ایک چیز اگر سنت میں ہے تو اس کے ہوتے ہوئے کسی غیر سنت چیز یا غیر ثابت شدہ چیز کی طرف رجوع کرنے کا شرعی حکم کیا ہے؟؟ اور اگر اسی سے متعلق ایک چیز سنت میں سرے سے ہے ہی نہیں اس کو اپنی طرف سے گھڑ لینا از روئے شریعت کیسا ہے؟ یعنی ایک چیز کی شریعت نے ضروت محسوس کی تو اس کا طریقہ بتا دیا۔ اور جس چیز کی ضرورت محسوس نہیں کی تو اس بارے میں کوئی چیز لاگو نہیں کی۔ دونوں صورتوں میں ایک چیز کو اپنی طرف سے ایجاد کر کے اختیار کر لینا کیا شریعت سے تجاوز نہیں ہے؟؟ کیا عبادات سے متعلقہ چیزیں بھی گھڑی جا سکتی ہیں؟؟ اور کوئی عبادتی یا تعظیمی امر جو دین میں ثابت شدہ نہ ہو خدا کا تقرب حاصل کرنے کے لیے بجا لایا جا سکتا ہے؟؟ نیز اگر تجربے سے یہ بات معلوم ہو سکتی ہے کہ فلاں تعظیمی یا روحانی فعل جو دین میں ثابت شدہ نہیں ہے اس کے ذریعے خدا کو راضی کیا جا سکتا ہے تو پھر عبادات کے توقیفی ہونے کا مطلب کیا ہے؟ ایسے "تجربات" کا شریعت میں کیا اعتبار ہے؟ اور کیا سنت کے طریقوں کے ہوتے ہوئے ہم عبادات اور اس کی قلبی کیفیات سے متعلق کوئی بھی طریقہ گھڑنے کے مجاز ہیں؟؟

زاہد مغل: لطائف ستہ (اس سے بھت سے غلط فھمیاں دور ھونگی)
جس طرح دل خون پمپ کرتا ھے لیکن سارے بدن کو خون کی سپلائ یقینی بنانے کے لئے جگہ جگہ پریشر پوائنٹس ہیں۔یاطب چین نے تمام بیماریوں کے علاج کے لئےبدن میں پریشر پوائنٹس دریافت کئے ھوئے ھیں اسی طرح باطنی بیداری کے لئےطویل انسانی تجربے نے چھ پوانٹس دریافت کئے ھیں جنہیں لطائف ستہ کا نام دیا گیا ھے جو قلبی روحی نفسی سری خفی اور اخفی کے نام سے موسوم ہیں۔
قرآن نے الاعراف=205 میں کہا ھے
واذکر ربک فی نفسک۔ ۔ ۔ ۔ اس کا عام طریقہ تو یہی ھے کہ اپنے خیال کو یاد الہی سے وابستہ رکھا جائے لیکن گہرائ اور گیرائ سے یاد الہی سے وابستہ ہونے کے لئے ان لطائف ستہ کو بیدار کیا جاتا ھےجس کے نتیجے میں یاد الہی اس طرح اندر سمو جاتی ھے کہ دنیوی مشاغل سے اس میں فرق نہیں پڑتا۔
ہندو دھرم میں جو بذات خود الہامی دھرم ھے عبادت کا طریقہ گیان دھیان تھا اس لئے ان کے ہاں یہ تجربہ عام ھے۔اسلام نے صرف خشوع وخضوع کا تقاضا کیاھے اس کے لئے کسی ایک طریقے کا تعین نہیں کیا۔ارباب تصوف نے دوسرے طریقوں کے ساتھ اسے بھی آزمایا اسکی حیثیت شرعی نہیں ھے بلکہ اسی طرح ھے جیسے آپ دماغ کو تروتازہ رکھنے کے لئےکافی یا بادام دودھ اورخمیرہ گاوزبان عنبری جواھر والا یا مختلف ضرورتوں کے لئے دیسی دوائیں استعمال کرتے ہیں۔ اگر ان کا استعمال غیر شرعی نہیں ھے تو لطائف ستہ کو بیدار کرنا بھی غیر شرعی نہیں ھے۔
(Tufail Hashmi بشکریہ)

طفیل ہاشمی: عبادت کی مقادیر توقیفی ھیں عبادت میں معاون وسائل توقیفی نہیں ھیں ۔ورنہ اے سی لگا کر نماز پڑھنا اورتلاوت کرنا بدعت شمار ہوتا۔

زاہد مغل: جی بالکل۔ ھر مسجد والے مسجد میں اے سی لگاتے ھیں، اس لئے کہ "تجربے سے ثابت ھوا" کہ اس سے نماز میں انھماک بڑھتا ھے حالانکہ سنت میں اس طریقے کا کوئی ذکر نھیں ملتا۔ اگر اس نیت سے اے سی لگانا جائز و کار ثواب تک ھے تو دیگر اشغال، جنکے بارے میں ایک گروہ کا بعینہہ یہی دعوی ہو کہ ان سے حضور قلبی میں اضافہ ھوتا ھے، اسے کس بنا پر رد کیا جارھا ھے؟
اہل فقہ کے خیال میں "عقلی اصولوں کے ذریعے" عقل کو جلا بخشنے سے کتاب اللہ و سنت سے خدا کی رضا سمجھنے (یعنی عرفان الھی) میں مدد ملتی ہے جبکہ دوسرے کا خیال یہ ہے کہ "قلب کو مستحضر رکھنے والے ان اصولوں کے ذریعے" قلب کو جلا بخشنے سے خدا کی طرف لو لگانے (یعنی عرفان الھی) میں مدد ملتی ہے۔ آخر وہ کونسی منطق ہے جسکے ذریعے اول الذکر تو جائز مگر مؤخر الذکر ناجائز ٹھرتا ہے؟

طفیل ہاشمی: کیا عبادات توقیفی ھیں؟
توقیفی سے مراد یہ ھے کہ کوئ چیز پوری تفصیل کے ساتھ اللہ نے خود مقرر کر دی ھو اور اس میں کسی نوع کی کسی تبدیلی کی گنجائش نہ ہو ۔جیسے قرآن حکیم کی ترتیب توقیفی ھے کا مطلب یہ ھے کہ اللہ نے خود رسول اللہ ﷺ کو ترتیب بتادی اور آپ نے وہی ترتیب رکھی ۔
کیا عبادات بھی اسی طرح توقیفی ہیں ؟
عبادات میں در حقیقت بہت تنوع اور تفصیلات ہیں ۔ان میں منصوص اور مجتہد فیہ دونوں قسم کے امور شامل ہیں ۔پھر منصوص امور بھی سارے یکساں نہیں کچھ واجبات ہیں کچھ سنن اور مستحبات ۔لیکن توقیفی ہونے کے حوالے سے دیکھا جائے تو غالبا صرف مقادیر (Quantities)ہی توقیفی ہیں یعنی فرض نمازوں اور ان کے داخلی ارکان روزوں کی تعداد اور زکوات کی شرح وغیرہ ایسے امور ہیں جو توقیفی ہیں ۔دیگر ہزار ہا ایسی اشیاء ہیں جو اجتہادی ہیں یا فرد کی صواب دید پر ہیں ۔جمع قرآن کے سلسلے میں صحابہ کا اجماع ھے کہ یہ عبادت توقیفی نہیں ھے ۔اور ہر عبادت کے توقیفی نہ ہونے پر حضرت عمر ؓنے وافعلوا الخیر کے عموم سے استدلال کرتے ہوئے حضرت ابو بکر ؓکو یہ کہہ کر قائل کر لیا کہ 
واللہ انہ لخیر 
عبادات کے مطلقا توقیفی ہونے کا موقف کتاب اللہ سنت کے اختلاف تنوع صحابہ کے اجماع اور مجتہدین امت کی تعبیرات سے ھم آھنگ نہیں معلوم ہوتا ۔

محمد بن مالک: كَانَ أَحْمَدَ وَغَيْرِهِ مِنْ فُقَهَاءِ الْحَدِيثِ يقُولُون : إَنَّ الْأَصْلَ فِي الْعِبَادَاتِ التَّوْقِيفُ ، فَلَا يُشْرَعُ مِنْهَا إلَّا مَا شَرَعَهُ اللَّهُ تَعَالَى وَإِلَّا دَخَلْنَا فِي مَعْنَى قَوْلِهِ : ( أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنْ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَنْ بِهِ اللَّهُ )
"امام احمد بن حنبل اور دیگر فقہائے کرام فرمایا کرتے تھے، عبادات میں اصل، توقیف ہے۔ پس عبادات میں سے کوئی بھی چیز مشروع نہیں ٹھہرائے جائے گی سوائے اس کے جس کو خود اللہ نے مشروع کیا ہو۔ وگرنہ ہم اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے مصداق ٹھہریں گے: ( أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنْ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَنْ بِهِ اللَّهُ )" کیا ان کے لیے اللہ کے شریک پائے جاتے ہیں جو ان کے لیے شریعت سازی کرتے ہیں جس کی اللہ نے اجازت نہیں دی؟""
(مجموع الفتاوٰی امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ۔ ج 16 ص 29-17)
اب بتائیے کس کی بات مانی جائے۔ امام ابنِ تیمیہ، امام احمد بن حنبل اور دورِ اول کے فقہائے کرام کی یا آپ کی؟؟

طفیل ہاشمی: کاش آپ کو اس عبارت کا مفہوم بھی معلوم ہوتا ۔امام احمد اور امام ابن تیمیہ وہی بات کہہ رھے ہیں جو میں نے کہی ھے ۔

لطائفِ ستہ

0 comments
جس طرح دل خون پمپ کرتا ہے لیکن سارے بدن کو خون کی سپلائی یقینی بنانے کے لئے جگہ جگہ پریشر پوائنٹس ہیں۔ یا طبِ چین نے تمام بیماریوں کے علاج کے لئے بدن میں پریشر پوائنٹس دریافت کئے ھوئے ھیں، اسی طرح باطنی بیداری کے لئےطویل انسانی تجربے نے چھ پوانٹس دریافت کئے ھیں جنہیں لطائف ستہ کا نام دیا گیا ھے۔ یہ قلبی، روحی، نفسی، سری، خفی، اور اخفاء کے نام سے موسوم ہیں۔
قرآن نے سورہ الاعراف-205 میں کہا ہے:
واذکر ربک فی نفسک۔ ۔ ۔ ۔ اس کا عام طریقہ تو یہی ھے کہ اپنے خیال کو یاد الہٰی سے وابستہ رکھا جائے۔ لیکن گہرائی اور گیرائی سے یاد الہٰی سے وابستہ ہونے کے لئے ان لطائف ستہ کو بیدار کیا جاتا ھے جس کے نتیجے میں یاد الہٰی اس طرح اندر سمو جاتی ھے کہ دنیوی مشاغل سے اس میں فرق نہیں پڑتا۔
ہندو دھرم میں، جو بذات خود الہامی دھرم ھے، عبادت کا طریقہ گیان دھیان تھا اس لئے ان کے ہاں یہ تجربہ عام ھے۔ اسلام نے صرف خشوع وخضوع کا تقاضا کیا ھے۔ اس کے لئے کسی ایک طریقے کا تعین نہیں کیا۔ اربابِ تصوف نے دوسرے طریقوں کے ساتھ اسے بھی آزمایا۔ اسکی حیثیت شرعی نہیں ھے بلکہ اسی طرح ھے جیسے آپ دماغ کو تروتازہ رکھنے کے لئےکافی یا بادام دودھ اورخمیرہ گاوزبان عنبری جواھر والا یا مختلف ضرورتوں کے لئے دیسی دوائیں استعمال کرتے ہیں۔ اگر ان کا استعمال غیر شرعی نہیں ہے تو لطائف ستہ کو بیدار کرنا بھی غیر شرعی نہیں ہے۔
(ڈاکٹر فطیل ہاشمی)
------------------------
کمنٹس

عامر عبداللہ: ھاشمی صاحب.. یہ وہ باتیں ھیں جن پر کوئی جاھل ھی اعتراض کرے گا.. جیسے کوئی جسمانی ورزش کرنا خلاف اسلام نہیں ویسے ھی تزکیہ نفس کے لیے ایسی روحانی مشقوں پر کسے اختلاف ھوسکتا ھے لیکن جہاں اسلام اور تصوف کا جگھڑا شروع ھوتا ھے وہ پوائنٹ اور ھے.. آپ یقیناً میری نسبت کہیں زیادہ بہتر جانتے ھوں کہ تصوف اور روحانیت کے نام پر کیسے کیسے فلسفوں کو اسلام میں شامل کیا گیا اور اس میں کئی بہت بڑے بڑے نام بھی آتے ھیں.. تصوف کی جو شکل ھم عام طور پر قبر پرستی کی صورت میں دیکھتے ھیں اس کی حقیقت تو دین کی بنیادی باتیں جاننے والا ایک عام مسلمان بھی بخوبی سمجھ لیتا ھے لیکن تصوف کے نام پر اور بڑی بڑی نامور شخصیات کے ھاتھوں دوسرے مذاھب و ادیان سے جو گمراہ کن نظریات و عقائد دین میں شامل کر دیے گئے انکی تباہ کاریوں کا ادراک تو اچھے بھلے صاحب علم تک کے لیے مشکل ھے.. ان کو کس طرح ھضم کیا جائے ؟ تصوف کا یہی رخ اسلام کے لیے ناقابل قبول ھے.. ذرا غور تو کیجیے کہ آج جن عقائد اور نظریات نے ھمارے اندر فرقہ وارانہ تقسیم در تقسیم کی اتنی بڑی بڑی دیواریں کھڑی کر دی ھیں ان عقائد کو کہاں سے کشید کیا گیا ھے.... کیا قرآن و سنت سے؟ یا یہ ساری مہربانیاں تصوف کی ھیں..؟ ذکر کے چند طریقوں پر اعتراض کس کو ھے.. اعتراض تو اس باطل فلسفہ پر ھے جو تصوف کے راستے اسلام کی رگوں میں انجیکٹ کیا گیا.. کاش کہ آپ اس پر بھی کچھ لکھ سکیں..

ڈاکٹر طفیل ہاشمی: عامر عبداللہ صاحب ۔ ۔ میں تو آپ کی بات نہیں سمجھ پایا ۔تصوف عقائد نہیں دیتا ۔تصوف فقہ کی طرح کا ایک استخراجی علم ھے جس کا واحد ہدف رضائے الہی کا حصول ھے عقائد صرف کتاب اللہ اور سنت متواترہ سے ثابت ہو تے ہیں ۔اگر کہیں آستانوں پر بھنگ شراب پی جاتی ھے اور کنواریوں اور سہاگنوں کی عزتیں لٹتی ہیں اور غیر اللہ کو سجدے کئے جاتے ہیں تو اسے آپ کس علمی تعریف کی رو سے تصوف شمار کریں گے۔

محمد نعمان بخاری: عامر عبداللہ صاحب، جن باتوں پر کسی جاہل کو ہی اعتراض ہو سکتا ہے انہیں اپنانے میں آپ کو کیا تردد ہے؟ آپ جس چیز کو غلط سمجھ رہے ہیں اس پر بحث کی بجائے اسے ترک کرکے تصوفِ اسلامی کو اخیتار کیجئے.. یہ اختیار کرنا باتیں بنانے اور اعتراضات سوچنے سے کہیں زیادہ اہم ہے.

زاہد مغل صاحب: اصول فقہ کی تدوین میں اصولیین نے بڑے پیمانے پر یونانی طرز استدلال و استنباط کو استعمال میں لاتے ہوئے نصوص سے احکامات اخذ کرنے کے لئے اصول وضع کئے۔ کیا اسکا مطلب یہ ہوا کہ اصول فقہ و فقہ کا سارا ذخیرہ "غیر اسلامی" و غیر معتبر ہے؟ تو اگر صوفیاء کسی مقصد (حصول ارتکاز، خشوع و حضوری) کے لئے تجربے کی بنا پر چند اشغال و اذکار وضع کرلیں یا کسی سے مستعار لے لیں تو اس میں کونسا دینی اصول ٹوٹ گیا؟
اب اس پر غور کریں کہ کیا صحابہ کرام خبر واحد و متواتر، استقرائی قوانین، ارکان قیاس، علت اخذ کرنے کے پیچیدہ طرق، بذریعہ استقراء قواعد وضع کرنے، الفاظ کے اپنے معنی پر دلالتوں کے طرق وغیرہ جیسی بحثوں سے واقف تھے؟ کیا رسول اللہﷺ نے "خود براہ راست" کسی صحابی کو احکامات اخذ کرنے کی خاطر ان امور کی تعلیم دی؟ اگر اس سب کے باوجود اصول فقہ اس حد تک مطلوب و مقبول علم ہوسکتا ہے کہ اہل مدارس اسے سبقا سبقا سکھانا لازم سمجھیں تو آخر مخصوص مقصد کے لئے تصوف میں اختیار کردہ اشغال و اذکار ایسی کونسی کڑوی گولی ہے جسے حلق سے اتارنا ممکن نہیں؟