دل بدن کا بادشاہ ہے،، اور دماغ اسکے ماتحت ہے،، اسکا وزیر ہے،، اسکا مُشیر ہے،، اسکا تابع فرمان ہے۔۔دل کا کام خواہشات ابھارنا اور تمنائیں پیدا کرنا ہے۔۔دماغ کا کام ہے کہ ان خواہشوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے پلان اے،بی، سی بنائے۔۔دل کا مقام دماغ سے بلند ہے اور دونوں کے فنکشنز میں فرق ہے۔۔ کیسے؟
وہ ایسے کہ خواہشات کے پیدا ہونے کا مقام دل ہے۔۔ خواہش اچھی ہو یا بُری،، اِس نے دماغ کو حکم دیناہے کہ، اوئے دماغ،، اسے پورا کرنے کا منصوبہ بناؤ۔۔ بالفرض خواہش بُری ہو تو دماغ بطور مشیر، دل کو یہ مشورہ دیتا ہے کہ عالیجاہ، یہ تمنا درست نہیں۔۔آپکو چاہئے کہ ان پنگوں میں دل لگی نہ کریں۔۔ اب دل کی مرضی ہے کہ دماغ کی مانے یانہ مانے۔۔ دونوں صورتوں میں دماغ مجبور ہوتا ہے دل کا حکم بجا لانے پر۔۔اسی طرح جذبات، کیفیات، احساسات (غصہ، محبت، نفرت، دوستی، دشمنی، حسد، تکبر، ہمدردی وغیرہ) کی آماجگاہ بھی دل ہے۔۔آئیں،Examples سے سمجھتے ہیں۔۔!
1۔ میرا دل چاہا کہ آج دفتر سے چھٹی کرلوں۔۔ دماغ نے یاد کرایا کہ آج تو ایک میٹنگ ہے، لازمی جانا چاہئے۔۔ مگر دل نے کہا، دفع کرو یہ میٹنگز اور آج آرام کرو۔۔ دماغ مختلف خدشات ٹھونستا رہا مگر دل نے ایک نہ سُنی،، یوں میں نے آج آفس سے چھٹی کرلی۔۔!
2۔ آپ کے دل کی چاہت تھی کہ 'آج میں یونیورسٹی نہیں جاؤں گا'۔۔دماغ نے سمجھایا کہ پگلے، آج بہت اہم دن ہے، فلاں فلاں کام کرنا ہے۔۔ دل نے دماغ کی مان لی۔۔ یوں آپ یونیورسٹی پہنچ گئے مگر اپنے دوست سے کہنے لگے،' آج میرا بالکل موڈ (دل) نہیں تھا آنے کا، پھر بھی آگیا ہوں'۔۔!
3۔ شوگر کے مریض کا دماغ یہ خوب سمجھتا ہے کہ میٹھی چیز سے پرہیز کرنا ہے،، مگر دل کی خواہش کے تابع گھر والوں سے چُھپ کر کھا لیتا ہے۔۔!
4۔ ایک شخص کی آمدن کم ہے۔۔ اسکا دل چاہتا ہے کہ میرے پاس مہنگا موبائل ہونا چاہئے۔۔ دماغ سازشی تھیوری بناتا ہے اور دل کی تمنا کے مطابق وہ گاڑی میں ساتھ بیٹھے مسافر کی جیب سے موبائل کِھسکا لیتا ہے۔۔!
5۔دل (بادشاہ) نے اگر یہ چاہا کہ مجھے سیروتفریح کیلئے جانا ہے، تو دماغ (وزیرِ اعظم) اس چاہت کو پورا کرنے کی تدبیر کرکے ہاتھ پاؤں وغیرہ کو انکی ڈیوٹی پہ لگا دے گا۔۔!
اس قسم کی ہزاروں مثالیں ہم اپنی عملی زندگی سے دے سکتے ہیں۔۔ایک حدیث مبارکہ یاد آگئی مجھے،، چلیں آپ بھی سُن لیں۔۔ نبی کریم ﷺ کے فرمان کا مفہوم ہے: "انسانی جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے۔ جب وہ ٹھیک رہتا ہے تو سارا جسم ٹھیک رہتا ہے۔ اور جب وہ خراب ہو جاتا ہے تو سارا جسم خرابی کا شکار ہو جاتا ہے ۔ جان لو کہ وہ دل ہے۔"
جب دل بگڑ جائے تو اس میں منفی خواہشات پیدا ہوتی ہیں،، دماغ اسکی اطاعت میں منفی تدبیریں کرتا ہے،، اور یوں پورا بدن برائی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔۔ جب دل کی اصلاح/تزکیہ ہو جائے تو اس میں سے عجب، تکبر، خودنمائی،حسد، حبِ جاہ، ریا، حبِ دنیا، عبادات میں سُستی اور شہواتِ نفسانی جیسےرزائل نکل جاتے ہیں اور خشیتِ الٰہی، عاجزی، توکل، رضا، گناہ سے نفرت اور پاکیزہ اخلاق جیسے خصائل پیدا ہوتے ہیں۔۔ایسے ہی دل میں تفکر، تدبر اور فراست کا مادہ نمودار ہوتا ہے۔۔!
ہماری غلط فہمی ہے کہ ہم نے دماغی صلاحیتوں کے استعمال کو 'عقل' کا استعمال سمجھ لیا ہے۔۔ حالانکہ 'عقل' کا مقام دماغ نہیں دل ہے۔۔ دماغی خصائل کا استعمال کرکے ہم نے بےشمار مفیدایجادات کر لی ہیں اور تسخیرِ کائنات کی تدابیر کررہے ہیں۔۔اچھا، اگر آپ یہ پوچھیں کہ کیا انسان نے دماغ کے زیرِ اثر یہ تمام ایجادات کی ہیں؟ تو میرا جواب ہو گا 'نہیں'۔۔ وجہ؟۔۔۔۔وجہ یہ ہے کہ یہ تمام احکام جنابِ دل نے دماغ صاحب کو دئیے۔۔ مثلاً دل نے چاہا کہ کوئی ایسا آلہ ہونا چاہئے جس سے میں ہزاروں میل دور موجود بندے سے گفتگو کر سکوں،، تو دماغ نے دل کی خواہش کے مطابق سوچنا شروع کر دیا کہ اب مجھے کیا کچھ کرنا ہےاس تمنا کی تکمیل میں۔۔ نتیجتاً فیس بک اور اسکائپ جیسی اشیاء ایجاد ہوئیں،، جو دل کی تمنا کے مطابق دماغ کا کیا دھرا ہے۔۔!
قرآن حکیم کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ تفکر، تدبر دل ہی کا ٹھکانہ ہے۔۔ نیز جب دل (بادشاہ) مطمئن ہو گا تو سارے اعضاء (رعایا) بھی اطمینان اور تسکین میں ہوں گے۔۔ یہ تسکین تب ممکن ہے جب دل کو اسکی غذا (ذکرِ الہٰی) پہنچائی جاتی رہے تاکہ وہ ہشاش بشاش اور زندہ رہے۔۔!
چند آیات ملاحظہ ہوں:
1۔ کیا یہ لوگ قرآن میں تدبر (غور وفکر) نہیں کرتے، یا انکے دلوں پر تالے لگ چکے ہیں۔ (سورۃمحمد-24)
2۔ انکے دل ہیں، مگر وہ سوچتے سمجھتے نہیں۔ (سورۃ الاعراف - 179)
3۔ عقل مند وہ ہیں جو کھڑے، بیٹھے، لیٹے (یعنی ہر حال میں) اللہ کا ذکر کرتے ہیں۔ (آل عمران-190،191)
4۔ آیۃ -9۔۔۔۔وہ شعور نہیں رکھتے، کیونکہ انکے دلوں میں مرض ہے۔۔۔۔الخ آیۃ-10 (سورۃ البقرہ)
5۔ اور ہم ان کے دلوں پر بند لگادیں، پس وہ سن نہ سکیں ۔ (الاعراف -100)
6۔ قرآن کانزول آپ ﷺ کے قلب پر ہوا۔ (سورۃ البقرہ -97)
7۔ جو سینوں میں (دل) ہے، قرآن اس کیلئے شفا ہے۔ (سورۃ یونس -57)
8۔ کسی آدمی کے سینے میں اللہ تعالیٰ نے دو دل نہیں بنائے۔ (سورۃ الاحزاب- 4)
امید ہے اب آپکو اس بات کی سمجھ آگئی ہو گی کہ:
حکمتِ بالغہ کے نزول کا مقام اعلیٰ دماغ نہیں،، پاکیزہ قلب ہے۔۔!!
(تحریر: محمد نعمان بخاری)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کمنٹس
شیث: اس دل سے مراد دل ہی ہے یا پھر نفس ؟
نعمان: نفس اور شے ہے۔
شیث: ایک پردے والی بات ہے فرض کریں میرا دل کر رہا ہے کوئی غلط کام کرنے کو میرا دماغ مجھے الارم دے رہا ہے کہ یہ سخت گناہ کا کام ہے باز آجاؤ اور یوں کئی کئی دن لڑنا پڑتا ہے دل سے اور دماغ سے ، تو یہاں پر نفس کا کیا کام ہے؟ یا پھر ٹوٹل دل و دماغ کی کہانی ہے ؟ نفس کا یہاں کوئی کردار نہیں؟
نعمان: انسانی جسم کے دو حصے ہیں۔ 1- بدن 2- روح
روح کا تعلق عالمِ امر سے ہے اور جس دل/قلب کی ہم یہاں بات کر رہے ہیں اسکا تعلق بھی روح کے پارٹس سے ہے۔۔
بدن کی تخلیق چار چیزوں سے ہوئی ہے۔ ہوا، پانی، مٹی، آگ۔۔ ان چاروں کے ملنے سے انسانی نفس بنتا ہے۔۔ یہ نفس چونکہ مادی اور فانی اشیاء سے مل کر بنا ہے،، اسلئے اسکی خواہشات اور ضروریات بھی مادی ہیں، یہ اُن دنیاوی آسائشوں کی طرف رغبت کرتا ہے جس سےمادی بدن کو تسکین ملے۔۔
1۔ دل مردہ ہو جائے تو انسانی نفس مضبوط ہو جاتا ہے،، اور پہلوان بن جاتا ہے۔۔ اسے نفس امّارہ کہتے ہیں۔۔ سورہ یوسف میں اسکا ذکر ہے۔۔ (وما أبرئ نفسي إن النفس لأمارة بالسوء إلا ما رحم ربي)۔ یہ ہمیشہ بدی کی دعوت دیتا ہے۔
2۔ دل کی اصلاح شروع ہو جائے تو یہ نفس کمزور ہو کر امارہ سے لوّامہ ہو جاتا ہے۔۔ یہ نیکی پر ابھارتا ہے اور برائی پر ملامت کرتا ہے۔ سورۃ القیامہ میں اس کا ذکر ہے۔۔ (ولا اقسم بالنفس اللوامہ)
3۔ دل کو مزید غذا (ذکرِ الہٰی) وافر مقدار میں فراہم کی جاتی رہے تو نفس مزید کمزور ہو کر لوامہ سے نفس مطمئنہ بن جاتا ہے۔۔ اس مقام پر بندہ اللہ کی رضا سے ہمہ وقت راضی رہتا ہے اور نیکی کو چھوڑنا مشکل ہوجاتا ہے۔۔ گناہ سے نفرت ہو جاتی ہے۔۔ سورۃ الفجر میں اسکا ذکر ہے۔۔ (یا ایتھا النفس المطمئنۃ۔ ارجعی الی ربکِ راضیۃ مّرضیہ)
ظفراللہ جلالپوری: نعمان بھائی . . آپ نے بہت ہی اچھا لکھا ماشاء اللہ. . . میں کافی دیر سے اسے مختلف جہات سے سوچ رہا ہوں . . . . . فی الحال ان تین باتوں پر روشنی ڈالیں . . . 1. دماغ اور عقل میں مساوات ہے یا کچھ اور؟؟ 2. دل صرف خواہشات ابھارتا ہے یا تفکروتدبر بھی کرتا ہے ؟ ؟ جبکہ دماغ کا غوروفکر کرنا تو واضح ہے.. اور اس سلسلے کی آیات حقیقی معنی پر ہیں یا مجازی؟؟ نیز تفسیر جلالین کے بین السطور میں قلب سے قلب_صنوبری مراد ہونا مذکور ہے.. 3. اگر دل پاکیزہ حاصل ہو مگر اعلی دماغ حاصل نہ ہو تو . . . حکمت_بالغہ کا نزول کیا نتیجہ مرتب کرے گا؟؟ اور ایسے فرد کی حیثیت کیا ہوگی ؟ ؟
نعمان: 1۔ جیسا کہ پوسٹ میں واضح ہے کہ دماغ مشیر/وزیر ہے، اور مشیر/وزیر بےوقوف نہیں ہوتا بلکہ سیانا ہوتا ہے جو سوچ کر ہی مشورہ/پلاننگ کرتا ہے۔۔ اسکا اصل کمانڈنٹ دل ہے۔۔ دل میں خیالات اُبھرتے ہیں۔۔ دل عاقل بھی ہوتا ہے اور بے عقل بھی۔۔ یہ ڈیپنڈ کرتا ہے دل کے تزکیہ پر۔۔ اگر دل اچھی خواہش پیدا کرے گا تو عاقل ہے ورنہ قرآن کے مطابق مثلِ حیوان۔۔
2۔ تفکر و تدبر صرف وہ دل کرے گا جو زندہ ہو گا، جس میں ایمان کی حرارت باقی ہو گی۔۔ مردہ دل مَست ہی رہتا ہے دنیاوی خواہشات میں۔۔ (اللہ کا ذکر کرنے والوں کے دل زندہ ہوتے ہیں)۔۔ یہ آیات حقیقی/باطنی قلب سے متعلق ہیں جو روح کا حصہ ہے جس میں ایک لطیفۃ ربانی ہے۔۔ ظاہراً تو کافر و مومن کا دل ایک سا ہوتا ہے،، مگر باطناً کافر/گنہگار کا دل سیاہ ہوتا ہے۔۔ یہ سیاہی تدبر کی راہ میں رکاوٹ ہے جب تک اس پر اللہ اللہ کا ریگمار نہ رگڑا جائے اور پالش نہ کیا جائے۔
3۔ پچھلے کسی کمنٹ میں' میں نے وضاحت کی ہے کہ "حکمتِ بالغہ خاص عطا ہے۔۔ ضروری نہیں ہر مومن کو نصیب ہو۔۔ مگر نصیب مومن کو ہی ہوتی ہے۔"
یعنی ضروری نہیں کہ یہ 'ہر' پاکیزہ دل کو نصیب ہو،، مگر نصیب پاکیزہ دل کو ہی ہو گی۔۔