تصوف اور حتمی بات
امامِ دوراں، جناب جاوید احمد غامدی صاحب تو یہاں تک فرماتے ہیں، جس کا مفہوم میں یہ سمجھا ہوں کہ آپ کسی بھی ایسے شخص کو جو کلمہ طیبہ پڑھتا ہو، اللہ کے وحدہ لاشریک ہونے کی گواہی دیتا ہو، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء مانتا ہو، تو آپ اس کے کسی غیر شرعی فعل کی بنا پر اسے کافر قرار نہیں دے سکتے جب تک کہ وہ خود اپنے آپ کو غیرمسلم ڈکلئیر نہ کر دے..!
مجھے لگتا ہے کہ نائب امامِ دوراں، جناب حنیف ڈار صاحب نے خفیہ طور پر امام صاحب سے یہ سند حاصل کر لی ہے کہ آپ کسی بھی گزرے مسلمان کو منافق، راہزن اور دین کا دشمن قرار دے سکتے ہیں..!
چلیں اس بات کو یہیں ٹھپ دیں.. آگے میرے چند سوال ہیں، غور سے سمجھیں..
آج سے پچاس سال بعد اگر کوئی شخص غامدی صاحب کی کتب سے کچھ اختلافی لائنز کوٹ کر لے تو کیا غامدی صاحب پر بھی فتویء نفاق و جہل لگے گا؟ عین ممکن ہے کہ ان سطور کی وضاحت اُس شخص کے فہم سے بالا ہو اور غامدی صب ہی اس کا درست جواب دے سکتے ہوں (جو کہ تب عالمِ برزخ میں ہوں گے) تو کیا یہ بدگمانی کرنا جائز ہو گا کہ غامدی صاحب نے وہ بات کسی مغربی ایماء کے تحت کہی ہے؟
ظاہر ہے انکی بات کو قرآن و سنت پر پیش کیا جائیگا،، اگر معیاری نہ ہوئی تو مردود ورنہ مقبول.. ایسا ہی ہے ناں؟
دوسری بات یہ کہ کیا کسی مسلمان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ گزرے ہوئے مشاہیرِ اسلام کی کسی بات کو انکی جہالت یا نفاق پر محمول کر انکی مشتہر تنقیص کرے؟
کیا ان اتقیاء و صلحاءِ امت سے اس بات کی توقع جائز ہے کہ انہوں نے بغیر سوچے، سمجھے اور پرکھے بس ایویں ہی کچھ لکھ دیا جس پر وہ سمجھتے تھے کہ ہم عنداللہ جواب دہ نہیں ہونگے؟ اب آپ لوگ ہم اہلِ تصوف سے سینہ پُھلا کر یہ پوچھتے ہیں کہ اوئے صوفیو! بتاؤ تمہارے اسلاف نے یہ بات کیوں کہی اور اس کا کیا مطلب ہے؟
میرے میٹھے میٹھے غیر صوفی بھائیو! میں پہلے ہی عرض کر چکا ہوں کہ ہر شخص کی کیفیات جدا ہیں جن کو لفظوں میں ڈھالنا ممکن نہیں، اور اگر یہ کوشش کر بھی لی جائے تو خطا ہونا یقینی امر ہے.. یہیں چُوک ہوئی صوفیاء سے جس کا خمیازہ انہیں آپ کے طعن و تضحیک کی صورت میں بھگتنا پڑا.. میں سمجھتا ہوں کہ یہ آپ کا امتحان ہے جس میں شاید آپ خود کو فیل کرا کے ہی رہیں گے.. یہ کیفیات و محسوسات کسی مسلمان کا عقیدہ ہرگز نہیں ہیں.. عقائد کا ماخذ قرآن و سنت ہے.. آپ کو رد کو اختیار ہے مگر تشنیع کا نہیں.. کیا انکے کسی عمل یا انکی تفاسیر یا انکی شروحِ احادیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ وہ اللہ کے علاوہ کسی اور سے مدد مانگنے، اسے الہ سمجھنے یا اسے امورِ کائنات میں مداخل سمجھنے کے داعی تھے؟ کیا وہ عصمتِ انبیاء کے علاوہ عصمتِ اولیاء کے بھی قائل تھے؟ یا انہوں نے کسی کو قبر پرستی کی تلقین کی ہو؟ یعنی عجیب بات ہے کہ آپ تو قرآن کا مدعا بالکل ٹھیک ٹھیک سمجھ گئے اور جو گزر گئے وہ بیچارے قرآن فہمی میں دھوکا کھا گئے.. چلیں خیر، گرمیوں کے روزوں میں ایسا ہو جاتا ہے.. اللہ آپکو ہدایت دے..!
آخری اور مکرر عرض ہے کہ تصوف تزکیہء نفس کا شعبہ ہے جس میں انعکاسی طریقے سے اصلاحِ قلب کی جاتی ہے.. یہ وہ نور ہے جسکے حصول سے انسان کی روح/باطن مضبوط ہوتا ہے،، جس سے بندہ نہ صرف لسانی و عملی بلکہ قلبی طور پر شریعت پہ پورے خلوص سے عمل کرنے کیلئے گامزن ہو جاتا ہے.. فقط قرآن کی تلاوت، تفہیم اور دیگر زبانی اذکار سے کسی کا تزکیہ ہو جاتا ہے تو بہت اچھی بات ہے.. ہم نے روکا ہوا ہے آپکو یہ کرنے سے؟
متصوفین کو جو چیزیں حاصل ہوتی ہیں ان میں عبادات میں حد درجہ خشوع و خضوع، درجہء احسان اور بصیرتِ قلبی شامل ہیں.. آپ یہ چیزیں صحبتِ صالحین اور تربیتِ نفس کے بغیر جس دن پا لیں تو مجھے ضرور بتائیے گا، میں یہیں ہوں ان شاءاللہ.. اور چرسیوں/بھنگیوں کو صوفیاء سے تشبیہ دینے والو! آپ بھی سن لو کہ یقیناْ آپ اسی لائق ہیں کہ آپ ایسے ملنگوں سے ہی مستفید ہوں..!!
(خیر اندیش : محمد نعمان بخاری)
0 Comments:
Post a Comment
Subscribe to Post Comments [Atom]
<< Home