Saturday, April 26, 2025

"ولایت کا درجہ نبوت سے بالاتر ھے"، "غیر تشریعی نبی کا سلسلہ جاری ھے" (ابنِ عربیؒ)

لیجئے ابن عربی والی پوسٹ بھی مل گئی۔ اسے پڑھ کر بتائیں کہ کیا اعتراض ھے۔
"ولایت کا درجہ نبوت سے بالاتر ھے"، "غیر تشریعی نبی کا سلسلہ جاری ھے"۔۔۔۔۔۔۔ ابن عربی کے بعض کلامی اقوال کے اصل معنی اور غلط فھمیوں کا ازالہ
تصوف کے بعض غالی مخالفین صوفیاء کے بیان کردہ چند کلامی عقائد و مسائل کی آڑ میں تصوف کو عظیم ترین گمراھی تک قرار دیتے ھیں۔ اس میں شک نھیں کہ باطنیت کی آڑ میں متصوفین نے بھت کچھ غلط گڑھ لیا تھا مگر چند لوگوں یا کسی ایک گروہ کے ایسا کرلینے سے بذات خود تصوف غلط نھیں ھوجاتا (ایسی بھت سی رطب و یابس تو متکلمین و فقھا کے یھاں بھی مل جاتی ھے)۔ چنانچہ تصوف کے مباحث میں ایسا ھی ایک قابل اعتراض و نزاعی مسئلہ (جسے یہ ناقدین خوب اچھالتے ھیں) وہ ھے جسے ابن عربی نے پیش کیا کہ "ولی کا درجہ نبی کے درجے سے بالا تر ھے"، نیز "ختم نبوت کے بعد بھی غیر تشریعی نبی کا سلسلہ جاری ھے"۔
ان عبارات کے مصداق کو سمجھنے کے لئے پھلے یہ سمجھنا چاھئے کہ اس مخصوص عقیدے کے بیان میں ابن عربی ولایت و نبوت سے کیا مراد لیتے ھیں۔ ایک عبارت کے معنی کی وھی تعیین درست ھوتی ھے جو خود متکلم کی اپنی اصطلاحات میں بیان کی جائے، نہ یہ کہ اس میں استعمال کئے گئے الفاظ کو کسی دوسرے معنی پر محمول کرکے عبارت کے معنی اخذ کرلئے جائیں۔ چنانچہ ابن عربی کھتے ھیں کہ پیغمبر کی دو جھات یا حیثیتیں ھیں: 
- ایک وہ جسکا تعلق "بطور عارف" خدا اور اسکی اسماء و صفات میں تدبر سے ھے، اسے وہ ولایت (یا نبوت عامہ، اسکی تشریح بعد میں آتی ھے) سے تعبیر کرتے ھیں 
- دوسرا پھلو "بطور شارع" بندوں کی اصلاح و تزکیہ اور تھذیب تمدن سے ھے، اسے وہ "نبوت" کھتے ھیں۔ 
یھاں قابل غور بات یہ ھے کہ ابن عربی ولایت کو نبوت کا ایک پھلو قرار دیتے ھیں، اسکا حریف و مدمقابل نھیں۔ چنانچہ دوسرے پھلو کے اعتبار سے وہ واضح طور پر ختم نبوت کے قائل ھیں ("وحی محمد قد انقطعت فلا نبی بعدہ")۔ ختم نبوت سے وہ یہ مراد لیتے ھیں کہ اب کوئی اور شارع آنے والا نھیں جسکا قول و فعل شریعت و حجت قرار پائے۔
البتہ انکے خیال میں ولایت (نبوت عامہ) کی حیثیت ایک پھلو سے نبوت سے مختلف ھے، یہ اللہ تعالی سے ایسا تعلق ھے جو دنیا و آخرت دونوں میں جاری و ساری ھے، لھذا یہ دائمی و غیر منقطع ھے جبکہ نبوت (تشریع) اب منقطع ھوچکی۔ ولایت (نبوت عامہ) کا یھی وہ پھلو ھے جس سے وہ ولایت (نبوت عامہ) کی نبوت پر گوں نا گوں ایک پھلو سے برتری ثابت کرتے ھیں۔ اسکے علاوہ ولایت کے نبوت پر فوقیت کے اور کوئی معنی نھیں۔
دراصل ابن عربی ختم نبوت سے پیدا ھونے والی ایک گتھی کو سلجھانا چاھتے تھے۔ وہ گتھی یہ تھی کہ کیا ختم نبوت کا معنی یہ سمجھا جائے کہ اسکے بعد عرفان خداوندی کا سلسلہ اپنے بندوں پر ختم ھوچکا؟ کیا ختم نبوت کے اس عقیدے سے ان لوگوں کی حوصلہ شکنی نہ ھوگی جو خلوص و دیانتداری سے معرفت خداوندی کے درجات میں بلندی چاھتے ھیں؟
اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے ابن عربی ختم نبوت کی تین جھات متعین کرتے ھیں۔
الف) ایک جھت اللہ تعالی کے فیضان ربوبیت کی ھے ۔۔۔۔۔ اس اعتبار سے سوال یہ ھے کہ کیا اب خدا کی نوازشیں آئندہ کسی شخص کی طرف متوجہ نھیں ھوں گی؟ 
ب) دوسری جھت بندگی و ذوق عبادت کی ھے ۔۔۔۔۔ اس میں حل طلب سوال یہ ھے کہ کیا ختم نبوت کے بعد بندوں پر روحانی ارتقا کے تمام دروازے بند کردیئے گئے ھیں؟ 
ج) تیسری جھت تھذیب اخلاق و تمدن کی ھے ۔۔۔۔۔ کیا اسکا مفھوم یہ ھے کہ آئندہ فقہ و تفنین کے لئے کوئی زحمت برداشت کرنے کی ضرورت نھیں ھے؟
ان تینوں سوالوں کا حل انکے خیال میں یہ ھے کہ ولایت (نبوت عامہ) کے اس تصور کو مان لیا جائے کہ خدا کی نظر کرم اب بھی اپنے بندوں کو الھام و کشف کے ذریعے علوم و معارف سے بھرہ مند کرتی ھے، اب بھی ذوق عبادت اس لائق ھے کہ بندہ روحانی ارتقاء کی منازل کو طے کرتا چلا جائے، اسی طرح اب بھی فقہ و تفنین کے ذریعے مسائل کا استنباط ھوتا رھے گا (البتہ اب کوئی شارع نھیں آئے گا)۔ ولایت کو انھی معنی میں ابن عربی مجازا نبوت عامہ سے تعبیر کرتے اور اسکے جاری رھنے کے قائل ھیں کہ اسکے فرائض میں اجتھاد کے پیمانوں کو دریافت کرنا یا بذریعہ کشف جان لینا ھے۔ چنانچہ اس بارے میں وہ یوں رقمطراز ھوتے ھیں: 
"فابقی لھم النبوۃ العامۃ التی لاتشریع فیھا وابقی لھم التشریع فی الاجتھاد فی ثبوت الاحکام" (خدا نے نبوت کے بعد مخلوق کے لئے نبوت عامہ کو باقی رکھا جس میں (وحی پر مبنی) تشریع شامل نھیں، البتہ ان کے لئے جس تشریع کو جاری رکھا وہ اجتھاد سے متعلق ھے جسکے ذریعے احکامات ثابت کئے جاتے ھیں)۔
پس معلوم ھوا کہ ابن عربی ولایت کو مجازا نبوت عامہ کھتے ھیں بالکل اسی طرح جیسے وہ اجتھاد کو مجازا تشریع قرار دیتے ھیں (حالانکہ اجتھاد "حقیقی معنی" میں تشریع نھیں جیسا کہ وہ خود بھی فرماتے ھیں)۔ اس تفصیل سے یہ نکتہ بھی صاف ھوجاتا ھے کہ ابن عربی کے یھاں جو "غیر تشریعی نبوت کے جاری رھنے کی" بات ملتی ھے وہ دراصل "مجتھد" کا منصب ھے جسے درج بالا تین پھلووں کے تناظر میں مجازا غیر تشریعی نبی کہہ دیا گیا ھے۔
درج بالا وضاحت کی روشنی میں یہ بات کھی جاسکتی ھے کہ اگرچہ ابن عربی کے اسلوب و انداز بیان سے اختلاف کیا جاسکتا ھے (کہ انھیں نبوت و تشریع جیسی ٹھیٹھ دینی اصطلاحات میں ولایت و اجتھاد جیسے نظریات بیان نھیں کرنا چاھئے تھے) مگر اسکی بنا پر ان پر اور اس سے بھی آگے بڑھ کر تصوف ھی پر ختم نبوت کے منکر ھونے کا الزام دھر دینا شاید پوری بات سمجھے بغیر لب کشائی کرنے کے مترادف ھے۔
واللہ اعلم بالصواب
(زاہد مغل)























0 Comments:

Post a Comment

Subscribe to Post Comments [Atom]

<< Home