Tuesday, November 10, 2015

علامہ اقبالؒ اور تصوف

0 comments
جو لوگ شرعی تزکیہ کے مقابل ایک الگ نظریہ کی حیثیت سے تصوف کی کھلی تردید کرتے ہیں اور ساتھ ہی علامہ اقبالؒ سے گہری عقیدت بھی رکھتے ہیں وہ علامہ کے افکار و خیالات کی تاویل کرتے ہیں، حالانکہ عقیدت و محبت اپنی جگہ ہے اور اصولوں کے حوالے سے گفتگو اپنی جگہ ہے۔ صاف ستھری بات یہ ہے کہ علامہ اقبال کی شاعری میں تصوف انتہائی اہم عنصر ہے۔ اقبال کی شاعری میں جو رمزیت اور ماورائی کیف ہے اس میں تصوف کا خاص دخل ہے ۔ جنوں، وجود، خرد، عشق کے الفاظ اقبال کے یہاں جب پڑھنے میں آ تے ہیں تو ان کا حسن الگ ہی محسوس ہوتا ہے۔ آپ غور کیجئے تو یہ الگ احساسِ حسن اقبال نے تصوف سے ہی پیدا کیا ہے۔ اگر کہیں پورا پورا تصوف نہیں تو کم ازکم اس کی اصطلاحات ہیں، اصطلاحات نہیں تو اسلوب ہے، اسلوب بھی نہیں تو تصوف کی گرمی مگر ہے۔
'شکوہ' اقبال کا شاہکار ہے۔ اس کے بعد اقبال کو شاعر کہنے کے لئے کسی اور چیز کی ضرورت نہیں رہ جاتی ۔ 'شکوہ' صاف تصوف کی جرأت مجذوبانہ اور ہمت رندانہ ہے۔'ہرجائی' جو اردو میں آوارہ اور بد چلن عورت کے لئے آتا ہے، کم از کم بد معاشی کی سطح پر بے۔ وفائی اس لفظ کی امتیازی شان ہے۔ مگر دیکھئے اقبال نے رب کے حضور میں عرض کر ڈالا: 'بات کہنے کی نہیں تو بھی تو ہرجائی ہے'۔ اسے ہم منصور حلّاج کی طریقت نہ کہیں تو کیا کہیں۔ منصور کے اعتراف میں ذرا دیکھئے اقبال کیسا کیسا بچ بچ کے بول رہا ہے۔
؎ خود گیری و خودداری و گل بانگ انا الحق
آزاد ہو سالک تو یہ ہیں اس کے مقامات

ہمارے علماء کرام جب کلام اقبال میں لفظ 'مقام' پڑھتے ہیں تو اس کا ڈکشنری معنی سمجھ لیتے ہیں۔ حالانکہ بہت سے مقامات میں متصوفانہ مفہوم میں استعمال ہے اور یہاں بھی مقامات کا مفہوم صوفیانہ اصطلاحات میں بند ہے۔ ایک اور جگہ اقبال کہتا ہے۔
؎ کیا نوائے اناالحق کو آتشیں جس نے
تری رگوں میں وہی خوں ہے قم باذن اللہ

کسی کی فکر اگر نظم میں متعین نہ ہو سکے تو نثر میں ضرور ہوجاتی ہے۔ چنانچہ اقبال نے اپنے خطبات میں صاف کہہ دیا ہے کہ حلّاج کے معاصرین و اخلاف نے اس کے نعرۂ انا الحق کا غلط مطلب نکالا اور اس کی تشریح 'وجودیت' سے کردی۔
جو لوگ افکار اقبال کو ادوار میں تقسیم کرتے ہیں بعض افکار کے حوالے سے یہ تقسیم درست ہو سکتی ہے لیکن تصوف کے باب میں یہ محض تسلی اور خوش عقیدگی ہے۔ تصوف کے خلاف کلام اقبال میں جو کچھ ہے وہ یہ ہے کہ اقبال نے تصوف پر جا بجا طنز کیا ہے، لیکن اس طنز کی نوعیت تردید کی نہیں تنبیہ کی ہے۔ محبوبانہ تنبیہ!
قابل غور ہے کہ کلام اقبال میں صرف تصوف پر طنز نہیں ہے اور بھی چیزوں پر ہے جو ثوابت اور مسلمات کے حکم میں ہیں۔ دیکھئے:
؎ تمد ن، تصوف، شریعت، کلام 
بُتانِ عجم کے پجاری تمام

یہاں شریعت پر طنز ہے۔ اب فرمائیے؟ حقیقت یہ ہے کہ 'ساقی نامہ' جہاں سے یہ شعر ماخوذ ہے، پورا کا پورا تصوف اور فلسفہ کی زمین سے نکلا ہے۔ اسلوب، الفاظ، بیان کی گرمی اور گہرائی سب تصوف اور فلسفہ سے کشید ہیں۔
اس قسم کے اور بھی اشعار ہیں۔ ملاحظہ ہوں:
؎ کسے خبر کہ سفینے ڈبو گئی کتنے 
فقیہ و صوفی و شاعر کی ناخوش اندیشی

؎ قلندر جز دو حرف لا الہ کچھ بھی نہیں رکھتا 
فقیہ شہر قاروں ہے لغت ہائے حجازی کا

؎ سکھا دیئے ہیں اسے شیوہ ھائے خانقہی 
فقیہ شہر کو صوفی نے کر دیا ہے خراب

ان اشعار میں غور کیجئے تو اندازہ ہوگا کہ ساری تنبیہات محبوبانہ ہیں ورنہ اقبال نے شاعر ہونے کے باوجود شعراء کی بھی نفی کی ہے۔ اصل یہ ہے کہ اقبال خانقاہی تصوف کی تردید کرتا ہے لیکن میدانِ تصوف کا قائل ہے جسے ماڈرن تصوف بھی کہہ سکتے ہیں۔ ترکِ جہاد کی تعلیم دینے والا صوفی اس کو نہیں بھاتا ورنہ اقبال خود اپنے لئے اشارے میں صوفیت کو پسند کرتا ہے۔
؎ کہاں سے تو نے اے اقبال سیکھی ہے یہ درویشی
کہ چرچا پادشاہوں میں ہے تیری بے نیازی کا

ہمارے علما ء کرام تصوف کو صرف ظاہر الفاظ میں دیکھتے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ وہ تصوف کی بعض اصطلاحات ہی جانتے ہیں۔ وہ نہ تو اس کے مزاج سے واقف ہیں اور نہ اس کے ادب سے۔ حتیٰ کہ یہ شعر بھی وہ تصوف سے نہیں جوڑتے۔
؎ توابھی رہ گزر میں ہے قید مقام سے گزر
مصر وحجاز سے گزر پارس و شام سے گزر
تیرا امام بے حضور تیری نماز بے سرور 
ایسی نماز سے گزر ایسے امام سے گزر



قیدِ مقام' سے گزرنے میں جو حدّت اور تیزی ہے وہ آشنائے تصوف ہی کچھ محسوس کر سکتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ علمائے ظواہر تصوفِ اقبال کو یہاں بھی محسوس نہیں کر پاتے۔
؎ علاج آتش رومی کے سوز میں ہے تیرا
تری خرد پہ ہے غالب فرنگیوں کا فسوں
اسی کے فیض سے میری نگاہ ہے روشن
اسی کے فیض سے میرے سبو میں ہے جیحوں

علم کی تحقیر اور عشق کی تفضیل صوفیاء کا خاص نظریہ ہے۔ اقبال کو یہیں دیکھ لیجئے:
؎ عشق سراپا حضور 
علم سراپا حجاب 
علم ہے پیدا سوال 
عشق ہے پنہاں جواب
علم ہے ابن الکتاب 
عشق ہے ام الکتاب

ابن الکتاب میں جو تندی ہے اور ام الکتاب میں جو تقدیس ہے، یہ صرف اہل نظر محسوس کرسکتے ہیں۔
'ابلیس' محترم اقبال کے سہارے دیکھئے کیسی بولی بول رہے ہیں اور جبریل چار وناچار سماعت فرما رہے ہیں۔
؎ خضر بھی بے دست و پا الیاس بھی بے دست و پا
میرے طوفاں یم بہ یم دریا بہ دریا جو بہ جو

اور یوں بھی:
؎ گر کبھی خلوت میسر ہو تو پوچھ اللہ سے
قصہ آدم کو رنگین کر گیا کس کا لہو
میں کھٹکتا ہوں دل یزداں میں کانٹے کی طرح
تو فقط اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو

یہ اشعار بھی ملاحظہ کریں:
؎ علم فقیہ و حکیم فقر مسیح وکلیم 
علم ہے جو یائے راہ فقر ہے دانائے راہ
فقر مقام نظر علم مقام خبر 
فقر میں مستی ثواب علم میں مستی گناہ

اسی طرح: 
؎ عقل گو آستاں سے دور نہیں 
اس کی تقدیر میں حضور نہیں
علم میں بھی سرور ہے لیکن
یہ وہ جنت ہے جس میں حور نہیں

یہ سارے اشعار بڑے شرعی طور طریق سے باندھے گئے ہیں لیکن طریقت کی گرمی صاف محسوس کی جا سکتی ہے۔ اقبال کی دوستانہ بے تکلفی اور چھیڑ چھاڑ دیکھنا ہو تو یہ پڑھیں۔
؎ کمال جوش جنوں میں رہا میںگرم طواف 
خدا کا شکر سلامت رہا حرم کا غلاف

؎ تیری خدائی سے ہے میرے جنوں کو گلہ 
اپنے لئے لا مکاں میرے لئے چار سو

اقبال ہی کا ایک شعر ہے:
؎ خودی کی شوخی و تندی میں کبر و ناز نہیں 
جو ناز بھی ہے تو بے لذت نیاز نہیں

یہ شعر اقبال نے بڑے ہی شرعی انداز میں باندھا ہے اور عام طور پر اقبال کے کم ہی اشعار ایسے ملیں گے جنہیں شرعی طور پر باندھا نہیں گیا ہے۔ لیکن غور کیجئے تو خمیر تصوف کی مٹی کا ہے۔ حلّاج کے جلال 'انا الحق' میں صوفیاء ایک جمال پوشیدہ مانتے ہیں۔ یہاں ناز میں لذت نیاز کی اٹھان اسی قسم کی ہے۔ علماء کرام اور طلباء عظام یہ شعر خوب خوب استعمال کرتے ہیں۔
؎ خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

یہ دراصل ناز میں لذت نیاز کا ہی پیدا کردہ ہے۔ جب اقبال کہتا ہے:
؎ خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں 
ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں

تو اس میں 'نظر' کی معنویت صوفیانہ تعبیرات کی رہین نظر آتی ہے۔ کبھی کبھی تو اقبال فرشتوں سے بھی بےتکلف دکھائی دیتا ہے:
؎ نہ کر تقلید اے جبریل میرے جذب و مستی کی
تن آساں عرشیوں کو ذکر و تسبیح و طواف اولیٰ

عالم خیا ل میں اقبال حج کو جاتے ہیں اور قلبی غرض مدینہ ہے۔ چنانچہ خدا کو مکہ میں چھوڑ کر رسول اللہ ﷺ کی طرف چل پڑتے ہیں:
؎ تو باش ایں جاں وبا خاصاں بیا میز 
کہ من دار م ہوائے منزل دوست

اگر کسی کو بہت انکار ہو تو وہ 'التجائے مسافر' پڑھ لے جو بہ درگاہ محبوب الہٰی ﷺ پیش کی گئی ہے اور بہت کچھ سوالات شاعرانہ رکھ گئے ہیں۔ ابتدائی اشعار میں شعر و تصوف کا آمیزہ ملاحظہ کیجئے:
؎ فرشتے پڑھتے ہیں جس کو وہ نام ہے تیرا 
بڑی جناب تری فیض عام ہے تیرا
ستارے عشق کے تیری کشش سے قائم ہیں 
نظام مہر کی صورت نظام ہے تیرا
تری لحد کی زیارت ہے زندگی دل کی 
مسیح وخضر سے اونچا مقام ہے تیرا

الغرض اقبال نے ضربیں ماری ہوں نہ ماری ہوں۔ اسے حال آیا ہو نہ آیا ہو، یہ تسلیم ہے۔ لیکن اقبال نے حکیم سنائی، مولانائے روم، منصور حلاج اور ابن عربی کے نظریات سے بھر پور استفادہ کیا ہےاور ان کے افکار کو زبان دے دی ہے،، شرعی زبان اور شاعرانہ کیف۔۔!!

— ابو صبیحہ

Thursday, October 29, 2015

حضرت امام حسینؓ کو نذرانۂ عقیدت

0 comments
کبھی خیال آتا ہے کہ کل محشر میں اگر نانا نے نواسے سے پوچھ لیا کہ حسینؓ! تم نے میرے بیٹوں اور بیٹیوں کو کیوں شہید کرایا؟ وادئ کرب و بلا کو اہلِ بیتِ نبوت کے خون سے کیوں سیراب کیا؟ کیا نبی کے گھرانے کے پاک خون کا تمہیں ذرا پاس نہ ہوا؟ کیا تھا کہ تھوڑا سا سمجھوتہ کرلیتے تو خاندانِ رسالت کو یوں بےدردی سے تاراج نہ کیا جاتا؟ کیا ہوتا اگر دل سے نہ سہی،، معصوم بچوں کے خون کا لحاظ کرتے ہوئے باطل کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ دیتے؟
کیا جواب ہو گا امام حسینؓ کا؟ کیا سر جھکا کر معذرت خواہ ہوں گے؟
میں کہتا ہوں ہرگز ہرگز نہیں..!!!
سیدنا حسینؓ پکار اٹھیں گے کہ نانا جان ﷺ! میرے پاس دو اختیارات تھے.. یا تو آپؐ کی اُس بابرکت تعلیم و تربیت کی لاج رکھتا جو بچپن سے میری گھٹی میں پڑی تھی.. یا پھر ظالم کے سامنے جُھک کر اسکی اطاعت قبول کرکے آپکے پاکیزہ خون کی نگہبانی کرتا..!
میں نے آپکی تعلیمات کو مقدم سمجھا.. 
میری تربیت میں یہ بات شامل تھی کہ باطل کی اطاعت کے مقابل گھر چھوڑنا پڑے،، چھوڑ دو.. 
بدر و اُحد سجانا پڑے،، سجا لو.. 
خندق کھودنی پڑے،، کھود لو.. 
مگر اللہ کے دین میں پیروی ہو گی تو صرف آپؐ کی ہو گی.. کسی فرد یا گروہ کو یہ حق نہیں دیا جائے گا کہ وہ مسندِ اقتدار پر من چاہی روش اختیار کرے.. دین کے خالص پن میں کھوٹ کی ایک رَتی بھی برداشت نہیں کی جائے گی.. 
مکرم ترین خون کے دریا بہیں تو بہہ جائیں،، 
ننھے بچوں کے خشک حلق خون سے تر ہوں تو ہو جائیں،، 
امت کی باعزت ترین خواتین پریشان حال رہیں تو رہ جائیں.. 
مگر احکاماتِ الہیہ اور آپؐ کے فرامین سے بالاتر کسی کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا.. راہِ کرب اور مقامِ بلا میں ہوتے ہوئے بھی مالک کو سجدہ چھوڑا نہیں جا سکتا..!
عالمِ تصور میں یہ وہ لمحہ ہو گا جب نانا اپنے نواسے کو فخر سے گلے لگائیں گے اور فرمائیں گے حسینؓ! تو نے خونِ نبوت اور پیغامِ رسالت کا حق ادا کردیا.. تو نے حق کو باطل سے جدا رکھ کر دنیا کو ایک نئی جہت سے روشناس کرایا جسے حسینیت کہا جانے لگا.. تو نے یزیدیت کے مظالم سہہ کر تاریخِ اسلام کا ایک قابلِ تقلید باب رقم کیا.. 
سلام ہو تجھ پر اے شہیدِ کربلا.. 
سلام ہو تجھ پر اے شبابِ جنت کے سیّد..!!
دوستو؛ 
اپنے سینے کو کربلا سمجھو.. اس میں حسینؓ بھی ہے اور یزید بھی.. 
اپنے گریبان میں جھانکو.. اس میں مظلوم بھی ہے اور ظالم بھی.. 
اپنے من کا جائزہ لو.. اس میں حق بھی ہے اور باطل بھی.. 
تمہارے ضمیر میں صدق و کذب کی کرب و بلا ہر آن بپا ہے.. 
تختِ اختیار ہر لمحہ تمہارے قبضے میں ہے.. 
چاہو تو حسینؓ کی صف میں کھڑے ہو کر شیطانیت کے ہر وار کو بہادری سے سہہ لو.. 
چاہو تو لشکرِ یزید میں رہ کر سمجھوتوں اور من پسندی کی زندگی جیو.. 
حیاتِ جاوداں وہ پائے گا جو اپنی خلوتوں اور جلوتوں میں طریقِ حسینیت پہ کاربند رہے گا.. اور جو رب کے قائم کردہ اصولوں کو یزیدیت سے پاک رکھے گا..
دورِ حاضر کے تمام فتنوں کو بتا دو کہ 'تیرا حسینؓ ابھی کربلا نہیں پہنچا'،، مگر،،،
میرا حسینؓ سدا کربلا میں رہتا ہے
میں حُر ہوں کسی یزید کا غلام نہیں..!!
.
(تحریر: محمد نعمان بخاری)

Wednesday, October 14, 2015

محبت اور ذاتِ گرامی ﷺ

0 comments
مضمون: سیرتُ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
منتخب پہلو: محبت
انتساب: ان تمام لوگوں کی عقیدت اور تڑپ کے نام جو سیرت پر لکھنا چاہتے ہیں پر نہیں لکھ پاتے۔۔!
تحریر: محمد نعمان بخاری
۔۔ــــ۔۔ــــ۔۔ــــ۔۔ــــ۔۔ــــ۔۔ــــ۔۔ــــ۔۔ــــ۔۔ــــ۔۔ــــ۔۔
بندہ ایک ہو،،محبوب ایک ہو۔۔ اسے چاہنے والے،، اسے پانے کے خواہش مند ایک سے زیادہ ہوں،، تو وہ آپس میں رقیب کہلاتے ہیں۔۔ ہوتے تو وہ ایک ہی شخص پر فِدا ہیں مگر ایک دوسرے کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے ہیں،، ایک دوسرےکے نقصان کے درپے ہوتے ہیں۔۔ محبوب سےتعلق رکھنے کی خاطر رقیب کیلئے نفرت اور انتقام کا جذبہ ایک فطری اَمر ہے۔۔ اس جذبے نے دنیا میں بہت فساد پھیلایا،، بہت خرابہ کیا۔۔ کوئی دن ایسا بتا دیجئے جب اخبار میں رقیبوں کے منفی کارناموں پر خبر نہ چلی ہو۔۔ یہ معمول ہے۔۔ انسان مجبور ہے اپنی اس خصلت پر لگام نہ ڈالنے پر۔۔!
تاریخ کی بے کنار زمین پہ کھڑا زیرِ فلک نظر بھگاؤں تو قربان کیوں نہ جاؤں اُس عفیف ہستی پر۔۔ بندہ ایک ہے،، محبوب ایک ہے۔۔ اسے چاہنے والے،، اسے اپنانے کے طالب لاکھوں نہیں کھربوں میں ہیں۔۔مگر وہ سب رقیب نہیں بلکہ آپس میں رفیق ہیں۔۔ ہو گی کسی معاملے پہ نفرت،، کسی بات پہ دشمنی ہو گی،، کسی مسئلے پہ چپقلش بھی ہوگی۔۔ لیکن جب نام آئے گا میرے محبوب ﷺ کا،، سیدُ المرسلینﷺ کا۔۔ تو سب عداوت کافور،، سب رقابت ختم۔۔ کمال ہے،، بے حد کمال ہے۔۔ یہ کیسا دلرُبا ہے جس نے کروڑوں دِلوں کو ایک مشترکہ مرکز فراہم کر دیا۔۔ یہ کیسا مکرّم ہے جس نے انسانیت کو ایک نقطۂ اتحاد سے نواز دیا۔۔ یہ کیسی ذاتِ گرامی ہے جس کا نامِ نامی آتے ہی سارے انتقامی جذبے ماند پڑ جاتے ہیں،، محبت جاگ اٹھتی ہے،، دل جُڑ جاتے ہیں۔۔ ارے مقامِ حیرت تو دیکھئے کہ خون کے پیاسے خونِ جگر دے رہے ہیں اور جان کے دشمن جان لٹانے پہ آمادہ۔۔ انسانیت کے تمام صالح اوصاف کو انکی اعلیٰ ترسطح پہ ایستادہ کیا جائے تو وہاں رسول الراحہ ﷺ مسکراتے ہوئے ملیں گے۔۔ پاکیزہ ترین تصور کی تان کو کھینچ کےبے لوث محبت کی منتہیٰ تک لے جایا جائے تو وہاں صاحبِ معراج ﷺ جلوہ افروز ہوں گے۔۔ میں خالقِ زمان و مکاں کی تخلیقی وسعتوں پر حیرت کناں تو تھا ہی،، اسکی رفعتوں کا پہلے سے بھی زیادہ معتقد ہو گیا جب اُس نے اشرف الانبیاءﷺ کو مبعوث فرما کر انسانیت پر اپنے احسانوں اور محبتوں کی حد کردی۔۔ اور پھر حاکمِ بحروبر کی اپنے حبیب ﷺ کیساتھ محبت دیکھئے کہ شرقین سے غربین تک اُس کے پاک نام کے ساتھ اگر کسی اور نام  کی گونج ہے تو وہ ہے محمد الرسول اللہ ﷺ۔۔ ارض و سماوات کے ہر نہاں خانے میں ربِ قدوس کی تقسیم کردہ محبت کا ہر ذرہ اپنی منزل پہ پہنچنے سے پہلے درِ اقدسِ قاسم ﷺ کا بوسہ لے کر آتا ہے۔۔ رب کے عالمین میں جہاں کہیں محبت کی کوئی کرن موجود ہے،، وہ ضیاء پاتی ہے آفتابِ نبوت ﷺ سے۔۔ حتیٰ کہ مجھے اگرآپ سے محبت ہے،، تو یہ عکس ہے اُس محبت کا جو ہمیں آقا ﷺ سے نصیب ہے۔۔ آپ کو اگر مجھ سے پیار ہے،، تو یہ سایہ ہے اُس محبت کا جو ہمیں سرکار ﷺ کی ذاتِ عالی سے ہے۔۔!
آخر ایسا کیوں ہوا کہ مومن کو اس قدر محبت ہو گئی نبئ محترم ﷺ سے کہ کفر پکار اُٹھا،، ''قلبِ مومن سے روحِ محمد نکال لو تو اسلام کا وجود ختم ہو جائیگا''؟ 
ایک ضابطہ ہے محبت کا کہ کسی کو جتنی محبت دو گے،، بدلے میں اس سے کم محبت نہیں ملے گی۔۔ انسان تو انسان،، آپ جانور کو پیار کی تھپکی دیں تو وہ آپ سے مانوس ہو جاتا ہے،، آپکا تابع ہو جاتا ہے۔۔ یہ محبت اونچائی سے گہرائی کی طرف سفر کرتی ہے،، اور ردّ عمل میں نیچے سے واپس بلندی کی طرف لوٹتی ہے۔۔ رب نے اپنے کلام میں طے کردیا ہے کہ ''یُحبھم ویحبونہ''۔۔ (اللہ اُن سے محبت کرتا ہے، اور وہ اللہ سے محبت کرتے ہیں)۔۔ یعنی ابتداء اللہ کریم کی طرف سے ہوتی ہے محبت کی۔۔  میں انگشت بدنداں ہوں کہ کس قدر شدید پیار کیا ہے شفیع المذنبینﷺ نے انسانیت سے،، کہ جواباً ایک ادنیٰ سا مسلمان اپنے جسم کے چیتھڑے تو اُڑوا دیتا ہے مگر شانِ رسالت پر غبار کا ذرہ بھی برداشت نہیں کر سکتا۔۔ عالمِ تخیل میں کسی طرح محبت کو ایک جگہ اکٹھاکر دیا جائے،، گر اسے کسی تصویر میں ڈھالا جاسکے،، تو محبوبِ ربانیﷺ کی صورت و شباہت بنے گی۔۔ یعنی مصورِ کونین نے خیرالبشرﷺ کو مجسمِ محبت بنا دیا ہے،، محورِ رفاقت کر دیا ہے،، مرکزِ الفت ٹھہرا دیا ہے۔۔ حیاتِ طیبہ کے تمام واقعات پڑھ لیں،، سیرت مبارکہ کے تمام پہلو دیکھ لیں،، محبت ہی محبت ہیں۔۔ ولادت باسعادت سے لیکر وصال مبارک تک کی سوانح محض ہادئ عالم ﷺ کے شب و روز کی تصویر کشی نہیں،، بلکہ یہ خدا کے کلام کی وہ عملی تفسیر ہے جسے خالقِ کُن نے اپنے محبوب کی شکل میں کھینچا ہے۔۔ ہم سے مطالبہ صرف یہی ہے کہ ہم جوابِ محبت میں سرورِ دوعالم ﷺ کی سیرتِ عظمیٰ کے متبرک سانچے میں ڈھل جائیں۔۔ یہی راہِ نجات ہے،، یہی صراطِ الفت ہے،، یہی پیغامِ محبت ہے۔۔!!

Saturday, October 10, 2015

روضۂ اطہر ﷺ پر حاضری کے احساسات

0 comments
بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ کوئی ذی احساس مسلمان پہلی مرتبہ روضہء رسول ﷺ پہ حاضری دے اور ضبط کے بندھن نہ ٹوٹیں.. رفتہ رفتہ یہ بندھن مضبوط ہوتے ہیں اور چار پانچ حاضریوں پہ اشکوں کو ٹٹولنا پڑتا ہے کہ نجانے کہاں گم ہو گئے.. حالیہ رمضان مبارک میں ایک بھائی سے مسجدِ نبویؐ کی چھت پہ ایک عمدہ ملاقات رہی.. ان کو کو بھی یہی مسئلہ درپیش تھا کہ پاکستان سے مدینہ منورہ کے سفر سے پہلے حالت یہ ہوتی ہے کہ گویا زیارت کرتے ہی رو رو کر ہماری جان نکل جائیگی.. مگر کچھ دو دن بعد یوں ہوتا ہے کہ جالئ اقدس پہ پہنچ کے بےسدھ  بےاشک کھڑے کے کھڑے رہ جاتے ہیں.. میں نے عرض کی کہ یہ وصال کی گھڑیوں کی وہ روحانی چاشنی ہے جسے پاکر بندہ ہجر کے دکھ بھول جاتا ہے.. جیسے ممتا کی گود میں آتے ہی بچے کو قرار آ جائے.. جیسے باپ کا سایہء شفقت ملتے ہی بیٹے کو طمانیت کا ادراک ہو.. جیسے کسی بہت زیادہ چاہنے والے کی محفل میں پہنچ کر انسان کو سکونِ دل میسر آئے.. پھر واپس اپنے گھر پہنچ کر ہجر کے آلاؤ تیز ہو پڑتے ہیں اور پھر وہی دوری ڈسنے لگتی ہے جسکا احساس تب ہوتا ہے جب روضہ اطہر کی کوئی شبیہ سامنے آ جائے یا نعت کے چند بول کانوں کو سنائی دیں.. غرض ان بےربط فقروں کے ذریعے میں آپکو بتا نہیں پا رہا کہ جذبات کو الفاظ سے کیسے ڈھانپا جائے.. کہنا یہ چاہتا ہوں کہ کیفیت بنے نہ بنے،، درِ حبیب ﷺ کی حاضری کی سعادت کو معمولی نہ سمجھا جائے.. ان لمحات کی حقیقی پہچان اور قدر برزخ میں معلوم ہو گی.. دنیا میں ہرشخص کی کیفیت اسکے مزاج و فطرت کے اعتبار سے مختلف ہوتی ہے.. کچھ ایسے بھی ہیں جو وصال کی خوشی بھی برداشت نہیں کرپاتے اور سینہ چاک کر بیٹھتے ہیں..!
آمدم برسرِ قصہ،،
آج بعد مغرب، سلام پیش کرتے ہوئے معاً یہی خیال کوندا کہ یقیناَ دل بنجر ہو چکا ہے.. ہلکی سی نمی بھی ہوتی تو ضرور کچھ آثار اُمڈ آتے.. بوجھل قدموں سے باہر نکل آیا.. جوتی اٹھانے کیلئے شوز ریک کی سمت بڑھا تو ایک خوش پوش پاکستانی نوجوان پہ نگاہ پڑی.. کالی گھنی داڑھی اور سفید اُجلے لباس میں ملبوس بہت پیارا لگ رہا تھا.. مگر یا اللہ یہ کیا؟؟ میں ٹھٹھک گیا.. وہ سفید لاٹھی کے سہارے کچھ ٹٹول رہا تھا گویا رستہ ڈھونڈتا ہو.. اسکی آنکھوں کے نگینوں کو میں نے دیکھا تو ان میں روشنی نہ تھی.. 
"یا میرے مالک" ،، میری دھاڑ نکل گئی.. بینائی والوں کا حال تو یہ ہے،، اور نظر سے معذور یہ شخص کس چاہت سے اپنے ملک سے یہاں اپنے نبی کا روضہ دیکھنے آیا ہے.. کس الفت اور مان سے یہاں فِراق کا اَلم مٹانے پہنچا ہے.. ضرور یہ آنکھ والوں کی قسمت پہ رشک کرتا ہوگا اور تنہائی میں اپنے رب کے حضور آہیں بہاتا ہو گا کہ میرے مولا! کاش مجھے بینا کیا ہوتا.. اور کچھ نہیں بس زندگی میں صرف ایک بار آنکھ بھر کے کالی کملی والے کا سبز گنبد دیکھ پاتا..! 
ہائے یہ احساس کی سنگین سولی،، ظالم چین سے جھولنے ہی نہیں دے رہی تھی.. جان تھی کہ مرغِ بسمل ہوئی،، آنسو تھے کہ گھنٹہ بھر جاری رہے..!!
(تحریر: محمد نعمان بخاری)

کیا صحابہ کرامؓ معیارِ حق اور جزوِ ایمان ہیں؟

0 comments
ایک لمحے کو آپ صحابہ کرام کو 'جزوِ ایمان' سے نکال باہر کریں،، نبوت کے ان محافظوں کے اقوال و کردار اور قربانی و ایثار کو بھول جائیں،، انکے تاریخ ساز فیصلوں کا یک جنبش انکار کر دیں،، انکے مصدقہ صدق و وفا سے آنکھیں پھیر لیں،، تو پتہ ہے ہماری مذہبی دنیا میں کیا شے بچے گی؟ صرف رافضیت..!
کیسے؟
وہ ایسے کہ جو بےلچک امور صحابہ عظام نے عمارتِ اسلام کی مضبوطی و رفعت کیلئے سرانجام دئیے،، ان سب پر تقیہ کا بدبودار ٹاٹ ڈال کر اور اسکے نیچے چھپ کر ہی تو رافضیت سانس لے رہی ہے،، ورنہ اسکے پلے ہے کیا؟ میرے جو فیس بُکی دوست غلطی سے یہ مان بیٹھے ہیں کہ صحابہ ہمارے لیے معیارِ ایمان و حق نہیں ہیں، ایک معنی میں وہ قرآنِ کریم کی ان بیسیوں آیات کا ابطال کر بیٹھتے ہیں جن میں اللہ کریم نے انکے اوصاف بیان فرمائے ہیں،، جن میں خالق کائنات نے انکی آراء کی موافقت فرمائی ہے.. جن میں رب نے واضح طور پر انکے ایمان و کردار کو ہمارے لیے مثال کیا ہے کہ ویسا ایمان لاؤ جیسا وہ لائے تھے، وہ صراط اپناؤ جس پہ انکے قدوم کے نشان ہیں،، تب ہی ممکن ہے کہ تمہیں بھی 'انعمت علیھم' میں جگہ مل سکے گی.. کیا پھر بھی انکے خلوص میں اور معیارِ حق ہونے میں شائبہ کی گنجائش بنتی ہے؟ اگر بنتی ہے تو میں نرم ترین الفاظ میں آپکو 'تقیہ پرور' کہہ سکتا ہوں.. مگر شاید مجھے ایسا نہیں کہنا چاہئے کیونکہ میرے نزدیک آپ بلاشک ایک اچھے مسلمان ہیں اور مجھے امید ہے آپ محض ایک پُرخلوص غلط فہمی کا شکار ہیں..!
میرے بھائی، آپ کے پاس دوسرا راستہ اور واسطہ کیا ہے جس کے ذریعے آپ زبانِ نبوت سے ادا ہونے والے الفاظ کو سُن اور سمجھ سکیں؟ آپ کے پاس کیا گارنٹی ہے کہ قرآن میں بتائے گئے عین یہی الفاظ اللہ کا کلام ہیں؟ کون گواہ ہے جو یہ شہادت دے سکے کہ میں نے بذاتِ خود اللہ کے نبی سے اللہ کا کلام سُنا تھا؟ ان سوالوں کا درست جواب پانے کیلئے آپکو بلا چوں چراں ماننا ہو گا کہ اولٰئک ھم الصادقون.. دوسری صورت میں آپکو تحریفِ قرآن کا قائل ہونا پڑے گا.. آپکو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے خلافت چھین لینی پڑے گی.. آپکو اپنا لقب مومن رکھ کر امہات المومنین پر زبان درازیاں کرنی ہوں گی.. آپکو یہ اقرار کرنا ہو گا اللہ کا نبی تیئیس برس میں صرف پانچ تن ہی پاک کر سکا.. آپکو اُس کلمے میں اضافہ کرنا ہو گا جسے پڑھتے پڑھتے شہداء نے اپنی زندگیوں کی آخری پُرکیف ہچکیاں لیں.. آپکو حسینیت کے نام پر یزیدیت کا پرچار کرنا ہو گا.. آپکو وضو اور نماز کا طریقہ خود تراشنا ہو گا.. آپکو روزے کا ٹائم ٹیبل بدلنا ہو گا.. آپکو زکوٰۃ کا منکر ہونا پڑے گا.. آپکو حج پر زواری کو ترجیح دینی ہو گی.. آپکو نبوت کی دیوار میں امامت کا کیل گاڑنا ہو گا.. آپکو شفاعت کا معیارِ ربانی تبدیل کرنا پڑے گا.. آپکو کالے جھنڈے تلے سرخ چراغ جلانا ہو گا.. آپکو خچر اور گھوڑے چومنا ہوں گے.. آپکو اپنے ہاتھوں اپنی ہی سینہ کوبی کا عذاب عبادت سمجھ کر سہنا ہو گا..!
اگر آپ ان سب خرافات سے اجتناب چاہتے ہیں، اور یقیناً چاہتے ہیں کیونکہ آپ ایک باشعور مسلمان ہیں تو ہردم دھیان رہے کہ صرف صحابیت ہی وہ ڈھال ہے جو ناموسِ رسالت کے تحفظ میں ڈٹ کے اور سینہ سپر کئے کھڑی ہے.. اس مقدس ڈھال کو پھاڑ دو،، اسکے معیارِحق ہونے سے انکاری ہو جاؤ،، تو بس آدھ انچ کا فاصلہ ہے خانوادہء نبوت پہ حملہء رافضیت کیلئے.. اعاذنا اللہ منہ.. مانا کے صحابہ معصوم عن الخطاء نہیں،، مگر جو رب سے ہر حال میں راضی ہوں،، جن کو اپنی دائمی رضا کا پروانہ خدا نے خود نوازا ہو،، انکو عدل کا پیمانہ کہنے سے ہچکچانا خود کو ایک رنگین دھوکا دینے کے سوا کچھ نہیں..!!
رضوان اللہ علیھم اجمعین
(تحریر: محمد نعمان بخاری)

دعا کا ادب

0 comments
آپ بیمار ہوں تو کیا آپ نے کسی سے یہ کہا کہ "دعا کرنا ، اللہ مجھے دوا لینے کی توفیق دے"؟ 
تو روح کے بیمار ہونے پر آپ یہ کیوں کہتے ہیں کہ، "دعا کرنا، میں نماز پڑھ سکوں۔ یا مجھے نماز کی توفیق ملے"؟
میرے بھائی، دعا کے آداب ہوتے ہیں۔۔ آپ اگر شادی ہی نہ کرنا چاہیں، اور اللہ سے اولاد کی دعا مانگنے لگیں تو کیا یہ گستاخی نہیں۔۔ جب آپکو اپنے بدن کی بیماری کے علاج کی فکر لاحق ہوتی ہے تو آپ فوراً طبیب سے رجوع کر کے علاج شروع کر دیتے ہیں۔۔ اور روح کی بیماری کے علاج کیلئے غیر سنجیدہ رویہ اختیار کرتے ہیں۔۔ سب سے پہلے آپ کو اپنی روح کی صحت کا احساس کرنا ہو گا۔۔ جب احساس بیدار ہو گا، تو نماز اور اعمالِ صالحہ کی توفیق بھی اللہ دے دیں گے۔۔ اصل میں ہم عبادات کرنا ہی نہیں چاہ رہے ہوتے اور دوسرے کو ٹرخانے کیلئے کہہ دیتے ہیں کہ، بس یار دعا کرنا۔۔!!
(بخاریات)

Monday, September 28, 2015

نمازِ کسوف و خسوف پر ملاحدہ کے اعتراض کا عقلی جواب

0 comments
ملاحدہ کااعتراض:
اسلام خوف کا مذہب ہے۔ مثلاً سورج اور چاند گرہن عام واقعات ہیں جن کی سائنس نے قابلِ فہم توجیہ پیش کی ہے جس کو پانچ سال کا بچہ بھی سمجھ سکتا ہے۔ سائنس نہ ہونے کی وجہ سے نبی اکرم ﷺ مسلمانوں کو ڈرا کر سورج اور چاند گرہن کی نماز پڑھانے پر اکساتے تھے، جبکہ یہ کوئی خوفناک واقعہ نہیں ہے۔
.
الجواب:
ہمارے لئے تو وہی بات قابلِ قبول ہے جو کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا دی۔۔ تفصیل اس بابت یہ ہے کہ دورِ جہالت میں گرہن سے متعلق فضول توہمات موجود تھے۔۔ مثلاً یہ سمجھا جاتا تھا کہ آسمان میں ایک اژدھا ہے، وہ جب غصے میں چاند کو نگل لیتا ہے تو چاند گرہن ہوتا ہے۔۔ اسی طرح زمین پر جب کسی اہم شخصیت کی موت ہوتی ہے توسورج پر اندھیرا چھا جاتا ہے تو سورج گرہن ہوتا ہے، وغیرہ۔۔ اسلام حقائق کا دین ہے اور توہمات کا مخالف ہے۔۔ ہجرتِ مدینہ کے بعد نبی کریم ﷺ کے صاحبزادہ ابراہیمؓ مدینہ میں پیدا ہوئے اور ڈیڑھ سال کی عمر (شوال-10 ہجری) میں انکا انتقال ہوگیا۔۔ اتفاق سے اسی دن سورج کو گرہن پڑگیا تو لوگوں نے کہا کہ یہ پیغمبر ﷺ کے بیٹے کی وفات کی وجہ سے ہے۔۔ آپ ﷺ کو یہ بات ناپسند ہوئی تو آپ نے لوگوں کو جمع کرکےفرمایا: "سورج اور چاند میں کسی انسان کی موت کی وجہ سے گرہن نہیں لگتا بلکہ یہ دونوں اللہ کی نشانیوں میں سے نشانیاں ہیں۔ جب تم ایسا دیکھو تو نماز پڑھو"- (صحیح البخاری- کتاب الکسوف)۔۔ یہ تو تھا ہم مومنین کیلئے جواب۔۔ اب 'عقلمند' ملحدین کیلئے سائنسی جواب ملاحظہ ہو۔۔
کائنات میں واضح طور پر ایک ذہین منصوبہ بندی (Intelligent Planning) پائی جاتی ہے جس کا دوٹوک مطلب ہے کہ ذہین ترین منصوبہ ساز(Intelligent Planner ) موجود ہے۔۔ اس منصوبہ ساز (خدا) نے آپکی اب تک دریافت شدہ 125 بلین کہکشائیں تخلیق کیں جس میں سے ہر ایک کے اندر تقریباً 200 بلین ستارے ہیں۔۔ ان عظیم کہکشاؤں میں صرف ایک ہمارے مِلکی وے گلیکسی (Milky Way Galaxy) کا نظامِ شمسی (Solar System) ایسا ہےجو ایک استثنائی مثال (Unique Case)ہے۔۔ مِلکی وے کا درمیانہ حصہ ناقابلِ برداشت حد تک گرم ہے۔۔ اسکا صرف ایک کنارہ اُس پُر خطر درمیانی ماحول کے اثر سے بچا ہوا ہےجہاں ہمارا سولر سسٹم موجود ہے۔۔ اور پھر اس میں سے صرف سیارہ زمین پر ہی Life Supporting System موجود ہے۔۔ مزید برآں، گرہن (Eclipse) ایک فلکیاتی مظاہرہ ہےجو باقی کائنات کی نسبت ایک عجیب طور پر ہمارے نظامِ شمسی کا حصہ ہے۔۔گرہن دراصل سایہ پڑجانے کو کہتے ہیں جو کہ دو اجسام کے درمیان ایک تیسرا جسم آجانے کی وجہ سے ہوتا ہے۔۔ سورج اور چاند گرہن ایک انوکھا تخلیقی معجزہ ہےجو کہ صرف زمین پر رونما ہوتا ہے۔۔ وہ ایسے کہ ان تینوں جسموں (سورج، زمین، چاند) کے سائز میں بہت زیادہ فرق ہے۔۔ چاند کو اگر مکئی کے دانے کے برابر سمجھا جائے تو اسکے مقابلے میں زمین فٹ بال کے برابر اور سورج کوہ ہمالیہ سے بھی زیادہ بڑا ہوگا۔۔ یہ تین مختلف سائز کے اجسام حرکت کرتے ہوئے ایسے خوبصورت تناسب سے ایک سیدھ میں آجاتے ہیں کہ زمین سے دیکھنے والے کو یہ یکساں سائز کے نظر آتے ہیں۔۔جب تینوں کے درمیان چاند ہو توسورج گرہن ہوتا ہے اور جب تینوں کے درمیان زمین ہو تو چاند گرہن ہوتا ہے۔۔ یہ اِس وسیع ترین خلاء میں ایک انتہائی انوکھی پوزیشننگ ہے۔۔ کیا اتنی بڑی کائنات میں صرف زمین پر یہ انوکھا واقعہ ہونا محض اتفاق ہے یا کسی عزیز اور علیم خدا کا مقرر کیا ہوا اندازہ ہے؟ (ذالک تقدیر العزیز العلیم)۔۔ ایسا خوبصورت اندازہ کہ آپ گرہنوں (Eclipses) سے پہلے ہی انکی قطعی پیشن گوئی کرلیتے ہیں۔۔ان گرہنوں کے زمین پر کیا اثرات ہیں، اور یہ کیسے افزائشِ حیات کیلئے مفید ثابت ہوتے ہیں، اسکی تفصیل پر سائنسدانوں کی تحقیقات اور حیرانیاں آپ گوگل سے ڈاؤنلوڈ کرسکتے ہیں۔۔کیا یہ نادر اتفاق خودبخود ہونا ممکن ہے؟ کون ہے جسے اس بے ارادہ کائنات پر کامل کنٹرول حاصل ہے؟
" بلکہ یہ دونوں اللہ کی نشانیوں میں سے نشانیاں ہیں"۔۔ یہ کوئی سادہ سی بات نہیں ہے، بلکہ ہمیں دعوتِ فکر دی جارہی ہے کہ اس معجزانہ صناعی پر غور کرو تاکہ تمہیں خدا کی معرفت نصیب ہو۔۔ یہ معرفت ہمیں خدا کے سامنے جھکنے پر مجبور کردیتی ہے جس کا ایک اظہار' نماز' ہے۔۔ صلاۃِ کسوف وخسوف اس بات کا اعتراف ہے کہ گرہن ایک زبردست حکمت والے کا ایک خدائی مظاہرہ ہے، نہ کہ محض ایک فلکیاتی ظاہرہ۔۔ جس بات کو آپ 'خوف' سے تشبیہ دے رہے ہیں اسے ہم مسلمان وہ کیفیت کہتے ہیں کہ اپنی بےبسی محسوس کرتے ہوئے خدا کی عظمتوں کو دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہوجانا۔۔ لیکن یہ اُسکے لئے ہے جس کے دل میں ایمان ہو۔۔(بےشک ایمان والے تو ایسے ہوتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کا ذکر آتا ہے تو ان کے قلوب لرز جاتے ہیں، اور جب اللہ کی آیات/نشانیاں ان پر تلاوت /بیان کی جاتی ہیں تو انکا ایمان بڑھ جاتا ہے، اور وہ لوگ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں-- الانفال-2)۔۔!
اب آخری بات سمجھ لیں،، شاید آپکو فائدہ ہوجائے۔۔سائنس خدا کے وجود یا مذہب کو درست ثابت کرنے کیلئے کوئی علم نہیں،، بلکہ مادہ اور مظاہرِ فطرت کی پہچان کیلئے تحقیق کا علم ہے۔۔ عجیب بات ہے کہ آپ مادی علم کے ذریعے غیرمادی حقائق پرکھنے کیلئے سائنس کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔۔ حالانکہ سائنس (مادہ کا علم) جب بےبس ہوجاتی ہے تو کسی سپریم پاور کی موجودگی کا اعتراف کرتے ہوئے کہتی ہے ۔۔
The most in-comprehensive fact about the nature is that it is comprehensible which means a very intelligent and mathematical planner that created zero defect universe.
"فطرت کے بارے میں سب سے ناقابلِ فہم حقیقت یہ ہے کہ وہ قابلِ فہم ہے۔۔ جس کا مطلب ہے کہ ضرور کوئی ذہین ترین ریاضیاتی منصوبہ ساز ہے جس نے بےنقص کائنات تخلیق کی"
پس اسلام امن، عقل اور تقویٰ کا مذہب ہے،، بےعقلی والی باتوں کا نہیں۔۔!!
(خیر اندیش: محمد نعمان بخاری)

روضۂ رسول ﷺ پر حاضری

0 comments
بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ کوئی ذی احساس مسلمان پہلی مرتبہ روضہء رسول ﷺ پہ حاضری دے اور ضبط کے بندھن نہ ٹوٹیں.. رفتہ رفتہ یہ بندھن مضبوط ہوتے ہیں اور چار پانچ حاضریوں پہ اشکوں کو ٹٹولنا پڑتا ہے کہ نجانے کہاں گم ہو گئے.. حالیہ رمضان مبارک میں ایک بھائی سے مسجدِ نبوی کی چھت پہ ایک عمدہ ملاقات رہی.. ان کو بھی یہی مسئلہ درپیش تھا کہ پاکستان سے مدینہ منورہ کے سفر سے پہلے حالت یہ ہوتی ہے کہ گویا زیارت کرتے ہی رو رو کر ہماری جان نکل جائیگی.. مگر کچھ دو دن بعد یوں ہوتا ہے کہ جالئ اقدس پہ پہنچ کے بےسدھ بے اشک کھڑے کے کھڑے رہ جاتے ہیں.. میں نے عرض کی کہ یہ وصال کی گھڑیوں کی وہ روحانی چاشنی ہے جسے پاکر بندہ ہجر کے دکھ بھول جاتا ہے.. جیسے ممتا کی گود میں آتے ہی بچے کو قرار آ جائے.. جیسے باپ کا سایہء شفقت ملتے ہی بیٹے کو طمانیت کا ادراک ہو.. جیسے کسی بہت زیادہ چاہنے والے کی محفل میں پہنچ کر انسان کو سکونِ دل میسر آئے.. پھر واپس اپنے گھر پہنچ کر ہجر کے آلاؤ تیز ہو پڑتے ہیں اور پھر وہی دوری ڈسنے لگتی ہے جسکا احساس تب ہوتا ہے جب روضہ اطہر کی کوئی شبیہ سامنے آ جائے یا نعت کے چند بول کانوں کو سنائی دیں.. غرض ان بےربط فقروں کے ذریعے میں آپکو بتا نہیں پا رہا کہ جذبات کو الفاظ سے کیسے ڈھانپا جائے.. کہنا یہ چاہتا ہوں کہ کیفیت بنے نہ بنے،، درِ حبیب ﷺ کی حاضری کی سعادت کو معمولی نہ سمجھا جائے.. ان لمحات کی حقیقی پہچان اور قدر برزخ میں معلوم ہو گی.. دنیا میں ہرشخص کی کیفیت اسکے مزاج و فطرت کے اعتبار سے مختلف ہوتی ہے.. کچھ ایسے بھی ہیں جو وصال کی خوشی بھی برداشت نہیں کرپاتے اور سینہ چاک کر بیٹھتے ہیں..!
آمدم برسرِ قصہ،،
آج بعد مغرب، سلام پیش کرتے ہوئے معاً یہی خیال کوندا کہ یقیناَ دل بنجر ہو چکا ہے.. ہلکی سی نمی بھی ہوتی تو ضرور کچھ آثار اُمڈ آتے.. بوجھل قدموں سے باہر نکل آیا.. جوتی اٹھانے کیلئے شوز ریک کی سمت بڑھا تو ایک خوش پوش پاکستانی نوجوان پہ نگاہ پڑی.. کالی گھنی داڑھی اور سفید اُجلے لباس میں ملبوس بہت پیارا لگ رہا تھا.. مگر یا اللہ یہ کیا؟؟ میں ٹھٹھک گیا.. وہ سفید لاٹھی کے سہارے کچھ ٹٹول رہا تھا گویا رستہ ڈھونڈتا ہو.. اسکی آنکھوں کے نگینوں کو میں نے دیکھا تو ان میں روشنی نہ تھی.. 
"یا میرے مالک" ،، میری دھاڑ نکل گئی.. بینائی والوں کا حال تو یہ ہے،، اور نظر سے معذور یہ شخص کس چاہت سے اپنے ملک سے یہاں اپنے نبی کا روضہ دیکھنے آیا ہے.. کس الفت اور مان سے یہاں فِراق کا اَلم مٹانے پہنچا ہے.. ضرور یہ آنکھ والوں کی قسمت پہ رشک کرتا ہوگا اور تنہائی میں اپنے رب کے حضور آہیں بہاتا ہو گا کہ میرے مولا! کاش مجھے بینا کیا ہوتا.. اور کچھ نہیں بس زندگی میں صرف ایک بار آنکھ بھر کے کالی کملی والے کا سبز گنبد دیکھ پاتا..! 
ہائے یہ احساس کی سنگین سولی،، ظالم چین سے جھولنے ہی نہیں دے رہی تھی.. جان تھی کہ مرغِ بسمل ہوئی،، آنسو تھے کہ گھنٹہ بھر جاری رہے..!!
(تحریر: محمد نعمان بخاری)

Wednesday, August 12, 2015

کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟

0 comments
-- بھائی آپ کس فرقے سے تعلق رکھتے ہیں؟
٭ میں فرقہ بندی کا قائل نہیں،، سیدھا سادا مسلمان ہوں۔
-- سارے ہی خود کو مسلمان کہتے ہیں، حتیٰ کہ قادیانی بھی۔۔ ایسے میں کوئی مسلک تو لازمی ہے تاکہ عقیدے کی پہچان رہے؟
٭ مسلمان، اہلِ سنت والجماعت۔
-- اہلِ سنت والجماعت تو دیوبندی بھی ہیں اور بریلوی بھی، پھر؟
٭ مسلمان، اہلِ سنت والجماعت ،دیوبندی۔
-- الحمدللہ،، بہت عمدہ-- مسلمان، اہلِ سنت والجماعت، دیوبندی حیاتی یا دیوبندی مماتی؟
٭ مسلمان، اہلِ سنت والجماعت ،دیوبندی حیاتی۔
-- ماشاء اللہ،، اللہ برکت دے-- مسلمان، اہلِ سنت والجماعت، دیوبندی، حیاتی اصولی یا حیاتی فروعی؟
٭ مسلمان، اہلِ سنت والجماعت ،دیوبندی، حیاتی اصولی۔
-- زبردست نعمان بھائی-- مسلمان، اہلِ سنت والجماعت ،دیوبندی، حیاتی، اصولی تکفیری یا تنزیہی؟
٭ مسلمان، اہلِ سنت والجماعت ،دیوبندی، حیاتی، اصولی تنزیہی۔
-- سبحان اللہ،، بہت اعلٰی-- مسلمان، اہلِ سنت والجماعت ،دیوبندی، حیاتی، اصولی، تنزیہی متشدد یا معتدل؟
٭ مسلمان، اہلِ سنت والجماعت ،دیوبندی، حیاتی، اصولی، تنزیہی معتدل۔
-- استغفراللہ،، میری توبہ۔۔ تیری پوسٹیں پڑھ کر مجھے پہلے سے شک تھا کہ تُو ایسا ہی ہے،، میں تجھے بلاک کررہا ہوں،، تُو تو پکا ایک نمبرکافر نکلا،، گستاخ کی اولاد،، نبی اور اہلِ بیت کے دشمن۔۔ دفع ہو جا منحوس۔۔۔!!!!!

اُدع إلى سبيل ربك بالحكمۃ والموعظۃ الحسنۃ

0 comments
میں دیارِغیر میں جس جگہ رہائشی ہوں وہاں قطار میں پردیسی دوستوں کے متعدد کمرے ہیں۔۔چند دن قبل جب میں اپنے کمرے سے نکلا تو وہ حسبِ معمول باہر صوفے پر براجمان تھا۔۔مجھے دیکھ کر مسکرایا اور وہی بات دہرائی جو اکثر کہتا رہتاہے۔۔ میں نے بھی وہی جواب دیا جسکی اسے توقع تھی،، یعنی مسکرا کر ہاتھ سے 'نہ' کا اشارہ۔۔ اور میں مسجد میں عشاء کی نماز کیلئے داخل ہو گیا۔۔!
نماز کے بعد میں مسجد سے کمرے میں جانے لگا تو اُس نے مجھے زبردستی روک لیا اور پوچھا، "یار تم آخر میرے لئے دعا کیوں نہیں کرتے، اور ہمیشہ انکار میں ٹال جاتے ہو؟"
میں نے کہا: "کیا دعا کروں تمہارے لئے؟"
کہنے لگا: "یہی کہ اللہ مجھے بھی نماز کی توفیق دے،، اور تم ہر دفعہ 'ناں بھئی' کہہ دیتے ہو۔۔ دعا کرنے میں کیا حرج ہے بھلا؟"
میں نے کہا: "کس سے دعا کروں؟"
وہ حیرانی سے بولا: "دعا کس سے کرتے ہیں؟ ظاہر ہے اللہ سے کرو"
میں نے کہا: "کس اللہ سے؟ اُسی اللہ سے جس کا حکم ماننے سے تم نے انکار کیا ہوا ہے؟"
وہ چونکا۔۔۔۔
میں نے اپنی بات جاری رکھی: "فرض کرو تمہارا منیجر تمہیں کوئی اہم کام سونپے، تو تم کیا کرو گے؟ کیا اسکی بات فوراً مان لو گے؟ اِس ڈر سے کہ کہیں وہ تمہیں کمپنی سے نکال ہی نہ دے۔۔ یا پھر میرے پاس آؤ گے کہ بھئی منیجر نے مجھے فلاں کام کہا ہے،تو یار، تم منیجر کو کہو کہ ، منیجر صاحب۔۔جمیل یہ کام نہیں کرنا چاہتا، اسے کہو کہ جمیل یہ کام کر لے"
"کیا مطلب ہے تمہارا؟" وہ جھنجھلا کربولا۔
میں نے کہا: "مجھے بات مکمل تو کر لینے دو یار "
وہ ہنس کر بولا: "اچھا اچھا ، جھاڑو اپنی فلا سفی۔۔"
میں بولا: "ہاں تو، ظاہر ہے کہ تم مجھے ایسا کبھی نہیں کہو گے کہ میں جا کر دوبارہ منیجر سے کہوں کہ منیجر صاحب !جمیل آپکا حکم نہیں ماننا چاہ رہا، اسے فلاں کام کیلئے دوبارہ کہیں۔۔۔ تو کیا سوچے گا منیجر، اور تمہارا کیا حشر کرے گا۔۔"
وہ میری'منطق' سن کر دلچسپی سے کہنے لگا: "اپنی بات کُھل کر کہو، میرا دماغ اتنا کام نہیں کرتا"
میں فلاسفی کو سہل کرتے ہوئے اسے اصل پوائنٹ پر لے آیا: "دیکھو بھئی، بات سیدھی سی ہے۔۔ اللہ نے تمہیں ایک دفعہ نہیں بلکہ کئی دفعہ نماز پڑھنے کا کہا ہے قرآن میں،، حالانکہ ایک دفعہ کہہ دینا ہی تمہارے لئے کافی ہونا چاہئے تھا۔۔ لیکن وہ اتنا کریم ہے کہ اس سب کے باوجود بھی تمہیں ہردن میں20 دفعہ اپنے گھر میں بلاتا ہے، نماز کیلئے۔۔ تمہاری فلاح کیلئے۔۔"
وہ اب مکمل سنجیدہ ہو کر سُن رہا تھا۔۔۔۔
"تم نے کلمہ طیبہ پڑھ کر خود ہی تو اللہ سے وعدہ کیا تھا کہ یا اللہ تُو ہی میرا معبود ہے۔۔ میں اب ہمیشہ تیری عبادت کروں گا۔۔ یہ اقرار نامہ بھول گئے ہو کیا؟
اب تم ہی مجھے بتاؤ کہ میں کس منہ سے اللہ سے کہوں کہ وہ تمہیں نماز کی توفیق دے؟ جبکہ وہ تمہیں پہلے سے ہی توفیق دے چکا ہے۔۔ یعنی تم اذان سن سکتے ہو،، تمہارے پاؤں سلامت ہیں،، ہاتھ موجود ہیں،، اللہ نے دیکھنے اور چلنے کی قوت بھی دی ہوئی ہے،، جا کر وضو کر سکتے ہو۔۔ تو پھر اور کیا توفیق دے تمہیں؟؟ اب آسمان سے فرشتے تو آنے سے رہے جو تمہیں زبردستی اُٹھا کر مسجد میں چھوڑنے جائیں گے۔"
وہ اپنا سر جھکائے جا رہا تھا۔۔۔۔
"میں اسی وجہ سے ہی کہتا ہوں کہ بھئی میں تمہارے لئے یہ دعا نہیں کر سکتا،، کہ کہیں گستاخی نہ کر بیٹھوں اُسکی بارگاہ میں۔۔ کل جب تم سے حشر کا پہلا سوال ہو گا کہ نماز کیوں نہیں پڑھتے تھے؟ تو صاف صاف کہہ دینا کہ یا اللہ، نہ تو میرے لیے کسی نے دعا کی تھی اور نہ ہی آپ نے مجھے نماز کی توفیق دی تھی،، تو کیسے پڑھتا؟؟"
اپنی تقریر جھاڑ کر میں تو کمرے میں چلا گیا اور وہ وہیں بُت بنا کھڑا رہا۔۔
کمرے میں جاکر میں نے اللہ کریم سے سرگوشی کی،، ''اے اللہ، میں نے اپنا فرض ادا کردیا،، اب تُو ہی کرم فرما کر اسکا ہاتھ تھام لے اور اسکے قلب کی اصلاح فرما۔۔''
تھوڑی دیر بعد جب میں ڈریس چینج کرکے کرکٹ گراؤنڈ جانے کیلئے باہر نکلا تو وہ نمازِ عشاء کیلئے وضو کر کے آسمان کی طرف منہ اُٹھا کے وضو کے بعد کی دعا پڑھ رہا تھا،،
" اَشہدُ اَن لّا اِلٰہ اِلّااللہُ وَ اَشہدُ اَنَّ مُحمداً عبدہُ و رَسُولُہ "
میں گراؤنڈ کی جانب چلتا جا رہا تھا،، اور میری آنکھوں سے خوشی و تشکر کے آنسو رواں تھے۔۔!!
(تحریر: محمدنعمان بخاری)

ہماری نمازیں بے اثر کیوں؟ علاج کیا ہے؟

0 comments
"کوئی شک نہیں کہ نماز بے حیائیوں اور منکرات سے دور کر دیتی ہے"
لیکن ہماری نمازیں ہمیں برائیوں سے کیوں نہیں روک رہیں؟ وجہ کیا ہے؟
اسلئے کہ ہم نماز کا صرف ٹوٹل پورا کرنے کے چکر میں رہتے ہیں۔۔ دورانِ نماز بھی خیالات کی اپنی دنیا میں اٹکے ہوتے ہیں۔۔اصل میں ہمیں نماز سے وہ کیفیت مطلوب ہی نہیں جو نماز کا خاصہ ہے،، یعنی۔۔
"عبادت ایسے کرو گویا تم اللہ کے روبرو ہو اور اُسے دیکھ رہے ہو،، اگر یہ کیفیت حاصل نہ ہو تو کم از کم اتنا احساس توضرور ہو کہ اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ "
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی پنڈلی میں تیر لگا۔۔ نکالنے سے سخت تکلیف ہوتی تھی۔۔ مشورہ ہوا کہ جب آپ نماز پڑھیں تو نکال لیا جائے گا۔۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا،، اور آپ کو معلوم ہی نہ پڑا کہ کب تیر نکالا گیا۔۔ اس قدر محویت تھی۔۔ یہ حالت نہ سہی،، کاش!اس کا کوئی ایک ذرہ تو ہمیں بھی عطا ہو جائے۔۔!
مگر۔!یہ کیفیت صرف باتیں کرنے،، کتابیں پڑھنے،، بیانات سننے اور فیس بک کی اسلامی پوسٹس پر واہ واہ،، آمین اور سبحان اللہ کے کمنٹس کرنے سے حاصل نہیں ہو گی،، بلکہ اسکے لئے کسی صحیح العقیدہ اللہ والے بزرگ کی صحبت اختیار کرنا ہو گی،، اسکے بتائے ہوئے مجاہدے اور ذکرُاللہ کو اپنانا ہوگا۔۔!
نتیجے میں اللہ پاک ہمارے دل میں وہ برکات اور کیفیات عطا فرمائیں گے جو ہماری عبادات کو خلوص عطا کریں گی،، ہمیں نبی کریم ﷺ کی تعلیمات پر عمل کرنے میں مزہ آئے گا۔۔ قرآن مجید کو سمجھنے کا ذوق پیدا ہوگا۔۔ حق کو حق کے طور پر دیکھنے اور باطل کو باطل کے طور پر سمجھنے کا شعور عطا ہوگا۔۔اللہ کو عبادات کی مقدار سے کوئی غرض نہیں،، معیار سےمطلب ہے۔۔اور معیار ہے' خلوص'۔۔ یہی وجہ ہے کہ قیامت والے دن اعمال گنے نہیں جائیں گے بلکہ تولے جائیں گے۔۔ اس بنا پر ہو سکتا ہے کہ کسی شخص کا قلب کی اتھاہ گہرائی و خلوص سے ایک مرتبہ'سبحان اللہ' کہہ دینا دوسرے کی سینکڑوں تسبیحات پر بھاری ہو۔۔اسی خلوص کے حاصل کرنے کیلئے محنت کرنے کو اپنا 'تزکیہ' کرنا کہتے ہیں۔۔!
حصولِ تزکیہ کے بعد حالت کچھ یوں ہو جاتی ہے کہ ہم برائی کے ارادے سے نکلتے ہیں تو نماز راستہ روک لیتی ہے اور اُلٹے قدموں لوٹنے پر اُکساتی ہے۔۔ ہم رشوت لینے کیلئے ہاتھ بڑھاتے ہیں تو نماز ہمارا گریبان پکڑ کر ہاتھ جھٹک دیتی ہے۔۔!
لیکن مسئلہ پھر وہی ہے کہ کیا ہم ایسا چاہتے بھی ہیں یا نہیں؟
یہ فیصلہ ہمارے دلی ارادے اور اس پر عمل کا محتاج ہے۔۔کیونکہ قانونِ قدرت ہے کہ ہدایت اُسی کو ملے گی جو اپنےقلبی ارادے سے ہدایت کے راستے کی طلب و جدوجہد کرےگا۔۔!!
(تحریر: محمد نعمان بخاری)

Thursday, July 30, 2015

کیا تصوف صرف ابن عربی رحمہ اللہ کے کلام اور وحدۃ الوجود پر قائم ہے؟

0 comments
دو دن قبل محترم احمد بشیر طاہر صاحب نے غامدی صاحب کے 2014 کے دو بیانات اپ لوڈ کیے... غامدی صاحب نے ان دونوں کلپس میں صوفیاء کرام کی فاش غلطیوں کو واضح کرتے ہوئے مرزا قادیانی کے نبوت کے دعوے اور اس کی بنیادوں کو صوفیاء کے کلام سے اخذ کرنے کی بات کی ہے!
میں آج اسی درس میں غامدی صاحب کے بیان کردہ ایک نکتے پر بحث کرنا چاہتا ہوں۔
بیان کے شروع میں ہی غامدی صاحب حضرت شیخ احمد سرہندی المعروف مجدد الف ثانی رحمہ اللہ کے مکتوبات کو تصوف کی نہایت مقبول اور غیر معمولی کتاب کہتے ہوئے ان مکتوبات سے نقل کرتے ہیں:
"مشایخ کے تین گروہ ہوئے... ایک وہ جو معتقدات میں علمائے اہل سنت کے ساتھ ہیں یعنی جو کہتے ہیں کہ یہ جو عالم ہے اور اس میں جو کمالات و صفات ہیں ... ان سب کو اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے خارج میں وجود بخشا ہے... مشایخ کا یہ گروہ گویا اہل سنت کا ہے!
دوسرا گروہ مشایخ کا وہ ہے جو عالم کو خدا کا سایہ کہتا ہے لیکن اس کا قائل ہے کہ عالم خارج میں موجود ہے... یعنی اس عالم کی کوئی حقیقت نہیں ہے جیسے کہ سائے کی حقیقت نہیں ہے مگر... جیسا کہ سائے کا وجود اصل سے قائم ہے ویسے ہی عالم کا وجود حق کے ساتھ قائم ہے!
پھر حضرت مجدد صاحب لکھتے ہیں کہ تیسرا گروہ مشایخ کا وہ ہے جو وحدت الوجود کا قائل ہے اور یہی سب سے بڑا گروہ ہے( سب سے بڑے گروہ کے الفاظ غامدی صاحب کے ہیں نہ کہ حضرت مجدد صاحب کے)... جو کہتا ہے کہ خارج میں بس "ایک" ہی وجود ہے یعنی کثرت نہیں ہے... وحدت الوجود کا مطلب یہی ہے کہ وجود ایک ہی ہے، اس کے علاوہ کچھ نہیں... "
اس کے بعد غامدی صاحب یہ کہتے ہیں کہ: " توحید جو قرآن میں ہےاس کا مطلب ہے کہ اس عالم کا الہٰ ایک ہے لیکن وحدت الوجود کے قائلین اس کے برعکس یہ کہتے ہیں کہ عالم کچھ ہے ہی نہیں... بلکہ موجود حقیقی ہے ہی ایک اور وہ حق تعالیٰ کی ذات ہے... باقی کیا ہے؟ وہ اس کے تعینات ہیں... جب کہ حق تعالیٰ کی ذات تو کوئی تعین نہیں رکھتی، نہ اس کی کوئی جہت ہے، نہ اس کا کوئی اوپر ہے نہ کوئی نیچے ہے... نہ اس کا کوئی وجود ہے جس پر انگلی رکھی جا سکے... وہ لاتعین ہے... لیکن بقول صوفیاء کے (ایک گروہ کے) پھر ذات تعینات کو قبول کرتی ہے... اور تعینات قبول کرتے ہوئے وہ نزول کرتی ہے اور پہلا مرتبہ حقیقت محمدی سے ہوتے ہوئے مختلف عالم میں ظہور پاتے ہوئے بالآخر حضرت انسان تک پہنچتی ہے... (یعنی انسان ہی عین خدا ہو جاتا ہے نعوذ باللہ)"
٭
اب چلیے ہم فی الحال وحدۃ الوجود اور اس کی بتائی گئی تفصیل کی صفائی پیش نہیں کرتے کہ کیا واقعی اکابر صوفیاء مثلا ابن عربی رحمہ اللہ نظریہ وحدۃ الوجود کا یہی مطلب سمجھتے اور بیان کرتے تھے یا بعد کے چند زندیق لوگوں نےاسی طرح صوفیاء کا لبادہ اوڑھ یہ کفریہ باتیں (یعنی انسان اور جانور تک عین حق ہیں) وحدۃ الوجود کا لازمہ سمجھیں، جس طرح مرزا زندیق نے مناظر اسلام کے بہروپ میں اسلام پر ہی ڈاکا ڈال دیا...!
مگر چلیے ہم کہتے ہیں کہ یہ تیسرا گروہ غلط ہے... کیوں کہ ابن عربی کی کتابیں شریعت کا مدار نہیں ہیں...مگر صرف تیسرا گروہ ناں!... لیکن باقی جن دو گروہ کا آپ نے ذکر کیا... ان کا کیا قصور ہے؟ جب کہ وہ تعداد میں بھی زیادہ ہیں...
خود حضرت شیخ احمد سرہندی رحمہ اللہ جن کی بات کو آپ نقل کر رہے اور ان کے مکتوبات کو تصوف کی نہایت غیر معمولی کتاب کہہ رہے، نے نظریہ وحدت الوجود کے بالمقابل وحدۃ الشہود کی اصطلاح دی اور وحدۃ الوجود کو ایک درمیانی مقام یعنی فنا فی اللہ بتا کر، ایک اس سے اگلا مقام وحدۃ الشہود یعنی عبدیت کا بتایا ہے... جو مقامات میں سب سے اونچا مرتبہ اور مقام ہے...مقام فنا فی اللہ میں استغراق یعنی ایک اللہ کے اثبات اور ہر شے کی نفی سے آخر یہ بات پیدا ہو جاتی ہے کہ اپنا آپ تک محو ہو جاتا ہے اور آدمی خود اپنی نفی تک کرتے ہوئے پورے یقین سے کہہ اٹھتا ہے کہ وجود صرف ایک ہی ہے... یہ محبت الٰہی اور توحید کے غلبے کی وجہ سے ہوتا ہے جسے خارج میں رہنے والا قبول گر نہیں کرے گا تو برا بھلا بھی نہیں کہے گا، کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ محبت کے غلبے نے عارضی طور پر قائل کی عقل مختل کر دی یعنی غلبہ حال ہو گیا!
حضرت شیخ احمد سرہندی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ پھر اللہ کی توفیق اور داد رسی سے اس کےبندے کو اس مقام سے (یعنی وحدۃ الوجود سے ) عروج حاصل ہوتا ہے اور وہ اگلا اور بلند ترین مقام وحدۃ الشہود یعنی مقام عبدیت تک پہنچتا ہے جو درحقیقت انسانیت کی معراج ہے...مقام عبدیت ہی دراصل اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ عالم اور تمام مخلوقات خارج میں موجود ہے اور خالق کے وجود بخشنے سے ہی موجود ہیں اور سب عبد ہیں اور وہ معبود ہے اور بندوں کو حق تعالیٰ سے اس کی مخلوق ہونے کے نسبت سے تعلق ہے اور کوئی وجہ اتحاد نہیں!
اس مقام پر مخلوق کو اپنی ناپاکی، اپنے عیب، اپنی کمیاں بخوبی نظر آتی ہیں اور خالق ذوالجلال کا ہر عیب سے پاک ہونا یوں واضح ہو جاتا ہے کہ وہ بے اختیار سجدے میں پیشانی ٹیکے اللہ رب العزت کی وہ بڑائی اور وہ پاکی بیان کرتا ہے کہ اللہ اس حالت کو اپنے سب سے قرب کی حالت قرار دیتا ہے!... یہی مقام گویا حقیقت محمدی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جیساکامل و اکمل عبد کوئی نہ تھا...!
٭
اب بتائیے ذرا جب یہی شیخ احمد سرہندی رحمہ اللہ ہی خود وحدۃ الوجود کے برعکس وحدۃ الشہود کی تفصیل بتانے والے ہیں اور خود ان کے بقول دو گروہ اہل سنت کے اعتقادات کے قریب ہیں، جسے غامدی صاحب بھی نقل فرما رہے ہیں تو صوفیاء کی اکثریت تو پھر اہل سنت کے اعتقادات پر ہوئی ناں!
غامدی صاحب کا یہ جملہ کہ "بڑا گروہ یہی ہے" ہم کیوں اور کیسے مان لیں؟ اس کا حوالہ کیا ہے؟
جس کو وہ بڑا گروہ کہہ رہے ہیں، ان غالی صوفیا ء کے کلمات کو تو ہر دور کے کبارمحقق صوفیاء رد فرماتے رہے... اور تصوف کے جن بڑے اور معتبر ناموں نے کبھی کوئی متنازعہ بات کہی بھی تو حالت سکر میں کہی، جس کے وہ مکلف نہ تھے... مگر جیسے ہی ہوش میں آئے فورا توبہ بھی کی!
تو مرزا معلون نے اگرصوفیاء کی اتباع میں حالت سکر میں ایسی ہفوات بکیں تو کیا کبھی ان سے رجوع کیا یا توبہ کی؟؟؟
نہیں جناب نہیں... آپ کا مقدمہ ہی غلط بنیاد پر قائم ہے ... 
ہمارا کہنا تو یہ ہے کہ چند لوگوں کے مجہول کلمات کو آپ بنیاد بنا کر اہل سنت کے تمام محقق صوفیائے کرام جن میں سے 98 فیصد متبحر عالم بھی تھے کو متنازعہ نہیں بنا سکتے... اور نہ تصوف کو بنیاد بنا کر آپ مرزا کو رعایت بھی نہیں دے سکتے... کیوں کہ دین کے کسی شعبے سے غلط استدلال پر کوئی احمق ہی ہو گا جو یہ کہے گا کہ اس شعبے کو ہی ختم کر دیا جائے!
(محمد فیصل شہزاد)

کشف الہام اور القاء وغیرہ کی حیثیت ۔۔۔ فقہ وتصوف میں

0 comments
چھٹی حس/تیسری آنکھ/بجلی کا کوندا،، خیالات کی ایسی کیفیات ہیں جن سے شاید ہر فرد کو کبھی نہ کبھی سابقہ پڑتا ہے۔ یہ کیفیت در اصل استخارہ کا جواب ہوتی ہے اور استخارہ (یعنی اللہ سے کسی الجھن میں مشاورت) کا کوئی متعین پروٹوکول نہیں ہے۔ جب بھی آپ کا دل کسی الجھن میں راہ پانے کے لئے رسمی یا غیر رسمی طور پر اسے پکار رہا ہو تو وہ جواب دیتا ہے۔ اجیب دعوہ الداع اذا دعان۔ اصطلاحِ تصوف میں یہی کشف الہام القاء وغیرہ کی اصطلاحات سے موسوم ھے۔ یہ سعادت ہر کسی کو حاصل ہوجاتی ھے لیکن اس کا تعلق بالعموم فرد اور انفرادی معاملات سے ہوتا ھے۔ اس سے حاصل ہونے والاعلم نہ قطعی ہے اور نہ حجت۔ اس سے رہنمائی حاصل کرنے کے لئے اسے کتاب وسنت پر پیش کرنا ضروری ہے۔ اور میرے اس بیان کی اساس تمام اولیاء وصوفیاء فقہاء و مجتہدین کا اجماع ہے ۔
البتہ تاریخی واقعات کے مطالعے سے ایک تلخ حقیقت سامنے آتی ھے کہ جب کبھی کسی رہنما نے قومی مسائل میں شرعی معیار ترک کر کے اپنے کشف والہام پر فیصلہ کیا اس کے مطلوبہ نتائج بر آمد نہیں ہوئے۔ واقعات معروف ہیں۔
(ڈاکٹر طفیل ہاشمی)

کتب تصوف کے اقتباسات

0 comments
زندگی بھر کا تجربہ یہ ہے کہ کسی کے دئے ھوئے اقتباس کو جب تک Original Sources سے کنفرم نہ کر لیا جائے اس کے بارے میں توقف کیا جائے ۔کیونکہ اس میں وہم راوی اور فہم راوی قسم کے کئ مسائل ہوتے ھیں ۔
اگر ادراج وتلبیس سے احادیث کی مستند ترین کتب محفوظ نہیں رہ سکیں تو ۔ ۔ تا بدیگراں چہ رسد ۔
پریس سے پہلے کی کتب میں ادراج تلبیس انتحال وغیرہ اس کثرت سے ھیں کہ مجھے اپنی تحقیق کے دوران سینکڑوں ایسی اشیاء ملیں جو ثقہ راویوں نے غلط منسوب کر دیں ۔عام مورخین کا تو ذکر ہی کیا ابن شہاب زھری ایسے امام الثقاہ کا دفاع آسان نہیں رہتا ۔
تصوف میں اس کے امکانات اس لئے بھی زیادہ تھے کہ صوفیاء اصول روایت و درایت میں حسن ظن کو مرتبہ اولی پر رکھتے ھیں ۔شعرانی خود بتاتے ہیں کہ ان کی کتاب میں غلط افکار وخیالات شامل کر کے ان کے نام سے شائع کر دی گئ ۔سید علی ہجویری بھی انتحال کے شکوہ سنج ہیں ۔شبلی نے غزالی کے بارے میں جو تاثر دیاھے وہ کسی مستند ثقہ دیانت دار انسان کی شخصیت سے ھم آھنگ نہیں ھو سکتا ۔
صحیح بخاری کے اعلی استناد میں تو شبہ نہیں لیکن اس کی روایات کی تعداد اس کے سب سے بڑے شارح حافظ ابن حجر نےفتح الباری کے مقدمہ میں بدون تکرار 2460 بتائی ھیں۔ لیکن فتح الباری میں ان کی تعداد 2513 جب کہ نووی اور ابن صلاح نے 4000 کی تعداد بتائی ھے۔ حیرت کی بات یہ ھے کہ دارالسلام نے جو نسخہ بے پناہ تحقیق واہتمام سے 1999ء میں ریاض سے شائع کیا ھے اس میں 105 احادیث کے نمبر موجود ہیں لیکن ان کے ذیل میں کوئی حدیث نہیں ھے۔
ترمذی میں مسح علی الجوربین کے تحت قال ابوعیسی کا تبصرہ دارالسلام کے نسخے میں ھے لیکن بر صغیر کے بیشتر نسخوں میں نہیں ھے ۔۔
ان مثالوں سے یہ عرض کرنا مقصود ھے کہ تصوف کی امہات الکتب کے جدید اسلوب تحقیق کے مطابق منقح نسخے تیار کرنے کی ضرورت ھے شاید بہت سی باتیں محض الحاقی ہوں تاہم اس امر میں کوئ دوسری رائے نہیں ھے کہ معیار حق وصداقت اور دلائل قطعیہ صرف اور صرف کتاب وسنت ھیں اور کسی بڑی سے بڑی شخصیت کی رائے اگر واقعتا ان سے متصادم اور متعارض ہو تو وہ ہر گز قابل التفات نہیں۔
(ڈاکٹر طفیل ہاشمی)

کشف کی حیثیت

0 comments
ذرا سوچئے ۔ ۔ ۔
رات آپ نے ایک خواب دیکھا ۔آپ نے مجھ سے من وعن بیان کر دیا۔ کیا مجھے یہ حق پہنچتا ھے کہ میں آپ سے کہوں 
بالکل غلط ۔ ۔ آپ نے غلط خواب دیکھا ۔ ۔ آپ کو تو یوں دیکھنا چاہئے تھا ۔
کیا آپ میری دماغی حالت پر شک نہیں کریں گے۔؟
ذرا سوچئے ۔ ۔ ۔ میں نے کیا کہا ہے ؟
(ڈاکٹر طفیل ہاشمی)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

کمنٹس: 

محمد نعمان بخاری: درست۔ ہر شخص اپنے کشف کا خود مکلف ہے، دوسرا نہیں۔۔ نیز کشف حدودِ شرعی میں ہے تو قبول ورنہ رد۔ :)

امین اکبر: کوئی مجھ سے فرمائے: میں نے خواب میں خدا کو دیکھا(نعوذ باللہ)۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں کہتا ہے مجھے کوئی نہیں دیکھ سکتا۔ مجھے کیا کرنا چاہیے۔؟ تاویلیں بناتا رہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس بات کی وضاحت تو نہیں کی کہ خواب میں بھی دیکھ سکتا ہے یا نہیں اس لیے بھائی درست ہی فرما رہا ہوگا۔

سلمان احمد: پتہ نہیں قرآن نے کہاں اللہ کا یہ فرمان نقل کیا ہے کہ مجھے کوئی نہیں دیکھ سکتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر اللہ کو کوئی نہیں دیکھ سکتا تو پھر ان تمام احادیث کا بھی انکار کرنا پڑے گا جن میں جنت میں رویت باری تعالیٰ کا ذکر ہے۔

طفیل ہاشمی: اگر کو ئی شخص کہے کہ میں نے خواب میں خدا کو دیکھا تو آپ کو کون مجبور کر رہا ھے کہ آپ اس کے خواب پر ایمان لائیں؟ لیکن علمی طور پر یہ بات غلط ھے کہ ایسا خواب کوئی نہیں دیکھ سکتا اور یہ بھی غلط ھے کہ خواب میں خدا کو نہیں دیکھ سکتا۔ اگر بعد از وفات دیکھ سکتا ھے تو قرآن کی رو سے موت اور نیند قریب قریب ہیں ۔جو آیت آپ کے ذہن میں ھے اس میں ادراک کا لفظ ھے اور ادراک معرفت حقیقت کو کہتے ھیں۔ یوں بھی خواب میں انسان مکلف نہیں ھوتا۔
اللہ نے قرآن میں یہ نہیں کہا مجھے کوئی نہیں دیکھ سکتا۔ اس نے کہا نگاہیں میرا ادراک نہیں کر سکتیں۔ رویت اور ادراک الگ الگ امور ہیں۔

محمد فیصل شہزاد: امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی بات تو مشہور ہے کہ خواب میں سو مرتبہ باری تعالیٰ کی زیارت ہوئی!




Wednesday, July 29, 2015

کیا خدا اپنے بندوں سے لاتعلق ہوچکا؟

0 comments
 کیا خدا بندوں سے لاتعلق ہوچکا؟ کشف و الہام کی نفی کے پیچھے کارفرما مفروضے کا جائزہ
----------------------------------------------------------------------------
کشف و الہام (خدا کے ساتھ تعلق کی مخصوص روحانی کیفیات) کا انکار کرنے کے لئے یہ مفروضہ ماننا لازم ہے کہ "اب خدا اپنی مخلوق سے غیر متعلق ہوکر بیٹھ گیا، اب وہ کسی بھی درجے میں بندوں سے تعلق نہیں رکھتا"۔ 
یہ ایک ایسا دعویٰ ہے جو نہ صرف یہ کہ نصوص میں بیان کردہ واضح اشارات کے خلاف ہے بلکہ بے شمار انسانوں کے ایسے ذاتی تجربات کے بھی منافی ہے جہاں کسی کیفیت اور واقعے میں انسان بالکل واضح انداز میں یہ محسوس کرتا ہے گویا کسی غیبی ہاتھ نے اسے آلیا اور اسکی راہنمائی کی۔ یہاں اختصار کے ساتھ ان نصوص کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے جو خدا کے اپنے بندے کے ساتھ مسلسل تعلق کے امکان پر دال ہیں۔ اہل علم پر یہ بات تو قرآن سے واضح ہے کہ خدا غیر نبی سے خفیہ کلام (وحی کے ذریعے تعلق) کرتا ہے جسکی مثال حضرت موسی علیہ السلام کی والدہ ماجدہ سے گفتگو (کمیونیکییشن) کرنا ہے۔ اس کے علاوہ قرآن میں آیا: 
1) "والذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا" یعنی 'جو لوگ ہماری (ذات کی معرفت میں) تگ و دو کرتے ہیں تو ہم یقینا انہیں راستے دکھاتے ہیں" 
یہاں واضح طور پر اس بات کا بیان ہے کہ خدا اپنے بندوں کو راستہ سجھاتا ہے، وہ مخلوق سے بے نیاز ہوکر نہیں بیٹھ گیا کہ مخلوق اس کے ساتھ تعلق استوار کرنے سے بالکلیہ قاصر ہوجائے۔ اور خدا کا وعدہ ہے کہ بندہ جب خلوص کے ساتھ مجھ سے دعا مانگتا ہے تو میں اسکا جواب دیتا ہو۔
2) ان الذین قالوا ربنا اللہ ثم استقاموا تتنزل علیھم الملائکۃ الخ یعنی بے شک وہ لوگ جنہوں نے کہا کہ اللہ ھمارا رب ھے اور پھر اس پر ڈٹ گئے ان پر فرشتے نازل ھوتے ہیں (یہ کہتے ہوئے کہ) تم کوئی خوف اور حزن نہ رکھو
فرشتوں کے یوں نازل ہوجانے کا بیان حدیث نبوی کی روشنی میں سنئے (یہاں حدیث کے صرف مفھوم پر اکتفا کیا گیا ہے)۔ حضرت حنظلہ (رض) پریشانی کے عالم میں حضرت ابوبکر (رض) کو فرماتے ہیں کہ میں تو منافق ہوگیا ہوں کہ رسول اللہﷺ کی بارگاہ میں تو یہ کیفیت ہوتی ہے کہ اللہ، جنت جھنم سب سامنے ہے لیکن پھر بوجوہ مشاغل دنیا یہ کیفیت نہیں رہتی۔ حضرت ابوبکر (رض) فرماتے ہیں کہ اس کیٖفیت سے تو میں بھی دوچار ہوتا ہوں، آؤ بارگاہ رسالت میں چل کر پوچھیں کہ یہ منافقت ہے یا نھیں۔ بارگاہ نبوت میں پیش ہوکر اپنی کیفیت بیان کرتے ہیں تو آپﷺ نے فرمایا کہ اس کیفیت کا ھمیشہ باقی رہنا ممکن نہیں۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنْ لَوْ تَدُومُونَ عَلَى مَا تَكُونُونَ عِنْدِي وَفِي الذِّكْرِ لَصَافَحَتْكُمْ الْمَلَائِكَةُ عَلَى فُرُشِكُمْ وَفِي طُرُقِكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اس ذات کی قسم جسکے دست قدرت میں میری جان ہے اے حنظلہ اگر یہ کیفیت تم پر ہر وقت برقرار رہے تو فرشتے چلتے، پھرتے، لیٹتے تم سے مصافحہ کریں (رواہ مسلم)
اب یہی بات ایک اور انداز سے ملاحظہ فرمائیں۔ حضرت اسید بن حضیر (رض) ایک رات سورہ بقرہ کی تلاوت فرما رہے ہیں کہ گھوڑا اچھل کود کرنے لگا۔ جب آپ نے تلاوت بند کی تو گھوڑے کی اچھل کود بند ھوگئی۔ جونھی تلاوت شروع کرتے ہیں تو گھوڑا پھر پھڑکنے لگا۔ ایسا تین مرتبہ ہوا۔ آپ آسمان کی طرف دیکھتے ہیں تو خیمےکی طرح تنی ہوئی کوئی شے دکھائی دیتی ہے جس میں چراغاں ہورہا ہے۔ صبح کو یہ سب واقعہ نبی کریمﷺ کی خدمت میں بیان کیا تو آپ نے دو مرتبہ فرمایا کے اے ابن حضیر قرآن پڑھتے رہو، ابن حضیر نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ میں ڈرگیا کہ میرا گھوڑا میرے بچے یحیی کو روند نہ ڈالے، جب میں یحیی کے پاس گیا اور آسمان پر نظر کی تو روشن سائبان دیکھا، میں دیکھتا رہا اور وہ سائبان اٹھتے اٹھتے غائب ہوگیا۔ آنحضرتﷺ نے دریافت کیا اسید تم جانتے ہو یہ کیا چیز تھی؟ اسید نے کہا نہیں یا رسول اللہﷺ، آپ نے فرمایا کہ وہ فرشتے تھے تمہاری تلاوت کی آواز سن کر تم سے قریب ہوئے تھے تم نے تلاوت بند کردی تو وہ غائب ہوگئے، اگر تم صبح تک تلاوت کرتے رہتے تو لوگ صبح انہیں دیکھ لیتے (متفق علیہ)
پس یہ اپنے اپنے حال و مقام کی بات ہے۔ الغرض نصوص میں اس امر کے واضح اشارے موجود ہیں کہ خدا آج بھی بندے سے تعلق رکھے ہوئے ہے، جستجو کرنے والوں کی راہنمائی کرتا ہے۔ ہاں فرق یہ ہے کہ یہ تعلق اس نوع کا قطعی نہیں ہوتا جس طرح نبی کو اس کا ادراک و تجربہ ہوتا ہے اسی لئے ایسا تجربہ شرعا حجت و دلیل نہیں۔ نبی کا تعلق خدا سے چونکہ بالکل قطعی اور واضح ہوتا ہے جبکہ عام بندے کا ایسا دعوی ظن کے درجے کی چیز ہے، لہذا اگر دونوں میں تضآد ھو تو ظنی کو قطعی کے مقابلے میں رد کردیا جاتا ہے کہ ممکن ہے بندہ جسے رب کی طرف سے سمجھ رھا ھو وہ اسکی طرف سے نہ ھو جبکہ نبی کی بات کا رب کی طرف سے ھونا قطعی طور پر معلوم ہے۔ الغرض اصول یہ ہے کہ کشف، الہام، سچے خواب (استخارہ) وغیرہ قبیل کی ہر شے کو تصدیق کے لئے نبی کی وحی پر پیش کیا جائے گا، اگر اس پر پورا نہ اترے تو رد کردیا جائے گا۔
(زاہد مغل)
-------------------------------------

کمنٹس


ڈاکٹر طفیل ہاشمی: یہ کہنا کہ ختم نبوت کے اعلان کے بعد کشف القااور الہام کا وجود بھی نہیں رہا ۔ذرا ذیادہ جذباتی رویہ ھے ۔ اس کے لئے دلیل بھی تو کوئی نہیں ھے۔ کیونکہ یہ فرد کا ذاتی تجربہ ھے۔ البتہ ختم نبوت ﷺ کا یہ تقاضا ھے کہ کسی بھی فرد کے کشف القا اور الہام کا بطور حجہ شرعیہ جائزہ لینا یا اسے حجہ شرعیہ سمجھنا عقیدہ ختم نبوت کے منافی ہے ۔

محمد نعمان بخاری: اسی استدلال کی بنا پر لیلۃ القدر کا دیکھا جانا بھی عین ممکن ہے.

زاہد مغل: لیلۃ القدر میں بھی فرشتوں کے نزول کا ذکر ہے، بعض روایات کے مطابق وہ بندوں سے مصافحہ بھی کرتے ہیں۔

تصوف، قادیانیت اور غامدی صاحب

0 comments
ناظرین..! غامدی-ازم تصوف سے فقط اپنے متعصب پن کی وجہ سے مرزے کو صوفی ڈکلئر کرنے پر تن من دھن نثار کر رہی ہے.. مرزے کے صوفی ہونے کی ایک بھی دلیل نہیں غامدیت کے پاس.. اگر ہے تو اسکا سلسلہ اور شجرہ بتائیں.. نیز وہ کس کا مرید تھا؟
جنابِ معترض..! جو مرزا غلام قادیانی کل تک ایک متبحر عالم اور مناظر ہو، آج وہ کسی 'سلسلہء انگلشیہ' کی ایماء پر بونگیاں مارنا اور گالیاں بکنا شروع کر دے تو آپکی علمی طبیعت اسے صوفیاء کرام سے بےدلیل جوڑنے پر مجبور کیوں ہو جاتی ہے؟ دلچسپ حقیقت تو یہ ہے کہ مرزے کی جھوٹی نبوت کا علمی و منطقی تعاقب کرنے والوں کی اکثریت صوفیاء کرام کی ہے.. اہلِ تصوف کو خالص علمی بنیاد پر علماءِ اُمت کا تحریری دفاع حاصل ہے،، مرزے کو جنابِ غامدی صاحب کے لسانی دفاع کے علاوہ کس مسلمان کا قلمی کندھا میسر ہے؟؟
.
متاثرین و مقلدین المورد..! اس فریب کو پہچانو.. سہارا دینا ہے تو حق کو دو.. اس حق کو نہیں جسے آپ حق سمجھ بیٹھے ہو،، بلکہ اس حق کو جو قرآن و سنت کے مطابق حق ہے.. صحابہ کرام نے تو بلا ردوکد اور قیل وقال منکرِ ختمِ نبوت کو دلیل بالسیف سے زیر کیا تھا.. آج محترم غامدی صاحب کی نقاب کشائی ہوئی ہے تو آپ انہیں مظلوم سمجھ بیٹھے ہیں؟؟ آپ کمزور کو کندھا دینے کے داعی ہیں تو اس سادگی میں آپ مارے جائیں گے، کیونکہ مرزا بھی طاقت ور نہیں تھا، نحیف تھا.. میں تو آپکے قابلِ قدر جذبات کو قابلِ ہمدردی سمجھتا ہوں صاحبو..!
.
میرے مکرم دوست..! سرِ راہ چلتے چلتے ایک بات تو بتائیں،، جب متصوفین کو لوگ اپنی کم علمی کی بنا پر زدوکوب کرتے ہیں، تب آپکے مضبوط کندھے جِم خانہ میں مصروفِ ریاضت ہوتے ہیں؟؟ بات کرتے ہیں مظلوم کا ساتھ دینے کی........ اصل میں ظلم وہی ہے جو غامدی صاحب کے ساتھ ہو،، باقی علماء کرام تو ایویں سیاپا ہی ہیں..!!
(محمد نعمان بخاری)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

کمنٹس

فرنود عالم: میں تسلی کیلئے مکرر عرض کرتا ہوں۔
’’رجوع تو چھوڑ دیں ، اس پہ ان کا رجوع کبھی نہیں آئے گا۔ کیوں نہیں آئے گا، اس کیلئے انہی کے اصولوں کو دیکھنا پڑے گا۔ اب جب میں کہہ رہا ہوں کہ انہی کے اصولوں کو دیکھنا پڑے گا، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میں اپنا موقف بیان کر رہا ہوں۔؟ میرے خیال سے یہ بات سمجھنے کی ہے جو کئی بار کہنے کے با و جود اسے ایک ہی اینگل سے دیکھنے پہ اصرار کر رہے ہیں۔ 
بات ہے میری رائے کی اس رائے پر جو غامدی صیب کا ہے۔ سو سب سے اول ختم نبوت پہ ان کا ایمان شک شبہے سے بالا تر ہے۔ مرزا غلام احمد قادیانی کے دعوے کو وہ رد ہی نہیں کرتے بلکہ اس کے دعوے کے بطلان کیلئے بیسیوں دلائل اسی کے لٹریچر سے دیتے ہیں۔ اب بات آتی ہے مرزا کو کافر کہنے کی۔ ٹھیک ۔؟ اب غامدی صیب کا مرزا کو کافر نہ کہنا در اصل قادیانیوں کی حمایت ہے۔؟ آپ کہتے ہیں کہ ہاں۔۔۔ جبکہ میں کہتا ہوں کہ نہیں۔ یہ وہ بنیادی پوائنٹ ہے جو میرے نقطہ نظر کی مین تھیم ہے۔ کیا اب یہ ہے کہ غامدی صیب پہ شک کیا جائے۔؟ میں ادنی درجے میں بھی شک کیلئے تیار نہیں ہوں۔ اب ان کے متعلق فتوی کیا ہونا چاہیئے؟ جب فتوے کی بات ہوگی تو آپ ظاہر ہے جاوید صیب کی بات سنے بغیر تو فتوی صادر نہیں کر سکیں گے۔ جب بات سنیں گے، تو آپ فتوی لگا ہی نہیں پائیں گے۔ میں ایک مثال دیتا ہوں
اگر کسی نے یہ سمجھنا ہو کہ غلام احمد پرویز کی فکر کیا تھی؟ اس کیلئے جاوید صیب کا لیکچر یوٹیوب پہ موجود ہے۔ کم و بیش دو گھنٹے کا لیکچر ہے۔ اس لیکچر جاوید صیب غلام احمد پرویز صیب کی پوری شد ومد کے ساتھ رد کر رہے ہیں۔ یہ رد بلا کم وکاست ہے اور قران و سنت کی روشنی میں ہے۔ رد کیلئے جاوید صیب نے خود پرویز صیب کے لتریچر سے بھی بے لاگ رد کیا ہے۔ مگر آپ جاوید صیب سے اگر پوچھیں کہ کیا پرویز صیب کافر تھے۔؟ وہ کہیں گے ’’یہ فیصلہ میں نہیں کر سکتا‘‘۔۔۔۔
اچھا اب جب جاوید صیب پہ اس بنیاد پہ فتوی لگے گا کہ وہ قادیانی کو کافر ڈیکلیئر نہیں کرتے، تو وہی بات کہ جاوید صیب کی بات سننی پڑے گی۔ اب جب سنیں گے تو وہ اس کو جسٹی فائی کرتے ہیں۔ ایسے میں فتوی صادر نہیں ہوتا، یہ فتوی اور قضا دونوں کے ہی بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔ 
سو اب دو باتیں ہوگئیں
۱۔ مرزا غلام احمد قادیانی کو اس کے نقطہ نظر کی روشنی میں کیا سمجھتا ہوں؟
جواب: مرزا غلام احمد قادیانی کا لٹریچر پڑھنے کے بعد میں اسے ادنی درجے میں بھی اسلام کے راستے پہ نہیں سمجھتا۔ مزید واضح کردوں تو مسلمان نہیں سمجھتا ۔۔۔۔ 
۲۔ جاوید صیب کا نقطہ نظر جاننے کے بعد جاوید صٰب کے بارے میں رائے کیا ہے؟
جواب: جاوید صیب کا پورا لٹریچر پڑھنے کے بعد اور ان کے تمام لیکچرز سننے کے بعد میں نتیجہ اخذ نہیں کر سکتا کہ جاوید صیب قادیانیوں کے حمایتی یا عقیدہ ختم نبوت میں کہیں جھول رکھتے ہیں۔ ان کا کسی کو بھی کافر نہ کہنا یہ انہی کے اصول ’’اتمام حجت‘‘ کی بنیاد پر ہے۔۔۔ اتمامِ حجت کے اصول پہ وہ اپنا ایک مفصل مقدمہ رکھتے ہیں۔ وہ مقدمہ اگر پڑھ لیا جائے، تو اختلاف رائے کے مکمل امکان کے ساتھ یہ واضح ہوجائے گا کہ جاوید صیب کا اصل میں مسئلہ کیا ہے؟ رہے بس نام خدا کا۔۔۔۔

محمد نعمان بخاری: فرنود بھائی، آپکی بات کو قلبی طور پر قبول کرتا ہوں.. بالکل ایسا ہی ہے کہ مجھے آپ حضرات کے اس عقیدے سے کلی اتفاق ہے..!
بات ہو رہی ہے غامدی صاحب کے اس طرز کے کہ وہ مرزے کے رد میں صوفیاء کو کیونکر شاملِ معاملہ کرتے ہیں؟ مجھے غرض نہیں کہ غامدی صاحب اپنی ذات کی حد تک جو بھی نظریہ رکھیں، مجھے اعتراض ہے کہ خود تو تصوف کے قائل نہیں (نہ ہوں میری بلا سے)، مگر غیر منطقی طور پر،، بلکہ اگر میں کہوں کہ دانستاْ وہ ہزاروں جید صوفیاء عظام کی تردید کرتے ہیں،، کرتے رہیں.. مگر مرزے کے ساتھ موازنہ کیوں؟ جبکہ مرزا صوفی نہ تھا.. اگر غامدی صاحب اپنی اس علمی بددیانتی پہ رجوع نہیں کرتے تو ان شاءاللہ، مسلمان انکا تعاقب کرنے میں کسی مصلحت کی پرواہ نہیں کریں گے.

محمد فیصل شہزاد: میں اللہ کو حاضر ناظر جان کر کہوں کہ کل غامدی صاحب کا ایک گھنٹے کا بیان سن کر میں جو پوسٹ کرنے لگا تھا۔۔۔ بلکہ لکھ بھی لی تھی، اگر کر دیتا تو میرے سارے دوست مجھ پر برس پڑتے۔۔۔ کیوں کہ وہ پوسٹ غامدی صاحب کے حق میں تھی۔۔۔ ان کلپس سے متاثر ہو کر میں غامدی صاحب سے اس صوفیاء کرام کو گمراہ سمجھنے والے پوائنٹ سے اختلاف کے باوجود ان کی نیت پر مطمئن ہو گیا تھا!
اور مجھے لگا کہ مرزا کے حوالے سے ان کا موقف روایتی نہ سہی مگر وہ اسے شدید گمراہی پر سمجھتے ہیں۔ بس چونکہ وہ اپنی مخصوص رائے کی بنا پر کسی کو کافر نہیں کہتے اس لیے کافر نہ کہنے پرمجبور ہیں!
مگر
نہایت حیرت انگیز طور پر
اچانک تصور سمیع کی پوسٹ پر نظر پڑ گئی ۔ ۔ ۔جس میں غامدی صاحب کی ایک اور کلپ سے اقتباس لیا گیا تھا کہ:
مرزا صاحب نے کبھی صریحاً نبوت کا دعوی نہیں کیا، بلکہ دیگر صوفیاء کی طرح باتیں کی ہیں اور کوئی غیر محتاطی نہیں برتی...؟؟
میں نے وہ کلپ بھی دیکھی اور گویا دماغ بھک سے اڑ گیا!
دونوں کلپس میں زمین آسمان کا فرق تھا! :(

ملک جہانگیر اقبال: جب مرزا قادیانی نے نبوت کا دعویٰ کیا اور مردود ہو کر دنیا سے رخصت ہوا تو محترم غامدی صاحب شکم مادر میں بھی نہیں تھے .
تب یہ صوفیاء ہی تھے جس نے اس فتنے کا مقابلہ کیا . 
اب اس عمر میں غامدی صاحب جو کچھ فرما رہے ہیں یہ معلومات کہیں وہیں سے تو نہیں موصول ہورہی جہاں سے مرزے کو " وحی " آتی تھی ؟؟
سوچنے کی بات ہے. آج کے دور میں بندہ ماضی کی معلومات کرنا چاہے تو اسکے تین طریقے ہیں . 
١) آپ اسکے مخالفین کی لکھی کتابیں پڑھیں ( پر اس میں تو مرزا کافر قرار دیا گیا)
٢) آپ اس شخص کی اپنی لکھی کتابیں پڑھیں ( جس میں اس نے نبوت کا دعویٰ کیا ہوا یعنی اس کے لحاظ سے بھی کافر )
٣) آپکو کشف یا الہام ہو ( پر غامدی صاحب تو اسکو مانتے ہی نہیں )
اگر غامدی صاحب چوتھی جگہ " انگریزی وحی" سے یہ حقیقتیں جان رہے ہیں تو پھر انا للہ وا انا الیہ راجعون۔

ظفر اقبال اعوان: عقل گھاس چرنے چلی گئی ہے.....مرزا تصوّف کے کس سلسلے کا صوفی تھا اور کس پیر طریقت سے بیعت تھا ؟؟ یا اس کا اپنا "سلسلہء انگلشیہ" تھا اور وہ کسی صاحب بہادر سے "بیعت" تھا- اس نے اپنی کس کتاب میں لکھا ہے کہ وہ ابنِ عربیؒ سے متاثر ہے؟ اس نے فقر کی منازل کہا طے کیں....او میرے بھائی....غامدی صاحب ایک کوّے کا پر لیکر آ گئے ہیں....اور فرنود بھائی نے اسے مورچھل بنا کر رکھ دیا ہے.....مرزا ایک سیلف میڈ عالم تھا جس طرح آجکل فیس بک پر تھوک کے حساب سے پائے جاتے ہیں- اسے رب نے کلام کی نعمت سے نوازاتھا جو اس نے بدّی کے لئے استعمال کی جس طرح فیس بک پر رب نے بہتوں کو قلم کی نعمت سے نوازا ہے اور وہ ہر برائ کو سپورٹ کرتے ہیں- وہ 1880ء میں بطور مناظر سامنے آیا- جس طرح فیس بک پر کچھ لوگ ہمارا دماغ چاٹنے آن بیٹھتے ہیں- اسے ایک بڑی کمیونٹی واہ واہ کرنے والی مل گئ جس طرح فیس بک پر بعدے دانشوروں کو لائکس اینڈ کمنٹس کے ٹوکرے ملتے ہیں- وہ کھُل کر انگریز کے خلاف بولتا تھا اور جنگِ آزادی کی ماری ہوئ قوم اس کے صدقے واری جاتی تھی جیسے فیس بک پر کچھ لوگ حکومت کے خلاف بولتے ہیں تو انقلابی اس کا مذھب مسلک پوچھے بغیر جھومنے لگتے ہیں- اس نے لاہور کے ایک جلسے میں ملکہء وکٹوریا کو اسلام کی دعوت دے ڈالی تو لوگ اس کی جی داری پر قربان ہوگئے حالانکہ اس تقریر کا مسودہ انگریز نے ہی اسے تھمایا تھا ....جیسے آج بھی بعد لیڈروں کو وہ خود "بڑبولیاں "لکھ کے دیتا ہے تاکہ ان کا قد بڑھا سکے....سو اس کا قد بڑھتا گیا....اور زبان دراز ہوتی گئ.....پہلے منکران حدیث کہتے رہے کہ مرزا نے تمام دلائل بخاری اور مسلم سے اخذ کئے تھے- کچھ دن قاری حنیف ڈار صاحب ہمارا دماغ کھاتے رہے کہ اس نے تمام دلائل دیوبند اکابرین کی کتب سے لئے تھے.....اور اب ایک نئی کہانی ....جس کا نہ سر ہے نہ پیر....کہ مرزا صوفی تھا.....کون سے سلسلے کا صوفی بھائی؟؟..........ایک جھوٹا شخص جسے جاھلین کی ایک بڑی کمیونٹی دستیاب ہو....اور حاکم وقت اس کی پیٹھ تھپتھپا رہا ہو......اس کی ہر بڑبولی پر....عقل کے اندھے واری صدقے ہی جاتے ہیں....چاہے وہ ملتان کا پیر سپاہی ہو یا کراچی کا گوہر شاہی....
اللہ کا شکر ادا کرو جس نے اپنے آخری نبی ﷺ کے صدقے علمائے حق اور صوفیاء کرام کو اس فتنے کی بیخ کنی کےلئے منتخب کیا- دعائیں دو پیر مہر علی شاہؒ کو ، ثناءاللہ امرتسریؒ ، حسین احمد بٹالویؒ ، عطاءاللہ شاہ بخاریؒ کو ، مودودی صاحبؒ کو ، شاہ احمد نورانیؒ صاحب کو اور ان جیسے سینکڑوں دیگر علمائے کرام کو...جنہوں نے اس فتنے کا راستہ روکا.....اور ایسے ہزاروں عاشقان رسول (ص) کو جنہوں نے 1953ء میں سینے پر گولیاں کھا کر ختم نبوّت کی لاج رکھی- مولانا یوسف لدھیانویؒ سے لیکر اس ختم نبوّت کے آخری شہید تک جنہوں نے خون دیکر اس فتنے کا راستہ روکا......اب چاہے تاویلات کا جتنا مرضی چونا لگا لو.....اس کوّے کو سفید کرنا ممکن نہیں رہا.....کیونکہ یہ ازل سے کالا ہے۔

تصوف اور اسکے متعلقات کے بارے میں علامہ ابن تیمیہؒ کا عقیدہ

1 comments
عام طور پر علامہ ابن تیمیہؒ کے بارے میں یہ تاثر پایا جاتا ھے کہ آپ تصوف و صوفیاء کے مخالفین میں سے تھے (بدقسمتی سے بعض اوقات انکے نام لیوا خود ہی اس تاثر کو بڑھاوا دینے کا باعث بن جاتے ہیں)، درج ذیل تحریر اس غلط تاثر کے حوالے سے نہایت چشم کشا ہے۔

تحقیق: مولانا حافظ محمد خان 
تدوین:  بنیاد پرست

''بعض لوگ جو اپنے آپ کو سلفی منہج کی طرف منسوب کرتے ہیں، یہ لوگ تصوف کواسلام کے مقابل اورمخالف ایک الگ مذهب تصور کرتے هیں تصوف کو کفر شرک وبدعت سمجهتے هیں اور بڑے زورشور سے تمام ذرائع نشر واشاعت استعمال کرکے لوگوں کویه باورکراتے هیں که صوفیه اورتصوف کا سلسلہ ایک شرکیه کفریه بدعیه اور خرافات پر مبنی سلسله هے اورصوفیه کرام دین اسلام کے دشمن اور باطل عقائد رکهنے والے لوگ هیں .اوریه بعض لوگ اپنے سلفی منهج کی بنیاد شیخ الاسلام ابن تیمیه رح اوران کے شاگرد ابن قیم رح کی تعلیمات وتحقیقات پر رکهتے هیں اور لوگوں کویه کهتے هیں که ان دو حضرات کا منهج ومسلک قرآن وسنت کے عین مطابق هے لیکن درحقیقت یه لوگ اپنے اس دعوے میں جهوٹےهیں کیونکه شیخ الاسلام ابن تیمیه رح اور ابن قیم رح جن کی تقلیدواتباع کا یه لوگ دعوی کرتے هیں وه تو تصوف اور صوفیه کرام کی تعریف وتوصیف میں رطب اللسان هیں وه تو صوفیه کو ائمه هدی ائمه حق ائمه اسلام کهتے هیں اور ان کی اتباع کو باعث سعادت ونجات سمجهتے هیں. قول وفعل کے اس تضا د کو هم کیاکهیں منافقت یا جهالت یا محض ضد وتعصب ؟ وه تمام امورجن کی وجه سے یه لوگ علماء دیوبند کو اور دیگر صوفیه کو کافرمشرک کهتے هیں وه سب باتیں بلکه اس سے کهیں زیاده ابن تیمیه رح اور ابن قیم رح کی کتابوں میں موجود هیں . مختصرطورپرچند حوالے ملاحظه فرمائیں .

تصوف کے بارے میں ابن تیمیهؒ کی شہادت

سب سے پهلے صوفی کا نام ابو هاشم الکوفی کو حاصل هوا یه کوفه میں پیدا هوئے اور اپنی زیاده زندگی شام میں گزاری اور (160 ھ ) میں ان کی وفات هوئ اور سب سے پهلے تصوف کی نظریات کی تعریف وشرح ذوالنون المصریؒ نے کی جو امام مالکؒ کے شاگرد هیں اور سب سے پہلے جنید بغدادیؒ نے تصوف کو جمع اور نشر کیا۔

صوفی کی تعریف ابن تیمیهؒ کے نزدیک

صوفی حقیقت میں صدیقین کی ایک قسم هے وه صدیق زهد وعبادت کے ساتهہ مشہور هو اس طریقه پر جس پر دیگر صوفیه نے عبادت وریاضت کی تو ایسے آدمی کو اهل طریق کے یهاں صدیق کها جائے گا جیسے کها جاتا هے صدیقوآلعلماء صدیقوآلاُمراء یعنی علماء میں صدیق اور امراء میں صدیق الخ. (مجموع الفتاوى 11ـ 17)

لفظ فقراورتصوف کی تشریح

لفظ فقر اورتصوف میں جوالله ورسول کے پسندیده امور داخل هیں ان پرعمل کا حکم دیاجائے گا ، اگرچہ ان کانام فقر وتصوف هو،کیونکہ کتاب وسنت ان اعمال کے استحباب پر دلالت کرتے هیں لهذا یہ اعمال استحباب سے خارج نهیں هوں گے نام بدلنے کی وجہ سے۰ جیساکہ فقروتصوف میں اعمال قلوب یعنی باطنی اعمال توبہ صبر شکر رضا خوف رجاء محبت اور اخلاق محمودہ یعنی اچہے اخلاق بهی داخل هیں.(مجموع الفتاوى 11ــ 28 ـ 29)

اولیاء الله کی تعریف

اولیاء الله وه مومنین متقین هیں چاهے کوئ ان کو فقیر یا صوفی یا فقیه یا عالم یا تاجر یا فوجی یا کاریگر یا امیر یا حاکم وغیرہ کہے (مجموع الفتاوى جلد 5)

اعمال قلوب کی تشریح

وه اعمال قلوب جن کا نام بعض صوفیہ احوال ومقامات یا منازل السائرین الی اللہ یا مقامات العارفین وغیره رکہتے هیں اس میں سب وہ اعمال هیں جن کو الله ورسول نے فرض کیئے هیں بعض وہ اعمال هیں جو فرض تو نهیں لیکن پسندیده هیں لهذا ان پر ایمان مستحب اور اول پر ایمان فرض جس نے فرض اعمال پر اکتفاء کیا وه اَبراریعنی نیک لوگوں میں سے اور اصحاب الیمین میں سے هے اور جس نے دونوں کو جمع کیا وه مقرّبین سابقین میں سے هے الخ. (مجموع الفتاوى جلد 7 صفحه 190)

ابن تیمیہؒ اور آئمه تصوف کی تعریف وتزکیہ

سالکین میں سے صراط مستقیم پرچلنے والے جیسے جمهورمشائخ سلف میں سے فُضیل بن عیاض اور ابراہیم اَدہم اور ابوسلیمان دارانی اور معروف کرخی اورسِرّی سقطی اورجنید بن محمد وغیرہم رحمہم اللہ هیں یہ سب بزرگ پہلے زمانے کے هیں اور ان کے بعد کے زمانے کے بزرگوں میں شیخ عبدالقادر جیلانی شیخ حماد شیخ ابی البیان وغیرہم هیں . یہ سب بزرگ سالک کیلئے یہ جائز نهیں سمجہتے تہے که وه امر ونهی سے باهر نکل جائے اگرچه سالک ہوا میں اڑے یا پانی پر چلے بلکه سالک کیلئے مرتے دم تک مامورات پر عمل کرنا اور محظورات کو چہوڑنا فرض هے . اور یہی وه حق ہے جس پر قران وسنت اور اجماع سلف دلالت کرتے هیں اور اس طرح کی نصیحتیں ان بزرگوں کی کلام بہت زیادہ هیں .(مجموع الفتاوى جلد 10 صفحه 516 ـ 517)

ابن تیمیهؒ کے نزدیک شیخ عبدالقادر جیلانیؒ اور شیخ جنید بغدادیؒ تصوف کے امام ہیں

آئمہ تصوف میں سے اور پہلے زمانے کے مشہور مشائخ میں سے جنید بغدادی اور ان کے پیروکارهیں اور شیخ عبد القادر جیلانی اور ان جیسے دیگر بزرگ یہ بزرگ امر ونہی کو سب سے زیاده لازم پکڑنے والے تہے اور لوگوں کو بهی اس کی وصیت کرتے تهے الخ-(مجموع الفتاوى جلد 8 ــ 369)
ابن تیمیهؒ فرماتےهیں که جنید بغدادیؒ اور ان جیسے دیگر شیوخ آئمہ هدی هیں اور جو اس بارے میں ان کی مخالفت کرے وه گمراه هے۔ (مجموع الفتاوى جلد 5 صــ 321)
اور اپنی کتاب اَلفرقان میں بهی شیخ الاسلام نے جنید بغدادی کو ائمہ هدی میں کہا۔ (الفرقان صفحه 98)
اورشیخ عبد القادر جیلانی کے بارے میں کہا که وه اتباع شریعت میں اپنے زمانه کے سب بڑے شیخ تهے.( مجموع الفتاوى جلد 10 صــ 884)
اور فرمایا که صوفیاء میں سے جو بہی شیخ جنید بغدادیؒ کے مسلک پر چلے گا وه هدایت ونجات وسعادت پائے گا۔
(مجموع الفتاوى جلد 14 ص 355)
ابن تیمیہؒ کے نزدیک علماء تصوف مشائخ اسلام اور ائمہء هدایت هیں۔ (مجموع الفتاوى جلد 2 ص 452)

فقیر افضل هے یا صوفی؟

شیخ الاسلام فرماتے هیں که اس بارے میں اختلاف هواهے که صوفی افضل هے یا فقیر ایک جماعت نے صوفی کو ترجیح دی جیسے ابوجعفر سهروردی وغیره نے اور ایک جماعت نے فقیر کو صوفی پر ترجیح دی اور تحقیقی بات یہ هے کہ جوان دونوں زیادہ متقی هے وه افضل ہے۔۔ الخ (مجموع الفتاوى جلد 11 ص 22)
شیخ الاسلام فرماتے هیں: صوفیاء کرام کے الفاظ و اصطلاحات ان کے علاوہ اور کوئی نہیں جانتا-(مجموع الفتاوى جلد 5 ص 79)

صوفیاء کے کلام کی تشریح

صوفیاء کے کلام کچہه عبارات ظاهری طور پر سمجھ میں نهیں آتی بلکہ بعض مرتبہ تو بهت غلط عبارت نظر آتی هے لیکن اس کو صحیح معنی پر حمل کیا جا سکتا هے۔ لہذا انصاف کا تقاضہ یہ هے کہ ان عبا رات سے صحیح معنی مراد لیا جائے جیسے فناء، شہود،اورکشف وغیرہ (مجموع الفتاوى جلد ص 337)

ابن تیمیہؒ کے نزدیک فناء کے اقسام

فناء کی تین 3 قسمیں هیں ایک قسم کاملین کی هے انبیاء اور اولیاء میں سے دوسری قسم هے قاصدین کی اولیاء وصالحین میں سے اور تیسری قسم هے منافقین وملحدین کی الخ شیخ نےاس کے بعد ان تینوں اقسام کی تعریف وتفصیل ذکر کی۔ دیکھئے . (مجموع الفتاوى جلد 10 ص 219)

صوفیہ کرام کی طرف لوگوں نے باطل عقائد بہی منسوب کئے هیں

شیخ الاسلام فرماتے هیں کہ اهل معرفت صوفیہ میں سے کسی ایک کا بهی یہ عقیده نهیں هے کہ الله تعالی اس میں یا اس کے علاوه دیگر مخلوقات میں حلول واتحاد کر گیاهے ، اور اگر بالفرض اس طرح بات ان اکابر شیوخ کے بارے میں نقل کی جائے تو اکثر اس میں جھوٹ هوتاہے ، جس کو اتحاد وحلول کے قا ئل گمراہ لوگوں نے ان صو فیہ کرام کی طرف منسوب کیاہے ، صوفیہ کرام اس قسم کے باطل عقائد سے بری هیں .. (مجموع الفتاوى جلد 11 ص 74 - 75)

صوفیہ کرام عقیدہ حلول سے بری ہیں

صوفیہ کرام جو امت کے نزدیک مشہور هیں وه اس امت سچے لوگ هیں وه حلول و اتحاد وغیرہ کا عقیده نهیں رکہتے بلکه لوگوں کو اس سے منع کرتے هیں اور اهل حلول کی رد میں صوفیہ کرام کا کلام موجودهے ، اور حلول کے عقیده کو ان نا فرمان یا فاسق یا کافر لوگوں نے اختیار کیا جنہوں نے صوفیہ کرام کے ساتھ مشابہت اختیارکی اور ظاہری طور پر ولایت کے دعوے کیئے الخ (مجموع الفتاوى جلد 15 ص 427)

صوفیہ کرام کفر سے بری ہیں

اگر ان لوگوں کی تکفیر کی جائے تو لازم آئے گا بہت سارے شافعی مالکی حنفی حنبلی اشعری اہل حدیث اهل تفسیر اور صوفیہ کی تکفیر، حالانکہ باتفاق مسلمین یہ سب لوگ کافر نهیں تھے .. (مجموع الفتاوى جلد 35 ص 101)

شیخ الاسلام کے شاگردِ رشید حافظ صوفی ابن القیمؒ کا کلام تصوف کے بارے میں علم تصوف بندوں کے اشرف وافضل علوم میں سے ہے علم توحید کے بعد اس سے زیاده اشرف کوئ نہیں ہے اور یہ علم تصوف شریف نفوس کے ساتهہ هی مناسبت رکہتا ہے.. (طريق الهجرتين ص 260-- 261)

صوفیہ کی اقسام

صوفیہ کی تین 3 قسمیں هیں۔ 1 صوفیہ اَرزاق ،2 صوفیہ رسوم ،3 اور صوفیہ حقائق
پهلے دو2 فریق جوهیں سنت وفقہ کا علم رکهنے والے لوگ ان کی بدعات کو جانتے هیں، اور جہاں تک تعلق صوفیہ حقائق کا تو صوفیہ حقائق وہ لوگ هیں جن کے سامنے فقهاء ومتکلمین کے سر جهکے هوئے هیں اور حقیقت میں صوفیہ حقائق هی علماء اور حکماء هیں .. (شرح منازل السائرين)

صوفیہ و فقراء کی اقسام ابن القیمؒ کے نزدیک

پهر ان کی دو قسمیں هیں۔ صوفیہ اور فقراء۔ پهر اس میں اختلاف هے کہ صوفیہ کو فقراء پر ترجیح هے یافقراء کو صوفیہ پریا دونوں برابر هیں ، اس بارے میں تین 3 اقوال هیں .
1 ایک جماعت نے صوفی کو ترجیح دی اور یہ اکثر اهل عراق کا قول هے اور صاحب کتاب ، العوارف ، کابهی یہی قول هے ، اور انهوں نے کها کہ فقیر کی جہاں انتهاء هوتی هے وهاں سے صوفی کی ابتدا هوتی هے ..
2 ایک جماعت نے فقیر کو ترجیح دی ، اور فقر کو تصوف کا لُب لباب اور ثمره قرار دیا اور اکثر اهل خراسان کاقول هے ..
3 اور ایک جماعت کی رائے یہ هے کہ فقر اور تصوف ایک هی چیز هے ، اور اهل شام کا قول هے ..
(مدارج السالكين ج 2 ص 368)

عارف باللہ کی تعریف

بعض سلف نے کہا که عارف کی نیند بیداری هوتی هے ، اس کے سانس تسبیح هوتی هے ، اور عارف کی نیند غافل کی نماز سے افضل هے۔عارف کی نیند بیداری کیوں هوتی هے؟ اس لیئے کہ اس کا دل زنده اور بیدار هوتاهے اور اس کی آنکهیں سوئی هوتی هیں اور اس کی روح عرش کے نیچے اپنے رب اور خالق کے سامنے سجده ریز هوتی هے جسم اس کا فرش پر هوتاهے اور دل اس کا عرش کے ارد گرد هوتا هے.. (مدارج السالكين ج 3 ص 335)
سبحا ن الله۔ عا رف کی یہ حالت وتعریف زندگی میں پهلی مرتبہ صوفی ابن القیمؒ کی کتا ب میں دیکهی ۰ فجزاه الله خیرالجزاء علی هذه الفوائد الرائعہصوفیہ کی عبارات و اصطلاحات کو جا ننا هر کس و نا کس کا کام نهیںصوفی ابن القیمؒ فرماتے هیں: خوب جان لو کہ صوفیہ کرام کی زبان میں جو استعارات هوتے هیں اتنے کسی اور جماعت کی زبان میں نهیں هیں ، عام بول کر خاص مراد لینا، لفظ بول کر اس کا اشاره وکنایہ مراد لینا حقیقی معنی مراد نہ لینا وغیره، اس لیئے صو فیہ کرام فرماتے هیں کہ هم اصحاب اشاره هیں اصحاب عباره نهیں هیں ، لهذا ایک جماعت نے ان صوفیہ کرام کی ظاهری عبارات کو لیا اور ان کو بدعتی و گمراه قرار دیا ، اور ایک جماعت نے ان عبارات و اشارات کے اصل روح ومغز ومقاصد کو دیکها اور ان کو صحیح قرار دیا ۰ (مدارج السالكين ج 3 ص 330)

صوفیہ کرام نے مجمل ومتشابہ الفاظ بول کر صحیح معانی مراد لیئے هیں لیکن جاهل لوگوں نے ان الفاظ کےسمجهنےمیں غلطی کی

خبردار هو کر خوب جان لو کہ صوفیہ کرام کی اصطلاح میں جو مجمل ومتشابہ الفاظ واقع هوئے هیں وه اصل آزمائش هے ، کم علم اور ضعیف معرفت والا آدمی جب وہ الفاظ سنتاهے، تو وه اس کو حلول اتحاد وشطحات سمجهہ لیتا هے ، حالانکہ صوفیہ عارفین نے اس قسم کے الفاظ بول کر فی نفسہ صحیح معانی مراد لیئے هیں، جاهل و ان پڑھ لوگوں نے ان کی صحیح مطلب ومراد سمجهنے میں غلطی کی ، اور صوفیہ کرام کو ملحد و کا فر قرار دیا . (مدارج السالكين ج 3 ص 151)

صوفی ابن القیمؒ کے نزدیک فناء کی تعریف

فناء کا لفظ جو صوفیہ کرام استعمال کرتےهیں ، اس کا مطلب یہ هے کہ بنده کی نظروں سے سب مخلوقات دور هو جائیں اور افق عدم میں غائب هو جائیں جیسا کہ پیدا هونے سے پهلے تهیں ، اور صرف حق تعالی کی ذات اس کی نظروں میں باقی رهے ،پهر تمام مشاهدات کی صورتیں بهی اس کی نظروں سے غائب هو جائیں ، پهر اس کا شهود بهی غائب هو جائے ،اور صرف حق تعالی کا مشاهده کرے . حقیقت اس کی یہ هے کہ هر وه چیز جو پهلے موجود نهیں تهی اس کی نظروں سے فناء هو جائے اور صرف حق تعالی عزوجل ولم یزل کی ذات عالی اس کی نظروں کے سامنے رهے ۰ اور خوب جان لو کہ اس فناء سے ان کی مراد یہ نهیں هے کہ الله تعالی کے سوا هر چیز کا وجود خارج میں حقیقتََا فناء هو جائے ،بلکہ مطلب یہ هے کہ اس بنده کے حِس اورنظروں سے یہ سب چیزیں غائب هو جائیں فقط۔ (مدارج السالكين ج 1)

علم لَدُنّی کی تعریف

علم لدنی عبودیت ، اتباع ،صدق مع الله ،اخلاص ،علوم نبوت حاصل کرنے میں کو شش ،اور الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی کامل اتباع کا ثمره هے ، ایسے بنده کیلیئے کتاب وسنت کی فهم کا خصوصی دروازه کهول دیا جاتاهے۔۔ الخ
(مدارج السالكين ج 2 ص 457)

فراست کی تعریف

فراست ایک نور هے جس کو الله تعالی بنده کے دل میں ڈالتا هے ، جس کے ذریعه سے بنده حق و باطل ، حالی و عاطل ، صادق و کاذب کے درمیان فرق کرتا هے الخ (مدارج السالكين ج 2 ص 483)
ابن تیمیہؒ تبرک کو جائز کہتےهیں اور اس کو امام احمد بن حنبل رح کی طرف منسو ب کرتے هیں فرمایاکہ امام احمد وغیره نے منبر نبوی اور رُمّانہ نبوی صلی الله علیه وسلم سے تبرک کو جائز قرار دیا ۰ اقتضاء الصراط المستقيم ابن تیمیہ رح قرآن اور آثار النبی صلی الله علیہ وسلم کے ساتهہ تبرک کو جائز کهتے هیں اگرکوئی آدمی کسی برتن یا تختی پر کچهہ قرآن یا ذکر لکهہ دے اور اس کو پانی وغیره سے مٹاکر پی لے ، تو اس میں کوئ حرج نهیں هے ، امام احمد وغیره نے بهی اس بات کی تصریح کی هے ، اور ابن عباس رضی الله عنهما سے منقول هے که وه قرآن و ذکر کے کلمات لکهتے تهے اور بیمار لوگوں کو پلانے کا حکم کرتے تهے ، اس میں دلیل هے برکت کی ،اور وه پانی بهی بابرکت هے جس سے آپ صلی الله علیہ وسلم وضو فرمایا اور حضرت جابر رض پر چهڑک دیا کیوں کہ وه بیمار تهے ،اور سب صحابہ کرام رض اس سے تبرک حاصل کرتے تهے۔ (مجموع الفتاوى ج 12 ص 599)
ابن تیمیہؒ سُبحہ یعنی دانوں والی تسبیح استعمال کرنے کو جائز اور صحابہ کرامؓ  کا عمل بتلاتے هیں انگلیوں کے ساتهہ تسبیح شمار کرنا سنت هے ،اور کهجوروغیره کی گٹهلیوں اورکنکریوں وغیره کے ساتهہ بهی تسبیح پڑهنا جائزهے ،بعض صحابہؓ بهی اس طرح کرتے تهے ،اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے اُم المومنینؓ کو کنکریوں کے ساتهہ تسبیح پڑهتے دیکها تو آپ نے اس کی تائید کی منع نهیں کیا ،اور حضرت ابو هریرهؓ کے بارے میں روایت هے کہ وه بهی اس کے ساتهہ تسبیح پڑهتے تهے ،اور وه تسبیح جو دهاگے میں دانے وغیره ڈال کر بنائ جاتی هے ، بعض نے اس کو مکروه کها هے اوربعض نے مکروه نهیں کها۔ شیخ الاسلام فرماتے هیں کہ اگر نیت اچهی هو تویہ تسبیح یعنی دهاگے میں دانے وغیره ڈال کر جو بنائ جاتی هے یہ جائزهے مکروه نهیں هے .. (مجموع الفتاوى ج 22 ص 6)

ابن تیمیہؒ نماز میں بهی سُبحہ یعنی تسبیح استعمال کرنے کو جائز کهتے هیں

سوال ۰ ایک آدمی نمازمیں قرآن پڑهتاهے اور تسبیح کے ساتهہ شمار کرتا هے کیا اس کی نماز باطل هو گی یا نهیں ؟جواب ۰ اگر سوال سے مراد یہ هے که وه آیات شمار کرتاهے یا ایک هی سورت مثال کے طور قل هوالله احد کا تکرارشمار کرتاهے تسبیح کے ساتهہ تو یہ جائز هے اس میں کوئ حرج نهیں هے ، اور اگر سوال سے کچھ اور چیز مراد هو تو اس کو بیان کردیں ۰ والله اعلم۔ (مجموع الفتاوى ج 22 ص 625)

میت کے لیئے ایصا ل ثواب جا ئز هے

سوال۰ اگر میت کو تسبیح تحمید تهلیل تکبیر کا ثواب هدیہ کر دیاجائے تواس کو ثواب پہنچتا هے یا نهیں ؟
جواب ۰ میت کو اگر اس کے اهل وعیال وغیره تسبیح تکبیر اور تمام اذکا ر کا ثواب هدیہ کردیں تو وه اس کو پہنچ جاتاهے والله اعلم ۰ (مجموع الفتاوى ج 24 ص 324-321)۔

میت کیلئے کلمہ طیبہ 70 هزار مرتبہ پڑهنا جائز هے

سوال۰ کیامیت کیلئے کلمہ طیبہ 70 هزار مرتبہ پڑهہ کر اس کو بخش دیا جائے تو اس کو جہنم سے براءت حاصل هو جائے گی یہ حدیث صحیح هے یا نهیں ؟اور اگر اس کا ثواب میت کو بخش دے تو اس کو پہنچتا هے یا نهیں ؟ جواب ۰ اگر اس طرح 70 هزار دفعہ یا کم یا زیاده پڑهہ کر میت کو بخش دیا جئے تو اس کو ثواب پہنچتا هے اور الله تعالی میت کو اس سے نفع دیتے هیں ، باقی یہ حدیث نہ صحیح هے نہ ضعیف یعنی حدیث نهیں هے والله اعلم ۰ (مجموع الفتاوى ج 24 ص 324)

هر قسم کے نیک اعما ل کا ثواب میت کو پہنچتا هے

قرآن مجید کی تلاوت اور صدقہ وغیرها نیک اعمال کا جهاں تک تعلق هے تو علماء اهل سنت کا اس میں کوئ اختلاف نهیں کہ عبادات مالِیّہ جیسے صدقہ ، عتق وغیره کا ثواب اس کو پہنچتا هے ، جیسا کہ دعا اور استغفار اور نماز جنازه اور اس کے قبر کے پاس دعا کا ثواب بهی اس کو پہنچتاهے . هاں عبادات بدنِیّہ روزه نماز قراءت کی ثواب میں اختلاف هواهے ، لیکن صواب اور صحیح با ت یہ هے کہ تمام نیک اعما ل کا ثواب میت کو پہنچتا هے ، اور هر مسلمان کی طرف سے چاهے وه میت کا رشتہ دار هو یا غیر هو میت کو جو کچهہ بخشا جا تا هے میت کو اس سے نفع هو تا هے ، جیسا کہ اس پر نماز جنازه پڑهنے اور اس کے قبر کے پا س دعا کرنے سے اس کو نفع هوتا هے ۰۰ (مجموع الفتاوى ج 24 ص 367-366)

ابن تیمیہؒ اور با طنی علم

علم باطن قلوب کے ایمان و معارف واحوال کا علم هے اوروه علم هے با طنی ایمان کے حقائق کا اور یہ باطنی علم اسلام کے ظا هری اعمال سے افضل واشرف هے . (ألفرقان ص 82)

اور صوفیہ میں بعض حضرت علیؓ کو علم با طنی میں فضیلت دیتے ہیں۔ جیسا شیخ حربیؒ اوردیگر کا طریقہ هے اور یہ لوگ دعوی کرتے هیں کہ حضرت باطنی علوم کے سب سے بڑے عا لم هیں اور حضرت ابو بکر صدیقؓ ظاهری علوم کے سب سے بڑے عالم هیں ، اِن لوگوں کی رائے محققین و ائمہ صوفیہ سے مختلف هے ، کیونکہ محققین صوفیہ کا اتفاق هے کہ باطنی علوم کے سب بڑے عالم ابوبکر صدیقؓ هیں ، اور اهل سنت والجماعت کا اتفاق هے کہ ابوبکر صدیقؓ امت میں ظاهری وباطنی علوم کے سب سے بڑے عالم هیں اور اس کے اوپر ایک سے زائد علماء نے اجماع نقل کیا هے .. (مجموع الفتاوى ج 13 ص 237)

اولیاء کے کرامات و مکاشفات

فرماتے هیں کہ اهل سنت والجماعت کے اصول میں سے هے اولیاء الله کی کراما ت کی تصدیق کرنا اور جو کچهہ ان کے هاتهو ں پر خوارق عادات صادر هوتے هیں مختلف علوم ومکا شفات میں اور مختلف قدرت و تا ثیرات میں ان کی تصدیق کرنا۔ الخ (مجموع الفتاوى ج 3 ص 156)

شیخ الاسلام اور سماع موتی

سوال۰ کیا میت قبر میں کلام کرتاهے؟
جواب ۰ جی هاں میت قبر میں کلام کرتاهے ، اور جو اس سے با ت کرے تو سنتا بهی هے جیسا که صحیح حدیث میں هے، انهم یسمعون قرع نعالهم ، اور صحیح حدیث میں هے کہ میت سے قبر میں سوال کیا جاتا هے اور اس سے کها جاتا هے مَن ربُّک ؟ وما دینُک ؟ ومَن نبیُّکَ ؟ ۔۔ الخ (مجموع الفتاوى ج 4 ص 273)
کبهی میت کهڑا هوتا هے ، اور چلتا هے ، اور کلام بهی کرتا هے ،اور چیخ بهی مارتا هے ، اور کبهی مرده قبر سے با هر بهی دیکها جا تا هے۔۔ الخ (مجموع الفتاوى ج 5 ص 526)
شیخ الاسلام کے شا گرد ابن مُفلِحؒ فرماتے هیں کہ همارے شیخ یعنی ابن تیمیہ نے فرمایا کہ اس با رے میں بهت ساری احادیث آئ هیں کہ میت کے جو اهل وعیال و اصحاب دنیا میں هوتے هیں اُن کے احوال میت پر پیش هوتے هیں اور میت اس کو جانتا هے ،اور اس بارے میں بهی آثار آئ هیں کہ میت دیکهتا هے ، اور جو کچھ میت کے پاس هوتا هے اس کو وه جانتا هے ، اگر اچها کام هو تو اس پر میت خوش هوتا هے اور اگر برا کا م هو تو میت کو اذیت هو تی هے ۰ (كتا ب الفروع ج 2 ص 502)

موت کے بعد خواب میں شیخ الاسلام کا مشکل مسائل حل کر نا
ابن القیمؒ فرماتے هیں کہ مجهے ایک سے زیاده لوگوں نے بیان کیا جو کہ شیخ الاسلام کی طرف مائل بهی نهیں تهے ، انهوں نے شیخ الاسلام کو موت کے بعد خواب میں دیکها اور فرائض وغیره کے مشکل مسائل کے بارے میں سوال کیا تو شیخ الاسلام نے ان کو درست و صحیح جواب دیا ، اور یہ ایسا معاملہ هے کہ اِس کا انکار وُهی آدمی کرے گا جو کہ اَرواح کے احکام واعمال سے لوگوں سب سے بڑا جاهل هو ۰ (كتا ب الروح ص 69)
تنبیه: کتاب الروح ، ابن القیمؒ کی کتا ب هے۔ اس کتا ب میں ارواح واموات کے جو حالات وواقعات بیان هوئے هیں کسی اور کتاب میں اتنی تفصیل آپ کو نهیں ملے گی ، اور اس کتاب وه سب کچھ هے جس کی وجہ سے نام نہاد اهل حدیث اور سلفی دیگر علماءکو مشرک وبدعتی کهتے هیں ، اسی لیئے تو حید وسنت کے ان نام نهاد علمبرداروں نے جب اس کتاب کو دیکها تو اس کا انکار کر دیا اور کہا کہ یہ سلفیہ کے امام ابن القیمؒ کی کتاب نهیں هے بلکہ اُن کی طرف منسوب کی گئ هے ، حقائق کا انکارکرکے جاهل آدمی کو تو منوایا جا سکتا هے لیکن اهل علم کے نزدیک اس کی کوئ حیثیت نهیں ہے ، یہ کتاب درحقیقت ابن القیم رح هی کی هے۔
1 = جتنے بهی کبار علماء مثلا حافظ ابن حجر وغیره نے ابن القیم کا ترجمہ وسیرت ذکرکی هے سب نے ان کی تا لیفات میں ،کتاب الروح، کابهی ذکرکیاهے اور کسی نے بهی اس اعتراض نهیں کیا۔
2 = اورسب سے بڑھ کر یہ کہ خود ابن القیمؒ نے اپنی دیگر کتابوں میں ، کتاب الروح ، کا حوالہ دیا هے مثلا اپنی کتا ب ، جلاء الاَفهام ، باب نمبر 6 میں حضرت ابوهریرهؓ کی حدیث ، اذا خَرجت روحُ المومن۔۔ الخ،، پر کلام کرتے هوئے ابن القیمؒ نے کها کہ میں نے اِس حدیث اور اس جیسی دیگر احادیث پر تفصیلی کلام اپنی ، کتاب الروح، میں کیاهے ،اب اس کا کیا جواب هو گا؟
3 = حافظ ابن حجرؒ کے شاگرد علامہ بقاعیؒ نے بهی یہ شہادت دی کہ یہ ابن القیم کی کتاب هے اور انهوں نے اس کا خلاصہ بهی " سرُالروح" کے نام سے لکها
۰4 = ابن القیمؒ کتاب الروح میں جا بجا اپنے شیخ ابن تیمیہؒ اقوال وتحقیقات بهی ذکر کرتے هیں جیسا کہ اپنی دیگر کتابوں میں ان کی یهی عادت مالوفہ هے٠

ابن تیمیہؒ کا کشف اور لوح محفوظ پر اطلاع

ابن قیمؒ شیخ الاسلامؒ کی باطنی فراست کا تذکره کرتے هوئے فرماتے هیں کہ میں نے شیخ الاسلام کی فراست میں عجیب عجیب امور دیکهے اور جو میں نے مشا هده نهیں کیئے وه بهت بڑے هیں اور ان کی فراست کے واقعات کو جمع کرنے کیلئے ایک بڑا دفتر چا ئیے ،فرمایا کہ ابن تیمیہ رح نے ،،699 هجری ،، کے سال اپنے ساتهیوں کو خبر دی کہ ،ملک شام ، میں تاتاری داخل هوں گے اور مسلمانوں کے لشکرکو فتح ملے گی اور ، دِمَشق ، میں قتل عام اور قید وبند نهیں هو گا اور یہ خبر ابن تیمیہ رح نے تاتاریوں کی تحریک سے پهلے دی تهیپهر ابن تیمیہ رح نے لوگوں کو خبر دی ،،702 هجری ،، میں جب تاتا ریوں کی تحریک شروع هوئ اور انهوں نے ملکِ شام میں داخل هونے کا اراده کیا تو شیخ الاسلام نے فرمایا کہ تاتاریوں کو شکست و هزیمت هو گی اور مسلمانوں کو فتح ونصرت ملے گی اور شیخ الاسلام نے یہ بات قسم اٹها کر کهی ، کسی نے کها ان شاء الله بهی بولیں تو فرما یا ان شاء الله یقیناََ ۰ ابن القیمؒ فرماتے هیں کہ میں نے شیخ الاسلام سے سنا فرمایا کہ ، جب انهوں نے مجهہ پر بهت زیاده اصرار کیا تو میں نے کها کہ مجهہ پر زیاده اصرار نہ کرو الله تعالی نے ،،لوح محفوظ ،، پر لکهہ دیا هے کہ تاتاریوں کو اِس مرتبہ شکست هو گی اور فتح مسلمان لشکروں کی هو گی ، اور ایسا هی هوا۔۔۔ الخ۔۔ ابن القیمؒ فرماتے هیں کہ مجهے کئ مرتبہ ابن تیمیہ رح نے ایسے با طنی امور کی خبر دی جو میرے سا تهہ تهی میں نے صرف اراده کیا تها زبان سے نهیں بولا تها ، اور مجهے بعض ایسے بڑے واقعات کی بهی خبر دی جو مستقبل میں هونے والے تهے ، ان میں سے بعض تو میں نے دیکھ لیئے هیں باقی کا انتظار کر ها هوں ، اور جو کچهہ شیخ الا سلام کے بڑے اصحاب نے مشاهده کیا هے وه اُس سے دوگنا هے جو میں نے مشاهده کیا ۰۰(مدارج السا لكين ج 2 ص 490-489)

فائدہ

مدارج السالکین ، ابن القیمؒ کی کتاب هے اور یہ کتاب شرح هے کتا ب ، مَنازِلُ السا ئرین ،کی اور اس کتا ب کے مصنف کا نا م هے علامہ ابو اسماعیل عبدالله بن محمد الاَنصاری الهروی الحنبلی الصوفی اوران کی یہ کتاب علم تصوف اور مسائل تصوف پر مشتمل هے ،ابن القیمؒ نے اس کتا ب کی شرح ۳ جلدوں میں لکهی اور اس صوفی بزرگ کی بڑی تعریف کی اور اس صوفی عالم کو شیخ الاسلام کا لقب دیا اور جنت میں اُس کے ساتهہ جمع هو نے کی دعا کی اور اپنے آپ کو اس کا مُرید کہا۔۔ الخ۔ لهذا جو لوگ تصوف کو شرکت و بدعت اور صوفیہ کو مشرک کہتے هیں اُن کے اِن بکواسا ت سے ابن تیمیہؒ اور ابن القیمؒ کیسے محفوظ هوں گے؟ کیونکہ دونوں استاد شاگرد صوفی هیں اور شاگرد استاد سے بهی بڑا صوفی هے کما لا یخفی علی العلما ء

خواب میں الله تعالی کی زیا رت

شیخ الاسلام فرماتے هیں کہ جس نے خواب میں الله تعالی کو دیکها تو دیکهنے والا اپنی حالت کے مطا بق الله تعالی کو کسی صورت میں دیکهے گا ، اگر وه آدمی نیک هے تو الله تعالی کو اچهی صورت میں دیکهے گا ، اسی لیئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے الله تعالی کو خو بصورت اور بهترین صورت میں دیکها۰ (مجموع الفتا وى ج 5 ص 251)

شیخ الاسلام کا مخصوص وظیفہ مخصوص وقت میں

حافظ عمر بن علی اَلبَزّار شیخ الاسلام کے شاگرد هیں وه فرماتے هیں کہ میں نے شیخ الاسلام کی یہ عادت دیکهی کہ ، نماز فجر کے بعد بغیر ضرورت کوئ ان سے بات نهیں کرتا ذکر میں مشغول رهتے بعض دفعہ ان کے ساتهہ بیٹها هوا آدمی بهی اُن کا ذکر سنتا ، اور اس دوران کثرت سے آسمان کی طرف نظر پهیرتے تهے ، طلوع شمس تک ان کا یهی طریقہ هوتا تها ۰ اور میں جب ، دِمَشق ، میں مقیم تها تو دن و رات کا اکثر حصہ شیخ الاسلام کے ساتهہ گذرتا ، مجهے اپنے قریب بٹها تے تو اس وقت میں ان کا ذکر وتلاوت سنتا ، میں نے دیکها کہ وه تکرار کے ساتهہ سورت فاتحہ پڑهتے تهے اِس سارے وقت میں یعنی نمازفجر کے بعد سے لے کر طلوع شمس تک ۰ تومیں نے اس بات میں غور کیا کہ شیخ الاسلام نے صرف اسی سورت کا وظیفہ کیوں لازم پکڑاهے ؟ تو میرے اوپر ظاهر هوا والله اعلم کہ شیخ الاسلام کا اراده یہ تها اس کی تلاوت سے ان تمام فضائل کو جمع کرلے جو احادیث میں وارد هوئ هیں ، اوروه جو علماء نے ذکر کیاهے کہ ،کیا اس وقت میں مسنون اذکار کو تلاوت قرآن پر مقدم کرنا مستحب هے یا تلاوت کو اذکار پر ؟ تو شیخ الاسلام نے سورت فاتحہ کی تکرار کو اس وقت میں وظیفہ مقر ر کیا تاکہ دونوں اقوال کو جمع کرلیں اوریہ شیخ الاسلام کی کمال ذهانت اور پختہ بصیرت تهی ۰۰ (ألأعلام العليه فى مناقب ابن تيمية ج 1 ص 38)
یقینا شیخ الاسلام نے اس خاص وقت میں اپنے لیئے جو خاص وظیفہ مقر ر کیا تها وه اس طریقہ پر کسی حدیث سے ثا بت نهیں ، لهذا وه لوگ جو صوفیہ کرام کے اورد ووظائف کو بدعت و منکر کهتے هیں، شیخ الاسلام کے اس وظیفہ کو کیا کهیں گے؟؟

شیخ الاسلام کی کشف و کرامات

حافظ البزّارؒ اپنی اسی کتاب میں شیخ الاسلام کی کشف وکرامات کابهی ذکرکرتے هیں ، فرمایا بعض وه کرامات جن کا میں نے مشاهده کیا ، ان میں سے ایک یه هے که ، بعض علماء کے ساتهہ چند مسائل میں میرا اختلاف هو گیا اور اُن مسائل میں بحث و مباحثہ طویل هو گیا ، تو هم نے فیصلہ کیا کہ شیخ الاسلام کے پاس جاتے هیں جس قول کو وه ترجیح دے دیں اسی پر فیصلہ کرتے هیں ، اتنے میں شیخ الاسلام حاضر هوئے تو هم نے شیخ الاسلام سے سوال کرنے کا اراده کر لیا ، لیکن شیخ الاسلام همارے بولنے سے پهلے هی هم پر سبقت کر گئے ، اور اکثر وه مسائل جن میں همارا بحث و مبا حثہ هوا تها ، شیخ الاسلام نے ایک ایک مسئلہ ذکر کرنا شروع کر دیا ، ساتهہ هی علماء کے اقوال بهی ذکر کرتے پهر هر مسئلہ کو دلیل کے ساتهہ تر جیح دیتے ، یهاں تک کہ آخری مسئلہ ذکر کیا جس میں همارا اختلاف هوا تها ،اور هم نے جو شیخ الاسلام سے سوال پوچهنے کا اراده کیا تها وه بهی بیان کیا ، لهذ ا میں اور میرا ساتهی اور جو لوگ همارے ساتهہ حاضر تهے سب حیران ره گئے ، کہ کیسے شیخ الاسلام کو کشف هو گیا اور همارے دلوں میں جو کچهہ تها الله تعا لی نے اُن پر ظا هر کر دیا ۰۰ ؟؟؟؟ مزید کرامات کی تفصیل کے لیئے دیکهئے: (ألأعلام العلية ج1 ص 56)

شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ صوفیہ کے قبرستان میں مدفون هیں

علامہ ابن عبد الهادی اَلمَقدَسی اپنی کتا ب میں شیخ الاسلام کی وفا ت کا تذکره کرتے هوئے فرماتے هیں کہ ، لوگوں نے تبرک حاصل کرنے کیلئے شیخ الاسلام کے نعش پر اپنے رومال اور پگڑیاں ڈال دی تهیں۔ اور جنازه شیخ الاسلام کے بهائ زین الدین عبد الرحمن نے پڑهایا ، اور شیخ الاسلام کو ،مَقبره صوفیہ ، میں اپنے بهائ شرف الدین عبد الله کے پہلو میں دفن کیا گیا۔
(العقودالدُرّیہ فی سیرت ابن تیمیہ ج 1 ص 486)

گزارشات

تصوف اور اس سے متعلق چند اقوال میں نے شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ اور ابن القیمؒ کی کتابوں سے مختصر طور پر با حوالہ ذکر کیئے هیں ، تا کہ وه لوگ جو ان دونوں بزرگوں کواپنا راہنما تسلیم کرتے هیں اور ان کی تعلیمات سے جاهل هیں ،ان کو نصیحت هو جائے اور اولیاء وصوفیہ کرام کو بُرا کہنے سے باز آ جائیں ، اور چند جاهل اور جهوٹے لوگوں کی پیروی میں اپنی آخر ت برباد نہ کریں ۰ اور اگر یہ لوگ اپنی اس غلط روش سے با ز نهیں آتے ، تو هماری درخواست هے کہ ، فضائل اعمال ، وغیره کتابوں کا اپریشن کے نا م سے چند جاهل لوگوں نے جو کتابیں لکهی هیں تو وه لو گ ایک کتا ب شیخ الاسلام کی ، مجموع الفتا وی ، اور ابن قیم کی کتاب ، مدارج السالکین ، کا اپریشن کے نا م سے ضرور لکهنے کی زحمت کریں ، کیونکہ جن امور کی وجہ سے ، فضائل اعمال ، وغیره کتابوں کا اپریشن کیا گیا هے وه سب کچھ بلکہ اس سے بهی بهت زیاده شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور ابن القیم کی کتا بوں میں موجود هے۔ موضوع تو بہت طویل هے لیکن میں ،، وَلَديْنَا مَزِيْدْ ،، کہہ کراسی پر اکتفا کرتا هوں اور یہ بات ذہن میں رهے کہ همارے نزدیک ان مذکوره باتوں پر کوئی اشکال واعتراض نهیں هے ، بلکہ یہ ساری تفصیل ان لوگوں کی اصلاح و نصیحت وعبرت کیلیئے هے جو ان سب باتوں کو شرک وبدعت کہتے هیں۔ کیا مذکوره با تیں پڑهنے کے بعد شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور شیخ الاسلام ابن القیم کے متعلق بهی شرک وبدعت کا حکم صا در کریں گے؟؟ یا اپنی برُی اور مذموم روِش سے توبہ کریں گے؟؟
وصلی اللہ علی النبی الامی وعلی آلہ وصحبہ اجمعین