بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ کوئی ذی احساس مسلمان پہلی مرتبہ روضہء رسول ﷺ پہ حاضری دے اور ضبط کے بندھن نہ ٹوٹیں.. رفتہ رفتہ یہ بندھن مضبوط ہوتے ہیں اور چار پانچ حاضریوں پہ اشکوں کو ٹٹولنا پڑتا ہے کہ نجانے کہاں گم ہو گئے.. حالیہ رمضان مبارک میں ایک بھائی سے مسجدِ نبوی کی چھت پہ ایک عمدہ ملاقات رہی.. ان کو بھی یہی مسئلہ درپیش تھا کہ پاکستان سے مدینہ منورہ کے سفر سے پہلے حالت یہ ہوتی ہے کہ گویا زیارت کرتے ہی رو رو کر ہماری جان نکل جائیگی.. مگر کچھ دو دن بعد یوں ہوتا ہے کہ جالئ اقدس پہ پہنچ کے بےسدھ بے اشک کھڑے کے کھڑے رہ جاتے ہیں.. میں نے عرض کی کہ یہ وصال کی گھڑیوں کی وہ روحانی چاشنی ہے جسے پاکر بندہ ہجر کے دکھ بھول جاتا ہے.. جیسے ممتا کی گود میں آتے ہی بچے کو قرار آ جائے.. جیسے باپ کا سایہء شفقت ملتے ہی بیٹے کو طمانیت کا ادراک ہو.. جیسے کسی بہت زیادہ چاہنے والے کی محفل میں پہنچ کر انسان کو سکونِ دل میسر آئے.. پھر واپس اپنے گھر پہنچ کر ہجر کے آلاؤ تیز ہو پڑتے ہیں اور پھر وہی دوری ڈسنے لگتی ہے جسکا احساس تب ہوتا ہے جب روضہ اطہر کی کوئی شبیہ سامنے آ جائے یا نعت کے چند بول کانوں کو سنائی دیں.. غرض ان بےربط فقروں کے ذریعے میں آپکو بتا نہیں پا رہا کہ جذبات کو الفاظ سے کیسے ڈھانپا جائے.. کہنا یہ چاہتا ہوں کہ کیفیت بنے نہ بنے،، درِ حبیب ﷺ کی حاضری کی سعادت کو معمولی نہ سمجھا جائے.. ان لمحات کی حقیقی پہچان اور قدر برزخ میں معلوم ہو گی.. دنیا میں ہرشخص کی کیفیت اسکے مزاج و فطرت کے اعتبار سے مختلف ہوتی ہے.. کچھ ایسے بھی ہیں جو وصال کی خوشی بھی برداشت نہیں کرپاتے اور سینہ چاک کر بیٹھتے ہیں..!
آمدم برسرِ قصہ،،
آج بعد مغرب، سلام پیش کرتے ہوئے معاً یہی خیال کوندا کہ یقیناَ دل بنجر ہو چکا ہے.. ہلکی سی نمی بھی ہوتی تو ضرور کچھ آثار اُمڈ آتے.. بوجھل قدموں سے باہر نکل آیا.. جوتی اٹھانے کیلئے شوز ریک کی سمت بڑھا تو ایک خوش پوش پاکستانی نوجوان پہ نگاہ پڑی.. کالی گھنی داڑھی اور سفید اُجلے لباس میں ملبوس بہت پیارا لگ رہا تھا.. مگر یا اللہ یہ کیا؟؟ میں ٹھٹھک گیا.. وہ سفید لاٹھی کے سہارے کچھ ٹٹول رہا تھا گویا رستہ ڈھونڈتا ہو.. اسکی آنکھوں کے نگینوں کو میں نے دیکھا تو ان میں روشنی نہ تھی..
"یا میرے مالک" ،، میری دھاڑ نکل گئی.. بینائی والوں کا حال تو یہ ہے،، اور نظر سے معذور یہ شخص کس چاہت سے اپنے ملک سے یہاں اپنے نبی کا روضہ دیکھنے آیا ہے.. کس الفت اور مان سے یہاں فِراق کا اَلم مٹانے پہنچا ہے.. ضرور یہ آنکھ والوں کی قسمت پہ رشک کرتا ہوگا اور تنہائی میں اپنے رب کے حضور آہیں بہاتا ہو گا کہ میرے مولا! کاش مجھے بینا کیا ہوتا.. اور کچھ نہیں بس زندگی میں صرف ایک بار آنکھ بھر کے کالی کملی والے کا سبز گنبد دیکھ پاتا..!
ہائے یہ احساس کی سنگین سولی،، ظالم چین سے جھولنے ہی نہیں دے رہی تھی.. جان تھی کہ مرغِ بسمل ہوئی،، آنسو تھے کہ گھنٹہ بھر جاری رہے..!!
(تحریر: محمد نعمان بخاری)
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔