کشف الہام اور القاء وغیرہ کی حیثیت ۔۔۔ فقہ وتصوف میں
چھٹی حس/تیسری آنکھ/بجلی کا کوندا،، خیالات کی ایسی کیفیات ہیں جن سے شاید ہر فرد کو کبھی نہ کبھی سابقہ پڑتا ہے۔ یہ کیفیت در اصل استخارہ کا جواب ہوتی ہے اور استخارہ (یعنی اللہ سے کسی الجھن میں مشاورت) کا کوئی متعین پروٹوکول نہیں ہے۔ جب بھی آپ کا دل کسی الجھن میں راہ پانے کے لئے رسمی یا غیر رسمی طور پر اسے پکار رہا ہو تو وہ جواب دیتا ہے۔ اجیب دعوہ الداع اذا دعان۔ اصطلاحِ تصوف میں یہی کشف الہام القاء وغیرہ کی اصطلاحات سے موسوم ھے۔ یہ سعادت ہر کسی کو حاصل ہوجاتی ھے لیکن اس کا تعلق بالعموم فرد اور انفرادی معاملات سے ہوتا ھے۔ اس سے حاصل ہونے والاعلم نہ قطعی ہے اور نہ حجت۔ اس سے رہنمائی حاصل کرنے کے لئے اسے کتاب وسنت پر پیش کرنا ضروری ہے۔ اور میرے اس بیان کی اساس تمام اولیاء وصوفیاء فقہاء و مجتہدین کا اجماع ہے ۔
البتہ تاریخی واقعات کے مطالعے سے ایک تلخ حقیقت سامنے آتی ھے کہ جب کبھی کسی رہنما نے قومی مسائل میں شرعی معیار ترک کر کے اپنے کشف والہام پر فیصلہ کیا اس کے مطلوبہ نتائج بر آمد نہیں ہوئے۔ واقعات معروف ہیں۔
(ڈاکٹر طفیل ہاشمی)
0 Comments:
Post a Comment
Subscribe to Post Comments [Atom]
<< Home